يورپ جانے والوں كا ڈوب جانا

مصنف : سید مہدی بخاری

سلسلہ : پاکستانیات

شمارہ : جولائی 2023

پاكستانيات

يورپ جانے والوں كا ڈوب جانا

مہدي بخاري

یورپ جانے کی چاہ میں سینکڑوں پاکستانی کشتی ڈوبنے سے جان سے گئے۔ یہ سانحہ کوئی پہلی بار نہیں ہُوا۔ دہائیوں سے انسانی اسمگلرز یہاں اسی کام میں مشغول ہیں۔ دیہاتوں ، قصبوں اور شہروں میں بسے لوگ کسی طرح بھی پاکستان سے نکلنا چاہتے ہیں۔ یہ اپنی زمین، اثاثہ بیچ کر ان انسانی اسمگلروں کو دیتے ہیں۔ اکثریت قرض اُٹھا کر دیتی ہے۔ میں بہت سے پاکستانیوں سے بیرون ملک مل چکا ہوں جو اسی طرح پہنچ تو گئے ہیں مگر سٹیٹس لیگل ناں ہونے کے سبب وہاں بھی کیش پر کام کرنے پر مجبور ہیں اور ان کو اپنی مزدوری کا فی گھنٹہ کا ریٹ بھی سب سے کم ملتا ہے۔افریقا تا یورپ ، آسٹریلیا تا جزائر ملائیشیا تک یہ تارکین وطن پھیلے ہوئے ہیں۔ سوچنا یہ ہے کہ آخر اپنی جان کا خطرہ مول لے کر یہاں سے لوگ کیوں بھاگنا چاہتے ہیں ؟ کیا ریاست پاکستان نے کبھی اس پر غور کیا ہے ؟ ایک مکمل ادارہ اوورسیز پاکستان فاؤنڈیشن کے نام سے موجود ہے کیا اس نے کبھی سفارشات مرتب کیں ہیں ؟ کیا ایف آئی اے سمیت دیگر ادارے انسانی اسمگلروں کو پکڑتے ہیں ؟ یہ سب کام ملی بھگت سے ہوتا ہے۔ یہاں ریاست تا ریاستی ادارے کرپٹ ہیں۔ اس ملک میں آخر ایسا کیا ہے جو یہاں بسنے والوں کو جان کا رسک لینے پر مجبور کرتا ہے ؟ بیروزگاری، غربت، کم تنخواہ، اور چھینا جھپٹی سمیت امن و امان و ریاستی عدم تحفظ کا احساس یہاں کے باشندوں کو ہر صورت ملک چھوڑنے پر مجبور کرتا ہے۔ پڑھا لکھا طبقہ تو تھرو پراپر چینل ملک چھوڑ جاتا ہے۔ ایمبیسیوں کے باہر وائٹ کالر طبقے کی لمبی قطاریں لگا کرتیں تھیں اللہ بھلا کرے ایمبیسیوں نے بھی تنگ آ کر جیریز اور اس طرح کی سروسز دینے والوں کے ذمے ڈاکومنٹیشن لگا دی تو اب یہ قطاریں ان دفاتر کے باہر لگتی ہیں۔

یوں تو سوشل میڈیا پر ہر تیسرا بندہ آپ کو کہتا ملے گا “ اپنے ملک کی قدر کرنا سیکھیں”۔ “ پاکستان سے پیارا کوئی ملک نہیں”۔ وغیرہ وغیرہ اور یہی لوگ موقع ملتے ہی یہاں سے فرار ہونا چاہتے ہیں۔ مجھے کئیں بار مشورے دیتے ہیں۔ غیروں کی بات کیا کرنی اپنے حلقہ احباب کے لوگ کہتے ہیں کہ شاہ جی واپس ناں آنا وہیں سیٹ ہو جاؤ۔ اگر یوں “سیٹ” ہونا ہوتا تو کب کا کہیں ہو گیا ہوتا۔ عزت نفس پر مقدم کچھ نہیں ہوا کرتا۔ ہمارا یہ غیر قانونی طور پر ہجرت کرتا کشتیوں میں ڈوبتا طبقہ عزت نفس پر کمپرومائز کر لیتا ہے۔ المیہ تو یہ ہے کہ کل جتنے جان سے گئے آج اُن سے زیادہ ویسے ہی جانے کو تیار ہیں۔

اس ملک کے بھیانک مسائل میں تعلیم سے دوری، تیزی سے بڑھتی ناقابل کنٹرول آبادی، بیروزگاری اور وسائل کی کمی ہیں۔ تیزی سے بڑھتی آبادی تو ٹائم بمب ہے جو ہر لمحہ ٹک ٹک کر رہا ہے۔ وسائل ہمارے پاس نہیں مگر آبادی پر کنٹرول پانے کی کوئی منصوبہ بندی بھی نہیں۔ یہ ایسی قوم ہے جو “ ہر بچہ اپنا رزق ساتھ لے کر آتا ہے” کے ون لائنر پر دن رات عمل پیرا ہے۔ پھر کیا ہوتا ہے بچوں کا ؟ ناں تعلیم دلوا سکتے ہیں، ناں نوکری۔ جہالت کا کوہ ہمالیہ کھڑا ہوتا جاتا ہے۔ پاکستان کچھ بھی ایسا مینوفیکچر نہیں کرتا جس میں یہ ماہر ہوں اور باقی دینا کو اس کی ضرورت ہو۔ جو دنیا کو ایکسپورٹ کر سکے۔ پاکستان امپورٹ بیس ملک ہے۔ ہونا تو یہ چاہئیے کہ پاکستان لیبر ایکسپورٹ کرے۔ دنیا کو لیبر کی ضرورت ہے اور ہمارے پاس unskilled لیبر ہے۔ ان کو ٹیوٹا جیسے اداروں سے سکلز سکھا کر بھیجا جائے۔ بیرونی دنیا سے معاہدے ہوں۔ مگر ہائے ہماری ریپوٹیشن ۔ اس ماتھے کے کلنک کا کیا کریں جو بطور پاکستانی پیدا ہوتے ہی ہمارا مقدر بن چکا ہے ؟ ۔ دنیا افریقا، بھارت، نیپال، فلپائن اور ان جیسے ممالک سے تو لیبر منگوا لیتی ہے مگر دہائیوں سے ضیا الحقی سوچ والے دائرے میں گھول گھول گھومتی ریاست پاکستان سے نہیں منگوانا چاہتی۔ جہاں صحت، تعلیم اور امن و امان پر ریاست گن کر ماہانہ دس روپے فی فرد بجٹ متعین کرتی ہو اس ریاست میں کون جینا مرنا چاہے گا ؟نتیجتہً ایک جانب تو پڑھا لکھا باہنر طبقے کا “برین ڈرین” ہے اور دوسری جانب مزدور طبقے کا “ڈرین” ہے۔ جو کسی بھی صورت ملک سے باہر جانے سے قاصر ہے وہ یہاں لٹھ اُٹھائے رہ جاتا ہے۔ مذہبی جنونیت کی لٹھ، سیاسی جنونیت کی لٹھ، کاروباری لٹھ۔ بڑا کاروباری چھوٹے کو نِگل جاتا ہے۔ چھوٹا دکاندار ٹوکا اُٹھائے پبلک کو کاٹتا ہے۔ ریڑھی بان تا مزدور ، جس کا جہاں داؤ لگے کثر نہیں چھوڑتا۔ ایک مسلسل لوٹ مار کا دائرہ ہے جو چلتا رہتا ہے اور عوام پستی بھی ہے، روتی بھی ہے اور اپنے سے کم تر کو نچوڑتی بھی ہے۔پنجاب میں پرانے لوگ آج بھی یہ محاور بولتے ہیں "کھادا پیتا واہے دا، باقی احمد شاہے دا "۔۔یعنی جو کھا پی سکتے ہو وہی تمہارا ہے جو بچ گیا وہ احمد شاہ (ابدالی) لوٹ کر لے جائے گا۔اس ایک مثال سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ ہمارے احساس عدم تحفظ کے تاریخی برگد کی جڑیں اس جغرافئیے میں کہاں تک پھیلی ہوئی ہیں۔اور ہمارا دماغ سوائے اس کے کچھ اور کیوں نہیں ہو سکتا کہ جو ہاتھ لگتا ہے لے اڑو، کل کس نے دیکھی ہے۔