بلوچستان كا مسئلہ ايك اور رخ

مصنف : ڈاکٹر عاصم اللہ بخش

سلسلہ : پاکستانیات

شمارہ : جولائی 2023

پاكستانيات

بلوچستان کا مسئلہ ۔۔۔۔۔۔ ایک اور رُخ:

عاصم اللہ بخش

بلوچستان رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ وہاں پر جاری بدامنی سے ہم سب واقف ہیں اور اس حوالہ سے بہت سی خبریں پڑھنے اور سننے کو ملتی ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا، بالخصوص سوشل میڈیا نےاس مسئلہ پر آگاہی کے حوالہ سے بہت سا کام کیا ہے۔ البتہ اب بھی گاہے یہ محسوس ہوتا ہے کہ بحیثیت قوم ہمیں بلوچستان کے معاملات اور وہاں درپیش اصل چیلنج کا ادراک نہیں۔ ہم اب بھی اسے سرداروں کا بلیک میلنگ ہتھکنڈہ سمجھ رہے ہیں اور اسی "تشخیص" کی بنیادپر علاج بھی تلاش کر رہے ہیں۔ ناراض بلوچ کی اصطلاح میں بھی زیادہ تر ایسے سرداروں یا انکے گروہوں کو مراد لیا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تشخیص درست نہ ہو تو مجوزہ علاج شفا کے بجائے مرض میں جان لیوا اضافے کا باعث بن سکتا ہے۔

بلوچستان کو درست طور سمجھنے کے لیے سب سے پہلے ہمیں یہ باور کرنا ہو گا کہ وہاں پر نوجوان، مڈل کلاس اور پڑھے لکھے لوگوں کا ایک بہت مضبوط حلقہ ایسا ہے جو بلوچستان کی پاکستان سے علیحدگی پر آمادہ ہے۔ یہ ایک تشویشناک پہلو ہے کیونکہ یہ وہ نسل ہے جسکی پیدائش بھی پاکستان میں ہوئی اور تعلیم بھی۔ حد تو یہ ہے کہ پاکستان کے خلاف نعرے بھی یہ اردو میں ہی لگاتے ہیں اور میڈیا انٹرویو بھی اسی زبان میں دیتے ہیں۔ یہ بات قابل غور ہے کہ کیا وجہ ہے کہ یہ پاکستان کے حوالے سے اس قدر شدید رد عمل کا شکار ہیں۔ بادی النظر میں اسکی سب سے بڑی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ محض آبادی کے تناسب سے وسائل کی تقسیم کا فارمولا بلوچستان کی کفایت نہیں کرتا۔ فیڈرل پول میں ٪5،90 ملازمتیں اور 342 کے قومی اسمبلی کے ایوان میں 18 سیٹیں اور 50 ارب کا ترقیاتی فنڈ کافی نہیں۔

بلوچستان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ رقبہ کے لحاظ سے پاکستان کا ٪44 اور آبادی کے لحاظ سے 40۔5 فی صد ہے ۔ یہ ایک بہت بڑا آئینی اور انتظامی چیلنج ہے اور قومی سطح کی آوٹ آف دا باکس حل کی صلاحیت کا عظیم امتحان۔ اس سے گزرے بغیر آگے بڑھنا بہت دشوار ہے۔ اس Duality کی وجہ سے بہت سے عملی مسائل پیدا ہو جاتے ہیں جو بعد میں "احساس محرومی" کے عمیق سمندر میں جمع ہونے لگتے ہیں۔ مثلاً : پاکستان کے ٪56 کے لیے تو 324 ایم این ایز کے ترقیاتی فنڈ ہیں جبکہ ٪44 کے لیے صرف 18 ایم این ایز کے۔ نیز پاکستان کے پالیسی ساز اور پالیسی پر عمل درآمد کرنے والے اداروں میں بہت ہی کم نمائیندگی۔ اتنی کہ ان کی آواز یا منشاء دوسروں کے مقابل گم ہو کر رہ جائے۔ اس صورتحال کا فائدہ پاکستان دشمن قوتیں وہ کام اور پراپیگنڈہ کر کے اٹھا رہی ہیں جیسا کہ پہلی جنگ عظیم سے پہلے اور دوران عرب خطہ میں ترکی کے متعلق ہؤا۔ کہ آپ کے باس زمین بھی ہے اور معدنی وسائل بھی، ساحل سمندر بھی آپ کے پاس ہے۔ آپ تو خود ایک عظیم اور امیر آزاد ریاست بن سکتے ہیں، آپ کیوں اس جنجال میں پھنسے ہوئے ہیں جس کا نام پاکستان ہے۔ یہ تو سب آپ کے وسائل پر قابض ہیں، علی ھذا القیاس۔ سلام ہے بلوچستان کے عوام کو کہ اسکے باوجود بھی پاکستان کا نام لیتے ہیں اور اصولی طور اس سے اختلاف نہیں رکھتے۔ تاہم اب یہ باقی صوبوں، ان کی قیادت اور انٹیلیجنشیاء کے ذمہ ہے کہ وہ کوئی ایسا فارمولہ تیار کریں جس میں بلوچستان کو آبادی کے علاوہ رقبہ کا مارجن بھی دیں۔ قومی اسمبلی میں اسکی سیٹیں بڑھائی جائیں اور کم از کم 50 تک لے جائی جائیں تاکہ آئیندہ سیاسی جماعتوں کو انتخابی نقشہ پر بلوچستان بھی ایسی جگہ نظر آئے جہاں پر انہیں انتخابی کامیابی اہم محسوس ہو اور وہ اس کے لیے محنت کریں۔ مزید یہ کہ بلوچستان میں ہر سطح پر الیکشن کا انعقاد بالکل شفاف اور منصفانہ ہو تاکہ حقیقی قیادت سامنے آئے جو اپنے صوبے کو آگے لے کر جانے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبوں کے وسائل پر مقامی حق کی فوقیت کی جو بات کی گئی ہے وہ بھی ایک نمائندہ قیادت ہی درست طور مینج کر سکتی ہے۔فیڈرل پول میں بھی بلوچستان کو کم از کم دس سال کے لیے ڈبل کوٹہ دیا جائے اور اس بات کا اہتمام ہو کہ دوسرے صوبوں کے لوگ یہاں کے جعلی ڈومیسائل نہ بنوا سکیں۔ جب کوئی بلوچ نوجوان کراچی، لاہور، پشاور، راولپنڈی کا ڈی سی یا ڈی پی او لگے گا تو پاکستان سے اس کا ناطہ ایک بالکل مختلف نوعیت کا ہوگا۔ قومی معاملات میں شمولیت کا احساس خود اعتمادی کی ایک الگ ہی سطح بخشتا ہے۔ الغرض، ہر ممکن طریقے سے "پاکستان" میں بلوچستان کا "حصہ" بہتر کیا جائے۔ ان کا احساس شراکت با مقصد اور ٹھوس ہو گا تو پھر معاملات میں بھی حقیقی بہتری کی امید کی جاسکتی ہے۔

جہاں ہم نے اپنے باقی تمام دکھوں کا مداوا چین پاکستان اقتصادی راہداری سے وابستہ کر لیا ہے وہاں بلوچستان کے حوالے سے بھی بہت کام ہو سکتا ہے لیکن یاد رہے، مستقل سیاسی اور آئینی اقدامات کے بغیر کوئی بھی کوشش وقتی آرام تو دے سکتی ہے، مستقل شفا نہیں۔