ميں نے بچوں سے كيا سيكھا

مصنف : محمد صدیق بخاری

سلسلہ : آواز دوست

شمارہ : جولائی 2023

آواز دوست

میں نے بچوں سے کیا سیکھا

محمد صديق بخاری

زندگی کے جبر مسلسل نے جب مجھے ایک سکول کے تدریسی شعبے میں دھکیل دیا تو میرے سامنے دو راستے تھے، ایک تو یہ  کہ میں اپنے حالات پہ کڑھتا او رجلتا رہوں اور جیسا کہ میرے ایک استاد نے کہا تھاکہ یہ ایک تھینک لیس جاب ہے اور واقعتاً یہ ہے بھی ،تو میں بھی اسی "تھینک لیس نیس" کا رونا روتا رہوں اور یا پھر دوسرا راستہ یہ تھا کہ میں اسے اپنی تربیت اور اصلاح کا ذریعہ بنالوں۔بہت کچھ سوچنے کے بعد میں نے یہ دوسرا راستہ اختیار کیا۔میں نے شعوری فیصلہ کیا کہ مجھے بچوں سے سیکھنا ہے اور اس وقت کو اپنی تہذیب و تربیت کا ذریعہ بنانا ہے۔چنانچہ اسی فیصلے کا نتیجہ ہے کہ آج سترہ برس بعد میں بڑے اطمينان سے کہہ سکتا ہوں کہ یقینا ًمیں نے چھوٹے چھوٹے بچوں سے وہ کچھ سیکھا ہے جو شاید میں بڑے بڑوں سے بھی نہ سیکھ پاتا۔جی چاہتا ہے کہ آج  یہ تجربات آپ سے بھی شیئر کروں ہو سکتا ہے کہ جیسے مجھے فائدہ ہو اہے اور  بہت سی نفسانی اور نفسیاتی بیماریوں کا علاج ملا ہے، شاید آپ  کو بھی مل جائے۔

1-تجسس اور سوال كرنا

بچوں ميں تجسس اور نئی چيز كو جاننے اور پركھنے كی بہت خوبصورت عادت ہو تي ہے – وہ سوال كرتے ہيں ، بار بار كرتے ہيں اور اس  وقت تك كرتے رہتے ہيں جب تك كہ ان كی بات كا جواب نہ مل جائے – بچہ جتنا چھوٹا ہو گا اس كا تجسس اتنا ہي زيادہ ہو گا- curiosity كی يہ نعمت وقت كے ساتھ ساتھ ان ميں يا تو كم ہو جاتي ہے (يہ بھي ايك موضوع تحقيق ہے كہ كيا واقعي يہ صلاحيت كم ہو جاتي ہے )يا دب كر رہ جاتي ہے  اور اس صلاحيت كو دبانے  ميں  والدين ، اساتذہ ، دوست ، ماحول ، معاشرہ اورتعليمی نظام سب ہی، حسب توفيق اپنا حصہ ڈالتے ہيں-اگر ہم كسي طريقے سے بچوں ميں اس جذبے كو جوان ركھ سكيں يا خود ميں اس كو پروان چڑھا سكيں تو معاشرے ميں تحقيق كا ذوق  بہت حد تك آگے بڑھايا جاسكتاہے-اورجو معاشرہ جتنا research friendly ہو گا ( جو كہ ہمارا بالكل بھی نہيں )اتنا ہی وہ ترقی كی سيڑھياں تيزی سے طے كرے گااو ر اس كی يہ ترقی ہو گی بھی ديرپا-

2-سچ بولنا

بچہ جتنا چھوٹا ہو گا اتنا ہي سچا ہو گا – اس كا مطلب يہ ہے كہ سچ ہماري فطرت كا حصہ ہے جسے ہمارا ماحول ، تعليم اور معاشر ہ بگاڑ كے ركھ ديتا ہے -ميں نے دس سے چودہ سال كے بچوں كو نوٹ كيا كہ عام طور پہ سچ بولتے ہيں سوائے ان بچوں كے كہ جنہوں نے گھر سے جھوٹ بولنا سيكھ ليا ہو-

3-بھول جانے كی عادت

بچے اپنے ساتھ بيتے ناخوشگوار لمحات كو جلد ہی بھول جاتے ہيں جس كی وجہ سے وہ عموماً خوش رہتے ہيں- ناپسنديدہ باتيں اور تلخ تجربات زندگی كا حصہ ہيں- واقعات و حالات سے سبق لينا تو اچھی بات ہے  ليكن اگر ہم ان لمحات كو اپني زنبيل ميں سنبھال كے ركھ ليں تو  يہ ہمارے بوجھ ميں اضافے كے علاوہ اور كچھ نہيں كر سكتے – بچے جلد ہی اس بوجھ سے جان چھڑ ا كے ہلكے پھلكے ہو جاتے ہيں- اس لئے تلخ لمحات كو بھول جانے كی عادت بھی بچوں سے سيكھنے كی ضرورت ہے  تا كہ ہم خواہ مخوا ہ كی ٹينشن اور ڈيريشن سے بچ سكيں-

4-جلد ناراض ہونا اور جلد مان جانا

بچے جلد ناراض ہوتے ہيں ليكن جلد ہی مان بھی جاتے ہيں – تھوڑي ہي دير ميں يوں محسوس ہوتا ہے كہ جيسے كچھ دير پہلےكچھ ہو ا ہي نہ تھا- يعني غصہ تو كرتے ہيں ليكن جلد ہي  نارمل بھي ہو جاتے ہيں جبكہ بڑے غصے كو بہت دير سنبھال ركھتے ہيں اور اس  آگ ميں خود بھي جلتے ہيں اور دوسروں كو بھی جلاتے ہيں- كسی كا قول ہے كہ غصہ آنا فطري بات ہے ،جس كو غصہ نہيں آتا وہ گدھا ہے ليكن جس كا غصہ آ كے جاتا نہيں وہ شيطان ہے – اور يہ بات بھي ميں نے بچوں سے سيكھی كہ كبھی اس طر ح كا شيطان نہيں بننا چاہيے

5-ڈانٹ ڈپٹ پہ  ناراض نہ ہونا

بچے استاد كی ڈانٹ پہ ناراض  نہيں ہوتے اور جو ہوتے ہيں وہ نہ كچھ سيكھ سكتے ہيں اور نہ ہي علم حاصل كر پاتے ہيں-اس ليے جو چاہتا ہے كہ وہ علم حاصل كر ے يا زندگي ميں ترقي كرے  وہ نہ تو استاد كي ڈانٹ پہ ناراض ہو اورنہ ہي والدين كي –جو بچے مار كھا كے بھی دور نہيں بھاگتے بلكہ الٹا والدين يا اساتذہ كی ٹانگوں سے لپٹ جاتے ہيں وہ اپنے مقد ر بنا ليتے ہيں-اور جو اساتذہ يا والدين سے روٹھ جاتے ہيں ان كے مقدر بھی ان سے روٹھ جاتے ہيں-

6-دوست بنانا

ميں نے ايك بات خاص طور پر نوٹ كی كہ جب بھی كلاس ميں كوئی نيا بچہ آتا اسے كلاس ميں adjustہونے ميں ايك دو دن سے زيادہ نہ لگتے – دو چار دن ميں ہی يوں لگتا كہ جيسے وہ بچہ ہميشہ سے اسی كلاس كا حصہ ہو- سب اس كے دوست بن جاتے اور وہ سب كا دوست -ليكن جن بچوں كو دوست بنانے اور كلاس كے ماحول ميں adjustہونے ميں اس سے زيادہ وقت لگا وہ "وكھری " ٹائپ كے بچے ثابت ہوئے – اس ليے نارمل انسان كے ليے بچوں كی زندگی ميں ايك سبق يہ بھی ہے كہ  جب بھی وہ كسی نئی جگہ جائے جلد ہي خود كو نئے ماحول ميں ڈھال لے -جتنا جلد وہ يہ كام كر لے گا اتنا ہي اس كے ليے اچھا ہو گا اور جتني دير وہ لگائے گا اتني ہی اپنے ليے مشكل پيدا كر ے گا-

7-مانگنے كا سليقہ

ميں نے مانگنے كا سليقہ بھي بچوں سے سيكھا-بعض بچے اتني خوبصورتي ، لجاجت اور عاجزي سے كہتے كہ سر ايك نمبر اور دے ديں يا د ونمبر او  ر دے ديں كہ ان كا انداز ديكھ كر انكار كرنا مشكل ہو جاتا  اور بعض اوقات نہ چاہتے ہوئے بھی ان كی فرمايش پوراكرنی پڑتی-(اور ايسی صورت ميں ، ميں ان كے صدقے پھر سب بچوں كے ماركس ميں دو دو كا اضافہ كر ديتا- )اس سے يہ سمجھ آيا كہ ہمارے مالك  كی شان اور عظمت تو اس با ت كا كہيں زيادہ حق ركھتی ہے كہ اس سے اور بھی گڑ گڑا كر اور عاجزي سے مانگا جائے – اگر ہم مانگنے كا حق ادا كر ديں تو جب ايك استاد مخلوق ہو كر نہ نہيں كرتا تو وہ مالك اور خالق ہوكر نہ كيوں كر ے گا- ايك بچے سے ميں نے پوچھا كہ اچھا اگر ميں تمہيں يہ دو نمبر نہ دوں تو كيا كرو گے – كہنے لگا كہ سر ميں آپ سے ناراض ہو جاؤں گا-اس نےاتنا بے ساختگی سے يہ كہا كہ مجھے اس پر بے انتہا پيار آيا اور ساتھ ہي يہ سوچ كر آنكھوں ميں آنسو بھي كہ كاش ہمارا اپنے مالك سے بھی خوشی اور ناراضی كا ايسا ہي خوبصورت تعلق ہوتا-ہميں اس بات كا دھڑكالگا رہتا كہ كہيں ہمارا مالك ہم سے ناراض نہ ہو جائے – ہمارايہ انديشہ مالك كو كتنا راضی كر سكتا ہے يہ وہي جان سكتے ہيں جنہوں نے ميری طرح ننھے فرشتوں كے ساتھ وقت گزارا ہو-

8- سچی اور معصوم ہنسي

امجد اسلام امجد نے كہا تھا- اے دنيا كے رب ،، كوئی نہيں ہے اس لمحے تيرے ميرے پاس،،سچ سچ مجھ سے كہہ ،، تيرے ان معمور خزانوں كی بے انت گرہ ميں ،،بچے كی معصوم ہنسی سے زيادہ پياری شے كيا كوئی ہے ؟امجد كي اس بات كی حقيقت مجھے بچوں كے ماحول ميں بہت اچھی طرح سے سمجھ ميں آئی -بچہ جتنا چھوٹا ہوتا ہے  اتنی ہی اس كی ہنسی سچی اور خالص ہوتی  ہے– جوں جوں بچہ تعليم ، ماحول اور معاشرے كے اثرات قبول كرتا جاتا ہے اس كي ہنسی ميں بھی منافقت اور خالي پن واضح ہوتا جاتا ہے – آج بھي كسي نے معصوم قہقہے ، سچا اور خوبصورت ہنسنا ديكھنا ہو تو وہ بچوں كے كسي سكول بلكہ كسي نرسري كا وزٹ كر لے  مجھے بھي اس سكول كے بعد ايسی ہنسی كہيں نہيں ملی سوائے اپنے معصوم پوتے اور پوتيوں كے  كہ جن پر ابھي خاندانی ،معاشرتی اور تعليمی ماحول كی آلودگی نے اپنے منحوس اثرات مرتب نہيں كيے ہيں-

9-بے لوث محبت

جوں جوں انسان بڑا ہوتا چلا جاتا ہے اس كي محبت بھي مفادات اور مصلحتوں كا شكار ہوتی چلی جاتی ہے ليكن بچوں كی محبت ان چيزوں سے بے نيازہوتی ہے – وہ محبت كريں تو ٹوٹ كے كرتے ہيں او رنفرت كريں ( جو كہ بہت كم ہوتي ہے) تو بھي ٹوٹ كے – جوان جوڑوں كی محبت كے دعوے بھی عموماً "ہارمونل "بگاڑكے زمرے ميں آتے ہيں جوں ہی ہارمون كا بيلنس آگے پيچھے ہوتا ہے ان كی محبت بھی ادھر ادھر ہونا شروع ہو جاتی ہے ليكن بچوں كی محبت واقعتاً بے لوث ہوتی ہے – اگر آپ انہيں پسند آ گئے  ہيں تو انہيں آپ سے كچھ نہيں چاہيے-  بس محبت كے جواب ميں محبت ان كے ليے كافی ہوتي ہے  -ميں شہر كی ايك مصروف شاہراہ كے ايك طرف پيدل جا رہا تھا – سڑك كے اس پار، ايك ايسے بچے نے مجھے ديكھا جو مجھ سے محبت كرتا تھا تو اس نے  آؤ ديكھا نہ تاؤ، وہيں سے دوڑ لگا دی تا كہ مجھ سے ہاتھ ملا سكے – اللہ نے بچا ليا ورنہ اتني تيز ٹريفك ميں كچھ بھی ہو سكتا تھا-  يہ بے لوث جذبہ  بڑوں كے نصيب  ميں آتا ہے مگر كم كم – سوچتا ہوں كہ اگر ہميں اس طرح كی محبت كا كچھ حصہ اللہ كريم كے حوالے سے نصيب ہو جائے تو ہميں اپنے مالك اور خالق كی طرف دوڑ لگانا كتناآسان ہو جائے-

10-حال ميں جينا

خوش رہنے كے ليے حال ميں جينا ايك بہت بڑا نسخہ ہے -اكثر بچوں كو ايسا ہي پايا كہ وہ حال ميں جيتے ہيں  انہيں نہ تو ماضی كا ملال ہوتا ہے نہ مستقبل كا انديشہ- اس ليے وہ بڑوں سے كہيں زيادہ خوش رہتے ہيں اور زندگی بھی انجوائے كرتے ہيں-يہ خوبی اگر ہم بھی اپنے اندر پروان چڑھا ليں تو ہمارے كتنے غم ہيں جو كم ہو جائيں اور كتنے خوف ہيں جو ختم ہو كے رہ جائيں-انسان اگر اس رمز كو پا لے كہ ہوتا تو اصل ميں اس كے پاس   حال ہی ہے ،ماضي پہ پچھتاوا بھی كوئی مثبت صورت حال سامنے نہيں لا سكتا اور مستقبل كا انديشہ اور خوف بھی بگڑی نہيں بنا سكتا تو يقيناً حا ل پہ اس كا فوكس بڑھ جائے گا- جس نے حال كو  بنا ليا تو اس كا ماضی بھي اچھا ہو گيا اور مستقبل بھي كيونكہ اسی "حال" نے ماضی ميں تبديل ہونا ہے اور اسی نے مستقبل كو ايك شكل دينا ہے -

سب سے قيمتی بات

بچوں سے سب سے قيمتی بات يہ سيكھی كہ جس طرح يہ لازم نہيں كہ بڑے ہيں تو ان كی باتيں بھی  بڑی ہوں گی  اس طرح يہ بھی لازم نہيں كہ چھوٹے ہيں تو ان كی باتيں بھی  چھوٹی ہوں گی- جيسے بڑا   چھوٹی بات كر سكتا ہے ويسے ہی چھوٹا بھی بڑی بات كہہ سكتا ہے -بعض بچے ايسی ايسی بات كر جاتے ہيں كہ انسا ن واقعی حيران رہ جاتا ہے – اس ليے يہ ضروری ہے كہ يہ نہ ديكھا جائے كہ بڑا كہہ رہا ہے يا چھوٹا ،بلكہ يہ ديكھا جائے كہ وہ كيا كہہ رہا ہے -بات كہنے والے كے بجائے اگر ہم بات پہ توجہ مركوز كر نے كی عادت developكر ليں تو كتنی "پرستياں" ہيں جو ختم ہو كر رہ جائيں جيسے مسالك ، مقابر اورحتی كہ اكابر پرستی بھی-