جموں والی سردار بیگم کی کہانی

مصنف : احمد بشیر طاہر

سلسلہ : افسانہ

شمارہ : اگست 2018

 

پاکستانیات
جموں والی سردار بیگم کی کہانی
احمد بشیر

 

(احمد بشیر نے اپنی آخری عمر میں کچھ یادداشتیں تحریر کی تھیں۔ وہ سبھی کاغذات انکے قلم کی وارث انکی بڑی صاحبزادی محترمہ نیلم بشیر صاحبہ کے پاس موجود ہیں انہی گم گشتہ یاداشتوں میں سے ایک تحریر پیش خدمت ہے ۔یہ کہانی انکی پھوپھی سردار بیگم کی ہے جسے انہوں نے تقسیمِ ہند کے تقریبا پچاس برس بعد قلم بند کیا, میں نے اور نیلم بشیر صاحبہ نے اس کے ایک ایک حرف کو بغور مطالعہ کے بعد سپردِ قرطاس کیا ہے کہ قار ئین تک اس کا ابلاغ اپنے درست جوہر کیساتھ ہو پائے۔صائمہ نسیم بانو)
میرا نام سردار بیگم ہے۔میں احمد بشیر کی پھوپھی ہوں۔ 1947 میں ہم جموں میں رہا کرتے تھے جہاں میرے میاں شیخ محمد حسین سرکاری سکول میں سیکنڈ ماسٹر تھے۔
ہمارے چار بچے عصمت، ممتاز، ارشد اور دو ماہ کی پروین سبھی وہیں رہتے تھے۔ گھر ہمارا اپنا تھا۔ ماسٹر محمد حسین بڑے بااثر آدمی تھے، اگر وہ اتنے بااثر نہ ہوتے تو شاید انکی جان بچ جاتی۔
جموں سے سیالکوٹ پندرہ بیس میل سے زیادہ نہیں مگر ریل اور بسیں رک چکی تھیں۔ جموں شہر میں سکھ اور ہندو شرنارتھی مسلمانوں کو للکارتے پھرتے تھے۔ پولیس سے بھی عبوری حکومت کے ہوم منسٹر سردار پٹیل کی ہدایت پر مسلمان افسروں کو نکالا جا چکا تھا۔ ڈوگروں کی آنکھوں میں سے خون ٹپکتا تھا۔ جموں کے مسلمانوں کو پتہ تھا کہ کوئی دم کی بات ہے پھر ہمارا خون کتے چاٹیں گے۔ جموں کے مسلمانوں نے مہاراجہ ہری سنگھ کو درخواستیں بھیجیں جو مختلف مراحل سے گزرتی بالآخر ڈپٹی کمشنر تک پہنچیں۔ انہوں نے اعلان کردیا کہ مہاراجہ بہادر اپنی مسلمان رعایا کے لئے نیک خواہشات رکھتے ہیں اور ان کی ہر ممکن حفاظت کی جائے گی۔ ان کے اطمینان کی خاطر فی الحال تیس بسوں کا انتظام کیا گیا ہے تاکہ مسلمان اگر چاہیں تو کچھ دنوں کے لئے سیالکوٹ چلے جائیں۔ بسوں کو سرکاری نگرانی میں ہی سرحد پار کرا دی جائے گی۔
تیس بسوں میں جموں کے سارے مسلمان بٹھائے نہ جا سکتے تھے۔ سیٹ حاصل کرنے کے لئے بھاگ دوڑ، آہ و زاری ،رشوت اور سفارش کی وبا پھیل گئی۔ جانے والوں کے لئے فیصلہ کرنا مشکل تھا کہ کیا ساتھ لیا جائے اور کیا ساتھ نہ لیا جائے مگر سب نے صرف زیورات اور ضروری کپڑے ساتھ لئے کیونکہ سب کو جلد واپس آنا تھا۔ ماسٹر محمد حسین نے اپنے اثر و رسوخ کی وجہ سے اپنے خاندان کے لئے سیٹیں حاصل کر لیں رات بھر کوئی نہ سویا، گھر چھوڑنے کا دکھ اور پاکستان جانے کا شوق دونوں ہی بے اختیار جذبے تھے۔ رات بھر جو بے وسیلہ اور بے سہارا تھے روتے رہے کیونکہ وہ پاکستان کے دارالامان نہ پہنچ سکتے تھے۔ وہ رات غریبوں پر بڑی بھاری گزری۔
ماسٹر صاحب نے رات کو دیر تک اپنے ہندو اور ڈوگرے دوستوں سے ملاقاتیں کیں، پڑوسیوں سے رخصت لی اور ان سے درخواست کی کہ میرے گھر کی دیکھ بھال کرنا۔ چند ہی دن کی تو بات ہے۔ میں آدھی رات کو اٹھ کر بچوں کو نہلا،نئے کپڑے پہنا کے اور فجر کی اذان کے وقت ناشتہ کھلا کے فارغ ہو گئی۔ بسوں کو دو گھنٹے کے بعد سیالکوٹ روانہ ہو جانا تھا اور ہماری فرنٹ سیٹ بْک تھی۔ میرے میاں بہت سیانے آدمی تھے انیوں نے زیورات ایک ہی پوٹلی میں رکھنے کے بجائے میرے اور بچوں کے کپڑوں میں سی دیے۔ نقدی بھی اسی طرح چھپا دی۔ بڑے نوٹ البتہ انہوں نے اپنی خفیہ جیبوں میں رکھ لئے۔
مہاراجہ بہادر نے اپنی مسلمان رعایا کی سلامتی کے لئے انتظامات کر دیئے تھے مگر اس زمانے میں کچھ بھی ہو سکتا تھا اس لئے میرے میاں نے تانبے کی بڑی رکابیاں جن میں ہم مسلمان پلاؤ کھاتے ہیں اپنے پیٹ, سینے اور کمر پر کس کر باندھ لیں تا کہ کوئی موذی برچھا مارے تو ان کا بچاؤ ہو جائے۔ چھوٹی رکابیاں انہوں نے میرے اور بچوں کے جسموں پر باندھ دیں اور یوں بکتر بند ہو کر ہم وقت سے پہلے ہی اڈے پر پہنچ گئے۔ اڈے پر ایک جمِ غفیر تھا، عورتیں اور بچے جن کے پاس سیٹیں نہیں تھیں ایک ایک کے آگے ہاتھ جوڑ رہے تھے کہ کسی طرح ہمیں بھی بٹھا لو۔ بس کے اندر بیٹھنے والوں کو ان سے بڑی ہمدردی تھی مگر وہ یہی کہہ سکتے تھے کہ تم دوسرے پھیرے میں آ جانا۔مہاراجہ کے پہریدار ڈوگرے اور بسوں کے سکھ ڈرائیور بڑے رحمدل تھے انہوں نے کچھ پیسے لیکر بعض کو بسوں کی چھتوں پر بٹھا لیا۔ سارے ڈوگرے اور سکھ شقی القلب نہیں ہوتے۔ بسیں چلیں تو مسافروں کے چہروں پر رونق آ گئی۔ جموں سے نکلتے ہی انہوں نے پاکستان زندہ باد کے فلک شگاف نعرے لگانے شروع کر دیے۔ ہم گھنٹے بھر میں دارالامان پہنچنے والے تھے۔ بال بچے اور زیور کپڑا ہمارے ساتھ تھا۔ بیشتر کی رشتہ داریاں سیالکوٹ میں تھیں۔ وہ اپنے اپنے عزیزان کی باتیں کرنے لگے۔ میں نے قرآن شریف کی تلاوت اور کلمے کا ورد شروع کر دیا اور باقی تمام عورتوں نے سر ڈھانپ لئے۔ شہر سے نکلتے ہی سڑک سنسان ہوگئی چاول کی ہریالی پھوٹ رہی تھی مگر کوئی کسان کام کرتا دکھائی نہ دیتا تھا۔ دیہات کے کنوؤں پر خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ کھاٹ پر بندھے بیلوں کی گھنٹیوں اور لاریوں کی گھرر گھرر کے سوا کچھ سنائی نہ دیتا تھا۔ آسمان پر کوئی چیل تک نہ اڑتی تھی مگر کسی نے ان باتوں پر غور نہ کیا سب آگے کی طرف دیکھتے تھے۔یا اللہ تیرا شکر،یا اللہ تیرا فضل۔
سوجیت گڑھ کے قریب جہاں سے پاکستان کی سرحد بہت دور نہیں تھی بسیں سیدھی سڑک پر جانے کے بجائے اچانک کچی سڑک کی طرف مڑ گئیں. لاریوں میں ہاہا کار مچ گئی۔ تمام عورتوں کے سروں سے چادریں اتر گئیں۔ہمیں کدھر لے جا رہے ہو۔ کہاں لے جا رہے ہو کا شور مچ گیا۔ میرا کلیجہ دھک دھک کرنے لگا، ماسٹر جی بھی گھبرائے ہو ئے تھے۔
ڈرائیور بسوں کو درختوں کے ایک جھنڈ میں لے گئے یہاں سینکڑوں سکھ ڈوگرے سپاہیوں اور مہا سبھائی سیوا داروں کا ایک ہجوم کھڑا تھا ان کے ہاتھوں میں بندوقیں تھیں، ننگی تلواریں ، کچھ کے ہاتھوں میں چھیونیاں اور کلہاڑیاں تھیں۔گاؤں کے کتے کچھ فاصلے پر کھڑے بھونک رہے تھے بسوں کے رکتے ہی ہجوم نے جے بجرنگ بلی, ست سری اکال اور محمد علی جناح مردہ باد کے نعرے لگانا شروع کردیے۔ وہ ڈھول بجا بجا کر اپنے اوپر جنون طاری کررہے تھے مسلمان مرد جی ہار گئے بعض نے چھلانگ لگا کر بھاگنے کی کوشش کی مگر جس طرح پنجاب میں سانسیوں کے بْلی کتے کمادی بِلوں پر جھپٹتے ہیں اسی طرح ایک بھگوڑے کے پیچھے کئی کئی بلمیں، تلواریں اور کلہاڑیاں گنے کے کھیت میں گھس گئیں۔ہم نے کسی کو گرتے اور پچھاڑ کھاتے نہ دیکھا، فقط چیخیں اور پکاریں سنیں۔ دیر تک شکار کی یہی کیفیت رہی پھر سانسیوں کے کتوں نے بسوں کو گھیرے میں لے لیا اور حکم دیا کہ سب نیچے اتر آئیں مگر کوئی بھی سیٹ سے نہ ہلا۔ پھر وہ مردوں اور عورتوں کو کھینچ کھینچ کر نیچے اتارنے لگے اور اسی میں بعض بلمیں اور نیزے انتڑیوں تک پہنچ گئیں۔قاتلوں کی دیوانگی کمال تک پہنچ گئی میں حرکت نہ کر سکی۔ماسٹر صاحب زیرک آدمی تھے انہوں نے کہا ٹھہرو بھائیو، ہم خود نیچے آتر آتے ہیں ان کا لہجہ پرسکون تھا۔ وہ نہایت اطمینان سے نیچے اتر آئے میں سب کو بسوں سے اتار دیتا ہوں پھر ہم سب زیور، کپڑا، نقدی اور گھڑیاں خوشی خوشی تمہارے حوالے کر دیں گے۔ پھر انہوں نے جواب کا انتظار کئے بغیر مسافروں سے کہا سب نیچے اتر آؤ۔ جھگڑے کی کوئی بات ہی نہیں۔ کچھ بلوائی کتوں کی طرح غْرائے اور انہوں نے مسافروں کے گرد گھیرا ڈال دیا۔ ماسٹر صاحب بہت سبک رفتار تھے انہوں نے ہجوم کو مصروف پایا تو اچانک ایک جنگلی تیتر کی پھرتی سے کماد کے کھیت کی طرف بھاگے میں ابھی بس ہی میں تھی مگر سارا منظر دیکھ رہی تھی۔ آن ہی آن میں سانسیوں کے کتوں نے میرے میاں کو جا لیا۔ ایک نیزہ کھا کر ماسٹر جی گر گئے ان کے سینے اور پیٹ پر بندھی رکابیاں ایک وار بھی نہ روک سکیں ۔ گرے ہوئے ماسٹر جی پر کرپانیں اور بلمیں برستی رہیں مگر میری آنکھوں کے آگے اندھیرا چھایا ہوا تھا پھر کسی نے میری بانہہ پکڑ کر مجھے نیچے گھسیٹ لیا۔میرے چار سال کے بیٹے نے بھی چھلانگ لگا دی۔ میری پانچ سال کی بیٹی سوٹ کیس کے اوپر بیٹھ گئی۔ میری چھ سال کی بچی بس کے دروازے میں کھڑی تھی جب میں نے انہیں آخری بار دیکھا۔
قاتلوں نے یہ دیکھ کر کہ بسوں میں سامان بہت ہے عورتوں اور بچوں کے بجائے سوٹ کیسوں پرجھپٹنا شروع کردیا مگر بعض نے جواں عورتوں کی چوٹیاں پکڑ لیں۔ بوڑھی عورتوں کو جو کسی کام کی نہ تھیں انہوں نے ایک ایک دو دو ضربوں میں ختم کردیا بعض نیزوں نے بچوں کو بھی پرو لیا،بچوں کا کوئی اور کر بھی کیا سکتا تھا۔
میدان میں بہت کام تھا سارے مرد ابھی مرے نہ تھے۔ ان کو قتل کرنا ضروری تھا سامان تو جہاں تھا وہیں تھا۔ عورتیں اندھا دھند بھاگ رہی تھیں مگر وہ کہاں جا سکتی تھیں۔ مردوں سے فارغ ہو کر ان سے بھی نمٹا جا سکتا تھا۔ بھاگتے بھاگتے جو گر جاتیں ان میں اٹھنے اور بھاگنے کی ہمت نہ ہوتی۔ بلوائی ان پر بے دلی سے ایک آدھ بلم مار کر انہیں مْردوں میں تبدیل کر دیتے۔ بعض نے ان پر اتنی توجہ بھی نہ دی کیونکہ سامان سے بھری بسیں منتظر کھڑی تھیں۔
مجھے پتہ نہ تھا کہ میری دو ماہ کی پروین میرے سینے سے چمٹی ہوئی ہے مجھے دھکا لگا تو میں اوندھے منہ گر گئی ۔فورا ہی ایک بوڑھی عورت میرے اوپر آن پڑی اس کے پیٹ سے خون کا فوارہ بہہ رہا تھا۔ دو تین گھنٹے میں میدان میں خاموشی چھا گئی۔ میں نے آنکھیں بند کر لیں میں بہت تھکی ہوئی تھی میں سوجانا چاہتی تھی مگر نیند کوسوں دور تھی۔ میں سامان گھسیٹنے ،چھپی ہوئی عورتوں کی سسکیوں اور قاتلوں کے قدموں کی آوازیں سنتی تھی مگر مجھے پتہ نہ تھا کہ میں زندہ ہوں یا مردہ۔پتہ نہیں پھر کس وقت مکمل سناٹا ہو گیا۔
میں نے آنکھ کھول کر سورج کیطرف دیکھا اس کی روشنی نرم تھی۔ میں نے سوچا کہ شاید یہ صبح کا ہی وقت ہے جب ہم گھر سے نکلے تھے۔ کسی کو بھی کچھ نہیں ہوا یہ سب وہم ہے میں نے سوچا کہ اٹھ کر دیکھو میرے ماسٹر جی کہاں ہیں ان کے پیٹ پر بندھی اپنی جگہ پر رکابیاں بندھی ہیں یا ہٹ گئیں۔ میرے بچے کیا کررہے ہیں. انہوں نے کچھ کھایا پیا ہے یا نہیں۔پوچھوں تو سہی ،مگر مجھ میں اٹھنے کی طاقت نہیں تھی۔ میں نے آنکھیں بند کر لیں جب دوبارہ کھولیں تو میدان خالی ہو چکا تھا۔ جگہ جگہ لاشیں، کھلے ہوئے سوٹ کیس، کٹے ہوئے ہاتھ پیر بکھرے ہوئے تھے ۔ادھر ادھر خون کے سیاہی مائل لوتھڑے پڑے تھے جنہیں گاؤں کے کتے سونگھ سونگھ کر چاٹ رہے تھے۔ کٹے ہوئے ہاتھ پیروں کو انہوں نے کھانا شروع نہ کیا تھا کیونکہ ابھی وہ تازہ تھے۔
جھٹپٹے کا ایسا ہی سماں تھا جب میں اپنے بچوں کو پراٹھے کھلا رہی تھی اور سوچتی تھی کہ تھوڑی دیر میں ہم لاری میں بیٹھ کر پاکستان پہنچ جائیں گے۔یا اللہ تیری خیر, یا اللہ تیرا فضل
اللہ کا شکر ہے میرے دل کو تھوڑی سی تقویت پہنچی اور ہوش و حواس بجا ہوئے۔ مجھے یاد آیا کہ میری بچی میرے سینے سے چمٹی پڑی ہے اسے دودھ پلانا چاہئے۔ میں نے آہستگی سے اپنی بچی کو نیچے سے نکالا تو مجھے پتہ چلا کہ میرے اوپر اب تک بوڑھی مری ہوئی عورت پڑی ہے۔ اس کا خون میرے چہرے پر جم گیا ہے۔ تب مجھے یاد آیا کہ میں نے اپنے ماسٹر جی کو نیزہ کھا کر گرتے دیکھا تھا۔ میرا پانچ سال کا بیٹا اور چار سال کی بیٹی بس کے پاس گرے ہوئے تھے مگر میری چھ سال کی بیٹی کہاں ہے میں نے اسے بس کے دروازے میں کھڑی دیکھا تو تھا۔مجھے یہ سوچ کر قرار آ گیا کہ سب مر چکے ہیں۔ میں نے رونے کی کوشش کی مگر میری آنکھوں میں سے پانی کا ایک قطرہ بھی نہ بہا میں نے اپنی دودھ پیتی بیٹی کو ہولے ہولے پیار کرنا شروع کردیا اور اسے دودھ پلانے کی کوشش کی۔ میں ایک لمحے کے لئے سارے دکھ بھول گئی۔
میری پروین، میری بچی نے میری چھاتی
کے چھیچھڑے کو چوسنا شروع کیا تو میں حیران ہو گئی کہ اس میں دودھ کی نہر کیوں نہیں بہی
آسمان پر تارے نکل آئے تھے، میدان میں ہو کا عالم تھا، تمام زخمی مرچکے تھے۔ عین اسی وقت مجھے بڑے زور کی پیاس لگی ،میں نے بڑی مشکل سے تھوک نگلی تو مجھے لگا کہ میرے حلق میں کانٹے اگ آئے ہیں۔ یہ کانٹے مجھے بڑی تکلیف دینے لگے۔ مجھے لگا پیاس سے بڑا دنیا میں کوئی دکھ نہیں میں اٹھکر بیٹھ گئی۔بیٹھ کر میں نے حواس درست کئے۔ دن کے سارے واقعات ایک ایک کر کے مجھے یاد آنے لگے. مجھے یاد آیا کہ درختوں کے اس جْھنڈ کی طرف بڑھتے ہوئے بسوں نے ریلوے لائین پار کی تھی ریلوے لائین جو جموں سے سیالکوٹ جاتی ہے۔یعنی پاکستان امن، سلامتی ،اطمینان کی سر زمین۔
اس خیال سے میرے جسم میں طاقت آگئی بچی کو میں نے سینے سے لگایا اور لڑکھڑاتی ہوئی, لاشوں کو پھلانگتی ہوئی آہستہ آہستہ ریلوے لائن کی طرف بڑھی۔ ریلوے لائن کے قریب ہی اسٹیشن پر بتیاں روشن تھیں مگر کوئی قلی، کانٹے والا موجود نہ تھا۔ میں نے ایک چھپڑی سے پانی پیا۔ کیچڑ اور کائی کے باوجود پانی مجھے بہت میٹھا لگا پھر میں نے اپنے خون سے لتھڑے بالوں کو دھویا۔ خوف میرے دل سے دور ہو چکا تھا اب میں جلد پاکستان پہنچ جانا چاہتی تھی۔ پٹری کے دونوں طرف بچھے ہوئے پتھروں پر چلنا میرے لئے مشکل ہو رہا تھا۔ میری سینڈل کی ایڑی اونچی تھی اسے میں نے اتار کر پھینک دیا مگر ننگے پاؤں چلنا اور بھی مشکل تھا۔ بچی کے وزن سے میرے دونوں کندھے شل ہو چکے تھے۔ (اس طرح چلتے چلتے سکھوں اور ڈوگروں کے خلاف نفرت کا ایک ابال میرے دل میں اٹھا)وہ کتنے سنگدل تھے ان سے اتنا بھی نہ ہو سکا کہ مجھے بھی مار ڈالتے۔ بچی خاموش تھی، اس نے ہلنے جلنے کی کوشش نہ کی، شاید وہ مر چکی تھی۔ میں نے سوچا مر کر بھی وہ پتھر کی طرح وزنی ہے۔ اس پتھر کو اٹھا کر ننگے پاؤں پاکستان پہنچنا ناممکن ہے اگر یہ مری نہیں تو میں پاکستان جا کر اسے کس طرح پالوں گی۔ کیوں نہ اسے یہیں چھوڑ دوں اگر یہ زندہ ہے تو تھوڑی دیر میں آپ ہی مر جائے گی اور میں پاکستان پہنچ جاؤں گی، اس نے تو میرا راستہ روک رکھا ہے۔ میں نے بیزاری سے بچی کی طرف دیکھا زندگی کے آثار مجھے اس میں نظر نہ آئے ۔وہ سانس لیتی تھی، اسے ماں کی مصیبتوں کا کوئی احساس نہ تھا ۔ بعض اوقات اولاد کتنی سنگدل ہو جاتی ہے۔
میں نے سوچا بچی میری دشمن ہے مجھے راستے میں ہی مروا ڈالنے پر تلی ہوئی ہے۔ تھکاوٹ کی وجہ سے میری انگلیوں کے قفل کھل گئے۔ میرے ہاتھوں میں طاقت نہ رہی بچی لڑھک کر زمین پر گر گئی ۔میں نے اسے لڑھک جانے دیا۔ میرا بدن یکدم ہلکا ہو گیا. میں آسانی سے چلنے لگی۔ سیم کے پانی میں سڑی ہوئی گھاس میرے دماغ میں جمی ہوئی خون کی باس کو نکال نہ سکی۔ میں اس بو سے دور بھاگ جانا چاہتی تھی ۔گیدڑوں سے مجھے بہت ڈر لگا۔ میری ٹانگیں تیز چلنے کی وجہ سے نڈھال ہو گئیں۔ میں ایک درخت کے نیچے بیٹھ گئی تو اٹھنا میرے لئے مشکل ہو گیا۔ بیٹھے بیٹھے میں نے ہوا کی سیٹیوں اور گیدڑوں کی چیخوں کو الگ الگ سننے کی کوشش کی۔ مجھے لگا کہ ہوا کی سیٹیوں اور گیدڑوں کی چیخوں کے ساتھ ساتھ ایک چھوٹی بچی کے رونے کی بھی آواز آ رہی ہے اچانک مجھے یاد آیا کہ جب میں اتری تو میری بچی میرے سینے کے ساتھ لپٹی ہوئی تھی۔ میں نے سینے پر ہاتھ مارا مگر وہاں تو کچھ بھی نہ تھا۔ میرے لئے یہ یقین کرنا مشکل تھا کہ میں نے اپنی دودھ پیتی بچی کو جنگل میں پھینک دیا ہے۔ ہوا کے ایک جھونکے کے ساتھ بچی کے رونے کی آواز پھر آئی تو میں بجلی کی تیزی سے اٹھ کر ادھر کو بھاگی۔ میرا ہاتھ لگتے ہی بچی نے رونا بند کر دیا۔ اس کو سکون آ گیا حالانکہ پاکستان تو ابھی بہت دور تھا۔
میں بہت تھک گئی تھی۔ مجھے سخت بھوک کا احساس ہوا۔ زیور میرے شوہر نے میری شلوار کے نیفے میں سلوا دیے تھے۔ میرا جی چاہا کہ کوئی میرے سارے زیور لے لے اور ایک سوکھی روٹی اور چارپائی دے دے مگر یہ سودا کرنے والا کوئی شخص وہاں موجود نہ تھا۔ میں اٹھ کر پھر چلنے لگی، چلتے چلتے اچانک کسی گاؤں پر نظر پڑ جاتی تو میں فوراً درختوں کی اوٹ میں ہو جاتی۔ گھروں میں دیے ٹمٹماتے، گائیوں اور بھینسوں کے ڈکرانے کی آوازیں آتیں، چلتے چلتے مجھے خیال آیا کہ میری بچی صبح کی بھوکی ہے میری چھاتیوں میں دودھ کا ایک قطرہ بھی نہیں۔ اگر میں زندہ ہوں تو میری چھاتیاں یقیناًمر چکی ہیں۔
میں دھان کے ایک کھیت کے قریب رک گئی۔ میں نے ایک ہرا سٹہ توڑا اس میں سے چاول کے کچے دانے نکالے پھر اپنی دونوں ہتھیلیوں کے بیچ رکھ کر ملا تو بھوسی الگ ہو گئی۔ ان کچے چاولوں کو میں نے چبایا تو میرا منہ دودھ سے بھر گیا۔ اس میں مامتا کا ذائقہ بھی تھا، زندگی کی خوشبو بھی تھی یہ دودھ میں نے بچی کے منہ سے منہ لگا کر قطرہ قطرہ ٹپکا دیا۔ دودھ پی کر بچی نے آنکھیں کھول دیں اور مجھے دیکھ کر مسکرانے لگی۔ بچی کو مسکراتے دیکھ کر میری سوکھی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور پھر دریا بہہ نکلا پھر میں نے گلا پھاڑ پھاڑ کر بین کئے۔ میرا جی ہلکا ہو گیا تو میں دھان کے کچھ سٹے اور توڑ کر جانوروں کی طرح جگالی کرنے لگی میں نے بچی کو گود میں اٹھایا اور پھر چلنے لگی مجھے پاکستان پہنچ کر ہی دم لینا تھا۔ میرے پیروں سے خون رستا تھا مگر مجھے درد نہیں ہوتا تھا۔ مجھے قائد اعظم پر بھی بہت غصہ آیا جنہوں نے پاکستان جموں سے اتنی دور جاکر بنایا تھا۔
اچانک مجھے لگا کہ افق پر روشنی ہو رہی ہے۔ میرا دل دھک سے رہ گیا۔ میں نے بھاگ کر پاکستان پہنچنے کی کوشش کی مگر ٹھوکر کھا کر گر گئی۔ قریب کے گاؤں میں بھینسوں کی گردنوں میں پڑی ہوئی گھنٹیاں باقاعدہ لے کے ساتھ بجنے لگیں۔ میں نے اندازہ لگایا کہ ان کے آگے چارہ ڈال دیا گیا ہے جسے وہ گردنیں ہلا ہلا کر کھا رہی ہیں۔ جموں میں میری بھینس بھی اسی طرح گھنٹیاں بجایا کرتی تھی۔ مجھے خیال آیا کہ کاش میری بچی کے لئے گاؤں سے کوئی دو گھونٹ دودھ لا دے۔ اس وقت میں بھول گئی کہ قتل عام سے میں زندہ بچ جانے والی واحد مسلمان عورت ہوں اور میرا خاوند میری آنکھوں کے سامنے مار دیا گیا ہے۔ میں یہ بھی بھول گئی کہ میری دو چھوٹی بیٹیاں اور ایک بیٹا اس قتل گاہ میں میری آنکھوں کے سامنے اوجھل ہو گئے۔ کیا وہ اب تک زندہ ہوں گے۔ کیا وہ اپنے باپ کو اور ماں کو ڈھونڈتے ہوں گے یا رات بھر میں کتوں کا نوالہ بن گئے ہوں گے۔ اْس وقت مجھے صرف اپنی بھوکی بچی کا خیال تھا۔ کسی انسان کی تلاش میں، میں نے ادھر ادھر دیکھنا شروع کر دیا۔( انسانیت سے اب تک میرا ایمان نہ اٹھا تھا)۔
دور ریلوے لائن پر اندھیرے اجالے میں ،میں نے دو آدمیوں کا ہیولا دیکھا۔ میں نے سوچا مجھے اپنی بچی کو لے کر کہیں چھپ جانا چاہئے۔ پاس ہی دھان کا ایک چھوٹا سا کھیت تھا اس کے پودے جوان نہیں ہوئے تھے۔ میں ان میں بیٹھ کر چھپ نہ سکتی تھی مگر لیٹ جاتی تو کسی کو نظر نہ آتی۔ کھیت کو حال ہی میں سینچا گیا تھا۔ ٹھنڈا اور نرم کیچڑ میرے پھوڑے سے جسم کو بہت اچھا لگا۔ میں زمین پر لیٹ گئی، بچی کو میں نے سینے پر لٹا لیا۔ اوپر آسمان کس قدر کھلا کتنا نیلا اور کتنا خوبصورت تھا۔
کچے دھان کی باس فرحت بخش تھی۔ دور کہیں کسی جوہڑ میں بیٹھی مرغابیاں کڑکڑائیں تو مجھے بہت اچھی لگیں۔میں نے سوچا کہ وہ آدمی اب میرے سامنے سے گزر چکے ہوں گے۔ اسی طرح لیٹے لیٹے میں نے قریب کے سٹے گننے شروع کر دیے۔ایک. دو. تین. چار. پانچ. چھ______ ہم گھر کے چھ افراد تھے. یہ سوچ کر مجھے رونا آ گیا۔ میرا جی چاہتا تھا میں زور سے چیخوں، اونچے اونچے بین کروں اور چھاتی پیٹوں۔ آسمان پر چیلیں تیر رہی تھیں، زمین پر تیتر بول رہے تھے، ہلکی ہلکی دھوپ چمک رہی تھی، ٹھنڈی ہوا میں میرے ہاتھ پاؤں ڈھیلے ہو گئے۔ ایسا آرام مجھے زندگی میں کبھی نہ ملا تھا۔ میں نے سوچنا بالکل بند کر دیا ،دنیا کا کوئی دکھ باقی نہ رہا۔ میں نے آنکھیں بند کر لیں، اچانک میری بچی نے رونا اور تڑپنا شروع کردیا۔ میں نے گھبرا کر بچی پر نظر ڈالی وہ ہرے ہرے دستوں کی پچکاریاں مار رہی تھی۔ پیٹ کے درد نے اسے بے حال کر رکھا تھا۔ میں ڈر گئی، کوئی اس کی چیخیں سن لے گا تو آ کر ہمیں مار ڈالے گا۔ بچی کو چپ کرانے پر میری ساری زندگی موقوف تھی۔ جلدی سے میں نے اپنی سوکھی سڑی چھاتی اس کے منہ میں ڈال دی۔ بچی چپ ہو گئی مگر اسکی چیخیں قریب کے کھیت میں کام کرنے والے ایک کسان نے سن لیں۔ آن کی آن میں وہ ہم ماں بیٹی کے سروں پر آ دھمکا ننگی کرپان لئے ،’’کون ہو تم، کہاں سے آئی ہو۔‘‘ اس نے حیرت اور غصے کے ملے جلے انداز میں پوچھا، میں اٹھ کر بیٹھ گئی اور کہا میرے پاس زیور ہیں133133.. لے لو اور ہمیں چھوڑ دو۔
مسلمان ہو؟ سکھ نے پوچھا, سوجیت گڑھ کے قتلام سے بچ کر آئی ہو۔ میں نے کہا انہوں نے میرے تین بچے مار ڈالے، خاوند کو بھی قتل کر دیا میرے سامنے. ہم چھ تھے۔ تم زیور لے لو بھائی، میں کسی سے بات نہیں کروں گی۔کہاں ہے زیور؟یہ رہا. میرے نیفے میں سلا ہے۔ پھر میں نے نیفے کو پھاڑنے کی کوشش کی۔ کسان نے کہا میں خود نکال لیتا ہوں۔ میں کھڑی ہو گئی اور اس نے کرپان کی نوک سے نیفہ چیر دیا اور اس میں سے نکلیں وہ کڑوں کی سلاخیں جو میرے ماسٹر صاحب نے سیدھی کردی تھیں کانٹے، گلے کا ہار اور انگوٹھیاں اپنی ڈاب میں رکھ لیں۔اور کچھ ہے تیرے پاس؟ سکھ نے پوچھا. میرے پاس سو سو کے کچھ نوٹ ہیں بھائی اور یہ کہہ کر میں نے اپنی بنیان میں ہاتھ ڈال کر نوٹ نکالے اور اس کے حوالے کر دیے.(پھر سکھ نے کہا سوجیت گڑھ میں بڑا ظلم ہوا، کتنے آدمی مارے گئے ہوں گے.)پتہ نہیں، میں نے کہا جموں سے کل تیس بسیں چلی تھیں، میری بچی کو کل سے دودھ نہیں ملا، اس کے پیٹ میں درد ہو رہا ہے. (پروین نے ہرے دست کی ایک اور پچکاری ماری, سکھ نے کہا یہ تو شام تک مر جائے گی)شام تک مر جائے گی میری بچی! میں نے کہا۔سکھ بولا ہمارے گاؤں میں ایک حکیم تھا مسلمان، وہ بھی سیالکوٹ چلا گیا، اب یہاں کوئی نہیں۔مجھے بھی سیالکوٹ جانا ہے بھائی، میں نے کہاتو چلی جا. وہ بولا، تجھے کون روکتا ہے، کْل چار کوس کا تو فاصلہ ہے۔مجھے ڈر لگتا ہے، کوئی مار ڈالے گا ہم ماں بیٹی کو راستے میں۔ نہیں کوئی نہیں مارتا۔ تم جوان ہو اس لئے تمہیں کوئی ساتھ ضرور لے جائے گا۔ میں ڈر گئی میں نے کہا تم ہی مار ڈالو بھائی ۔میں نے اس کی کرپان کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھا پھر میں اس کے پاؤں پر جھک گئی۔سکھ پیچھے ہٹا اور بولا نہیں، نہیں میں نہیں مار سکتا۔ میرے گھر میں عورت نہ ہوتی تو میں تم پر چادر ڈال لیتا۔ میرے گھر میں عورت ہے بال بچے دار، مجھے تمہاری ضرورت نہیں133133
اپنے بال بچوں کا صدقہ، مجھے مار ڈال بھائی
بھائی بھائی نہ کر، سکھ نے ڈانٹ کر کہا۔ سکھ بے یقینی کے عالم میں تھا اس کو مجھ دکھیا پر رحم بھی آ رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد اس نے کہا تو یہیں انتظار کر۔ اندھیرا ہو جائے گا تو میں تجھے سرحد پار کرا دوں گا۔ سمجھ گئی، سمجھ گئی شام تک چھپی رہ یہیں۔ سکھ یہ کہتا ہوا لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا کھیت سے نکل گیا۔ میں کیچڑ میں لیٹ کر نظروں سے اوجھل ہو گئی۔ دستوں کے بعد پروین کے پیٹ میں کچھ سکون ہو گیا تھا۔ کچے دھان اس کا نازک معدہ ہضم نہ کر سکا تھا۔ مجھے پھر خیالات نے آ لیا۔ میں نے سوچا کیا مجھے کہیں اور چھپنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ ہو سکتا ہے کہ شام کو وہی سکھ آ کر مجھے بے آبرو کر دے یا مجھے کسی ایسے آدمی کے حوالے کر دے جس کے گھر میں عورت نہ ہو یا مجھے کہیں بیچ دے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ مجھے سرحد پار کرا دے۔
چٹے دن کھیت سے نکل کر کسی اور جگہ چھپنے کی کوشش کرنا بھی دشوار تھا. اگر کسی اور نے دیکھ لیا تو؟اس ادھیڑ بن ہی میں میں شام تک دبکی پڑی رہی، وقت گزرنے کا مجھے احساس ہی نہ ہوا۔ وہیں پڑے پڑے میں نے بکریوں کی جھانجروں کی جھنکار سنی تو مجھے پتہ لگا کہ سورج ڈوبنے والا ہے پھر کوؤں کی ڈاریں بسیرا کرنے کے لئے آسمان پر دکھائی دینے لگیں۔آسمان سنولا گیا، رات قریب ہے، رات قریب ہے، اور اگر سکھ نے کسی کو کچھ نہیں بتایا تو ہو سکتا ہے کہ وہ مجھے سرحد پار کرا دے۔ اچھا آدمی لگتا تھا۔ آن کی آن میں رات ہو گئی، جھینگر بولنے لگے، خوف مجھ پر چھا رہا تھا۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ ریلوے لائن میری دائیں طرف ہے یا بائیں طرف۔ اگر میں بھاگنے کی کوشش بھی کروں تو کدھر بھاگوں۔ بہت سا وقت اسی طرح گزر گیا۔ میں سمجھ گئی اب سکھ نہیں آئے گا۔میری پروین بھی ابھی مری نہیں، اسے اٹھا کر مجھے خود ہی رات بھر چلنا ہو گا۔ میں نے اپنے آپ کو تیار کر لیا۔ دو آدمی دوڑے چلے آ رہے تھے۔ ان کی آواز سن کر میں نے سانس روک لی۔ آواز قدموں کی جانب، کھیت کے پاس آ کر رک گئی۔ اسی کھیت میں تھی مکھن سنگھا. ایک آواز آئی۔ مائی! تو یہیں ہے نا؟ میں چپ رہی ،مائی او مائی، تو بولتی کیوں نہیں۔ پھر آہستہ سے آواز آئی، مکھنا بیچاری بہت ڈری ہوئی تھی۔ پھر ایک اور آواز آئی ڈرنے کی کوئی بات نہیں مائی، ہم تجھے سرحد پار کرانے آئے ہیں۔ اس پر میری کچھ ڈھارس بندھی, میں نے سہمی ہوئی آواز میں کہا میں یہیں ہوں بھائی جی ۔جاکر آپے نکال مہاں سیاں۔کیچڑ بہت ہے مکھنا, اسے کہہ آ پ ہی آ جائے باہر آ جا مائی ہمارے کپڑے کیوں خراب کرتی ہے۔ میں آ جاتی ہوں بھائی جی، میں نے کہا اور پروین کو سینے سے لگا کر میں گرتی پڑتی کھیت سے باہر نکل آئی ۔مہاں سنگھ کے ہاتھ میں وہی ننگی کرپان تھی ۔مکھن سنگھ ایک سفید ریش بزرگ تھا اس کے ایک ہاتھ میں بلم تھی اور دوسرے میں مٹی کی واہڑی جس سے مسلمان وضو کرتے ہیں۔مکھن سنگھ بولا ہم تیرے لئے دودھ بھی لائے ہیں، روٹی تو تو ہمارے ہاتھ کی پکی نہ کھائے گی۔ لوٹا بھی مسجد کے ملا کا ہے ۔مجھے بھوک بالکل نہیں تھی اور یہی میں نے کہہ دیا۔نخرہ نہ کر، بھوکی تو تو ہے, ایک نے کہا۔دوسرا بولا، پی لے، پی لے، دودھ پئے گی تو تیرے شریر میں طاقت آ جائے گی۔ ابھی چار کوس تجھے ریاست میں ہی چلنا ہے اور آگے پاکستان میں بھی تیرا باپ گھوڑا لیکر نہیں کھڑا۔ دودھ پی لے، نخرہ نہ کر، تیری کاکی کا کیا حال ہے، مہاں سنگھ نے پوچھا. مر گئی کہ نہیں؟ٹھیک ہے جی. میں نے جواب دیا۔اس کو بھی دو گھونٹ پلا دے کل سے بھوکی ہے کل سے بھوکی ہے بابا جی۔ میرے منہ سے آہ نکلی۔ ڈر مت زنانی! حوصلہ رکھ، مہاں سنگھ بولا، آرام سے بیٹھ کر اسے دودھ پلا۔ کسی مائی کے لال میں طاقت نہیں کہ تیری طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھے۔ مکھن سیاں ہمارا نمبردار ہے۔ پانچ پانچ کوس تک تو اس کے آگے کوئی بول نہیں سکتا۔ میری آنکھوں میں آنسو آ گئے بھو ک مجھے واقعی نہیں تھی مگر نمبردار کے آگے میں بول بھی نہ سکتی تھی۔ میرے لئے مشکل یہ تھی کہ میں پروین کو مٹی کے لوٹے سے دودھ کیسے پلاؤں۔ میں نے زمین پر بیٹھ کر ایک گھونٹ دودھ اپنے منہ میں ڈالا پھر قطرہ قطرہ کر کے پروین کے منہ میں ٹپکانے لگی۔ سکھ حیرت سے میری طرف دیکھنے لگا۔مکھن سنگھ بولا، بہت سیانی ہوتی ہیں مسلی عورتیں، ہمارے گھروں میں تو سورنیاں بندھی ہیں، نہ عقل نہ موت۔ آدمی شادی کرے تو کسی مسلی عورت سے کرے۔(اس پر دونوں نے قہقہہ لگایا) پھر مکھن سیاں بولا، تو بڑا کتا ہے مہا سیاں، تیری نیت خراب لگتی ہے، رب کی سونہہ میرا ایسا کوئی خیال نہیں۔ مکھن سنگھ نے کہا، میں نے تو اسے مائی کہا ہے مائی کہہ کر تو کوئی ایسی بات سوچ بھی نہیں سکتا۔ ارے میں تو مخول کررہا تھا تیرے ساتھ، پھر مہاں سنگھ نے کہا جلدی نہ کر مائی آرام سے دودھ پی۔ خبردار جو تونے ایک گھونٹ بھی چھوڑا۔ میں نے بڑی مشکل سے دو گھونٹ حلق سے اتارے، اور نہیں پیا جاتا، میں نے کہا. پھر چاروں ریل کی پٹری کیطرف چل دیے۔
آگے آگے دونوں سکھ, پیچھے پیچھے ہم دونوں ماں بیٹی۔ سکھ بہت تیز چلتے تھے مگر وہ بار بار رک کر ہمارا انتظار کرتے۔ ایسا لگا کہ مجھے عمر بھر یونہی چلنا ہے۔رات پتہ نہیں کتنی مشکل کٹی تھی۔ مکھن سنگھ نے کہا، اب تو ذرا دم لے لے مائی۔ تو تھک گئی ہو گی۔ تم مسلی عورتوں کو تو چلنا نہیں آتا ہماری عورتیں تو اتنے میں پانچ کوس چل لیتی ہیں۔ نہیں بابا جی میں تھکی نہیں، میں نے کہا، کیوں نخرہ کرتی ہے نہاں سنگھ بولا، بیٹھ جا تھوڑی دیر، یہ سن کر میں مٹی کی بوری کی طرح گر گئی ۔سکھ ذرا دور ہٹ کر لائن پربیٹھ گئے۔ میرا دل چاہتا تھا کہ میں فوراً سرحد پار کر لوں۔ میرا خیال تھا کہ میرے ماسٹر جی، میرے سارے بچے اور میرے ایمن آباد کے سارے رشتے دار سرحد پر میرا انتظار کررہے ہیں۔ مجھے اپنے پیاروں پر غصہ آنے لگا جو اتنی دور جاکر بیٹھ رہے تھے۔مکھن سنگھ بولا, اب چل بھی پڑ ماں یاوی!۔
پھر وہی اندھیرا، وہی ٹھوکریں اور وہی ختم نہ ہونے والا سفر، ایسا تو نہیں کہ کہیں اسی کا نام پاکستان ہو۔
وہ عورت جو اپنے ماسٹر جی اور بچوں کے ساتھ خوشگوار زندگی گزار رہی تھی وہ تو سجیت گڑھ میں ماری گئی تھی..پھر میں کون ہوں؟
اچانک مکھن سنگھ رک گیا اور کہا, لے مائی تیرا رب راکھا۔یہاں سے تیرا پاکستان شروع ہو جانا ہے۔ وہ جو سامنے گاؤں ہے جس میں دیئے ٹمٹما رہے ہیں وہی سرحد ہے سیدھی چلی جا، زیادہ نہیں مگر تو راستے سے ہٹی تو بھٹکتی پھرے گی۔
مہاں سنگھ اور مکھن سنگھ دونوں نے ہاتھ جوڑ کے مجھے پرنام کیااور واپس مڑ گئے۔ میں نے دیکھا کہ سرحد پر میرا کوئی اپنا میرے
انتظار میں کھڑا نہ تھا۔ میں زمین پر گر گئی اور بے اختیار بین میرے منہ سے نکلنے لگے۔
***