تين قصے ايك كہاني

مصنف : عثمان قاضي

سلسلہ : سماجیات

شمارہ : مئي 2023

سماجيات

تين قصے ايك كہاني

عثمان قاضي

پہلا قصہ، جو ایک ثقہ واقف حال کی زبانی سنا۔

ستر کی دہائی میں چند نوجوان امریکہ سے ایم بی اے کر کے لوٹے۔ ہمارے ہم عمر اور مزید معمر احباب کو یاد ہو گا کہ اس زمانے میں ایم بی اے میں داخلہ ملنا اور ڈگری حاصل کرنا قابلیت کی معراج سمجھا جاتا تھا اور ملک بھر میں دو یا تین ادارے یہ ڈگری کورس کروایا کرتے تھے جن میں داخلہ لینا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوا کرتا تھا۔ خیر، مذکورہ نوجوانوں نے مل کر ایک ترکیب سوچی۔ جائزہ لیا کہ اس ملک کے خصوصاً مردوں کی نظر میں سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے۔ ان کی نگہ انتخاب بال جھڑنے یا گنج پن پر ٹھہری۔ کہیں سے لاکھ ایک روپیہ ادھار پکڑا جس میں سے نناوے فی صد مارکیٹنگ کے لیے مختص کر دیا۔ چنانچہ ملک کے ہر چھوٹے بڑے شہر کی ہر دیوار پر جلی حروف میں ایک اشتہار لکھا نظر آنے لگا۔ ”زیڈال، گنج پر بال“ ۔ نیچے ایک پوسٹ باکس نمبر درج ہوتا تھا۔

یہ شاطر نوجوان صارف کی فریب پذیری کا، جسے انگریزی میں ”گلیبلیٹی“ کہتے ہیں، رمز پا گئے تھے اور اس ملک میں جادو اثر علاج بیچنے پر حکومتی کنٹرول کی ناپیدگی کا بھی اندازہ لگا لیا تھا۔ سنا ہے کہ ”دوا“ کی قیمت واجبی سی رکھی گئی تھی۔ درست حساب کتاب تو ہر دھوکہ دہی کے دھندے کے مانند پردہ اخفا میں ہے لیکن اندازہ کیجیے کہ اگر کروڑوں کی آبادی میں چند لاکھ نے بھی یہ طلسماتی ”دوا“ ، جو سادہ پانی اور خوشبو دار مواد کے آمیزے کے سوا کچھ نہ تھی، منگوائی ہو تو ان نوسر بازوں نے کتنی کمائی کی ہوگی۔ یہ اولوالعزم نوجوان تو بھاری خرچہ پانی نکال کر غائب ہو گئے لیکن مدت تک ”زیڈال۔ گنج پر بال“ کے اشتہارات ان کی ذہانت اور عوام الناس کی اجتماعی حماقت کی یادگار کے طور پر دیواروں پر موجود رہے جب تک ان کی جگہ دیگر، اسی نوعیت کے اشتہارات نے لے لی جیسے چار ماہ میں گارنٹی سے میٹرک پاس، عامل کامل بنگالی باوا، مردانہ کمزوری کا شرطیہ علاج وغیرہ

دوسرا قصہ، اس خادم کا چشم دید۔

یہ خادم اسی کی ہنگامہ خیز دہائی میں کراچی میں زیر تعلیم تھا۔ شہر ہمہ وقت لسانی فسادات کی زد پر رہتا تھا۔ گھر یا ہوسٹل سے باہر جاتے وقت یقین سے کہنا مشکل ہوتا تھا کہ بندہ اپنے پیروں پر چل کر واپس آئے گا یا چار لوگوں کے کندھوں یا ایمبولینس میں۔ ظاہر ہے کہ بد امنی کاروباری ماحول اور سرمایہ کاروں کے اعتماد کے زہرِ قاتل ہوتی ہے۔ سو بازار میں شدید مندی کا رجحان تقریباً مستقل جاری رہتا تھا۔ ایسے میں یکایک ہر اخبار کے صفحہ اول کے نصف پر رنگ برنگے اشتہارات نمودار ہونا شروع ہوئے جن میں لوگوں کو سرمایہ کاری کے عوض ماہانہ دس گیارہ فی صد تک منافع کی پیشکش کی جاتی تھی۔ مشتہر اپنا نام صمد دادا بھائی بتاتا تھا اور کمپنی غالباً ”صمد انویسٹمنٹ کمپنی“ کہلاتی تھی۔واضح رہے کہ ”دادا بھائی“ گجراتی برادری سے تعلق رکھنے والا ایک معزز صنعت کار خاندان تھا لیکن اشتہار دینے والے شخص کی تو کسی نے صورت بھی نہ دیکھی تھی، کجا یہ کہ کوئی اس کے اصل دادا بھائی خاندان سے تعلق کا سراغ لگاتا۔ کچھ عرصے بعد صمد دادا بھائی نے دہائیوں سے قائم مضبوط شہرت کے حامل کاروباری اداروں مثلاً بخاری موٹرز، نیشنل سلک وغیرہ کو ان کے نمایاں مقامات پر واقع دفاتر اور شو رومز سمیت منہ مانگی قیمتوں پر خریدنا شروع کر دیا اور ساتھ ہی دنیا کے ہر کاروبار مثلاً پارچہ جات، گاڑیوں، عمارتی تعمیر، حتی کہ ائر لائن تک میں شمولیت کا اعلان کرنا شروع دیا۔ اس کی دیکھا دیکھی بے شمار اسی نوعیت کی کمپنیاں کھمبی کی طرح اگ آئیں، جن میں الائنس موٹرز کا نام یاد پڑتا ہے چونکہ اس کے حلال اور حقیقی ہونے کی گواہی ایک موقر دائیں بازو کے ہفت روزے نے دی تھی۔

یاد پڑتا ہے کہ انگریزی اخبارات و جرائد میں کچھ صحافیوں اور ماہرین اقتصادیات نے اس کاروبار کے فراڈ ہونے سے لوگوں کو خبردار کرنے کی کوشش کی مگر بالعموم اخبارات و جرائد نے ان اداروں کے اشتہارات نمایاں انداز میں چھاپنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ عجیب بات یہ ہے کہ ان امور کو دیکھنے کے ذمہ دار سرکاری محکموں اور آسمان میں تھگلی لگانے کے دعوے دار جاسوسی کے اداروں پر بھی اس دوران خواب خرگوش کا عالم چھایا رہا۔ اس تشہیر سے متاثر ہو کر، ماہرین اور بہی خواہوں کے سمجھانے کے باوجود، لاکھوں نہیں تو ہزاروں لوگوں نے اپنی عمر بھر کی جمع پونجی صمد دادا بھائی کے حوالے کر دی۔

جیسا کہ اس طرز کی، بقول امریکی میڈیا، ”پونزی سکیمز“ کا مقدر ہے، ان تاش کے گھروں کا تار و پو بکھرنے لگا۔ صمد دادا بھائی کی شکل تو پہلے ہی کسی نے نہیں دیکھی تھی، ان کا نام بھی اچانک گدھے کے سر سے سینگ کے مانند غائب ہو گیا۔ اچانک قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی آنکھیں ملتے اٹھے اور کچھ چھوٹے موٹے فراڈیوں کو گرفتار کرنے کی کوشش کی۔ وہ تو اکثر بھاگ گئے، ان کے معمولی اہل کار پکڑے گئے۔ کمپنیوں کے دفاتر اور شو رومز پر ہجوم نے ہلا بول دیا اور جو جس کے ہاتھ لگا، لے کر فرار ہو گیا۔

ان ساری کہانی میں اس خادم کو جو بات ماورائے عقل لگی وہ یہ چشم دید مشاہدہ تھا کہ صمد داد بھائی کے لال کوٹھی واقع شاہراہ فیصل کے دفتر پر دو طویل قطاریں پہلو بہ پہلو لگی نظر آئیں۔ ایک قطار ان لوگوں کی جو اپنا ماہانہ منافع یا اصل زر وصول کرنے آئے تھے اور کھڑکی میں بیٹھے اہل کار انہیں حیلے بہانوں سے یا جزوی ادائیگی کر کے ٹال رہے تھے۔ دوسری، اتنی ہی طویل قطار ان لوگوں کی تھی جو اپنا سرمایہ کمپنی میں جمع کروانے آئے تھے۔ دونوں قطاروں کے بیچ کوئی پردہ یا دیوار نہ ہونے کے سبب رقم جمع کروانے والے، خالی ہاتھ لوٹنے والوں کی گالیاں، رونا دھونا، گلے شکوے، کوسنے صاف دیکھ اور سن سکتے تھے مگر کوئی شخص بھی کم از کم اس خادم کی وہاں موجودگی کے دوران سبق حاصل کر کے واپس ہوتا دکھائی نہ دیا۔بعد میں اسی کاروباری ماڈل کو کوآپریٹو، ڈبل شاہ، پری پیمنٹ سیلز، تاج کمپنی وغیرہ کے ناموں کے تحت بار بار آزمایا گیا۔ ہر بار نتیجہ لوگوں کے الو بننے اور حکومتی اداروں کے وقت پر سوئے رہنے اور بہت دیر میں حرکت میں آنے کی صورت میں نکلا جب کہ ان کاروباروں کے سرغنوں کے اکثر و بیشتر غائب ہو جانے کا رجحان بھی ہر موقع پر یکساں غالب نظر آیاتیسرا قصہ، یہ بھی چشم دید۔

اسی کی دہائی میں ہی جنوبی ایشیا کی اقوام کی تنظیم ”سارک“ کے ممالک کے مابین کھیلوں کے مقابلے ”سیف گیمز“ کے نام سے پاکستان میں منعقد ہوئے۔ اس میلے کے مدارالمہام ایک ریٹائرڈ جرنیل صاحب مقرر کیے گئے۔ اسی کے جلو میں اچانک ”سیور“ نامی ایک غیر سرکاری تنظیم منصہ شہود پر جلوہ گر ہوئی۔ مقصد اس تنظیم کا سیف گیمز میں معاونت فراہم کرنا بتایا گیا، اور اس کے مخفف نام میں کچھ مبہم سا اشارہ ریٹائرڈ لوگوں کی امداد کا بھی تھا۔ تنظیم کے عہدے داران، اہل کاران، طریقہ کار کا کسی کو کچھ علم نہ تھا۔ ایک بار پھر تمام اخبارات میں آدھے صفحہ اول کے اشتہارات کی بھرمار ہو گئی اور اس وقت کے واحد سرکاری ٹیلی ویژن چینل پر ہر چند منٹ بعد چیختے چنگھاڑتے اعلانات نشر ہونا شروع ہو گئے جن میں بیس روپے کے لاٹری ٹکٹ کے عوض ہزاروں روپوں کے انعامات کی نوید سنائی جاتی تھی۔ پھر چند روز بعد انعامات میں پندرہ بیس موٹر سائیکل بھی شامل ہو گئے۔ چند روز کے وقفے سے سوزوکی کاریں بطور ”بمپر پرائز“ اور بالآخر ”سپر بمپر پرائز“ کے طور پر ٹرک بھی۔

شاید موصول شدہ رقم اس کے پس پردہ کرداروں کی توقع سے کم نکلی، سو اچانک ایک روز ”سپر بمپر پرائز“ جیتنے والے کی تصاویر بھی اشتہار کا حصہ بنا دی گئی۔ وہ حریف گل نامی ایک غریب پشتون ٹرک ڈرائیور تھا۔ یاد پڑتا ہے کہ ایک دو بار اسے ٹیلی ویژن کے اشتہار میں بولتے دکھایا گیا جہاں وہ اپنی خوش قسمتی پر خدا شکر ادا کرتا تھا اور عوام کو ترغیب دلاتا تھا کہ وہ بھی قسمت آزمائی کریں۔

سیف گیمز بخیر و خوبی اختتام پذیر ہوئیں۔ یہ خادم بوجہ کم ہمتی لالچ سے نفور اور قمار بازی سے دور رہا ہے، سو کبھی بیس روپے تک لاٹری میں جھونکنے کا دل نہ چاہا، البتہ کئی جاننے والوں نے ہزاروں روپوں کے ٹکٹ حریف گل بننے کی آس میں خرید رکھے تھے۔ چند ایک کو گھٹیا معیار کی لالو کھیت ساختہ استریاں ملیں اور اکثر کو کچھ موصول نہیں ہوا۔ کئی سال بعد یہ خادم سرکاری کام سے کراچی گیا تو شیریں جناح کالونی میں ایک پرانے دوست نے دعوت پر بلایا۔ میزبان نے وہاں مدعو ایک مفلوک الحال بزرگ کی جانب اشارہ کر کے پوچھا کہ ”پہچانا؟“ ۔ پھر خود ہی بتا دیا کہ یہ ٹرک کا انعام جیتنے والے حریف گل کاکا ہیں۔

پتا چلا کہ جب حریف گل انعام وصول کرنے گیا تو پہلے تو سیور والوں نے حیلے بہانوں سے کئی چکر لگوائے۔ پھر بتایا گیا کہ سنٹرل بورڈ آف ریونیو انعام کی رقم پر بھاری ٹیکس لے گا، جو پیشگی جمع کروانا ہو گا۔ پھر ٹرک کی کسٹم ڈیوٹی اور دیگر ٹیکس جمع کروانے ہوں گے۔ آخر میں تو شاید ٹرک کے گیئر کا ڈنڈا ہی بچتا جسے لینے میں حریف گل نے چنداں دل چسپی نہیں دکھائی۔ بس اس دوران چکر لگا لگا کر اس کی جوتیاں ضرور گھسیں اور دیہاڑیوں کا حرج اس پر مستزاد ہوا۔ پھر ایک روز سیور والے بھی اپنی دوائے درد دل کی دکان بڑھا گئے۔

یہ خادم اقتصادیات کا طالب علم ہونے کی حیثیت سے قبلہ ایڈم سمتھ کا معترف ہے اور ان کے ”عقلیت پسند“ یا ریشنل انسان کے تصور کا عمومی طور پر قائل ہے، لیکن درج بالا قصوں اور ایسے ہی کئی اور مظاہر کی روشنی میں اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ اگر اجتماعی نفسیات کے ماہرین کی خدمات حاصل کی جائیں جو معاشرے کے افراد کی نا آسودگیوں اور انہیں رجھانے والے عوامل کا تجزیہ کر کے اچھی سی پیکیجنگ اور مارکیٹنگ کی حکمت عملی تیار کر دیں، اس پر کھلا خرچہ کیا جائے اور ریاست کے اہم ستونوں کی بے حسی یا جلی و خفی عملی مدد موافق ہو، تو سماج کی اکثریت کی عقلیت پسندی یا ریشنیلیٹی ہوا ہو جاتی ہے۔ کسی مبہم بیانیے کو مارکیٹنگ میں بھاری سرمایہ کاری اور ناقدین کا ناطقہ بند کر کے ایسا نسخہ عشق بنایا جا سکتا ہے جس کے مقابلے میں کم از کم وقتی طور پر عقل کی کتاب طاق پر جیوں دھری تھی تیوں ہی دھری رہ جاتی ہے۔