سر سيد كے تصور اسلام كي اہميت

مصنف : آل احمد سرور

سلسلہ : فکر و نظر

شمارہ : مئي 2023

فكر و نظر

سرسیّد احمد خان کے اسلام کے تصوّر کی اہمیٔت

آلِ احمد سرور

میں اکثر اپنے آپ سے یہ سوال کرتا رہا ہوں کہ انسانی تہذیب و تمدّن کے ارتقاء کے ساتھ مذہب اور مذہبی انسان کی اہمیّت کیوں کم ہوتی جا رہی ہے۔ کیوں آج کے بیشتر مفکروں کے یہاں مذہب سے بیگانگی بلکہ بیزاری کا میلان زیادہ نمایاں ہے۔ کیوں مادی وسائل میں ترقی، علم و دانش کے عروج ، سائنس اور ٹيكنالوجی کے فروغ کے ساتھ مذہب کے ہمہ گیر اثرات اور ان کی انسان کی پوری زندگی کو متاثر کرنے کی صلاحیت کم ہوتی جا رہی ہے۔ یہاں یہ سوال نہیں ہے کہ اب بھی کروڑوں انسان کسی نہ کسی مذہب کو مانتے ہیں اور لاکھوں اپنی زندگی کو اپنی بصیرت کے مطابق اس کے سانچے میں ڈھالے ہوئے ہیں۔ یا ڈھالنا چاہتے ہیں۔ یا دانش ور اور مفکر ایک مذہبی بنیاد، ایک روحانی پیاس کی اہمیّت تسلیم کرتے ہیں یا کچھ مورخ ٹوآئن بی کی طرح انسانیت کی تاریخ کا خاکہ مرتب کرتے وقت ایک مذہبی رنگ کو خاصی اہمیت دیتے ہیں۔ یا کچھ سائنس دان اور ادیب سائنس اور روحانیت کا ملاپ کرانا چاہتے ہیں۔ میں ایمانداری سے یہ محسوس کرتا ہوں موجودہ ذہن و فکر گو سائنسی ترقی اور مادی خوش حالی کے جدید ترین نمونوں سے خوش نہیں ہے۔ پھر بھی مذہب کی ضرورت اور اہمیت کا وہ عام احساس آج نہیں پایا جاتا جو آج سے سو سال پیشتر تھا اور نہ اب مذہب سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ آج کے ذہن کے سارے سوالات کا تسلّی بخش جواب دے سکتا ہے۔ میں نے انسانی تہذیب کے ارتقاء، قوموں کی تاریخ، افکار و اقدار کی تاریخ کا جو تھوڑا بہت مطالعہ کیا ہے اور مجھے یہ اعتراف ہے کہ یہ مطالعہ بہت گہرا نہیں ہے۔ اس نے مجھے یہ نتیجہ نکالنے پر مجبور کیا کہ صنعتی انقلاب کے بعد  انسان نے جو ترقی کی ہے اس میں مذہب کو بہت کم دخل رہا ہے بلکہ عام طور پر مذہب یا رواجی مذہب یا کلیسا یا علماء یا برہمن اس ترقی کے مخالف رہے ہیں۔ اور یہ ترقی ان کی مخالفت کے باوجود ہوتی ہے۔ اس وجہ سے مجھے ایسا خیال ہوتا ہے کہ ہر دین جب بنا تو جہاں اس نے قدرتی طور پر زندگی کے لئے ایک نظام اوقات بنایا وہاں اس نے ایک طرف اپنے آپ کو محصور کر لیا یا سکیڑ لیا اور دوسری طرف یہ شریعت کا قانون ایک خاص طبقے کی سپر بن گیا جس نے اپنا اقتدار قائم رکھنے کے لئے ان قوانین کی روح کو نظر انداز کر دیا۔اور ان کی منجمد تعبیرات پر اصرار کیا جو وقت کے بدل جانے کے ساتھ اپنی حیات بخش اور حیات آفرین صلاحیتیں کھو بیٹھتی تھیں اور اس لئے انسان کی مادی ترقی ، تسخیر فطرت، تسخیر کائنات، مشینی نظام کی سہولتوں اور سماجی فلاح کے منصوبوں میں حارج ہوتی تھیں اس لئے میرے نزدیک موجودہ دور کے امراض کا علاج مذہب کے اس پرانے نُسخے سے نہیں ہو سکتا جس کا نام شریعت ہے کیوں کہ موجودہ دور کی برکتیں اور لعنتیں مذہب سے قرب یا بیگانگی کی وجہ سے نہیں ہیں بلکہ وہ قانون قدرت کے مطابق موجودہ فکر کی پیداوار ہیں۔ ہر تحریک اپنے ساتھ کچھ برکتیں اور زحمتیں لاتی ہے۔ بلکہ ہر برکت کچھ عرصے بعد اپنی حد سے بڑھ کر ایک زحمت ہو جاتی ہے۔ اس طرح کچھ برکتوں کے ساتھ ایک دوسرے قسم کی زحمتیں چپکی ہوتی ہیں۔ مشین ہزاروں آدمیوں کے مہینوں کے کام کو منٹوں میں کر دیتی ہے۔ اس کی وجہ سے فرصت ( LEISURE ) کا مسلہ پیدا ہوتا ہے اور فرصت تفریح چاہتی ہے، دماغ سوزی نہیں چاہتی۔ یہ تفریح چوں کہ ذہن کو بیدار نہیں کرتی بلکہ سلاتی ہے اس لئے ایک قسم کی افیون بن جاتی ہے جو بالآخر اعصاب کو بے معنی مہیجات کا عادی بنا دیتی ہے۔ اس کا علاج فرصت کو کم کرنے یا تفریح کو ختم کرنے میں نہیں بلکہ ایسی  معنویت کی حامل تفریحات کو عام کرنے میں ہے جو اقدار کے احساس کو باقی رکھیں اور اعصاب کو امراض کی طرف نہ لے جائیں-

مذہب کے تین بڑے پہلو کہے جا سکتے ہیں۔ ایک عقائد، دوسرا عبادات، تیسرا معاملات۔ ظاہر ہے عقائد کے سلسلے میں بنیادی عقیدہ توحید اور رسالت کا ہے۔ ایمان کے لئے اقرار باللسان کے ساتھ تصدیق بالقلب کی بھی ضرورت ہے لیکن چونکہ دل کا حال ہم نہیں جانتے اس لئے سوائے اس کے کہ ہم اقرار باللسان کو مان لیں ہمارے لئے کوئی چارۂ کار نہیں ہے یعنی جو اپنے کو مسلمان کہتا ہے وہ مسلمان ہے اور ہمیں اس کے اس قول پر شبہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ رہا عبادات کا معاملہ تو یہ عبادات دو قسم کی ہیں۔ ایک انفرادی عبادتیں اور ایک اجتماعی عبادتیں۔ جس طرح عقیدے کے معاملے میں صدیوں سے مسلمانوں نے تکفیر کے سہارے ایک دوسرے کو گرانے کی کوشش کی ہے اور اس کی وجہ سے بہت سے فرقوں کا آغاز ہوا ہے۔ اسی طرح عبادات کے معاملے میں افراط و تفریط ہوئی ہے اور امام کی داڑھی پر اصرار یا لاؤڈ سپیکر کے بغیر نماز پر اصرار یا آمین بالجہر کی مخالفت یا موافقت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جس طرح عقیدے کے معاملے میں بنیادی شرط کو کافی نہیں سمجھا گیا اسی طرح عبادات کے سلسلے میں دین کی روح کے بجائے مفتی کے فتوے کو زیادہ اہمیت دی گئی۔ روئت ہلال کا مسٔلہ اس کا مزید ثبوت بہم پہنچاتا ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ عقیدے کے معاملے میں اگرچہ دنیوی زندگی کی سہولتوں پر اوّل نظر تھی مگر بعد کے شارحین نے ایک فارغ البال طبقے کے لئے عقائد اور عبادات کے ایسے قوانین بنائے کہ دنیوی زندگی کے مصروفیات میں خلل پڑنے لگا بچپن میں میں نے پڑھا تھا کہ حضرت معاذ بن جبلؓ صبح کی نماز میں بڑی لمبی لمبی سورتیں پڑھتے تھے ایک صحابی جنہیں اپنے کام پر جانا تھا نیت توڑ کر اور صف چھوڑ کر چلے گئے۔ ان سے پوچھا گیا اور بالآخر معاملہ رسول اللہ تک پہنچا۔ آپ نے حضرت معاذ بن جبل کو طویل صورتیں پڑھنے سے منع کیا۔ میرے نزدیک اسلام کی حیات بخش اور حیات آفرین طاقت کو ان مبصرین اور شارحین نے بہت نقصان پہنچایا کیوں کہ ان کی نظر مذہب کے تیسرے پہلو یعنی معاملات پر اتنی گہری نہ تھی۔

معاملات کا تعلق صرف ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان سے رشتے تک نہیں ہے بلکہ اس میں غیر مسلموں سے رشتہ بھی آ جاتا ہے۔ معاملات کے سلسلے میں اسلام کے اصول عدل اور مساوات پر مبنی ہیں مگر عملی زندگی میں پہلے بادشاہت نے، پھر فتوحات نے پھر رسم و رواج نے اس حُسنِ سلوک پر ایسی گرد چڑھا دی کہ معاملات کے دور رس اثرات کو نظر انداز کر کے صرف عقائد اور عبادات کی صحت اور ایک خاص معیار کے مطابق صحت پر زور دیا گیا۔ معاملات میں معاشرت معیشت کا پورا نظام، سیاسی اور سماجی زندگی کے سبھی عنوان آ جاتے ہیں۔ سماجی تبدیلیوں کے ساتھ معاملات کے اس تصور میں تبدیلی ضروری تھی مگر مجموعی طور پر اس تبدیلی کی مخالفت کی گئی اور جن لوگوں نے اس تبدیلی پر زور دیا، انہیں کافر و زندیق کہا گیا۔ یہاں اس حقیقت پر زور دینا مقصود ہے کہ سامنتی یا جاگیردارانہ نظام کے تقاضے اور تھے اور صنعتی نظام کے اور ، اور سوشلسٹ نظام کے اور ہیں۔ لیکن تاریخ عالم کا یہ ایک عجوبہ ہے کہ جس طرح مغرب میں کلیسا نے عام طور پر بر سرِ اقتدار طبقے کا ساتھ دیا اسی طرح اسلام کی تاریخ میں بھی چند نفوس قدسیہ اور آزادیوں کو چھوڑ کر عام طور پر ایسے علماء بر سرِ اقتدار طبقے کو جلد میسر آ گئے جو بجائے بنیادی مسائل پر غور کرنے کے اور سماجی تبدیلیوں کا ساتھ دینے کے عام مسلمانوں پر اپنا اثر قائم رکھنے کے لئے فقہ کے خاص اصول کی پابندی پر زور دیتے رہے یا اپنے محدود دائرے میں اپنی قیادت کو کافی سمجھتے رہے اور دنیاوی معاملات میں قیادت کو بادشاہوں یا فاتحوں یا فوجیوں پر چھوڑ کر مطمئن ہو گئے۔ دین کی سلامتی کے لئے اس دنیوی پہلو پر جو توجہ ضروری تھی وہ نہ ہو سکی۔ مثلاً جمہوریت کا موجودہ تصور اسلام میں نہیں ہے مگر جمہوریت کی روح موجود ہے جب انقلاب فرانس کے بعد مساوات، اخوت، حریت کا نعرہ بلند ہوا اور اس سے پوری دنیا متاثر ہوئی تو اس کی گونج اوّل تو اسلامی دنیا تک دیر میں پہنچی۔ دوسرے قدیم نظامِ تعلیم نے چونکہ ذہن کو فروعات میں الجھنے کا عادی بنا دیا تھا اور علوم دینیہ کی تحصيل ایک ایسا طبقہ کرتا تھا جو دنیوی علوم کے بڑھتے ہوئے سرمائے سے کماحقہُ واقف نہ تھا اس لئے جس طرح برہمن اپنی ذات کے اقتدار کو باقی رکھنے کے لئے سنسکرت کی تعلیم کو عام نہیں کرنا نہیں چاہتا تھا۔ اسی طرح علماء بھی علوم دینیہ کی تعلیم صرف ایک خاص طبقے کے اقتدار کو برقرار رکھنے کے لئے چاہتے تھے۔ اس کا عام ہونا اور دنیوی علوم سے مربوط ہونا انہیں گوارا نہ تھا۔ اپنے استاد کے نام اورنگ زیب کا خط اس کی بہت اچھی مثال ہے۔ شاہ ولی اللہ نے بھی اپنے رسالے "الانصاف فی بیان سبب الاختلاف" میں ایسے علماء و فضلا کے متعلق ایک دلچسپ بات کہی۔

"خلفائے راشدین کا مبارک دور جب ختم ہوگیا تو زمامِ خلافت ایسے لوگوں کے ہاتھ میں آئی جو نہ اس امانت کو اٹھانے کی صلاحیت رکھتے تھے اور نہ ان میں فتاویٰ اور احکامِ شریعت سے گہرا لگاو تھا اس لئے وہ مقدمات فیصل کرنے کے لئے اور قضائے شرعی جاری کے لئے مجبور ہوئے کہ فقہا سے مدد لیں اور ہر وقت انہیں اپنے ساتھ رکھیں۔۔۔۔۔ جاہ پسند لوگوں نے جب دیکھا کہ ان فقہا کی بڑی عزّت ہے اور وہ اپنے اعراض و استغنا کے باوجود اربابِ حکومت کے مطلوب خاطر بنے ہوئے ہیں تو ان کے دلوں میں اس علم دین کے حاصل کرنے کا انتہائی شوق پیدا ہو گیا تا کہ اسے بازار میں لا کر عزّت و شرف کا سودا کریں۔ قیل و قال اور اعتراض و جوابات کا بازار گرم ہو چُکا تھا اور بحث و مناظرے کی راہیں ہموار ہو چکی تھیں۔ ان فُقہا کے لئے یہ چیزیں خاص توجہ اور دلچسپی کا مرکز بن گئیں اور ایک مدّت تک بنی رہیں۔ یہاں تک کہ ایسے خلفاء اور سلاطین پیدا ہوئے جو فقہی مناظروں کے بڑے دلدادہ تھے جنہیں اس وضاحت کے سننے کا بڑا شوق تھا کہ فلاں مسٔلے میں اولیٰ مسلک مسلک حنفی ہے یا مسلک شافعی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ تمام ارباب فن کلام اور دیگر علوم کے میدانِ تحقیق و جُستجو سے نکل کر اختلاقی مسائل فقہ کے معرکے میں اتر آئے۔ ۔۔۔۔ ستم یہ کہ ان کا خیال تھا کہ وہ اس طرح شریعت کے اسرار و دقائق کا استنباط کر رہے ہیں۔۔۔۔ اس خیال کے ماتحت انہوں نے تصنیفات اور استنباطات کا ڈھیر لگا دیا اور بحث و جدال کے گوناگوں اسلحے ایجاد کر ڈالے۔ افسوس کہ وہ ا ب تک اسی روش پر چلے جا رہے ہیں۔ نہیں معلوم اب مستقبل میں كيا ہونے والا ہے""اقتباس از علی گڑھ تحریک/105، 106)

میں در اصل اس بات پر زور دینا چاہتا ہوں کہ یورپ نے ازمنہ وسطیٰ کی جن ذہنی پابندیوں اور فکر پر احتساب سے نشاۃ الثانیہ کے دور میں آزادی حاصل کر لی اور اسلامی دنیا نے یہ کوشش شاہ ولی اللہ، سرسید اور جمال الدین افغانی کے ذریعہ اپنے دائرے میں کی مگر در اصل مجموعی طور پر یہ احتساب اور پابندی ابھی تک موجود ہے۔ میرے نزدیک یورپ میں دور جدید صنعتی انقلاب انقلاب فرانس، انیسویں صدی کی سائنس، مارکسی تعلیم، روسی انقلاب اور بیسیوں صدی کی ساری ذہنی و فکری ترقی اس ذہنی آزادی کی مرہون ِمنّت ہے جس نے ایک طرف حریت فکر پر پابندی کو ختم کیا ، دوسری طرف سماجی اور سیاسی زندگی میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کی فلاح کو قدر بنایا اور زیادہ سے زیادہ لوگوں میں ایسی تعلیم رائج کی کہ وہ خدمت خلق ، محبت اور سماجی انصاف کو عام کرنے میں لگ جائیں۔ اسلامی دنیا میں مجموعی طور پر نشاۃ ثانیہ کا دور کہیں پورے طور پر نہیں آیا۔ جہاں آیا وہاں چند ہی معاملات میں نشاۃ ثانیہ کے ثمرات ظہور میں آ سکے۔ دوسرے اسلامی دنیا نے صنعت و حرفت کی طرف پوری توجہ نہ کی۔ نہ دنیوی علوم کے فروغ میں دل کھول کر حصّہ لیا۔ اس نے انجینئری، ڈاکٹری، جراحی کے کاروبار میں غیر مسلموں کی اجارہ داری تسلیم کر لی۔اپنے انجینئیر، ڈاکٹر، جرّاح اور اہل حرفہ پیدا نہیں کئے۔ ان کے مقابلے میں دربار اور فوج کو زیادہ اہمیت دی۔ زمیندار کو زمین دے کر وہ بے فکر ہو گئی۔ اس زمین کے مناسب استعمال اور پیداوار کے بڑھانے اور کانوں کے استعمال پر پوری توجہ نہیں کی۔ آخر یہ کیا بات ہے کہ لوہے سے صرف ہل اور تلواریں بنائی گئیں اور سونے چاندی اور ہیرے نکال کر دولت جمع کی گئی مگر زیر زمین معدنیاتی خزانے پر اس کی نظر کم گئی، علماء سے توقع کی جا سکتی تھی کہ وہ اسلام کی روح کو اور اس کی حیات بخش اور حیات آفرین قوت کو عام کر کے، عام انسانی دنیا میں زندگی کی رَو دوڑا دیں گے۔ مگر وہ عموماً اس جاگیر دارانہ نظام اور اس شہنشائیت کی پشت پناہی میں لگے رہے جو رفتہ رفتہ بے وقت کی راگنی ہوتی جا رہی تھی۔

میرے نزدیک ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد قدیم ہندوستان کے ذات پات میں جکڑے ہوئے اور تنگ حصاروں میں پناہ گزیں لوگوں کے لئے ایک تازہ ہوا کا جھونکا تھی۔ جو نظام مسلمان اپنے ساتھ لائے تھے ، اس میں نسبتاً علم کو عام کرنے اور سمان کی بہتر تنظیم کی صلاحیت تھی۔ مگر جب یہ صلاحیت جاتی رہی تو قدیم ہندوستان اور ازمنۂ وُسطیٰ کے ہندوستان دونوں کو مغرب کے زیادہ فعال ، زیادہ ہمہ گیر، زیادہ حیات آفرین، زیادہ سماجی خیر اور دنیوی فلاح رکھنے والے نظریات جن کے پیچھے روشن خیالی کے دور ( Age of enlightenment ) کی روشنی کی کرن تھی۔اس پس ماندہ، جامد، تنگ نظر، اختلافات، رنجشوں، خود غرضیوں اور فروعات میں گھرے ہوئے نظام کو شکست دے دی۔ یہ بات کسی غلامانہ ذہن یا مغرب سے مرعوبیت کی بنا پر نہیں کہی جا رہی ہے۔ یہ اس وجہ سے کہی جا رہی ہے کہ میرے نزدیک انسانی تہذیب ایک اکائی ہے۔ اس زمانے میں اس کی قیادت ایشیا اور افریقہ نے کی۔ پھر یہ قیادت عربوں کے ذریعے سے یورپ کو ملی اور آج تک یورپ اور امریکہ نے اس کارواں کی قیادت کی ہے۔اس کا ثبوت یہ ہے کہ فکر کے دائرے میں بھی مغربی حلقے کا کارنامہ کیفیت و کمیت کے لحاظ سے کسی سے کم نہیں ہے۔ علوم کے لحاظ سے اس کا سرمایہ دوسری تمام تہذیبوں کے سرمائے پر فوقیت لے گیا ہے۔ فطرت کی تسخیر اور مادّی وسائل کی فراوانی کے لحاظ سے اس کا جواب نہیں ہے۔ سائنس اور ٹکنالوجی میں اس نے صدیوں کا کام برسوں میں کیا ہے۔ اگر صرف اسلامی علوم کو لیا جائے تو یورپ اور امریکہ نے اسلام پر جو تحقیق کی ہے وہ باوجود بعض فطری مجبوریوں کے مجموعی طور پر اسلامی مورخوں اور محققوں سے بن نہ سکی۔ میرے نزدیک ان سب ترقیوں کا راز حُریّتِ فکر میں ہے اور جب تک اسلامی دنیا حُریّتِ فکر کو نہ اپنائے گی دنیا اور دین دونوں کے دائرے میں کوئی قابل ذکر ترقی نہ کر سکے گی۔ اس لئے میں نے آج کی گفتگو کے لئے سرسید کے رول کا ذکر ضروری سمجھا ۔ سرسید کی دوسری خدمات بڑی عظیم الشان ہیں۔ مگر میرے نزدیک ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے اس عقلیت کو جو روشن خیالی کے دور نے مغرب کو عطا کی تھی ، اپنا رہبر بنایا، علم کی جُستجو کی اور عقل اور علم دونوں کو فطرت یا نیچر میں سمو دیا۔ "فطرت علم کا سرچشمہ ہے اور عقل کی کسوٹی، فطرت سمجھ دار ہے اور فطرت مہربان۔ اگر آدمی فطرت کی بات پر کان دھرے تو وہ کبھی بہک نہیں سکتا۔ اسے تو فطرت کے ارشادات کی پابندی کرنا ہے۔"

سرسید تحریک نے رفتہ رفتہ اپنے اثرات دکھائے مگر سرسید کی عظیم الشان ذہنی بیداری کی مہم کا بنیادی کام مسلمانوں کی ذہنی تربیت تھی۔ جس کے لئے رواجی مذہب پر انہیں کاری ضرب لگانی پڑی لیکن وہ ایم اے او کالج کے قصر بلند کی زینت بن کر رہ گئی۔ ہندوستانی مسلمانوں کے ذہن پر بیسویں صدی میں سب سے گہرے اثرات امیر علی، ابوالکلام آزاد ، نیاز فتحپوری اور اقبال کے پڑے ہیں۔چاروں نے سرسید سے فیض حاصل کیا۔ چاروں کو سرسید کی تحریک کی روشنی ہی میں سمجھا جا سکتا ہے مگر چاروں کا علی گڑھ سے کوئی تعلق نہ تھا۔ وہ ایم اے او کالج جس کی ہمارے رشید صاحب تعریف کرتے نہیں تھکتے مسلمانوں کی ذہنی قیادت اس لئے نہ کر سکا کہ سرسید نے اس کی خاطر پہلے تو "تہذیب الاخلاق" میں اختلافی مسائل پر مضامین بند کرنے کا وعدہ کیا اور پھر کالج کی مذہبی تعلیم اس طبقے کے حوالے کر دی جس کی مخالفت وہ زور شور سے اپنی تحریروں میں کر چکے تھے۔ ظاہر ہے کہ مغربی علوم کی تعلیم اور انگریزی کے ذریعے سے تعلیم کے اچھے نتائج بھی برآمد ہوئےمگر سرسید کا بنیادی کام پورا نہ ہو سکا۔ یہ بنیادی کام ہندوستانی مسلمانوں کو ازمنہ وسطیٰ کے ذہن سے نکال کر روشن خیالی کے دور میں لانے کا تھا۔ سرسید نے کالج کا جو ابتدائی خاکہ بنایا تھا اس میں بھی یہ گنجائش تھی کہ حالات حاضرہ سے باخبر علما پیدا کئے جا سکیں مگر اس خاکے کے صرف پہلے حصہ پر عمل ہو سکا، دوسرے اور تیسرے حصے پر عمل کی نوبت ہی نہیں آئی۔ وہ خاکہ یہ تھا۔ پہلا مدرسہ انگریزی کا ہو گا۔ اس میں بالکل انگریزی پڑھائی جائے گی اور تمام علوم و فنون جو کچھ اس میں تعلیم میں ہو گا سب انگریزی میں ہو گا۔ اس مدرسے کے لئے دو مقصد سید صاحب کے پیشِ نظر تھے۔ ایک یہ کہ جو لوگ سرکاری عہدوں اور عزّتوں کے خواہاں ہیں وہ اس سے فائدہ اٹھائیں۔ دوسرے مسلمانوں میں بھی ایک جماعت اس قسم کی ہو کہ وہ نہائت اعلیٰ درجہ کا کمال انگریزی میں حاصل کر لے کیوں کہ اس جماعت سے ملک اور ملک کے لوگوں کو او ر ترقی تعلیم کو بہت فائدہ ہو گا۔ اور وہ ذریعہ اور منبع شیوع علم کے بن جاویں گے ان کی بدولت تمام علوم انگریزی سے اردو میں اجاگر کریں گے اور ان کی ذات سے ملک کو منفعت عظیم پہنچے گی۔دوسرا اردو مدرسہ۔۔ اس میں تمام علوم و فنون بہ زبان اردو پڑھائے جائیں گے۔تیسرا عربی فارسی مدرسہ۔۔ اس میں ان انگریزی اور اردو مدرسوں کے فارغ التحصیل طلبہ کو جنہوں نے علوم و فنون پڑھ لینے کے بعد عربی یا فارسی لٹریچر و علوم میں کمال حاصل کرنے کا ارادہ کیا ہو گا تو ان کی پڑھائی فارسی عربی میں اعلیٰ درجہ تک اس مدرسہ میں ہو گی۔ہمیں معلوم ہے کہ نہ اردو کا مدسہ قائم ہوا نہ فارسی عربی کا اور انگریزی مدرسہ کا بھی صرف پہلا مقصد پورا ہوا۔ ڈاکٹر عابد حسین نے اپنی کتاب ""ہندوستانی قومیت اور قومی تہذیب" میں لکھا ہے: "علی گڑھ اس طبقے کے لوگوں کی آرزوؤں اور حوصلوں کا آئینہ بن گیا۔ اس میں خوش حال خاندانوں کے لڑکے بقدر ضرورت جدید تعلیم حاصل کرتے تھے لیکن زیادہ زور ایسے وضع و لباس، اخلاق و آداب، کھیلوں اور ورزشوں پر دیا جاتا تھا جن کے ذریعے سے انگریز حاکموں کی خوشنودی اور قُربت حاصل ہو سکے سرسید کی اصلاحی تحریک کے دوسرے پہلوؤں سے علی گڑھ کا مدرسہ قریب قریب بے تعلق رہا۔ ان کے مذہبی افکار تو در اصل مسلمانوں کے کسی طبقے میں مقبول ہی نہ ہوئے لیکن اردو ادب پر اور مسلمانوں کی عام ذہنی زندگی پر جو زبردست اثرات انہوں نے ڈالے وہ زیادہ تر براہ راست بغیر علی گڑھ کے توسط کے ، انفرادی طور پر علی گڑھ کے بعض طلباء میں جنہیں سرسید سے ذاتی سابقہ رہا، ان کے علمی ذوق ، ان کی آزادئ فکر، ان کے جوش اصلاح اور حکومت کے مقابلے میں ان کے وقار اور خود داری کا شائبہ ضرور پیدا ہو گیا۔

سرسید کے متعلق ان کے دور کے خاصے پڑھے لکھے اور سمجھ دار لوگوں کا عام تاثر اکبر کے ان اشعار سے واضح ہو جائے گا۔

حاضر ہوا میں خدمتِ سید میں ایک رات افسوس ہے کہ ہو نہ سکی کچھ زیادہ بات

بولے کہ تجھ پہ دین کی اصلاح فرض ہے میں چل دیا یہ کہ کے کہ آداب عرض ہے

آئیے دیکھیں کہ اکبرنے جسے " دین کی اصلاح" کہا ہے اور جسے اس زمانے میں نیچریت بے دینی، الحاد اور کفر کا نام بھی دیا گیا تھا، در اصل کیا تھی۔

"خدا خالق و صانع تمام کائنات کا ہے اس کا کلام اور جس کو اس نے رسالت پر مبعوث کیا ہرگز خلافتِ حقیقت و خلاف واقعہ نہیں ہو سکتا۔ کلام مجید کلامِ الٰہی ہے ۔ قرآن مجید کی جو آیات ہمیں خلافِ حقیقت معلوم ہوتی ہیں یا تو ہم نے ان کا مطلب غلط سمجھا ہے یا حقیقت یا واقعہ کو غلط سمجھا ہے۔ دینیات میں سُنتِ نبوی کی اطاعت میں ہم مجبور ہیں اور دنیوی امور میں مجاز احکامِ منصوصہ احکامِ دین بالیقین ہیں اور باقی مسائل اجتہادی اور قیاسی سب ظنی ہیں"

عقل جس سے سرسید کی مراد Rationalism نہیں بلکہ تجرباتی عقل یعنی Empirical Reason ہے ، نیچر اور قوانین کو سمجھنے میں ہماری مدد کر سکتی ہے"شخصی عقل اور انسانی عقل یا عقل ِ کلی میں فرق ہے۔ ایک شخص کی عقل کی غلطی دوسرے شخص کی عقل سے اور ایک زمانے کی عقلوں کی غلطی دوسرے زمانے کی عقلوں کی غلطی سے صحیح ہو جاتی ہے۔ اس تجرباتی عقل کے علاوہ کوئی اور رہ نما نہیں ہونا چاہئیے۔ اجماع امت یا اجتہاد ائمہ واجب التعمیل نہیں ہے۔ ہر تعلیم یافتہ اور صحیح العقل مسلمان اس بات کا حق دار ہے کہ ان مسائل میں جن کی بابت کوئی نصّ صریحی موجود نہیں ہے، اپنی عقل اور بصیرت کے مطابق اسلام کی تعبیر کرے"۔

"مذہب اسلام ان بندشوں کو توڑنے آیا تھا جو فطرت یا نیچر پر لوگوں نے باندھی تھیں اور کوئی نئی بندش نیچر یا خدا کے دین پر باندھنے نہیں آیا۔ اس نے قیدیوں کی بیڑیوں کو توڑا ہے اور کوئی نئی بیڑی یا ہتھکڑی نہیں ڈالی۔ اس نے پورا حق آزادی کا فطرت، نیچر کے مطابق لوگوں کو دیا ہے اور اس کو ان کا دین بلکہ خدا كا دین بتایا ہے۔ بس اوپر کی بندش کو توڑنے دو اور ٹھیٹ مذہب اسلام کو، نیچر کو، خدا کے دین کو ، خدا کے مذہب کو چمکنے کو۔ جو چمکے گا اور کسی کے چھپائے نہیں چُھپے گا"(مضامین سرسید شائع کردہ شیخ محمد اسماعیل، لاہور حصہ پنژدہم ص 147)

انہوں نے تہذیب الاخلاق کے پہلے پرچے میں ہندوستان کے مسلمانوں کو کامل درجے کی تہذیب اختیار کرنے پر راغب کیا تھا۔ تہذیب سے ان کی مراد انسان کے تمام افعال ارادی اور اخلاق اور معاملات اور معاشرت، تمدن، طریقہ تمدن اور صرف اوقات اور علوم اور ہر قسم کے فنون و ہنر کو اعلیٰ درجہ کی عمدگی پر پہنچانا اور ان کو نہائت خوبی اور خوش اسلوبی سے برتنا تھی ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے ان کے نزدیک ان چیزوں میں تہذیب کی ضرورت شدید تھی-

آزادی رائے، درستیٔ عقائد مذہبی، خیالات و افعال مذہبی، تدقیق، بعض مسائل مذہبی، تصحیح بعض مسائل مذہبی، تعلیم اطفال، سامان تعلیم، عورتوں کی تعلیم نیز فن و حرفہ۔ سب کے بعد اخلاقی، معاشرتی اور معاشی زندگی کی بیس اور شقوں کا ذکر ہے جس کی اصلاح و ترقی "تہذیب الاخلاق" کے مقاصد میں داخل تھی۔ ان کے عنوانات حسب ِذیل تھے۔

خود غرضی، عزّت اور غیرت، ضبط اوقات، اخلاق، صدق مقال، دوستوں سے راہ و رسم، کلام، لہجہ، طریق زندگی، صفائی طرزِ لباس، طریقِ اکل و شرب، تدبیر منزل (انتظامِ خانہ داری)رفاہ عورتوں کی حالت میں، کثرت ازدواج، غلامی، رسوماتِ شادی، رسوماتِ غمی، ترقی زراعت، تجارت

میں نے یہ عنوانات اس لئے بیان کر دئیے کہ اس سے سرسید کی نظر کی جامعیت کا اندازہ ہو جائے اور یہ بھی معلوم ہو جائے کہ عقائد، عبادات، معاملات تینوں پر ان کی نظر تھی۔ وہ ایسے عقیدے پر زور دینا چاہتے تھے۔ جس کے ذریعہ سے معاملات پر حالات حاضرہ کی روشنی میں پوری توجہ کی گنجائش نکل سکے۔ اور محض فقہا و علماء کے نظریات یا رسم و رواج کے بندھنوں کی وجہ سے پوری قوم کی ترقی میں خلل نہ پڑے۔ سرسید نے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ اس زمانے کے علماء تک شریعت کے بعض احکامات کی تعمیل کو گول کر جاتے تھے۔ چنانچہ شاہ عبد العزیز اپنی بیوہ بہن کو تفسیر قرآن کا درس دیتے وقت نکاح بیوگان کے احکام حذف کر جاتے تھے۔ سرسید کا خیال یہ تھا کہ قرآن کی رو سے ایک جورو ہونی چاہئیے اور ایک سے زیادہ کی اجازت بعض خاص صورتوں کے لئے ہے ورنہ خدا کو معلوم ہے کہ ایک سے زیادہ عورتوں میں عدل کرنا مرد کے بس کی بات نہیں ہے۔ وہ سود کو جائز سمجھتے تھے ، جہاد کو صرف مذہب کے دفاع کے لئے ضروری سمجھتے تھے۔ وہ شخصی حکومت کے خلاف تھے اور محدود بادشاہت کو بھی ناپسند کرتے تھے۔ان کا خیال یہ تھا کہ ایک پریزیڈنٹ جس کو لوگ پسند کریں اس کو اسلام پسند کرتا ہے۔ وہ دولت کے ایک جگہ اکٹھا رہنے کو غلط سمجھتے تھے۔ وہ مذہب کے لحاظ سے اپنے آپ کو ریڈیکل سمجھتے تھے۔ انہوں نے صاف کہا کہ جس ملک میں مسلمان محکوم ہوں اور انہیں مذہبی آزادی حاصل ہو وہاں ان کو حکومت کے قوانین کی پابندی کرنی چاہئیے۔

اگر سرسید کے مذہبی خیالات کالج میں پڑھائے جاتے، اگر ان کی تفسیر بھی دوسری تفسیروں کے ساتھ درس کا جز ہوتی، اگر ان کے ابتدائی خاکے کے مطابق انگریزی کے مدرسے کے علاوہ اردو کا مدرسہ اور عربی فارسی کا مدرسہ بھی ہوتا اور اگر انگریزی مدرسے کے صرف ایک مقصد کی فکر نہ ہوتی بلکہ دوسرے پر بھی توجہ ہوتی تو وہ ذہنی انقلابِ عمل میں آ سکتا تھا جو سرسید کا حقیقی مقصد تھا۔لیکن مشکل یہ ہوئی کہ قدامت پرست مسلمانوں نے انگریزی تعلیم کے اوپری فوائد پر ہی توجہ کی اور صرف ملازمتوں کے حصول کا ہی ذریعہ سمجھا۔ اگر وہ مغربی علوم کو اور انگریزی ادب کے سارے بنیادی افکار و اقدار کا خیر مقدم کرتے تو یقینا یہ تو آتشِ نمرود اسی طرح ان کے لئے گلزار بن جاتی جس طرح حضرت ابراہیم کے لئے بن گئی تھی۔

بات یہ ہے کہ سائنس اور علوم جدیدہ یا مشین اور صنعتی کمالات سے واقف ہونا کافی نہیں ہے۔ ان کی روح تک پہنچنا ضروری ہے۔ ہندوستان میں عموماً اور ہندوستانی مسلمانوں میں خصوصاً ایک دو شاخا پن ہے۔ یہ معلومات، وسائل، ہنر حاصل کرنے پر اس لئے تیار ہیں کہ بغیراس کے چارہ نہیں ہے مگر ان کے پیچھے جو ذہن ہے اسے قبول کرنے کو تیار نہیں۔سرسید کو کالج کی خاطر اپنے مذہبی خیالات کی اشاعت ترک کرنا پڑی کالج کے قیام کے سلسلے میں انہیں انگریز پرنسپلوں کی اپنی سیاست کو بھی قبول کرنا پڑا۔ اس وقت یہ مجبوریاں سمجھ میں آتی ہیں مگر یہ حیرت کی بات ہے کہ آج بھی ہندوستانی مسلمان مذہب کے سلسلے سرسید کا پوری طرح ہم نوا نہیں ہے۔ آج بھی اجتہاد جس کی ضرورت پر سرسید نے اتنا زور دیا تھا اور جس کو اقبال نے بھی اپنے فکر میں ایک مرکزی حیثیت دی ہے، ہندوستانی مسلمان کو ایک خطرہ نظر آتا ہے مغرب جو صلیبی جنگوں کے اثرات کی وجہ سے اسلام کے ساتھ انصاف نہ کر سکا تھا۔ آج مستشرقوں کے اثر سے اسلام کے آفاقی پیام کی اہمیت کو محسوس کرنے لگا ہے۔ شافت، منٹگمری واٹ، برناڈلیوس اور کینٹویل اسمتھ کے خیالات اس سلسلے میں قابل غور ہیں۔

ہندو ذہن عقائد میں شروع سے خاصا لچک دار ہے۔ اس لئے یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ ہندوستانی مسلمان کیوں خوف زدہ اور اپنے حصار میں بند ہے نئے افکار سے خطرہ تمام مذاہب کو ہے صرف اسلام کو ہی نہیں۔ اسلام اپنے چند سادہ عقائد اور ایک عملی تعلیم کی وجہ سے ان نئے افکار کو قبول کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس لئے ہندوستانی اسلام جدید دور میں اپنا خاصا اہم رول ادا کر سکتا ہے اور معاملات میں چند اخلاقی اور سماجی قدروں کو اپنا کر محنت اور خدمت خلق پر زور دے کر اپنے حلقۂ اثر کو وسیع کر سکتا ہے۔ مگر وہ اوّل تو علماء کی قیادت کے زیرِ اثر اور دوسرے ازمنہ وسطیٰ کے ذہن سے چپکے ہوئے ہونے کی وجہ سے اور تیسرے جاگیردارانہ مزاج پر اصرار کرنے کی وجہ سے ہر اس اصلاحی کوشش کی مخالفت کرتا ہے جو خاص طور پر مسلمانوں کے خلاف نہیں ہے بلکہ وقت اور حالات کا تقاضا ہے۔ اسی سلسلے میں چند مثالیں دینا چاہتا ہوں۔

1۔ عرب اور اسرائیل کشمکش میں اسرائیل کی فتح صرف امریکہ کی مدد کا نتیجہ نہیں بلکہ در اصل جدید ذہن اور ازمنہ وُسطیٰ کے ذہن کی لڑائی ہے اور عربوں کی شکست مجموعی طور پر ازمنہ وُسطیٰ کے ذہن کی شکست ہے۔

2۔ ہندوستان میں سوشل رفارم کا جو سلسلہ رام موہن رائے سے شروع ہوا اس کا قدرتی نتیجہ ہندو کوڈ بل تھا۔ ہندووں نے جو اس معاملے میں مسلمانوں سے بہت پیچھے تھے، اتنی انقلابی تبدیلی کو قبول کر لیا مگر تعدد ازدواج کے متعلق علماء کے اثر سے ہندوستانی مسلمان اب تک ہر اس تحریک کی مخالفت کرتا ہے جو تعدد ازدواج پر تھوڑی سی پابندی بھی لگانا چاہتا ہے۔ اس سلسلے میں ایک ذاتی گفتگو کا حوالہ دینا شائد بے جا نہ ہو گا۔ جس زمانے میں مولانا حفظ الرحمٰن مرحوم زندہ تھےاور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ایگزیکٹو کونسل کے جلسوں میں شرکت کے لئے یہاں آتے تھے تو اکثر مختلف مسائل پر ان سے تبادلۂ خیالات ہوتا تھا۔ جب اخباروں میں یہ اطلاع آئی کہ پاکستان نے تعدد ازدواج پر پابندی لگائی ہے اور اب دوسری شادی کرنے کے لئے ایک ٹریبیونل کی اجازت ضروری ہے جس میں ایک ماہر قانون اور ایک عالم ہو گا تو میں نے مولانا سے کہا کہ ہندوستان میں آپ کب اس قسم کا قانون لائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ پا كستان  کے اس قانون سے میں متفق ہوں مگر ہندوستان کی سیکولر حکومت کو ایسا قانون بنانے کی اجازت نہیں دے سکتا۔ میں نے بعض دوسرے اسلامی ممالک کا حوالہ دیا جہاں اس سے زیادہ ریڈیکل قوانین بنائے گئے ہیں۔ مگر مولانا نے میری بات سننے سے انکار کر دیا اور کہا کہ مسلم حکومتوں کو یہ حق ہے مگر غیر مسلم حکومتوں کو نہیں۔ میرے نزدیک اگر ایک سیکولر حکومت مسلمان دانش وروں مسلمان قانون دانوں، وکیلوں، علما اور سنجیدہ اور ذمہ دار اشخاص کے مشورے سے ایسا قانون بنائے تو اس پر اعتراض نہیں ہونا چاہئیے۔ قانون کے سلسلے میں ایک نکتہ اور اہمیت رکھتا ہے آج بھی ہندوستان کے بہت سے مسلمان شرع محمدی کے بجائے رواجی قانون پر چلتے ہیں۔ تعلقہ داروں اور زمین داروں میں یہ میلان عام رہا ہے ۔ ظاہر ہے کہ رواجی قانون شرع محمدی کے خلاف پڑتا ہے اور دولت کو چند ہاتھوں میں مخصوص رکھنا چاہتا ہے بڑے لڑکے کو زیادہ حق دیتا ہے اور لڑکیوں کو عام طور پر ان کے جائز حقوق سے محروم رکھتا ہے۔ ہماری عدالتیں اسی رواجی قانون پر چلنے کی اجازت دیتی ہیں اور علماء اس سلسلے میں کوئی احتجاج نہیں کرتے۔ اسی طرح تعدد ازدواج کے سلسلے میں یا طلاق کے سلسلے میں بھی عام مسلمان کو اگر اس کی اجازت ہو کہ وہ یا تو شرع محمدی کی پابندی کرے یا ملک کے قانون کی تو ایسی صورت میں بیچ کی ایک راہ پیدا ہو سکتی ہے-

اسی طرح خاندانی منصوبہ بندی کا مسٔلہ ہے۔ ماہرین اقتصادیات اب اس بات پر مُتفق ہیں اگر آبادی کی بڑھتی ہوئی تعداد کو نہ روکا گیا تو کچھ عرصہ کے بعد غذا کا وہ سرمایہ جو زمین سے حاصل ہو سکتا ہے ناکافی ہو جائے گا دوسرے صاف ستھرے گھروں اور کھلی فضا میں رہنے کا تصور خواب بن جائے گا۔ اب بھی بڑے شہروں کی گنجان آبادی میں کتنے لوگ ایسے ملیں گے جنہوں نے آسمان نہیں دیکھا۔ دریا اور سمندر سے ناواقف ہیں۔ پڑھا لکھا طبقہ عام طور پر اسی بڑھتی ہوئی آبادی کو خطرہ سمجھتا ہے لیکن نچلے طبقے میں چونکہ ایک تو مالی پریشانیاں زیادہ ہوتی ہیں اور زندگی بھر سختیوں کا زیادہ مقابلہ کرنا پڑتا ہے اور تعلیم کی کمی اور سنجیدہ تہذیبی مشاغل سے محرومی ہوتی ہے اس لئے تفریح صرف جنسی عمل میں ممکن ہے جس کا نتیجہ بچوں کی کثرت ہے۔ بقول اکبرؔعاشقی قیدِ شریعت میں جو آ جاتی ہےجلوۂ کثرتِ اولاد دکھا جاتی ہے

علماء سے توقع یہ تھی کہ وہ وراثت، طلاق، تعدد ازدواج، خاندانی منصوبہ بندی کے متعلق قران کی روح سے استفادہ کر کے جدید حالات اور جدید مسائل سے عہدہ برآ ہو نے کی کوشش کریں گے مگر اس معاملے میں علماء کوئی اقدام کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ نوجوان طبقے میں جو ان مسائل سے دوچار ہے، مذہبی احکام کی طرف سے غفلت رفتہ رفتہ مذہب سے بے نیازی کی شکل اختیار کرتی جاتی ہے۔ اور محض خالی خولی اسلام کا نام لے کر اپنی زندگی کو بالکل غیر مذہبی بنانے کا میلان ترقی کرتا جا رہا ہے۔ انتہاء یہ ہے کہ روئتِ ہلال کے متعلق ہر سال اُلجھنیں پیدا ہوتی ہیں مگر ان کا کوئی حل نہیں نکالا جاتا۔ پاکستان میں جب جنرل ایوب خان نے اس سلسلے میں اقدامات کئے تو علماء نے ان کی سختی سے مخالفت کی اور عام مسلمانوں کی بڑی تعداد نے ان کا ساتھ دیا۔

چند روشن خیال علماء کو چھوڑ کر مجموعی طور پر ہندوستان کے علماء تقلیدی رہے ہیں۔ انھوں نے اجتہاد کے مسٔلے پر کما حقہ غور نہیں کیا۔ شبلی جب علی گڑھ ایم اے او کالج سے مایوس ہوئے تو انہوں نے ندوۃ العلماء میں حُریّت پسند اور حالاتِ زمانہ سے باخبر عُلماء پیدا کرنے کی سعی کی۔ مگر جیسا کہ شرر نے لکھا ہے علماء سے شبلی بری طرح پٹے اور ان کا یہ خواب کہ وہ روشن خیال علماء پیدا کریں گے پارہ پارہ ہو گیا۔ ہاں اِدھر اُدھر اپنے بعض نقوش چھوڑ گیا۔ دیوبند کے علماء نے چونکہ مذہبی نقطہ نظر سے انگریزوں کی غلامی پر احتجاج کیا اور سرسید نے مجموعی طور پر انگریزوں سے تعاون پر زور دیا اس لئے بہت سے لوگ دیوبند کے علماء کو ترقی پسند اور سرسید کو آزادئی ہند کا مخالف سمجھتے ہیں حالانکہ دیوبند کے علماء کا یہ سیاسی رول، سیاست کے شعور پر مبنی نہیں تھا ایک خاص مذہبی فکر کا نتیجہ تھا۔ جس میں انگریز اور اس کی ہر چیز سے تعاون مذہب کے خلاف سمجھا جاتا تھا۔ اس لئے میرے نزدیک ہندوستانی سیاست جمعیۃ العلماء کی قوم پرستی اور ہندوستان کی سیاست سے ہم آہنگی گو قابل تعریف ہے مگر اس لئے اہم اور معنی خیز نہیں کہ موجودہ سیاست کے پیچ و خم کے سمجھے بغیر اور موجودہ ذہن اور اس ذہن کے طریقۂ فکر اور اس کی زبان کو استعمال کئے بغیر اور سائنس اور ٹکنالوجی نے جو عالمی مسائل پیدا کئے ہیں ان سے پوری طرح آشنا ہوئے بغیر سیاسی رول معنی خیز اور دور رس نہیں ہو سکتا۔ میرے نزدیک تہذیبی تصور میں اس دنیوی پہلو کا پورا احساس موجود ہے جو دین میں بھی اہمیت رکھتا ہے یعنی معاملات اور تہذیبی تصور سے، زندگی کے تمام شعبوں یہاں تک کہ سیاست میں بھی انقلابی تبدیلیاں ممکن ہیں۔ اس لئے سرسید کے بنیادی تصورات اور ان کے عملی پروگرام میں جو وقتی ضروریات کے مطابق تھا فرق کرنا پڑے گا۔ یہ بنیادی تصورات آج بھی ہمارے لئے بڑی اہمیت رکھتے ہیں البتہ ان کے وقتی پروگرام کو گُلدستٔہ طاقِ نسیاں بنانا پڑے گا۔

کہا جا سکتا ہے کہ سرسیّد روشن خیالی کے دور کے تصوّرات اور انیسویں صدی کی سائنس سے بہت مرعوب تھے اور ان کی یہ ذہنی مرعُوبیت ہمارے لئے نقصان دہ ہو سکتی ہے۔ یہاں میرے نزدیک ایک منطقی غلطی ہے۔ عالمی سرمأیہ افکار پر ہمارا اتنا ہی حق ہے جتنا کسی اور کا اور ہمارا اپنا سرما یہ ٔ افکار بھی صرف ہمارا نہیں ہے۔ در اصل افکار و علوم میں اس قسم کی دیواریں اس ازمنہ وسطیٰ کے ذہن کی نشاندہی کرتی ہیں جو پھیلاؤ کے بجائے سکڑنے پر، نشر و اشاعت کے بجائے حفاظت پر، جذب و انجذاب کے بجائے ہر بیرونی اثر کو کاٹ کر پھینک دینے پر زور دیتا ہے میرے نزدیک ہندوستانی مسلمانوں کی موجودہ ذہنی کیفیت کی ذمہ داری بڑی حد تک اسی سمٹے ہوئے ذہن، اس نقاب اور حجاب کی عادی طبیعت اور اسی علیحدگی پسندی پر ہے جو ہر میل میں مصیب دیکھتی ہے، ہر نئی تحریک کو ایک نیا خطرہ سمجھتی ہے اور جسے آج کی زندگی بلاؤں کا ایک ہجوم نظر آتی ہے جو ہمارے مسلمانوں کو برباد کرنے پر تُلی ہوئی ہے۔

میرے نزدیک سرسیّد کے بنیادی افکار کی روشنی میں ابوالکلام آزاد، نیاز فتح پوری اور اقبال کی اجتہاد سے دلچسپی کی معنویت واضح ہو گی۔ اقبال صرف شاعر نہ تھے ۔ انہوں نے تقدیرِ اُمم اور عالم اسلام کے مسائل پر جس طرح غور کیا تھا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ جدید دور کے امکانات سے واقف تھے اور وہ روائت کا اس طرح استعمال کرنا چاہتے تھے کہ وہ اجتہاد کے لئے دروازہ کھول سکے۔ سرسید کی تفسیر اور اقبال کی الٰہیات کی تشکیل جدید من و یزداں اور ابوالکلام کی سورۃ فاتحہ کو درسیات کی بنیاد بنانا چاہئیے۔ اس کے علاوہ سرسید کے اس مکان کا جو اب کھنڈر ہے اور جو زبانِ حال سے ہماری توجہ کا شاکی ہے۔ جلد سے جلد دوبارہ تعمیر کر کے اس میں ایسا علمی تحقیقی ادارہ قائم کرنا چاہئیے جو سرسید کے مجوزہ تیسرے مدرسے کی ضروریات پوری کر سکے۔ اس میں صرف وہ لوگ لئے جائیں جو ایک طرف اسلام اور دیگر مذاہب سے گہری واقفیت رکھتے ہیں۔ اور دوسری طرف جدید علوم میں کم سے کم ایم اے کی ڈگری رکھتے ہیں۔ اس ادارے کو "تہذیب الاخلاق" بھی دوبارہ جاری کرنا چاہئیے، اور مستشرقین کی تحقیقات کی مدد سے اور مشرقی و مغربی علوم کے سہارے ان تمام مسائل پر تحقیق و تدقیق کرنا چاہئیے جو ہندوستان میں اسلام کے حیات بخش اور حیات آفرین رول کے لئے ضروری ہیں۔ آج مسلمانون کی ذہنی قیادت نہ صرف علماء کر سکتے ہیں، نہ سیاسی پارٹیوں سے وابستہ اور طاقت کے جو یا لیڈر، نہ حکومت سے وابستہ حضرات نہ محض مخالفت کو شعار بنانے والے حضرات، اس ذہنی قیادت کے لئے جمہوریت پر اعتماد ضروری ہو گا۔ موجودہ مسائل کا ہمدری سے مطالعہ کرنا ہوگا۔ تشکیک کو بھی ایمان کی ایک منزل سمجھنا پڑے گا اور سائنس اور ٹکنالوجی کے پیدا کردہ مسائل سے خوف زدہ ہونے کی بجائے ان میں اپنا راستہ تلاش کرنا پڑے گا، حریت فکر کو اپنانا پڑے گا اور مذہبی مسائل میں سنجیدہ اور پر خلوص اختلاف کی گنجائش رکھنا ہو گی۔ یہان تک کہ جو لوگ مذہب کی اہمیت سے سرے سے نکار کرتے ہیں ان کو بھی مولانا حسرت کی طرح ایک مذہب کا پیرو ماننا پڑے گا۔

کینٹ ویل اسمتھ نے آزاد ہندوستان کے مسلمانوں کے رول کی طرف اپنی کتاب اسلام ان دی ماڈرن ہسٹری " Islam in the Modern History " مین جو اشارہ کیا ہے وہ نہائت معنی خیز ہے۔ اسلام ہندوستان میں مسلمانوں کی اکثریت نہ ہوتے ہوئے ہندوستان میں ایک اہم اخلاقی اور سماجی رول ادا کر سکتا ہے تو اس سے نہ صرف ہندوستان کو بلکہ ساری دنیا کو فائدہ پہنچے گا۔ دیکھنا ہے کہ ہندوستانی مسلمان اس فریضے کی طرف کب متوجہ ہوتے ہیں۔ اس کے لئے صرف اسلام کی فعال اور آفاقی تعلیم کو مسلمانوں میں عام کرنا ہی نہیں ہو گا بلکہ مسلمانوں کو سماجی خیر اور رفاہ عام کے ایسے کام بھی شروع کرنے ہوں گے جو صرف مسلمانوں کے لئے نہ ہوں۔ عیسائیوں اور پارسیوں کے خیراتی ہسپتال اور اعلیٰ تعلیم کے ہندووں ، عیسائیوں کے اداروں کے نمونے پر مسلمانوں کو بہت سے ایسے ادارے کھولنے پڑیں گے جو سب کے لئے ہوں۔ ہندوستان میں اسلام کے لئے ضروری ہے کہ وہ ہندوستانیوں کے سارے مسائل سے گہرا تعلق رکھے اور سبھی ہندوستانیون کے دکھ سکھ میں حصّہ لے۔ وہ صرف حقوق کا مطالبہ نہ کرے، فرائض پر (دھیان) رکھے۔ وہ نہ اسلام کے شاندار سرمائے کے کسی قابل قدر حصے کو چھوڑنے پر آمادہ ہو نہ ہندوستان کے شاندار ماضی کے قابل قدر حصّے سے علیحدگی پر فخر کرے۔ کبھی کبھی دوسروں کے راستے پر چل کر بھی اپنا راستہ ملتا ہے۔ کعبے کو ایک راستہ ترکستان ہو کر بھی جاتا ہے۔