حج بیت اللہ اور اللہ کے مہمان

مصنف : صاحبزادہ احمد منصور بگوی

سلسلہ : سفرنامہ

شمارہ : اگست 2018

سفر نامہ قسط۔ دوم
حج بیت اللہ اور اللہ کے مہمان
صاحبزادہ احمد منصور بگوی
۲۰۱۷ کے حج بیت اللہ کی روداد

                                                                                                                     آج 7ذوالحجہ ہے اورسب لوگ آغاز حج کی تیاریوں میں مصروف ہیں ۔ پاکستانی گورنمنٹ نے بھی بلڈنگ کی LCDپرٹریننگ پروگرام چلادیاجو بہت تفصیلی تھا اورمیراخیال تھاکہ لوگوں کی تربیت میں بہت مددگارثابت ہوگا۔اس پروگرام کی ہردوسری سلائیڈ حاجی کوبتا رہی تھی کہ منیٰ کے میدان میں تین پل ہیں اُن کے نام یادکریں اوردیکھ لیں کہ آپ کا خیمہ کون سے پل کے قریب ہے اورکون سی سڑک پرہے۔منیٰ پہنچ کراحساس ہواکہ اپنی سڑک کانام یادرکھنا توبہت ضروری ہے لیکن پل کانام اس سے بھی زیادہ ضروری ہے کیونکہ منیٰ کے اندر جانے کے صرف چارراستے ہیں اوراپنے مستقر تک جانے کے لئے آپ کو بہت دوراُترناپڑے گا۔ہمیں7ذوالحجہ کو منیٰ جاناتھااورہماری گاڑیاں لیٹ ہوگئیں ۔ہم اگلے دن صبح7بجے کے قریب بلڈنگ سے روانہ ہوئے۔کچھ لوگوں نے 7تاریخ کودوپہر کے بعدہی احرام باندھ لئے تھے ،وہ اس پابندی سے بہت تنگ ہوئے۔ صبر اور ذہانت سے معاملات کودیکھنا حج کاسب سے پہلا سبق تھا۔دوسرا یہ کہ ا نفارمیشن کواستعمال کریں اوراپنے آپ کو اس ماحول میں ایڈجسٹ کریں۔یعنی موافقت پیدا کریں ۔ ٹریننگ پروگرام کوضرور غورسے سنیں اور سمجھیں۔
ہم لوگ قریب9بجے منیٰ میں اپنے کیمپ2 53/سوق العرب نزد کبریٰ ملک عبدالعزیزمیں پہنچ گئے۔یہ تمام انتظامات سعودی گورنمنٹ کے تھے۔سوائے رضا کاروں کے جوعام پاکستانی تھے اور سعودیہ میں رہائش پذیر تھے۔ یہ سب حاجیوں کی مدد کے لئے نقشوں کے ساتھ جگہ جگہ موجود تھے۔ہم نے کوشش کی کہ حاضر سہولیات کے ساتھ اپنے آپ کو Adjustکریں۔حج بھی ایک طرح مسافرت کی ٹریننگ ہے جوکہ شہری زندگی سے بالکل ہٹ کر ہے۔ منیٰ تو خیموں کاشہر ہے اور وہ شاید مستقل بنایاگیاہے ۔
اللہ تعالیٰ ہر ایک کے لئے کوئی نہ کوئی اسباب ضرورمہیاکردیتاہے۔ہمارے خیمے سے چند قدم کے فاصلے پر عبد الجبار اوراُن کے ساتھی حاجیوں کی رہائش تھی۔وہ ہمیں تلاش کرتے ہوئے آگئے ۔آپکو دیار غیر میں کچھ کم سہولتوں کے درمیان کوئی اپنا مددگار شناسا مل جائے توکشادگی مل جاتی ہے ۔ہم نے توایساسوچا بھی نہ تھا لیکن اللہ تعالیٰ حوصلہ بڑھانے کے لئے کہیں نہ کہیں سے اسباب مہیاکردیتاہے۔منیٰ میں سب سے مشکل کام یہ تھاکہ جس کام کے لئے آئے ہیں اُسے کیسے یادرکھاجائے۔لیکن ہروقت یہ یادرکھناکہ نماز کے بعدہر وقت اللہ کویاد کرلیں یہی اصل کام ہے۔کھانا کیساہے یاذرا دیر سے آیاہے، گرم تھا یانہیںیہ سب کچھ ثانوی تھا۔میں نے ہر معاملے میں مثبت باتیں نکال کر پہلے اپنے ساتھیوں سے اورپھرجب بھی موقع ملا ساتھ کے حاجیوں سے بات کرناشروع کردی ۔حیرت کی بات یہ ہے کہ جب بھی ذرا مشکل حالات میں مثبت بات شروع کی جاتی اوراللہ کاشکر اداکیاجاتا تودوستوں اور دوسرے حاجیوں کے رویے بھی تبدیل ہونا شروع ہوجاتے ۔سب کوئی نہ کوئی مثبت بات نکالناشروع کردیتے تھے۔جس سے تمام چہرے طمانیت سے روشن ہوجاتے تھے۔
دن کے گزر جانے کاتوپتہ ہی نہ چلااور اچانک شام کواعلان ہوگیا کہ سب لوگ اپناسامان اٹھالیں کہ اب عرفات کی جانب روانگی ہے۔سب لوگوں نے سامان اُٹھا لیا۔ہم نے شاید کچھ زیادہ ہی سامان پکڑلیالیکن سب سے بڑی غلطی یہ ہوئی کہ ہم اپنی ویل چیئر زمنیٰ میں ہی چھوڑ آئے اس خیال سے کہ اُس کے ساتھ چلنامشکل ہوگا۔ ابھی تک تو ہماری ٹرانسپورٹ نے ہرجگہ ہمیں رہائش کے باہر ہی اُتارا تھا اورہمیں کوئی دقت نہیں ہوئی تھی۔حاجی لوگ اسی بات پر خوش تھے لیکن یہ ہماری سب سے بڑی غلطی تھی۔قرآن درست کہتاہے کہ اگر کوئی مشکل آتی ہے تو وہ صرف اورصرف انسان کی اپنی غلطی کی وجہ سے آتی ہے۔بہرحال اللہ تعالیٰ مسبب الاسباب ہے۔ہم اُس کے مہمان تھے اورہمیں نہ جانے کہاں کہاں سے مددملتی گئی اورہم آسانی سے عرفات کے خیموں میں پہنچ گئے۔ہمارا سفر ٹرین پرتھا جو بہت آسان اورآرام دہ رہا ۔ لیکن ٹرین کے سٹیشن پر پہنچنا اور پھر وہاں سے اپنی منزل پرپہنچنا ایسے لوگوں کے ساتھ جو دقت سے چل سکتے ہوں اوراُن کی ویل چیئر آپ منیٰ میں چھوڑ آئے ہوں گویا حج کی مشقت کے ساتھ اپنی پیدا کی ہوئی کی مشقت بھی موجودتھی۔ تمام حاجیوں کومنیٰ سے عرفات زیادہ آرام دہ جگہ معلوم ہوئی۔عرفات کے خیمے بہت کشادہ تھے اورائیرکولر اورپانی کے کولر وافر مقدار میں تھے۔ رات لوگوں نے آرام کیا لیکن نماز فجر سے بہت پہلے آنکھ کھل گئی۔ شدید گرمی کے اندر بھی ہمارا قیام کافی آرام دہ تھا۔صبح ناشتے کے بعد دیکھاتو حاجی بہت سا سامان اُٹھا کرآتے ہوئے نظرآئے قریبی سڑک پرکنٹینر کھڑے تھے جو لوگوں کوپانی ،کھانا،فروٹ ،جوسز اورآئس کریم بانٹ رہے تھے اورکہتے تھے کہ یہ خیرات ہے۔پہلے تو میں اپنی انا میں رکااورپھرکوئی ضرورت بھی تو نہیں تھی۔کھانا،پانی اورجوس توپہلے سے سرکار کے لوگ خیموں کے اندر رکھ کرجاتے تھے صرف اُن کوکھاناخود ہوتاتھاجو ظاہر ہے کوئی دوسرا نہیں کرسکتا تھا!خیرات کے نام پرخیال کیاکہ اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ انسان تو فقیر ہے اور صرف اللہ تعالیٰ سے مانگناچاہیے پریہ تو بن مانگے آرہاہے صرف کنٹینر کے سامنے کھڑے ہوکرہاتھ پھیلانا ہے۔ آج یہ بھی کرکے دیکھیں کیسامحسوس ہوتاہے۔پھر اپنے آپ کوکہاکہ بہت سے حاجی لوگ بزرگ اورعمر رسیدہ ہیں جو خودنہیں جاسکتے اورخواہش رکھتے ہوں گے میں اُن کے لئے لے کرآتاہوں۔میں تلاش کرتاہواکچھ دورگیا تو کچھ فاصلے پر سڑک نظرآئی جہاں پریہ سب کچھ تقسیم ہورہاتھا۔میں بھی وہاں پہنچ گیا اورکوشش کی کہ کم رش والے کنٹینر سے کچھ حاصل کرلوں ۔مگر جب ایک کنٹینر کے سامنے پہنچا توشاید لوگوں کے رویے سے تنگ آکر خیرات کرنے والے لوگوں نے دینے سے انکار کرناشروع کردیا۔ یقین کریں کہ اس انکار کا مجھے بہت دھچکالگا اورمیں سوچتاہوا واپس چل پڑا کہ حج تو ایک سبق ہے ۔اگرکسی سائل کو کچھ نہ دے سکو توکم ازکم اسے برے انداز میں انکار نہیں کرناچاہیے۔قرآن بھی دھتکارنے سے منع کرتاہے لیکن ہم تو ہرروزخود یہ کام کررہے ہوتے ہیں۔میں کچھ زیادہ اشیائے خورونوش تونہ اٹھاسکا لیکن احرام کی چادر میں لپیٹ کراُنہیں پکڑ لیا اورواپس چلناشروع کردیا۔کچھ اپنے کیمپ کے راستے میں موجود حاجیوں میں بانٹ دیں باقی اپنے خیمے میں ساتھیوں کو اور دوسرے حاجیوں کودے دیا۔
حج کے دوران وقت کاپتہ ہی نہیں چلتا ۔کچھ ہی دیرمیں ظہر اورپھرعصر کی نماز کاوقت شروع ہوگیا۔میں نے شدید گرمی اور دھوپ میں حاجیوں کوکھڑے ہوکردعا کرتے دیکھا ۔میں نے کوشش کی کہ کچھ لوگوں کواپنے خیمے کے اندر لے کرآجاؤں مگرناکامی پر خود بھی کہیں چھاؤں میں کھڑا ہو کر دعائیں شروع کردیں۔
کسی کا بھی عرفات چھوڑنے کودل نہیں کررہاتھا۔انتظامیہ نے بذریعہ لاؤڈ سپیکر مغرب سے پہلے اعلان کرناشروع کردیا۔ ساتھیوں کو فون کرکے تلاش کیااوربتایاکہ انتظامیہ نے خیمے ہی اُکھیڑنے شروع کر دیئے ہیں۔ہم سب اکٹھے ہوکربادل نخواستہ سٹیشن کی طرف چل پڑے ۔پھر خیال آیاکہ چل تو پڑے ہیں مگرسٹیشن پر بھی انتظار کرناپڑے گا۔ ابھی عرفات کا میدان پوری طرح خالی نہیں ہوا اورنہ ہی اللہ کی بے پایاں رحمت کے دروازے ،ہی بند ہوئے ہیں چنانچہ ہم ٹرین کے دروازے بندہونے کے بعد بھی دعائیں کرتے رہے کیونکہ وہ بھی تو وقوف عرفات کاحصہ تھا۔
مزدلفہ ایک وسیع میدان ہے اورحاجیوں کے سمندرمیں ٹرین سے نکلنا اوربغیرویل چیئر کے نکلنا ایک مشکل کام لگ رہاتھا۔ پراللہ تعالیٰ ہمت دیتاہے اورتھوڑی سی کوشش اورمحنت کے ساتھ مسائل حل ہو جاتے ہیں۔ہمارے مکتب کے کارپٹ بڑی اچھی جگہ پربچھے ہوئے تھے۔اللہ تعالیٰ کاشکر ہے کہ ہم بہت اچھے انتظامات میں تھے۔میں نے لوگوں کو واش رومز کے فرش اورکچرے کے ڈھیرپر بھی سوتے دیکھا۔ کھلے آسمان کے نیچے وہ رات بڑی جلدی گزر گئی۔اگلی صبح ہم لوگ بیدار ہوئے توکچھ لوگ مشکل میں نظرآئے۔ہم نے جہاں جہاں ہوسکتاتھا لوگوں کی مددکی، اللہ تعالیٰ ہماری سعی کوقبول کرلے۔مجھے مزدلفہ میں یہ بات شدت سے محسوس ہوئی کہ کارپٹ اوردیگرتمام سہولیات وافر مقدار میں تھیں اور سب لوگ استفادہ کرسکتے تھے اگر وہ ایک دوسرے کو Adjust یا Accomodateکرتے۔میرا خیال ہے کہ مزدلفہ میں کچھ لوگ تب بیمار ہوئے جب اُنہوں نے سمجھا کہ عرفات میں کھانے کے علاوہ اُنہیں کوئی دوسراکام ہے ہی نہیں 
اللہ تعالیٰ نے ہمیں وقوف مزدلفہ کابہت اچھاموقع دیا اورہم نے دعائیں توکیں لیکن میں نے جودعاسب سے زیادہ کی کہ یا اللہ سب مسلمان ایک ہوجائیں۔ اللہ مسلمانوں کاانتشار ختم کردے اور اُن کو اتفاق عطاکرے۔حیران کن بات تھی کہ ہرکارپٹ پر الگ الگ اذان ہوئی اورپھر الگ الگ باجماعت نمازاداکی گئی۔ لطف یہ کہ مزدلفہ کی مسجد سے الگ اذان ہوئی۔ پھر کوچ کااعلان ہوامگرابھی دعاؤں کا سلسلہ جاری تھا۔اللہ نے ہماری دعاقبول کی اورہمیں مزید وقت مل گیا۔ہوایوں کہ ہم سب نے واپس ٹرین سٹیشن کی طرف چلنا شروع کیاتو پہلے پل (اوورہیڈبرج ) سے پہلے ایک بہت بڑامیدان تھا جو حاجی لوگوں سے بھراہواتھا۔حدنظر تک لوگ ہی لوگ تھے اور بھی لوگ چلے آرہے تھے اورخالی جگہ کوپرکررہے تھے۔میں نے فیصلہ کیا اورساتھیوں کوسمجھایاکہ رک جاؤہم آگے جاکردوسرے لوگوں کی اوراپنی تکالیف میں اضافہ ہی کریں گے۔ یہاں آرام دہ کارپیٹ ہیں ا ن پر بیٹھتے ہیں اوررش کے کم ہونے کاانتظارکرتے ہیں۔
ہم نے طے کیاہواتھاکہ جوکوڑا کچرا ہمارے حصہ کاہوگایاہم بنائیں گے وہ ہم Dust Binمیں پھینکیں گے۔میں نے ایک پلاسٹک کی شیٹ کے اندر وہ سارا کوڑا بھی اُٹھایاہواتھا۔میری بیگم نے کہاکہ تم کیاکرلو گے اسکو پھینک دو۔اس دوران راستے میں لوگوں کاپھینکا ہواکوڑا اتنازیادہ ہوگیا تھاکہ چلنامشکل ہوگیا۔بہرحال میں نے ایک ڈسٹ بن دیکھ کراسکو استعمال کیا۔یقین کریں وہ ڈسٹ بن قریب قریب خالی تھی مگراس کے باہر بے شمارکچرا بکھرا ہواتھا۔ رکنے کا ہمارا فیصلہ درست تھا کیونکہ ہم نے صبر کادامن نہ چھوڑا اورکوئی دوگھنٹے بڑے سکون سے آرام کیا اورکچھ لوگ تو سوگئے ۔ جب بہت تھوڑے لوگ رہ گئے اورمیدان خالی ہوگیا توہم نے چلناشروع کردیا اور بڑے آرام سے ٹرین سٹیشن میں اورلفٹ کے ذریعے ٹرین کے سامنے پہنچے اوربڑے سکون سے اپنے کیمپ میں منیٰ جاپہنچے۔منیٰ کے ہرخیمے میں مزدلفہ کے سٹیشن پرلوگوں کے بے ہوش ہونے اوربعض کے شدید بیمار ہونے کی کہانیاں عام تھیں۔ہم نے خود بیماروں کی مدد کی۔اُن میں کچھ لوگ تو اکیلے آئے ہوئے تھے۔صبر کرنا اورایکدوسرے 
کے لئے جگہ بنا کرمل جل کرسہولیات کواستعمال کرنا شاید یہ بھی حج کاایک مقصد ہے۔اللہ تعالیٰ قرآ ن مجید میں بھی یہی کہتاہے کہ یہ اہم نہیں ہے کہ آپ نے کتنے دن منیٰ میں گزارے وہ دن آپ نے کیسے گزارے ،اصل مطالبہ تقویٰ کاہے۔ غلطیاں تو ہم سے بھی سرزد ہوئی ہوں گی۔ سب سے اہم یہ ہے کہ ہم نے اپنی غلطیوں کو خود ہی پکڑا اوراپنی اصلاح بھی کی۔
منیٰ کے میدان میں صبر کی ضرورت ہوتی ہے اور ساتھ ساتھ ایسے انتظامات کی بھی جو آپ کو سہولت دیں۔مثلاً حلق کے لئے سامان لازمی طور پرساتھ لے کر جائیں ۔ لوگوں کوسب سے بڑامسئلہ واش روم کے استعمال کے وقت آتاہے ۔اگر نماز سے آدھاگھنٹہ پہلے واش روم جائیں اوروضو کرلیں یانماز کے وقت سے آدھا گھنٹہ بعدچلے جائیں تو سب جگہیں خالی ملیں گی۔اپنے جوگرز اورایسا لباس ساتھ رکھیں جس میں آپ کمفرٹیبل ہوں اگرآپ صرف رف چپل ساتھ لے کرجائیں اور رمی کے لئے اُسی کے ساتھ پیدل جانا ہو توگویا مشکلیںآپ نے خود اکٹھی کرلی ہیں۔میری ایک بات جو لوگوں کوناگوار گزرتی تھی کہ" ہم سب لوگ ایک دوسرے کو برداشت کررہے ہیں" ۔حج کے 40دن ہم سب ایک ساتھ رہے ہوں گے اوریقین کریں میاں اوربیوی بھی ایک دوسرے کوبرداشت کررہے ہوتے ہیں اگر یہ سوچ کروقت گزاریں کہ دوسرے لوگ بھی آپ کوبرداشت کررہے ہیں تو وقت بہت بہتر گزر جائے گا۔ورنہ شیطان آپ کے ساتھ وہ کررہاہوگا جس کاآپ اندازہ بھی نہیں کرسکتے اوربعض اوقات ایسے جھگڑے ہوجاتے ہیں جو کہ تمام زندگی کے لئے ملامت بن جاتے ہیں۔شیطان ہرجگہ بہت شدت سے حملہ آورہوتاہے۔حج کے آخری دس دن سب سے مشکل ہوتے ہیں۔حاجی ہروقت گھڑی دیکھتاہے کہ کب واپسی ہوگی۔آخری دس دن جھگڑوں اور بیمارہونے کے دن ہیں۔شیطان سے پناہ اوراللہ تعالیٰ کی مدد کثرت سے طلب کیجئے 
طواف زیارت کے لئے جانا بڑا مشکل کام تھابہرحال وہ مرحلہ بھی بڑی خوش اسلوبی سے طے ہوگیا ۔لیکن سعودی حکومت حرم کے راستے میں اپنی انتظامیہ کے ساتھ اگر ایک اُردو اورایک انگریزی بولنے والارضا کار کو کھڑادیں تو شاید حاجی حضرات کے 90فیصد مسائل حل ہوجائیں۔طواف زیارت پرشکوہ اورروح پرور مناسک میں سے ہے ۔حج کی ساری محنت کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے گھرکاطواف اور سعی کے لئے لوگوں کے جذبات متغیرہوناشروع ہوگئے ۔یقین کریں اُس دن احساس ہوا کہ اللہ تعالی اپنے بندوں کاکتنا خیال رکھتا ہے۔ طواف زیارت کی نیت میں دعاہے کہ یااللہ ہجوم میں اسے میرے لئے آسان کردے۔یقین کریں وہ سعی اس دن بہت آسان ہوگئی تھی اوریہ صرف اللہ کی مدد سے ہوسکتی ہے۔ورنہ حاجی صاحبان توتھک کرچورہو چکے تھے۔حجاج کے لئے مشورہ ہے کہ طواف زیارت کے لئے جانے کا پوراپلان بنائیں اورجس راستے سے اور جس ٹرانسپورٹ سے جائیں اُسی پرواپس آئیں اوراپنے خیمہ اورپل کاپتاضرور یادکرلیں۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کاحج قبول کرے اورحج سے کچھ سیکھ کراپنی زندگیوں میں تبدیلی لانے کی توفیق دے اورخدا کرے یہ تبدیلیاں دیرپابلکہ قائم رہنے والی ہوں۔
طواف زیارت سے واپسی پر بھائی عبدالجباراوراُن کے ساتھی گھرکے پکے ہوئے مٹن اور سپیشل روٹی ،کولڈ ڈرنک ،مصری مٹھائیوں اورکھجوروں کے ساتھ منی میں انتظارکررہے تھے اوربڑی محبت سے Serve کررہے تھے۔اتنے تھکے ماندے حاجیوں کی خدمت اورپھرساتھ چل کر اُس دن کی رمی کروانا ہمیں تو ہمیشہ یادرہے گا۔اللہ تعالیٰ اُن کو اس خدمت کاضروراجردے گا۔منیٰ کی رات بڑی پر سکون تھی اورسرد بھی۔ کولروں نے خیموں کویخ کردیاتھا۔ہمیں سخت گرمی میں کمبل مہیاکئے گئے تھے اُن کا استعمال اُس رات کرناپڑا۔
آج ہماراآخری دن تھا۔ہرطرف تیاریاں ہورہی تھیں اورآہستہ آہستہ لوگوں کے پرانے رویے واپس آناشروع ہورہے تھے ہم نے اپنے بارے میں یہی سوچاکہ جو وقت گزر گیااچھاہے اب بغیرکسی مزید غلطی کے چل پڑیں اورپید ل چل کررمی کریں ہمارے پاس ٹرین کاٹکٹ توتھا لیکن پید ل سفر بہترتھا ۔ایک ساتھی کاخیال تھا کہ ہمیں قریب گیارہ بجے چلنا چاہیے اورباقی لوگوں کاخیال تھاکہ زوال کے وقت رمی کرنی چاہیے۔تھوڑی سی بدمزگی کے بعدچلنے کا فیصلہ ہوگیا۔بہرحال مجھے یقین ہے کہ شیطان کا اس بدمزگی میں مکمل کردار تھا (ہمارے ساتھ بزرگ تھے جن کی وجہ سے سب لوگ متفق ہوجاتے تھے)۔آج کی رمی کے لئے ہم سب لوگ پہلی دفعہ اکٹھے پیدل جارہے تھے۔جمرات تک فاصلہ کوئی چارکلومیٹر تھا۔ہم نے سامان ایک ویل چیئر پررکھا اورچل پڑے ۔پیدل راستے پرسفر آسان ہی تھا۔کچھ لوگ آگے چلے گئے۔ جیسے ہی ہم جمرات کی چڑھائی پر پہنچے تو سعودی پولیس نے ویل چیئر روک لی اوریہ کہاکہ سامان اورویل چیئر دونوں کو چھوڑ کرجائیں اورواپس آکر سامان لیں۔ اگر یہ بات مان لی جاتی تواس صورت میں یہاں آنے کا کم ازکم 4کلومیٹر کا چکر پڑتا تھا ۔یہ آرڈرسن کر ہم تو شاید سامان ہی پھینک جاتے۔پتہ نہیں کہاں سے امدادی فرشتوں کی طرح عبدالجبار اوراُن کے ساتھی آگئے اورانہوں نے تمام سامان خود اُٹھالیا اورویل چیئر بھی واپس مل گئی اورہم رمی کے لئے چل پڑے ۔ہم نے رمی کے لئے زوال کے وقت کاانتظار کیا اوررمی مکمل کرکے باہرنکل آئے ۔آگے کچھ اوردوست انتظارکررہے تھے ۔ہم سب مکہ روانہ ہوگئے۔
منیٰ سے ملنے والی گاڑی نے جب ہمیں مکہ کی بلڈنگ میں اتارا تو تمام حاجی صاحبان نے سکون کاسانس لیا ۔یقین کیجئے ایسا محسوس ہورہاتھا کہ بڑے دنوں بعد اپنے گھر واپس آئے ہیں۔چونکہ ابھی تک حرم کی طرف جانے کے لئے گاڑیوں کوشروع نہیں کیاگیاتھا اس لئے حاجیوں نے کچھ وقت آرام کرنامناسب سمجھا۔ساتھیوں نے مشاہدہ کیاکہ واپس آنے والے حاجیوں کے رویے پہلے سے بہتر ہوگئے ہیں وہ نہ صرف ایک دوسرے کو راستہ دے رہے تھے ،کھانے کے انتظار کو مائینڈ نہیں کررہے تھے،لفٹ سے خود ہی اضافی وزن ہونے پراتررہے تھے،ایک دوسرے کاحال پوچھ رہے تھے۔حج نے گویاحاجیوں کے اندر صبر ،احسا ن اور ہمدردی کے جذبات کو پروان چڑھایاتھا۔
حج کے فریضے کو ایک دوسرے زاوئیے سے دیکھیں۔قرآن" سیروفی الارض" یعنی سیاحت کی دعوت بھی دیتاہے۔گویاسفر حج سے آپ کو نئی دنیا اور نئے لوگ دیکھنے کومل رہے ہیں۔کوشش کریں کہ جدہ شہر کا سیاحتی دورہ ضرور کریں ۔اس میں ایک نوع کی بعد حج تفریح بھی ہے۔ جن دوستوں نے ہمیں اپنے گھر پررکنے کی دعوت دی انہوں نے یقین کیجئے ہم پربڑااحسان کیا،ہم گئے تو صرف ایک دن کے لئے تھے اوروہ بھی اُن کے بہت پرزوراصرارکے بعدلیکن وہاں تین دن رہے۔ پہلی دفعہ دل میں احساس ہواکہ گھرکاکھاناحج کے دنوں میں کوئی بھی آفر کردے تو انکار نہ کریں گھر کاکھانا یاکسی کے گھرمیں جانا آپ کوتازہ دم کردے گا۔ ہمارے میزبان عباس اورطارق کی فیملی نے بہت محبت سے ہماری خدمت کی اور خاص طور پر اُن کے بچوں سے دوستی ہمیں یادرہے گی۔
حج ختم ہوچکاتھا۔ہم اللہ کے مہمان حاجی بن چکے تھے۔اب واپسی کے سفر کا انتظار شروع ہوگیاتھا۔ہم دونوں میاں بیوی دوست کی دعوت پرجدہ چلے گئے اورتین دن جدہ میں گذارے ۔جدہ خوبصورت شہر ہے اور سمندر نے اس کے حسن کو اور لبھادیاہے۔ہمارے میزبان نے اپنے کچھ دوستوں کومدعو کیا اورمجھے لے کر ایک لبنانی ہوٹل میں گئے ۔بغیرگھی آئل کے لبنانی کھانا اوراُن کے سلاد حمص کے ساتھ ایک اچھا یادگارکھاناتھا۔ہم نے رات کاکافی وقت ساحل سمندرپرگزارا۔
اگلا دن ہم نے ایک شاپنگ مال سے شروع کیا۔4گھنٹے کی سیر اورشاپنگ کے بعد ہم روانہ ہوئے تو ہم اُس وقت تک شاپنگ مال کا صرف کچھ ہی حصہ دیکھ سکے تھے۔جدہ کی مساجد اورشاپنگ مال دیکھ کراحساس ہوا کہ اس قوم نے دو کام اللہ کے حکم کے مطابق ضرورکرنے کی کوشش کی ہے۔ایک عورت کاپردہ اوردوسرانماز کا اہتمام ۔جیسے ہی اذان ہوتی تھی ہردکان اورکاروباربند ہوجاتاہے۔ اہتمام صلوٰۃ کی حالت یہ ہے کہ ہردو تین گلیوں کے بعد ایک مسجد موجود ہے ۔ان میں عورتوں اورمردوں کے لئے الگ الگ نماز ادا کرنے کی جگہ ہے ۔ واش رومز بھی موجود ہیں۔لوگ وہاں جوق درجوق جاتے ہیں اورنماز اداکرتے ہیں۔اگر جماعت ہوچکی ہے اوردولوگ مسجد میں آئے ہیں تو ایک امام بن گیا اوردوسرامقتدی اورنمازشروع ہوگئی۔اورتو اورساحل سمندر پرتھوڑے تھوڑے فاصلہ پر لوہے کے چھوٹے سائز کے ہینڈل لگے ہوئے ہیں۔جہاں سے نیچے سے کھینچنے پرکارپٹ جائے نماز باہرآجاتاہے ۔نماز پڑھیں آرام کریں اور اُسے واپس ہینڈل گھما کراُس کے اندرجمع کردیں۔غیرملکی مردعورتیں نظر آتے تھے اوروہ کافی تعداد میں تھے لیکن وہ تمام بھی زیادہ ترپردے اورملکی قانون پرعمل کرتے نظر آتے تھے۔پاکستانی لوگوں سے ملاقات کے بعدوہاں کے حالات کوسمجھنے کاموقع ملا۔لوگ حکومت کی پالیسوں سے پریشان ہیں۔تارکین وطن کی واپسی بہت رفتار سے جاری ہے اور جورہ گئے ہیں وہ اس کوشش میں ہیں کہ اپنے ملک میں کاروبار شروع کرلیاجائے تاکہ جس وقت بھی یہاں سے واپس جاناپڑے پاکستان میں کچھ بہتر روزگارکاسامان جمع ہوچکاہو۔ سعودی گورنمنٹ کے لگائے گئے ٹیکس نے جو کہ صرف خارجی فیملی کے افراد پرلگایا گیاہے بہت سے لوگوں کوفیملی سے دور کر دیاہے۔لوگ اب وہاں سے صرف واپسی کاحل سوچ رہے ہیں۔(جاری ہے )
***




گھر واپس جب آؤ گے تم
کون تمہیں پہچانے گا
کون کہے گا ، تم بن ساجن ،یہ نگری سنسان
بن دستک دروازہ گم سم، بن آہٹ دہلیز
سْونے چاند کو تکتے تکتے راہیں پڑ گئی ماند
کون کہے گا، تم بن ساجن ،یہ نگری سنسان
کون کہے گا تم بن ساجن کیسے کٹے دن رات
ساون کے سو رنگ گھلے اور ڈوب گئی برسات
کون کہے گا تم بن ساجن ،یہ نگری سنسان
پل جیسے پتھر بن جائیں، گھڑیاں جیسے ناگ
دن نکلے تو شام نہ آئے، آئے تو کْہرام
کون کہے گا تم بن ساجن ،یہ نگری سنسان
گھر واپس جب آؤ گے
تم کیا دیکھو گے کیا پاؤ گے
یار نگار، وہ سنگی ساتھی 
مدھ بھری آنکھیں، اکھیاں جن کی باتیں پھلجڑیاں
بجھ گئے سارے لوگ وہ پیارے، رہ گئی کچھ لڑیاں
دھول ببول بگولے دیکھو، ایک گریزاں موج کی خاطر
صحرا صحرا پھرتے ہیں
تم بھی پھرو درویش صفت اب،
رقصاں رقصاں، حیراں حیراں
لوٹ کے اب کیا آؤ گے؟ اور کیا پاؤ گے؟
کون کہے گا، تم بن ساجن ،یہ نگری سنسان
*الطاف گوہر*