مغربي تہذيب

مصنف : محمود فیاض

سلسلہ : سماجیات

شمارہ : فروري 2023

انگریزی چینل پر ایک انٹرویو چل رہا تھا، ایک عورت جس نے چودہ سال کی عمر میں اپنے سے دوگنی عمر کے ہمسائے سے پریگننٹ ہو کر شادی کر لی تھی۔ اپنی کہانی سنا رہی تھی۔وہ بتا رہی تھی کہ اسکی زندگی بہت اچھی گزری اسکا شوہر بہت محبت کرنے والا ہے۔اور اس کی ماں نے اسکو ہر موقع پر سپورٹ کیا گرچہ وہ اسکی اس حرکت پر بہت دکھی تھی۔ مگر اسی انٹرویو میں اس نے یہ بھی بتایاکہ اسکی تعلیم ادھوری رہ گئی اور کالج جانے کا خواب کبھی پورا نہیں ہوا۔ چھوٹی عمر کی ماں بن کر بچوں کو ویسے نہ سنبھال پائی جیسے چاہیے تھا۔ 
آخری سوال جو ہوسٹ نے اس عورت سے پوچھا، جس کی اپنی بیٹی اب چودہ سال کی تھی۔ وہ یہ تھا کہ کیا اب اپنی ماں کی طرح وہ اپنی بیٹی کو بھی ایسا کرنے کی اجازت دے گی؟ ایسا سوال سن کر وہ عورت سن ہوکر رہ گئی اور سختی سے نفی میں سر ہلانے لگی۔ اور کہنے لگی کہ وہ ہرگز ہرگز اپنی بیٹی کو اسکی اجازت نہیں دے گی کیونکہ وہ جانتی ہے کہ اسکا انجام کیا ہوگا ۔ اسکی بیٹی کن اذیتوں سے گزرے گی۔اصل میں بات یہی ہے، اپنی زندگی بارے ہم جھوٹ بول لیتے ہیں، سچ اپنی اولاد کے نصیب کا سوچ کر نکلتا ہے۔ 
ہمارے یہاں لبرل، مذہبی، شہری، دیہاتی کی بحث چھوڑ کر سوچیں۔ اپنی بیٹیوں کو ہم بے یارومددگار چھوڑ سکتے ہیں؟ جبکہ ہم جانتے ہیں کہ مغربی ممالک کے سخت قوانین بھی انکی بیٹیوں کو ایسے برے انجام سے نہیں بچا سکے؟ ہمیں اس سے کچھ بہتر سوچنا ہوگا۔
دس سال پہلے میں انگلینڈ کے شہر ریڈنگ کے ایک گھر میں پڑھائی کے دوران کتابوں سے اکتا کر ٹی وی لگا لیا کرتا تھا۔ بی بی سی کاغالباً چینل فور تھا جس پر سماجی موضوعات پر ڈاکیومینٹری اور رئیلٹی بیسڈ پروگرامز چلتے رہتے تھے۔اسی چینل پر ایک سیریز نوجوانوں کے لیے تھی۔ اس سیریز میں ان لڑکیوں کے انٹرویوز نشر کیے جاتے تھے جو چھوٹی عمر میں مائیں بن جایا کرتی تھیں۔ 
ان چھوٹی عمر کی ماؤں کی کہانیاں عبرتناک ہوتی تھیں، مگر مجال ہے پروگرام میں کسی طرح کی ججمنٹ پاس کی جاتی ہو۔ چھوٹی عمر میں ماں بن جانا ان بچیوں کی غلطی تھی، یا چوائس۔ یہ انکی زندگی تھی۔ چینل صرف انکی زندگی باقی لڑکیوں کو دکھاتا تھا کہ باقی رہ جانے والی لڑکیاں اپنی زندگی کا فیصلہ بہتر کر سکیں۔ اس میں لڑکیوں کی تعلیم ادھوری رہ جانا، ٹراما سے گزرنا، زندگی میں باقی کلاس فیلوز سے پیچھے رہ جانا، اچھا کیرئیر نہ بنا سکنا وغیرہ شامل تھا۔ اسی سیریز کے ایک سیگمنٹ میں لڑکیوں کو ایک مشق کروائی جاتی تھی۔ جس میں انکی آنکھوں پر ایک دھندلی عینک لگا دی جاتی تھی، اور انکو ایک مصنوعی مردانہ عضو پر کنڈوم چڑھانا ہوتا تھا۔ یہ مشق اس لیے ڈیزائن کی گئی تھی کہ لڑکا اور لڑکی جب ڈرنک ہو کر سیکس کرنے لگیں تو کم از کم لڑکی اتنے ہوش کا مظاہرہ کرے کہ نشے کے دھندلے ماحول میں بھی یہ ناز ک ذمہ داری اپنے کندھوں پر لے لے۔ 
 جو طبقات معاشرے میں فرد کی آزادی لا محدود کے قائل ہیں، وہ بچیوں کے لیے اس مشق کا اہتمام کرنے کے لیے مہم چلائیں۔ کیونکہ آپکے فکری امام (مغرب) کے پاس اس سے بہتر کوئی حل نہیں ہے۔ 
سماجیات
مغربی تہذیب
محمود فیاض