امام حميد الدين فراہي

مصنف : حسان عارف

سلسلہ : مشاہیر اسلام

شمارہ : جنوري 2023

اس عالم بے مثل کا تذکرہ جس نے قرآن میں علم و حکمت کی ایک نئی دنیا دریافت کی اور جو کردار کا وہ معجزہ تھا جس کے سامنے حریف و حلیف سب کی آنکھیں خیرہ تھیں۔ 
ٰٰٔؓ*****************************
بعض شخصیتیں ایسی نادر روزگار ہوتی ہیں کہ تاریخ عالم پر انمٹ اور گہرے نقوش چھوڑ کر حالات کا رُخ بدل دیتی ہیں اور اپنی انھی خدمات کے صلے میں ان کا نام تا ابد باقی رہتا ہے۔ اس قسم کے لوگوں میں سے امام حمیدالدین فراہی ہیں جن کا نام برصغیر کی تاریخ میں ہمیشہ درخشاں رہے گا۔ آپ علم دین کی ایسی شمعیں روشن کر گئے جن کی تابانیاں گوشے گوشے میں بکھری ہوئی ہیں۔ آپ کی وفات پر سیّد سلیمان ندوی کا قلم کچھ اس انداز میں نوحہ کناں ہوا: 
‘‘-85 اس عہد کا ابن تیمیہ 11 نومبر 1930ء (19 جمادی الثانی 1329ھ) کو اس دنیا سے رُخصت ہو گیا، وہ جس کے فضل و کمال کی مثال آئندہ بظاہر حال عالم اسلامی میں پیدا ہونے کی توقع نہیں۔ جس کی مشرقی و مغربی جامعیت عہد حاضر کا معجزہ تھی۔ عربی کا فاضل یگانہ اور انگریزی کا گریجویٹ، زہد و ورع کی تصویر، فضل و کمال کا مجسمہ، فارسی کا بلبل شیراز، عربی کا سوق عکاظ، ایک شخصیت مفرد، لیکن ایک جہان دانش! ایک دنیائے معرفت! ایک کائنات علم، ایک گوشہ نشین مجمع کمال۔ ایک بے نوا سلطان ہند، علوم ادیبہ کا یگانہ، علوم عربیہ کا خزانہ، علوم عقلیہ کا ناقد، علوم دینیہ کا ماہر، علوم القرآن کا واقف اسرار، قرآن پاک کا دانائے رموز، دنیا کی دولت سے بے نیاز، اہل دنیا سے مستغنی، انسانوں کے ردّ و مقبول اور عالم کی داد و تحسین سے بے پرواہ، گوشہ علم کا معتکف اور اپنی دنیا کا آپ بادشاہ۔’’
امام عبدالحمید کے والد کا نام عبدالکریم ہے۔ دادا کا نام قربان قنبر ہے جو تاج علی کے بیٹے تھے۔ عبدالحمید حمید الدین کے نام سے بھی جانے جاتے تھے۔ نسبت فراہی ہے۔ کنیت جو اُنھوں نے محض تبرک کے لیے خود رکھی تھی، ابو احمد ہے۔ اِس نام کا اُن کے کوئی لڑکا نہیں تھا۔ اُن کے شاگرد رشید علامہ سلیمان ندوی کی رائے میں اُن کا اصلی نام حمید الدین ہے لیکن جب اُنھوں نے دیکھا کہ عربی زبان کے لحاظ سے اِس نام میں خودستائی اور ایک طرح کی ریاکاری کا شائبہ ہے تو اُنھوں نے اپنی اولین عربی تصنیف میں اپنا نام عبدالحمید لکھ دیا۔ 
ڈاکٹر محمد اجمل ایوب اصلاحی نے چند دستاویزات کے پیشِ نظر یہ راجح قرار دیا ہے کہ علامہ کا پیدائشی نام عبدالحمید ہے۔ تاہم حمیدالدین عبدالحمید پر غالب آ گیا اور علامہ کی شہرت اسی نام سے ہو گئی کیونکہ حمیدالدین فارسی اور اُردو والوں کے ذوق کے زیادہ قریب تھا۔ خاص کر جب علامہ نے اپنے خطوط، دفتری کاغذات اور فارسی و اُردو تصانیف پر ‘‘حمیدالدین’’ لکھنا شروع کیا تو یہی نام زبان زدِ خاص و عام ہو گیا۔ البتہ عربی تصانیف پر اُنھوں نے اپنا نام استاد عبدالحمید فراہی لکھا۔ 
فراہی کی نسبت علامہ کے گاؤں ‘‘فریہ’’ (پھریا، اعظم گڑھ) کی طرف ہے جہاں وہ بُدھ کی صبح 6 جمادی الثانی 1280ھ کو متولد ہوئے۔ فریہ (پھریا) اُترپردیش میں واقع ضلع اعظم گڑھ کا ایک قصبہ ہے۔ علامہ فراہی کا خاندان مدینہ منورہ سے ہجرت کر کے افغانستان آیا تھا جہاں وہ فراہ نامی ایک قریے میں کچھ عرصہ اقامت پذیر رہا تھا۔ بعدازاں اِس خاندان کے لوگ ہجرت کر کے جب ہندوستان آئے اور اِس بستی میں آباد ہوئے تو وہ اِس بستی کے نام کی نسبت سے پہچانے گئے۔ یہ نسبت جب زبان زدِ عام ہوئی تو کثرت استعمال سے اِس کے تلفظ میں کچھ تبدیلی واقع ہو گئی۔ 
امام عبدالحمید نے شرفاء کے ایک ثروت مند خاندان میں آنکھ کھولی تھی جسے معاشرے میں بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ اِس خاندان کے افراد اُس علاقے کے بااثر عمائدین تھے۔ علمی اعتبار سے بھی یہ ایک بلند پایہ خاندان تھا۔ خاندانی ثروت مندی کی بدولت فراہی ناز و نعمت میں پروان چڑھے اور پوری فارغ البالی سے علم کے حصول میں مگن رہے۔ گزر بسر کے لیے روپیہ کمانے کی فکر سے وہ آزاد تھے۔ حکمرانوں اور سرکاری عہدیداروں کا قرب پانے کی حرص بھی اُن کے اندر نہیں تھی۔ وہ بلکہ ایسے لوگوں کی ملاقات سے نفور رہتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ حیدرآباد کے اور دیگر شہروں کے بھی دولتمندوں اور سرکاری عہدیداروں سے اُن کا کوئی ربط و تعلق نہیں تھا حالانکہ وہ لوگ فراہی سے راہ و رسم پیدا کرنے کے خواہاں تھے۔ 
فراہی کی روایتی تعلیم کا آغاز قرآنِ مجید سے ہوا جس کے لیے اُنھوں نے استاد قاری احمد علی کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا اور دس سال کی عمر میں حفظِ قرآن کی سعادت حاصل کر لی۔ بعدازاں اُنھوں نے گھر پر مہدی حسن چتاروی سے نو مہینے کی مختصر مدت میں فارسی زبان سیکھ لی اور اُس میں اِس درجہ کمال پیدا کیا کہ محض سولہ برس کی عمر میں فارسی کے مشہور شاعر خاقانی شروانی (وفات 595ھ) کی زمین میں ایک خوشنما فارسی قصیدہ کہا جس میں بدیع کے جوہر دکھائے۔ علامہ شبلی نے اس قصیدے کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا اور اسے فارسی اور عربی کے مشہور ادیب مولانا محمد فاروق چریا کوٹی کے پاس لے گئے اور انھیں سنانے کے بعد پوچھا کہ یہ کس کا قصیدہ ہے؟ انھوں نے کہا کہ میں نہیں جانتا، البتہ مجھے متقدمین شعراء میں سے کسی کا معلوم ہوتا ہے۔ علماء و شعراء نے اُس فارسی قصیدے کو خوب سراہا اور پسند کیا۔ فراہی نے اُنھی دِنوں طبقات ابن سعد کے ایک جز کا بھی فارسی ترجمہ کیا تھا۔ 
چودہ برس کی عمر میں فراہی نے اپنی پھوپھی کے بیٹے علامہ شبلی نعمانی سے علوم و فنون کی تحصیل کا آغاز کیا اور نحو و صرف، زبان و ادب اور فلسفہ و منطق جیسے فنون میں مہارت بہم پہنچائی جس کے بعد اُنھوں نے اپنی بیشتر کتابیں عربی زبان میں لکھیں۔ 
آپ کی تربیت اور شخصیت کی تعمیر میں سب سے اہم کردار علامہ شبلی کا رہا۔ علامہ شبلی کے طریقہ درس اور امام فراہی کی استعداد اور ذہانت کا اندازہ کرنے کے لیے ایک واقعے کا ذکر مناسب ہوگا۔ علامہ شبلی کے درس میں ادب کی مشہور کتاب ‘‘مقامات حریری’’ زیر مطالعہ تھی۔ علامہ شبلی کا طریقہ تدریس یہ تھا کہ کتاب کی ایک خاص مقدار متعین کر دیتے اور شاگرد کے لیے یہ لازمی ہوتا کہ وہ کتاب کا اتنا حصہ استاد کو سنا دے۔ اگر شاگرد سے عبارت یا اس کا ترجمہ پڑھنے میں کوئی غلطی ہوتی تو وہ ‘‘ہوں’’ کہہ کر ٹوک دیتے۔ ایک روز درس میں امام فراہی سنا رہے تھے، کسی لفظ پر استاد نے ‘‘ہوں’’ کہہ کر ٹوکا۔ امام فراہی کے نزدیک جس لفظ پر استاد نے ٹوکا وہ انھوں نے صحیح پڑھا تھا۔ اس وجہ سے انھیں گمان ہوا کہ استاد کو کچھ غلط فہمی ہوئی ہے۔ انھوں نے پھر اسی طرح پڑھا۔ استاد نے پھر ٹوکا۔ آخر کار استاد کو غصہ آ گیا اور انھوں نے شاگردکو کئی چپت
 رسید کر دیں۔ جب وہ سزا دے کر فارغ ہوئے تو ان کو از خود اپنی غلطی کا احساس ہوا اور انھوں نے فوراً امام فراہی سے معذرت کی کہ غلطی میری تھی اور میں نے سزا تمھیں دے دی۔ 
اسی عرصے میں وہ اُس دور کے ہندوستان کے مرکزِ علم لکھنو آگئے جہاں اُنھوں نے علامہ عبدالحی لکھنوی (1304ھ) سے علمِ فقہ حاصل کیا اور اپنے زمانے کے ماہرِ معقولات مولانا فضل اللہ اَنصاری (1312ھ) سے معقولات کی چند کتابیں پڑھیں۔ بعدازاں وہ لکھنؤ سے لاہور آگئے جہاں اُنھوں نے ایک مرتبہ پھر علومِ عربیہ کی تحصیل کی غرض سے عربی زبان کے ممتاز ادیب اور شاعر مولانا فیض الحسن سہارنپوری (1304ھ) کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا اور اُن سے معقولات کی چند کتابوں کے علاوہ سبعہ معلقات، دیوانِ حماسہ اور کئی جاہلی شعراء کے دواوین سبقاً سبقاً پڑھے۔ اس سلسلہ فیض یابی کے نتیجے میں اُنھیں عربی زبان و ادب پر اِس درجے کی دسترس حاصل ہوئی کہ وہ عربی میں شعر کہنے لگے۔ 
مولانا سہارنپوری نے اپنی شرح سبعہ معلقہ کا مسودہ جو خود ان کے اپنے ہاتھ کا لکھا ہوا تھا، مولانا فراہی کو بطور یادگار دیا تھا اور اس پر خود اپنے قلم سے شاگرد کے لیے جو تعریفی الفاظ لکھے ہیں، وہ اس قدر شاندار اور وقیع ہیں کہ ایک شاگرد بجا طور ان پر فخر کر سکتا ہے۔ امام فراہی استاد کی اس یادگار کو نہایت عزیز رکھتے تھے اور یہ مخطوطہ بروقت مدرسۃ الاصلاح کے کتب خانے میں محفوظ ہے۔ 
بیس برس کی عمر میں فراہی کی طبیعت کا میلان انگریزی زبان اور جدید علوم کی طرف ہو گیا، چنانچہ انھوں نے الٰہ آباد میں کرنل گنج کے ایک کالج میں داخل لے لیا۔ بعد ازاں وہ علی گڑھ کالج چلے گئے۔ اس زمانے میں کالج کے ہر طالب علم کے لیے عربی و فارسی لازم پڑھنا ہوتی تھی۔ جب آپ کالج میں داخلے کے لیے گئے تو سرسیّد نے ان کے متعلق پرنسپل کو لکھ بھیجا کہ حمیدالدین فراہی عربی و فارسی کے ایسے فاضل ہیں جیسے آپ کے کالج کے استاد اور پروفیسر ہیں، اس لیے انھیں مشرقی علوم سے مستثنیٰ کر دیا جائے۔ انگریز پرنسپل کو سرسیّد صاحب کی یہ بات شاق گزری۔ وہ مولانا شبلی کے پاس جا پہنچا اور انھیں خط دکھا کر کہا کہ یہ سرسیّد صاحب نے ایک طالب علم کے بارے میں کیا بات لکھ دی ہے؟ کیا یہ آپ جیسے اہل علم کی صریح توہین نہیں ہے؟ علامہ شبلی بولے: ‘‘بلاشبہ آپ لوگوں کے لیے تو یہ بات توہین کا حکم رکھتی ہے، لیکن میرے لیے یہ بات وجہ فخر ہے کیونکہ سرسیّد صاحب کے یہ ممدوح فارسی اور عربی دونوں زبانوں میں میرے شاگرد ہیں۔’’ 
علی گڑھ کالج میں امام فراہی نے انگریز مستشرق تھامس آرنلڈ سے جدید مغربی فلسفے کی تعلیم پائی اور اُس میں ممتاز پوزیشن حاصل کی۔ مولانا فراہی پروفیسر آرنلڈ سے خوش نہیں تھے۔ وہ آرنلڈ صاحب کو اس بساط سیاست کا ایک مہرہ سمجھتے تھے جو انگریزوں نے علی گڑھ میں بچھا رکھی تھی۔ آرنلڈ کی کتاب ‘‘پریچنگ آف اسلام’’ کے بارے میں امام فراہی کی رائے تھی کہ یہ مسلمانوں کے اندر سے روح جہاد ختم کرنے کے لیے لکھی گئی ہے۔ 
انگریزی زبان کی تحصیل کے سلسلے میں بھی وہ ڈگری تک پہنچے اور اُسے محض بول چال کی حد تک نہیں سیکھا بلکہ عقائد اور کفارے کے موضوع پر انگریزی میں ایک کتابچہ تحریر کیا جس میں نصرانی نظریات کا رد کیا۔ آصف حکیم کے اقوالِ زریں پر مشتمل ایک کتاب بھی اُنھوں نے انگریزی سے ترجمہ کی۔
تعلیمی سلسلے کی تکمیل کے بعد علامہ فراہی کراچی کے مدرسۃ الاسلام میں عربی فارسی کے استاد مقرر ہوئے جہاں اُنھوں نے نو سال تدریس کے فرائض انجام دیے۔ اِس دوران میں اُنھوں نے متعدد کتابیں تالیف کیں اور بہت سے اشعار کہے۔ 1907ء میں علی گڑھ کالج میں عربی زبان کی تدریس کے لیے اُن کا انتخاب عمل میں آیا۔ وہاں بھی اُنھوں نے کئی سال تدریسی خدمات انجام دیں۔
علی گڑھ کالج میں اُن دنوں ایک جرمن مستشرق یوسف ہارویز (1931ء) عربی زبان کے استاد تھے۔ اُنھوں نے امام فراہی سے عربی زبان کی تکمیل کی۔ فراہی نے اُن سے عبرانی زبان سیکھ لی اور اُس میں اتنے ماہر ہو گئے کہ بالخصوص قرآنی تحقیقات کے سلسلے میں قدیم عبرانی کتابوں سے براہِ راست استفادہ کرنے لگے۔ وہاں فراہی نے دو سال قانون بھی پڑھا، مگر امتحان میں نہ بیٹھے۔ اس کی وجہ یہ ہوئی کہ جہاں تک تحقیق و تنقید کا تعلق ہے، اس کے لیے ان کی راہیں تو کھل ہی چکی تھیں، اب محض ڈگری کے لیے امتحان دینا ان کی طبیعت کے خلاف تھا۔ 
علی گڑھ سے علامہ فراہی ریاست حیدر آباد دکن چلے گئے جہاں وہ مدرسہ امیریہ نظامیہ کے صدر مدرس کی حیثیت سے خدمات انجام دینے لگے۔ مدرسہ امیریہ نظامیہ میں فقہ و قانون کی تعلیم دی جاتی تھی اور وہاں کے فارغ التحصیل طلبہ ریاست میں قاضی اور وزیر کے مناصب پر فائز ہوتے تھے۔ اس کے بعد فراہی عثمانیہ یونیورسٹی کے قیام کے لیے سرگرم ہو گئے جس میں مذہبی اور عصری علوم و فنون اُردو زبان میں پڑھائے جاتے۔ اُن کی کاوشوں سے اِس عظیم یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا۔ اُنھوں نے اپنے گاؤں کے قریب ایک دینی مدرسہ بھی قائم کیا جس کے مقاصد میں یہ نکتہ بطورِ خاص شامل تھا کہ اُس میں قرآن و حدیث کی تعلیم مذہبی تعصب سے بالاتر ہو کر دی جائے گی اور عربی زبان کے علوم کی تدریس غیر منفعت بخش روایتی طریقے کے بجائے جدید دور کے تقاضوں کے مطابق عصری اسلوب میں کی جائے گی۔ اِس دینی مدرسے کا نام اُنھوں نے ‘‘مدرستہ الاصلاح ’’ رکھا تھا۔ فراہی نے دارالمصنّفین کی تاسیس میں بھی نمایاں طور پر حصہ لیا تھا جو علامہ شبلی نعمانی کی یاد میں قائم کیا گیا۔ وہ اُس کے مدیران کی کمیٹی کے سربراہ بھی تھے۔
اِس کے بعد علامہ فراہی تمام ذمے داریوں سے سبکدوش ہو گئے اور جو مذہبی، لسانی اور عقلی علوم اُنھوں نے حاصل کیے تھے، اُن کے بل پر اپنے فہم و ذوق کی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے قرآن مجید کے فکر و تدبر میں مصروف ہو گئے۔ قرآن مجید کے فکر و نظر کی عظیم راہیں اللہ تعالیٰ نے اُن کے لیے آسان فرما دیں اور اَب تک جو وقت تدبرِ قرآن کے علاوہ دیگر امور و معاملات میں صرف ہوا تھا، اُس پر فراہی نادم ہوئے چنانچہ وہ اپنی خودنوشت سوانح حیات میں لکھتے ہیں: ‘‘چونکہ یہ مشاغل مجھے مطالعہ قرآن کے لیے فارغ البال ہونے سے مانع تھے اور متونِ حدیث اور فہمِ قرآن کی معاون کتابوں کے سوا وہ تمام کتابیں جن کی لغویات پڑھ پڑھ کر میں اُکتا گیا تھا، اَب مجھے ایک نظر نہیں بھاتی تھیں، اس لیے میں نے ملازمت ترک کر دی اور اپنے وطن لوٹ آیا۔ میری عمر اُن دنوں پچاس اور ساٹھ کے درمیان تھی۔ مجھے اُس زندگی پر افسوس تھا جو میں نے ایسی مصروفیات میں ضائع کر دی تھی جن کا نقصان اُن کے فائدے سے زیادہ تھا۔’’ 
امام فراہی جسمانی طور پر خاصے صحت مند تھے۔ وہ ورزش کے عادی تھے۔ اِس کے باوجود اُنھیں شدید سر درد اور احتباسِ بول کی شکایت رہتی تھی۔ اُنھیں متعدد مرتبہ اِس مسئلے کا سامنا رہا۔ چنانچہ وہ متھرا چلے گئے اور اپنے قصبے کے ایک ماہر طبیب سے مشورہ کیا جو وہاں خدمات انجام دیتا تھا۔ وہاں فراہی کا آپریشن کیا گیا جو کامیاب نہ ہوا اور وہ 19 جمادی الثانی 1349ھ کو انہتر برس کی عمر میں وفات پا گئے۔ اُنھیں متھرا ہی کے قبرستانِ فقیراں میں سپردِ خاک کیا گیا۔ 
اَساتذہ و تلامذہ
امام فراہی کئی علوم و فنون میں مہارت رکھتے اور متعدد زبانیں جانتے تھے۔ ہر علم و فن اُنھوں نے اُس کے ماہر اساتذہ سے حاصل کیا تھا۔ ذیل میں اُن کے چند مشہور اساتذہ کا ذکر کیا جاتا ہے:
     مولانا قاری احمد علی سے فراہی نے دس سال کی عمر میں قرآنِ مجید حفظ کیا تھا۔
مولانا محمد مہدی جو اُس زمانے کے ایک مشہور معلّم تھے، اُن سے فراہی نے فارسی زبان کی تعلیم پائی۔
امام علامہ شبلی نعمانی (1273ھ تا 1332 ھ) عظیم مورخ، نقاد اور ماہر ادیب تھے۔ وہ علومِ نقلیہ و عقلیہ پر گہری نظر رکھتے تھے۔ وہ دارالعلوم ندوۃ العلماء کے صدر مدرس تھے اور وہاں فروکش ہونے کے بعد تاحیات وہیں تدریسی و تحقیقی خدمات انجام دیتے رہے۔ فراہی نے اُن سے عربی کی ابتدائی تعلیم حاصل کی۔
علامہ فیض الحسن سہارنپوری (1304ھ) اُس زمانے کے ہندوستان میں عربی زبان و ادب کے ایک جلیل القدر عالم، فصیح و بلیغ ادیب اور ایک نادر سخن شاعر تھے۔ عربی زبان و ادب کی تعلیم و تدریس پر اُن کے گہرے اثرات تھے۔ فراہی نے اُن سے سبعہ معلقہ، دیوانِ حماسہ اور متعدد جاہلی شعراء کے دواوین کے علاوہ معقولات کی چند کتابیں بھی پڑھیں۔
امام علامہ عبدالحی انصاری لکھنوی (1304 ھ) ہندوستان کے ایک بہت بڑے عالم اور محدث و فقیہ تھے۔ اُس زمانے میں منقولات و معقولات کا اُن کے پائے کا دوسرا کوئی عالم نہیں تھا حالانکہ اُنھوں نے محض انتالیس برس کی عمر پائی تھی۔ فراہی نے اُن سے علومِ نقلیہ کی تحصیل کی۔ مولانا فضل اللہ بن نعمت اللہ اَنصاری (1312ھ) علومِ عقلیہ کے یگانہ روزگار عالم تھے۔ منطق اور علم الکلام پر اُنھوں نے کئی کتابیں سپردِ قلم کیں۔ فراہی نے اُن سے علومِ عقلیہ کی تعلیم پائی۔
 انگریز فلسفی تھامس آرنلڈ۔ فراہی جن دنوں علی گڑھ یونیورسٹی میں پروفیسر تھے، اُنھوں نے آرنلڈ صاحب سے فلسفہ پڑھا تھا۔
جرمن مستشرق یوسف ہارویز جس سے فراہی نے عبرانی زبان سیکھی تھی۔
تلامذہ
امام فراہی نے مختلف علمی مراکز اور متعدد علمی حلقوں کے علاوہ بہت سے مدارس اور کالجوں میں تدریسی خدمات انجام دیں۔ آپ نے نو سال مدرسۃ الاسلام میں پڑھایا۔ 1324ھ تا 1326ھ دو سال علی گڑھ کالج میں عربی زبان کی تعلیم دی۔ 1326ھ تا 1332ھ چھ سال اِلٰہ آباد یونیورسٹی میں عربی زبان کے لیکچرر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ 1332ھ میں حیدرآباد دکن کے دارالعلوم میں صدر مدرس کے طور پر اُن کا انتخاب عمل میں آیا۔ وہاں اُن کا ہفتہ وار تدریسی حلقہ قائم ہوا جس میں وہ تفسیرِ قرآن کا درس دیتے تھے۔ متعدد علماء، محققین اور طلبہ علم اُس درس میں شرکت کرتے تھے۔ درس کے اختتام پر سوال و جواب کی نشست ہوتی جس میں استاد فراہی سوالوں کے جواب ارشاد فرماتے۔
1337ھ تک علامہ فراہی حیدر آباد دکن میں مقیم رہے۔ بعدازاں استعفا دے کر اپنے شہر لوٹ آئے اور مدرسۃ الاصلاح کی نظامت سنبھال لی۔ مدرسے کا نصاب تشکیل دیا اور طریقِ تدریس کا تعین فرمایا۔ اسی طرح اُنھوں نے دارالعلوم عربیہ امیریہ نظامیہ کی داغ بیل ڈالی اور اُس میں تدریس بھی کرتے رہے۔ فراہی نے عثمانیہ یونیورسٹی اور اپنے استاد علامہ شبلی نعمانی کی وفات کے بعد ادارہ دارُالمصنّفین کی تاسیس کے سلسلے میں بھی نمایاں کردار ادا کیا۔ وہ دارُالمصنّفین کے مدیر ان کی کمیٹی کے سربراہ بھی تھے۔
اِس میں شک نہیں کہ سلسلہ تعلیم و تدریس کے اِن تمام مراحل میں علامہ فراہی کو کئی ہونہار شاگرد میسر آئے جن میں سے بعض بعدازاں صفِ اوّل کے علماء بنے تاہم سوانح کی کتابوں میں علامہ کے چند ہی ایک شاگردوں کے حالات ملتے ہیں جن میں سے دو شاگرد اُن کے مصاحب تھے جو ہمہ وقت اُن کی خدمت میں حاضر رہتے تھے۔ کچھ اور اصحابِ علم بھی تھے جو علامہ سے مضبوط تعلق استوار کیے ہوئے تھے۔ وہ اپنی تحاریر کے سلسلے میں اُن سے مشورہ لیتے، اُن کے دروس میں حاضر ہو کر سوال کرتے اور تسلی بخش جواب پاتے تھے۔ کچھ اور شاگرد بھی تھے جنھوں نے فراہی سے اُن کی کتابیں پڑھیں اور اُن کا منہجِ تفسیر حاصل کیا تھا۔ اُن پر علامہ کے گہرے اثرات پڑے تھے۔ اُن میں سے چند مشہور تلامذہ یہ تھے: 
مولانا اختر احسن اصلاحی (1320ھ تا 1387ھ) مدرسۃ الاصلاح کے فاضل تھے۔ اسی تعلق سے اصلاحی کی نسبت اختیار کی اور زندگی مدرسے کی خدمت کے لیے وقف کر دی۔ وہ طویل عرصے تک امام فراہی کے ساتھ رہے اور اُن کے فیضانِ علم سے خوب خوب سیراب ہوئے۔ 
مولانا امین احسن اصلاحی (1318ھ) بھی مدرسۃ الاصلاح کے فاضل تھے۔ وہ بھی اسی تعلق سے اصلاحی کہلاتے تھے۔ اُنھوں نے امام فراہی کے منہجِ تفسیر کے مطابق اُردو زبان میں تفسیر تدبرِ قرآن لکھی جو انتیس برس کے طویل عرصے میں مکمل ہوئی۔
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی، بانیِ جماعت اسلامی جن دنوں کلیہ دارالعلوم حیدر آباد کے طالبعلم تھے تب امام فراہی اُس کے پرنسپل تھے۔ 
علامہ سید سلیمان ندوی (1302ھ تا 1337ھ) جو ایک بڑے مورخ اور ایک مشہور مصنف تھے، اُنھوں نے دارالعلوم ندوۃ العلماء میں علامہ شبلی نعمانی جیسے اکابر علماء سے تعلیم پائی تھی۔ موصوف نے صراحت کی تھی کہ وہ ندوہ میں فراہی کے دروس سے مستفید ہوئے تھے۔ 
مولانا اقبال احمد خاں سہیل کا شمار ہندوستان کے صاحبِ فضل علماء میں ہوتا تھا۔ وہ مختلف مشرقی علوم کے ماہر ایک ہونہار وکیل تھے۔ اُنھوں نے امام فراہی سے عربی ادب کی کتابیں پڑھی تھیں۔ فراہی اِس سلسلے میں اُن کی عبقری صلاحیتوں کے معترف تھے۔ 
 مولانا حفظ الرحمان سیوہاروی بھی امام فراہی کے تلامذہ میں شامل تھے۔ فراہی جن دنوں حجاز میں مقیم تھے، سیوہاروی اُن کے دروس میں حاضر ہو کر استفادہ کرتے تھے
 مولانا حسرت موہانی علی گڑھ میں امام فراہی کے گھر کے قریب رہتے تھے۔ اُنھوں نے بھی فراہی سے براہ راست پڑھا اور علم حاصل کیا تھا۔
 سلطنت نیپال کا ولی عہد یوراج بہادر رانا امام فراہی سے اپنے فارسی اشعار کی اصلاح لیتا تھا۔ اُس کا تخلص ‘‘شادی’’ تھا۔ اُس کی شعرگوئی علامہ سے اُس کے تعلقات کا سبب بنی۔
چند اور اصحاب بھی ہیں جنھوں نے امام فراہی سے براہِ راست استفادہ کیا تھا۔ اُن میں وحیدالدین سلیم پانی پتی، مولانا رشید احمد اَنصاری، مولانا حبیب الرحمان خان شروانی اور سید سجاد حیدر قابل ذکر ہیں۔ وہ حضرات جو فراہی کی تعلیمات سے متاثر ہوئے لیکن اُن کے براہ راست شاگرد نہیں تھے، اُن میں نامور اہل علم یہ تھے:
مولانا عبداللہ عمادی(1295ھ تا 1366ھ) ہندوستان میں عربی زبان اور حدیث کے ایک مشہور عالم تھے۔ وہ فراہی کی علمی و ادبی شخصیت سے بہت متاثر تھے۔ وہ اُن کے آثارِ قدم پر چلے اور اِنھی کی طرح مختلف علوم و فنون کے ماہر ہوئے۔
 مولانا مناظر احسن گیلانی (1375ھ) ہندوستان میں اسلامیات اور تاریخ کے ایک بڑے محقق تھے۔ وہ عثمانیہ یونیورسٹی حیدر آباد میں شعبہ علومِ اسلامیہ کے استاد تھے جس کے وہ بعدازاں سربراہ بنے۔ علامہ ابوالکلام آزاد (1377ھ) ایک مذہبی مصلح اور ہندوستانی سیاست کی ایک مقتدر شخصیت تھے۔ آزادیِ ہند کے بعد وہ تاحیات وفاقی وزیر تعلیم کے عہدے پر فائز رہے۔ 
, مولانا عبدالماجد دریا بادی (1397ھ) ایک بڑے اسلامی ادیب اور اُردو و انگریزی کے ایک نامور مصنف تھے۔ امام فراہی سے اُن کا گہرا تعلق تھا۔ وہ جب تفسیر لکھتے تھے تو اُس کے متعلق فراہی سے مشورے لیتے تھے۔ تفسیرِ قرآن کے سلسلے میں وہ اُن کی رائے اخذ کرتے تھے۔ یوں اُن کی تفسیر پر منہجِ فراہی کے نمایاں اثرات نظر آتے ہیں۔ 
اوصاف و اخلاق
علامہ فراہی کی رنگت گندمی تھی۔ وہ خوشنما ناک نقشے کے مالک ایک دراز قد آدمی تھے۔ چہرہ گول سفید براق ڈاڑھی سے آراستہ تھا۔ وہ بلند پایہ اخلاق کے مالک تھے۔ کتاب قِصص الانبیاء نے اُن کی شخصیت پر گہرا اثر ڈالا تھا۔ یہ کتاب وہ بچپن میں اپنی پھوپھی سے پڑھتے تھے جو فراہی سے بہت محبت کرتی تھیں۔ وہ قِصص الانبیاء سے بہت متاثر تھیں۔ یوں فراہی صالحیت، تقویٰ، سلامتیِ فکر، سچائی اور صبر کے اوصاف لے کر پروان چڑھے۔ وہ والدین کے فرماں بردار اور خیر کے دلدادہ تھے۔ باوجودیکہ وہ عقلی اور فلسفیانہ افکار و نظریات کے شائق تھے، وہ الحاد اور تشکیک سے کوسوں دور تھے۔ 
فراہی بڑے پاکباز اور ثقہ آدمی تھے۔ اُن کے مخالفین بھی اُن پر اعتماد کرتے تھے۔ اللہ کے معاملے میں وہ کسی ملامت گر کی ملامت سے متاثر نہیں ہوتے تھے۔ ایک مرتبہ اُن کے والد کا کچھ لوگوں سے کسی جائیداد کے متعلق تنازع ہو گیا۔ فریقین فراہی کی ثالثی پر رضامند ہو گئے۔ فراہی نے پورے غور و خوض سے قضیے کا جائزہ لیا اور اپنے والد کے مخالفین کے حق میں فیصلہ کر دیا۔ علامہ فراہی کا تعلق ایک ثروت مند خاندان سے تھا۔ وہ خود بھی خاصی معقول تنخواہ پاتے تھے۔ اِس کے باوجود اُن کا رہن سہن مدرسۃ الاصلاح کے اساتذہ و طلبہ کے معیار کا تھا۔ وہ لباس اور کھانے پینے میں تکلف کے قائل نہیں تھے اور اپنی تنخواہ کا بڑا حصہ کتابوں کی خریداری اور نادار اہلِ علم کی امداد پر صرف کر دیتے تھے۔ 
امام فراہی کے تمام سوانح نگاروں نے بیان کیا ہے کہ وہ انتہائی ذہین و فطین، وسیع علم و ادب کے حامل ایک منکسر مزاج اور صاحبِ زہد و تقویٰ عالم تھے۔ اُن کے شاگرد علامہ سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں کہ وہ ذہانت و فطانت، کثرت و وسعتِ علم و فضل، عجز و انکسار، صحتِ رائے، زُہد و تقویٰ اور طلبِ رضائے الٰہی کی رغبت کے لحاظ سے اللہ کی ایک نشانی تھے۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ جو آدمی اِن کتابوں کے نام پڑھتا ہے وہ تعجب کرتا ہے۔ وہ یہ مان لیتا ہے کہ اِن کتابوں کے مصنف کو علم کی وسعت، فکر و نظر کی صحت، فضائل کی کثرت، ذوق کی سلامتی، ذہانت کی روشنی، قرآنِ مجید کے فکر و تدبر اور اُس کے اصول و معانی اور دور و نزدیک کے مختلف پہلوؤں کے فہم سے حصہ وافر عطا ہوا ہے۔ 
علامہ فراہی جن کمالات کے حامل تھے، اُن کے باعث اُن کی کتابوں اور تحریروں میں وہ وہ نوادر ملتے ہیں کہ باید و شاید، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ فراہی ایک منفرد نوعیت کے عبقری تھے۔ علامہ رشید رضاان کی تفسیر کے متعلق لکھتے ہیں: ‘‘ہم نے اُن کی بعض تحریروں پر ایک نظر ڈالی تو ہمیں جدید اسلوب میں تفسیر کا نیا طریقہ دکھائی دیا۔ مصنف قرآنِ مجید کے مطالب کا گہرا فہم اور اُن کے بیان و تفصیل کا اپنا منفرد انداز رکھتے ہیں۔’’ 
امام فراہی مختلف علوم و فنون پر ماہرانہ دسترس رکھتے تھے۔ زبان و بیان کی زمامِ قیادت اُن کے ہاتھ میں ہوتی تھی جسے وہ جس طرف چاہتے، موڑ لیتے تھے۔ وہ ایک قادر الکلام انشاپرداز تھے۔ امام عبدالحی لکھنوی اُن کے متعلق رقم طراز ہیں: ‘‘وہ، اللہ اُن پر رحمت کرے، چوٹی کے علماء میں سے تھے۔ وہ ادبی علوم سے پوری واقفیت اور انشا پردازی و رواں بیانی پر کامل قدرت رکھتے تھے۔ دوست احباب اُن سے محبت کرتے تھے۔ بھرپور ذہانت کے ساتھ وہ فہم و اِدراک کی عمدہ صلاحیتوں کے مالک تھے۔ وہ ایک صاحبِ زُہد و تقویٰ، پاکباز اور خوددار انسان تھے۔ کم آمیز تھے۔ بالخصوص دنیا داروں سے دور رہتے تھے۔ لا یعنی کاموں میں وقت نہیں کھپاتے تھے۔ علومِ عربیہ اور بلاغت میں اُنھیں گہرا رسوخ حاصل تھا۔ جاہلی شعراء کے کلام اور اُن کے اسالیب بیان پر وہ کامل دستگاہ رکھتے تھے۔ سابقہ صحیفوں اور یہود و نصاریٰ کی الہامی کتابوں پر بھی وہ اچھی نظر رکھتے تھے۔ اِس سلسلے میں اُن کا مطالعہ خاصا وسیع تھا۔ وہ قرآنِ مجید کے بحرِ اسلوب و معنی کے غواص تھے اور ہمہ وقت اُس کے تدبر میں منہمک رہتے تھے۔ اُن کا ماننا تھا کہ قرآنِ مجید بیانی ترتیب کی حامل ایک موزوں اور منتظم کتاب ہے۔ وہ آیاتِ قرآنی کے ایک مربوط نظام کے قائل تھے۔ اپنی تفسیر ‘‘نظام الفرقان’’ اُنھوں نے اسی اصول پر لکھی تھی۔’’ 
علومِ عربیہ پر فراہی کو جس درجے کا تبحر حاصل تھا اُسے دیکھ کر عرب علماء اَش اَش کر اٹھے تھے۔ مراکش کے ایک بڑے عالم علامہ تقی الدین ہلالی لکھتے ہیں: ‘‘میں نے ہندوستان میں علومِ ادب عربی کا اُس جیسا فاضل نہیں دیکھا۔ یہ آدمی بدرجہ غایت فصیح ہے۔ ایسے فاضل، علمائے ہند تو رہے ایک طرف، علمائے عرب میں بھی نایاب ہیں۔’’ ہلالی اُن کے مقدمہ تفسیر کے بارے میں لکھتے ہیں: ‘‘میں نے جب اُن کی تفسیر قرآن کا مقدمہ سماعت کیا تو اُس کی فصاحت و حقانیت کے اثر سے میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔’’ 
امام فراہی کا علمی ورثہ
امام فراہی نے بڑا علمی ورثہ چھوڑا ہے جس میں اُردو، عربی، فارسی اور انگریزی میں لکھی گئی لگ بھگ ستر کتابیں شامل ہیں۔ اُن میں سے چند کتابیں تو مکمل تھیں جو ان کی زندگی ہی میں یا وفات کے بعد شائع ہو گئی تھیں۔ بعض دیگر کتابیں نامکمل رہ گئیں جو اُن کی وفات کے بعد شائع ہوئیں۔ زیادہ تر کتابوں پر وہ مقدمہ نہیں لکھ سکے تھے۔ بعض کتابوں میں جو بحثیں لکھی گئی ہیں وہ دلائل و شواہد سے خالی ہیں۔ بعض کتابیں چند اوراق پر مشتمل ہیں۔ اِس کی وجہ یہ تھی کہ ایک وقت میں ایک سے زائد کتابیں اُن کے زیرِ تالیف رہتی تھیں۔ وہ تدبر و تامل کرتے رہتے تھے۔ اِس دوران میں جو نیا فکر سامنے آتا، اُسے وہ متعلقہ کتاب میں درج کر دیتے تھے۔ یہی سبب تھا کہ اُن کی کتابیں کسی لائحہ عمل کے تحت منظم اندازمیں مرتب نہیں ہو پائی تھیں۔ سوائے ایک کتاب حجج القرآن کے۔ ایسی بیشتر کتابیں وہ پایہ تکمیل کو نہیں پہنچا سکے تھے۔ اُن کے ایک شاگردِ رشید مولانا امین احسن اصلاحی لکھتے ہیں کہ اُستاد فراہی اُن معنوں میں مصنف نہیں تھے جن معنوں میں عام طور پر کتابیں تصنیف کی جاتی ہیں۔ وہ محض اِس لیے نہیں لکھتے تھے کہ ایک کتاب بن جائے گی۔ وہ تبھی کتاب لکھنے کا آغاز کرتے تھے جب اُنھیں کوئی نیا فکر سوجھتا یا کوئی نئی تحقیق اُن کے سامنے آتی تھی۔ زیادہ موزوں الفاظ میں کہا جائے تو وہ ایک مصنف یا ایک لکھاری کے بجائے ایک فلسفی یا مفکر تھے۔ چنانچہ وہ سوچتے زیادہ اور لکھتے کم تھے۔ وہ بیک وقت مختلف موضوعات پر سوچتے تھے جونہی کوئی نیا فکر یا نیا نکتہ سوجھتا، اُسے ایک کاغذ پر درج کر لیتے۔ اِن نوٹس میں وہ اُن کتابوں کا حوالہ بھی دیتے جن کی تالیف پیشِ نظر ہوتی۔ یہ نوٹس کتاب کے مختلف حصوں کے طور پر تشکیل پاتے تھے۔ یہ حصے پایہ تکمیل کو پہنچتے تو علامہ فراہی تالیف کا آغاز کر دیتے۔ تالیف بلکہ تفکیر کے اِس منفرد اسلوب کے باعث بیک وقت کئی کتابیں اُن کے زیر تالیف رہتی تھیں جن میں سے بعض کتابیں تکمیل پا جاتیں، بعض زیرِ تکمیل رہتیں اور بعض کتابیں ایک یا آدھی فصل سے آگے نہ بڑھتیں۔ 
امام فراہی کی نمایاں تحریروں کو تین بڑے حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: منظوم کلام، تراجم اور تصانیف۔ تیسرے حصے تصانیف کو موضوعات کے لحاظ سے مزید حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے، ہر چند اُن کے مضامین بحیثیتِ مجموعی لسانیات، مذہب اور فلسفہ کے گرد گھومتے ہیں۔ 
منظوم کلام
عربی دیوانِ شعری جو علمی اور ادبی اہمیت رکھتا ہے۔ 
فارسی دیوانِ شعری جو مولانا فراہی کی زندگی ہی میں دیوانِ حمید کے زیر عنوان حیدر آباد کے مطبع شمسی سے 1321ھ میں شائع ہوا تھا۔ یہ دیوان دوسری مرتبہ 1967ء میں بدر الدین اصلاحی نے ‘‘نوائے پہلوی’’ کے عنوان سے شائع کیا تھا۔
تحفۃ الاِعراب: یہ نحو کے موضوع پر اُردو نظم ہے جس کا قافیہ رے ہے۔
 خِرَد نامہ: خرد نامہ سیدنا سلیمان علیہ السلام کی حکمت پر مبنی فارسی نظم ہے۔
تراجم
امام فراہی متعدد زبانوں پر دسترس رکھتے تھے جن میں اُن کی مادری زبان اُردو کے علاوہ عربی، فارسی، انگریزی اور عبرانی زبانیں شامل تھیں۔ یہی وجہ تھی کہ اُنھوں نے بالخصوص اُردو، فارسی اور عربی میں کتابیں تحریر کیں۔ تصانیف کے علاوہ علامہ فراہی نے اِن زبانوں میں ترجمے بھی کیے جن میں چند نمایاں ترجمے حسب ذیل ہیں:
 اَمثالِ حکیم آصف: یہ حکایتوں کا مجموعہ ہے جو فراہی نے انگریزی زبان کے زمانہ تحصیل میں انگریزی سے عربی میں ترجمہ کیا تھا لیکن یہ ترجمہ اُن کی وفات کے بعد ہی شائع ہو سکا۔ حکیم آصف کی حکایتوں کا یہ عربی ترجمہ متعدد مرتبہ شائع ہوا اور ہندوستان کے چند دینی مدراس نے اِسے شاملِ نصاب بھی کیا۔
پارہ از طبقات ابنِ سعد: امام فراہی نے طبقات ابن سعد کا ایک جز عربی سے فارسی میں ترجمہ کیا تھا جو آگرہ کے مطبع مفید سے 1891ء میں شائع ہوا تھا۔
 خِرَد نامہ: یہ سیدنا سلیمان علیہ السلام کی حکمت بھری امثال کا منظوم ترجمہ ہے جو مولانا فراہی نے عربی سے فارسی میں کیا تھا۔ یہ ترجمہ مترجم کی زندگی ہی میں (1916ء) حیدر آباد سے شائع ہوا۔
بدء الاسلام: یہ علامہ شبلی نعمانی کی عربی تصنیف ہے جسے فراہی نے فارسی میں ترجمہ کیا۔ یہ ترجمہ 1891ء میں آگرہ کے مطبع مفید سے شائع ہوا۔
مثنوی جلال الدین رومی سے ماخوذ دو کتابچے جو امام فراہی نے علی گڑھ کالج کے ذمہ داران کے ایما پر عربی سے فارسی میں ترجمہ کیے تاکہ اُنھیں کالج کے نصاب میں شامل کیا جا سکے۔ علامہ اُن دنوں کالج کے ایک طالبعلم تھے۔ یہ ترجمہ 1891ء میں شائع ہوا۔ 
تصانیف
امام فراہی نے قرآنیات، فقہیات، فلسفہ اور منطق جیسے متعدد علوم میں جو کمال پیدا کیا تھا، اُردو، عربی، فارسی، انگریزی اور عبرانی جیسی زبانوں کے ادب پر جو دسترس پائی تھی اور مختلف مدارس و جامعات اور علمی حلقوں میں جس طرح درس و تدریس کی تھی، اس نے اُنھیں جس انسائیکلوپیڈیائی علمیت اور غیر معمولی ذہنیت سے بہرہ یاب کیا تھا جس میں ذہانت و فطانت اور فصاحت کے ساتھ مختلف علوم کی آمیزش ہوئی تھی، اُس کے باعث اُنھوں نے جو تحریریں سپرد قلم کیں، وہ ممتاز حیثیت کی حامل تھیں اور جو افکار و نظریات پیش کیے، وہ اچھوتے، انوکھے اور غیر روایتی تھے۔ اُنھوں نے اپنے وسیع علمی تجربے اور عملی مشق کے بل بوتے پر نئے علوم وضع کیے اور فکر و نظر کے نئے راستے دریافت کیے۔ یوں اُنھوں نے متعدد علوم میں نوع بہ نوع تصانیف حوالہ قرطاس کیں جن میں سے چند اہم تصانیف حسبِ ذیل ہیں:
لسانیات کے موضوع کی مطبوعہ تصانیف
 جمہرۃ البلاغۃ:
مولانا فراہی کی یہ کتاب ‘‘جمہرۃ البلاغۃ’’ عربی بلاغت کے موضوع پر ایک لطیف تصنیف ہے جس میں اُنھوں نے عربی بلاغت پر اپنے عمیق مطالعے کے نتائج جدید نقطہ ہائے نظر کی صورت میں پیش کیے ہیں۔ یہ کتاب فاضل مصنف کی وفات کے بعد 1388ھ میں دائرہ حمیدیہ سے شائع ہوئی تھی۔ یہ کتاب ترکی سے بھی شائع ہو چکی ہے۔ 
 اَسباق النحو:
اَسباق النحو عربی صرف و نحو پر اُردو زبان میں تحریر کی گئی ایک تدریسی کتاب ہے جو آسان اور عام فہم اسلوب میں جدید منہج کے مطابق لکھی گئی ہے۔ یہ کتاب فاضل مصنف کی زندگی میں شائع ہوئی تھی اور ہندوستان کے متعدد دینی مدراس میں شاملِ نصاب رہی۔ بعدازاں مولانا اصلاحی کے شاگرد رشید علامہ خالد مسعود نے ضروری اضافے کر کے اس کا ترجمہ ادارہ تدبر قرآن و حدیث کے زیر اہتمام شائع کیا۔ 
 تحفۃ الإعراب:
تحفۃ الاعراب عربی کے علمِ نحو پر اُردو زبان میں 128 اَشعار کی ایک طویل نظم ہے جو ناظم کی زندگی ہی میں کئی مرتبہ شائع ہوئی اور ہندوستان کے بعض دینی مدارس میں شاملِ نصاب رہی۔
مخطوط تصانیف (قلمی کتابیں) 
 الدُّرُ النَّضید فِی النَّحْوِ الجَدِید:
یہ کتاب عربی علمِ نحو کی تشکیلِ جدید کے سلسلے میں لکھی گئی تھی جو چوالیس اوراق میں مرقوم ہے۔
 مسائل النحو:
یہ عربی علمِ نحو کے موضوع پر تحریر کردہ ایک کتابچہ ہے جو آٹھ اوراق پر مشتمل ہے۔ دلائل إلی النحو الجدید والمعانی والعروض 
والبلاغۃ العربیۃ:
نحوِ جدید، علم معانی، علم عروض اور عربی بلاغت کے دلائل۔ 
 سلیقۃ العروض:
سلیقۃ العروض اکیس اوراق پر مشتمل قلمی کتابچہ ہے جس میں علامہ فراہی نے علم عروض کی اصلاح اور تشکیلِ جدید کا بیڑا اٹھایا تھا لیکن وہ اِسے مکمل نہ کر سکے۔
 فلسفۃ البلاغۃ:
یہ کتابچہ چھ اوراق پر مشتمل ہے جو مولانا فراہی نے جمہرۃ البلاغۃ کی تمہید کے طور پر سپرد قلم کیا تھا۔
علومِ اِسلامیہ کے سلسلے کی مطبوعہ تصانیف
 نظام القرآن و تاویل الفرقان بالفرقان:
یہ علامہ فراہی کی مشہور تفسیر ہے جس کے متعدد اجزاء دائرہ حمیدیہ، اعظم گڑھ کے مطبع معارف اور علی گڑھ کے مطبع فیض سے شائع ہوئے تھے۔ تفصیل حسب ذیل ہے: 
دائرہ حمیدیہ نے اِس تفسیر میں سے تفسیرِ بسم اللہ، تفسیرِ فاتحہ، مقدمہ، تفسیرِ سورہ قیامہ اور تفسیرِ سورہ اخلاص شائع کی تھی۔ تفسیرِ اخلاص اُردو میں تھی جبکہ دیگر اجزائے تفسیر عربی میں تحریر کردہ تھے۔
مطبع معارف نے ذاریات، مرسلات، عبس، تین، فیل، کوثر اور لہب کی سورتوں سے متعلقہ تفسیری اجزاء شائع کیے تھے۔
 مطبع فیض نے تحریم، قیامہ، شمس، عصر اور کافرون کی سورتوں کے تفسیری اجزاء شائع کیے تھے۔
 مفردات القرآن:
یہ مفرداتِ قرآنی کی توضیح و تشریح کے سلسلے کی ایک اہم کتاب ہے جس میں قرآنی الفاظ کی تفسیر کے متعلق علامہ فراہی کے اہم اجتہادات پائے جاتے ہیں۔ یہ کتاب ڈاکٹر محمد اجمل ایوب اصلاحی کی تحقیق و تدوین اور بھرپور علمی جائزے کے ہمراہ دارالغرب الاسلامی سے 2002ء میں شائع ہوئی تھی۔
 دلائل النظام:
یہ علامہ فراہی کی ایک اہم کتاب ہے جس میں اُنھوں نے نظمِ قرآنی اور اُس کے دلائل کے بارے میں سیر حاصل بحث کی ہے۔ فراہی کے نزدیک نظمِ قرآنی کا مفہوم یہ ہے کہ قرآنِ مجید کی ہر سورت ایک مرکزی موضوع کے گرد گھومتی ہے۔ یہ موضوع اُس سورت کا محور ہے جس پر اُس کے دیگر معانی و مطالب کا دار و مدار ہے۔ ہر سورت اُس موضوع سے اس طرح مربوط ہوتی ہے کہ وہ موضوع اُس سورت کی وضاحت کرتا ہے اور وہ سورت اُس موضوع کی وضاحت کرتی ہے۔ 
دلائل النظام امام فراہی کی وفات کے بعد 1388ھ میں دائرہ حمیدیہ سے شائع ہوئی تھی۔ 
 التکمیل فی اُصول التاویل:
التکمیل میں علامہ فراہی نے تاویلِ قرآن کے اصولوں کو موضوعِ بحث بنایا اور یہ کوشش کی تھی کہ اِن اصولوں کو اصولِ فقہ کے ایک جز کے بجائے علیحدہ علم کے طور پر متعارف کرایا جائے۔ یہ کتاب 1388ھ میں دائرہ حمیدیہ کی طرف سے شائع ہوئی تھی۔ 
 تفسیری حواشی:
علامہ فراہی نے قرآنِ مجید کے مطالعہ و تدبر کے دوران میں دو قرآنی نسخوں پر حواشی رقم کیے تھے جو ڈاکٹر عبیداللہ فراہی کی ترتیب و تدوین اور مولانا امانت اللہ اصلاحی کی تصیح و مراجعت کے بعد 2010ء میں پہلی مرتبہ دائرہ حمیدیہ سے شائع ہوئے تھے۔ پاکستان میں اس کا ترجمہ ‘‘امام فراہی کے قرآنی حواشی’’ کے نام سے شائع ہوا ہے۔ حجج القرآن: الحکمۃ البازغۃ والحکمۃ البالغۃ:
حجج القرآن پہلی مرتبہ دائرہ حمیدیہ نے 2009ء میں شائع کی تھی۔
 حکمۃ القرآن:
علامہ خالد مسعودنے اس کا اُردو ترجمہ کیا جو پاکستان سے شائع ہوا اور بعد میں یہ کتاب دائرہ حمیدیہ نے 2007ء میں شائع کی تھی۔
 الرائع فی اصول الشرائع:
یہ کتاب بھی دائرہ حمیدیہ ہی نے 2011ء میں پہلی مرتبہ ڈاکٹر عبیداللہ فراہی کی ترتیب و تدوین اور مولانا امانت اللہ اصلاحی کی تصحیح و مراجعت کے ساتھ شائع کی تھی۔
 الرسوخ فی معرفۃ الناسخ و المنسوخ:
اس کتاب میں نسخ سے متعلق آیات کی تفصیل ہے۔ یہ کتاب بھی دائرہ حمیدیہ ہی نے 2011ء میں پہلی مرتبہ ڈاکٹر عبیداللہ فراہی کی ترتیب و تدوین اور مولانا امانت اللہ اصلاحی کی تصحیح و مراجعت کے بعد شائع کی تھی۔
 اَسالیب القرآن:
امام فراہی اِس کتاب میں التفات، حذف اور تقدیم و تاخیر جیسے قرآنِ مجید کے بعض اسالیب زیر بحث لائے ہیں۔ اِس ضمن میں اُنھوں نے اُن اسالیب کے مطالب اور قرآنِ مجید میں اُن کے مقاماتِ استعمال پر روشنی ڈالی ہے۔ یہ کتاب دائرہ حمیدیہ نے علامہ کی وفات کے بعد 1357ھ میں شائع کی تھی۔
علامہ خالد مسعودنے اِس کتاب کی بھی تحقیق و تحشیہ کی خدمت انجام دی ہے، اور ان کی کتاب ‘‘توضیحاتِ فکر فراہی’’ کے ایک باب میں اسالیب القرآن کے نام سے اُردو میں شائع ہوئی۔ 
 اِمعان فی اَقسام القرآن:
علامہ فراہی نے اِس کتاب میں قرآن مجید کے اسلوبِ قَسم پر روشنی ڈالی ہے اور اِس سلسلے میں ایسے نئے طرز کے اجتہادات پیش کیے ہیں جن کی نظیر اِس سے پہلے نہیں ملتی۔ یہ کتاب فاضل مصنف کی زندگی میں لکھنو سے چھوٹی تقطیع میں شائع ہوئی تھی۔ بعدازاں مولانا فراہی نے اِس میں اضافے کیے اور اِسے ترتیب نو کے مرحلے سے گزارا۔ اشاعتِ نو علی گڑھ کے مطبعہ احمدیہ نے 1349ھ میں مصنف کے حینِ حیات انجام دی۔ اِس کے بعد یہ کتاب 1415ھ میں ڈاکٹر محمد اجمل ایوب اصلاحی کی تحقیق و تدوین کے ساتھ دارالقلم، دمشق سے شائع ہوئی۔ اس کتاب کا اُردو ترجمہ مولانا امین احسن اصلاحی کے قلم سے ‘‘اقسام القرآن’’ کے نام سے ہو چکا ہے۔ 
الرای الصحیح فیمن ھو الذیبح: 
(اِس بارے میں صحیح رائے کہ ذبیح کون ہیں):
اِس کتاب میں مولانا فراہی نے اِس مسئلے کی تحقیق فرمائی ہے کہ قرآنِ مجید میں مذکور ذبیح سے مراد آیا حضرت اسماعیل ہیں یا حضرت اسحاق۔ یہ کتاب فاضل مصنف کی زندگی (1338ھ) میں اعظم گڑھ کے مطبع معارف سے شائع ہوئی تھی۔ دوسری اشاعت اُن کی وفات کے بعد 1414ھ میں دائرہ حمیدیہ سے منظرِ عام پر آئی۔ بعدازاں 1420ھ میں اِس کتاب کا ایک ماہرانہ ایڈیشن ڈاکٹر محمد اجمل ایوب اصلاحی کی تحقیق و تدوین کے ساتھ دارالقلم، دمشق سے شائع ہوا۔ اس کتاب کا اُردو ترجمہ مولانا امین احسن اصلاحی نے ذبیح کون ہے ؟ کے نام سے کیا۔ 
, فی ملکوت اللہ:
اِس کتاب میں علامہ فراہی نے یہ ذکر کیا ہے کہ اقوام کے اِرتقا و زوال اور نصرتِ حق و ہزیمتِ باطل کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ کی سنت کیا ہے۔ مزید برآں، انھوں نے اسلام کے سیاسی نظام کے اصولوں پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ لیکن اِس کتاب کی تکمیل مصنف کے مقدر میں نہیں تھی۔ یہ نامکمل کتاب اُن کی وفات کے بعد 1391ھ میں دائرہ حمیدیہ سے شائع ہوئی۔
رسالۃ فی اِصلاح الناس (کتابچہ در اِصلاح معاشرہ):
کتابچہ در اصلاحِ معاشرہ پانچ اوراق پر مشتمل ہے جس کا اردو ترجمہ مولانا امین احسن اصلاحی نے کیا اور جولائی 1936ء میں مجلہ الاصلاح میں شائع کرایا۔
. احکام الاُصول باَحکام الرسول:
یہ کتابچہ اصولِ فقہ کے موضوع پر لکھا گیا ہے جسے دائرہ حمیدیہ نے 2011ء میں ڈاکٹر عبیداللہ فراہی کی ترتیب و تدوین اور مولانا امانت اللہ اصلاحی کی تصحیح و مراجعت کے بعد شائع کیا۔ اس کتاب میں مولانا فراہی رسول اللہ کے قرآنی استنباطات کی روشنی میں فقہی احکام کے استنباط کے اصول بیان کرنا چاہتے تھے۔ 
القائد اِلیٰ عیون العقائد:
اسلامی عقائد پر مبنی یہ کتاب علامہ فراہی کی وفات کے بعد 1395ھ میں دائرہ حمیدیہ سے شائع ہوئی۔ دوسری مرتبہ بھی یہ کتاب 2010ء میں دائرہ حمیدیہ ہی سے شائع ہوئی۔
 رسالۃ فی عقیدۃ الشفاعۃ والکفارۃ:
مولانا فراہی نے یہ کتابچہ عیسائیوں کے رد میں بزبانِ انگریزی تحریر کیا تھا۔ 
مخطوطہ تصانیف (قلمی کتابیں)
 الاَزمان والاَدیان:
اسلام میں عبادات وغیرہ کے سلسلے میں مقررہ اوقات کا جو لحاظ کیا جاتا ہے، بائیس اوراق پر مشتمل یہ کتابچہ اُس میں کارفرما حکمتوں پر روشنی ڈالتا ہے۔
 اَسباب النزول:
اسباب نزول سے متعلقہ تصریحات پر مبنی یہ کتابچہ نو اوراق میں محفوظ ہے۔ اس میں اسباب النزول میں اختلاف اور اس بارے میں صحیح مسلک پر گفتگو کی گئی ہے۔ اَوصاف القرآن:
کتابچہ اوصاف القرآن پچیس اوراق پر محیط ہے۔ مولانا نے اپنے طریقہ کے مطابق صراحت کر دی ہے کہ: ‘‘من کتاب اوصاف القرآن’’۔ 
 تاریخ القرآن:
یہ کتابچہ دس اوراق پر مبنی ہے۔ کتاب کے شروع میں اس کے مضامین کا مجوزہ خاکہ درج ہے۔ 
 تزکیۃ الرّوح:
یہ کتابچہ تین اوراق میں مرقوم ہے۔
 دمدمہ و شمقمہ:
یہ کتابچہ چھ اوراق پر مشتمل ہے جس میں مولانا فراہی تزکیہ نفس کے موضوع پر تہمیلوک کی کتاب کا ترجمہ کرنا چاہتے تھے۔ اُنھوں نے پھر قرآن کی روشنی میں اصولِ تزکیہ اپنی کتاب تزکیہ روح میں لکھ دیے تھے۔ اِس کتابچے میں وہ بتیسویں پیرائے پر پہنچے تھے اور اِس کی تکمیل نہیں کر پائے تھے۔
 فقہ القرآن:
یہ کتابچہ چھ اوراق پر مشتمل ہے۔ اس کتاب میں مولاناقرآن مجید کے فقہی احکام کا استقصاء کرنا چاہتے تھے۔ 
النظام فی الدیانۃ الإسلامیۃ:
یہ کتابچہ دس اوراق پر مشتمل ہے جو مولانا فراہی کی کتاب حکمتِ قرآن کا حصہ تھا جسے بعد ازاں اُنھوں نے علیحدہ کتاب کی صورت دے دی۔ علامہ خالد مسعودنے اس کا ترجمہ کر کے اسے کتاب حکمت قرآن کا حصہ بنا دیا۔ 
 الاِکلیل فی شرح الاِنجیل:
یہ کتابچہ دس اوراق پر محیط ہے۔ یہ کتاب ان اناجیل کی شرح ہے جن کے سوا اس وقت کوئی انجیل نصاریٰ کے پاس نہیں۔ 
فلسفہ و منطق اور حکمت پر مبنی تصانیف
اِن موضوعات پر مولانا فراہی نے جو کچھ لکھا تھا، وہ حجج القرآن کے پہلے مقالے کے سوا تمام تر مخطوطوں کی شکل میں ہے جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:
 حجج القرآن کا پہلا مقالہ:
مولانا فراہی نے اس مقالے میں فلسفہ و منطق اور علم کلام پر تنقید لکھی ہے۔
 المنطق الجدید:
یہ کتابچہ اٹھارہ اوراق پر مشتمل ہے۔
 العقل وما فوق العقل:
یہ کتابچہ چار اوراق پر مشتمل ہے۔
 الاشراق فی الحکمۃ الاُولیٰ من حقائق الاُمور و مکارم 
الاخلَاق:
یہ کتابچہ چھ اوراق پر مشتمل ہے۔ اس کتاب کی ترتیب میں مولانانے ایک نیا انداز اختیار کیا ہے جس میں قدماء اور متاخرین دونوں کے نہج کی خوبیاں جمع ہو گئی ہیں۔ 
القسطاس:
یہ کتابچہ چودہ اوراق پر مشتمل ہے جس میں کاروباری منطق، آمدنی کے توازن اور حکمتِ عملی کی اساس سے بحث کی گئی ہے۔ 
افکار و خیالات
یہ سب قلمی کتابیں ہیں۔ ان میں سے کوئی کتاب شائع نہیں ہوئی۔ اِن کے نام یہ ہیں:
 الطارق و البارق
 قید الاوابد
 لوامع الافکار
علم التعلیم 
اَصل الفنون:
یہ کتابچہ تعلیم و تدریس کے عام اصولوں پر مبنی ہے۔ یہ بھی مخطوطہ ہے جو اُردو زبان میں تحریر کیا گیا ہے۔
مولانا فراہی کے علمی کاموں کی مذکورہ تفصیل سے ہر شخص یہ اندازہ کر سکتا ہے کہ مولانا فراہی نے اس دور میں قرآن کے فہم کی ایک نہایت قابل اعتماد اور بے خطر راہ کھولی۔ وہ چاہتے تھے کہ لوگ اس سرچشمے سے سیراب ہوں اور کتاب الٰہی کی حکمتوں کے خزانوں سے اپنا دامن بھریں۔ اس عمل میں مولاناکے پیش نظر یہ بات تھی کہ قرآن حکیم کو مرکز بنا کر تمام اسلامی علوم کو ازسرنو مرتب کر دیا جائے تاکہ آدمی پر جو بھی دروازہ کھلے وہ قرآن کی رُو سے کھلے اور وہ جس راہ پر بھی چلے قرآن کی روشنی ہی اس کی رہنمائی کرے۔ مولانا کے نزدیک یہی راستہ مسلمانوں کے علم کی درستی کا تھا اور اس کے نتیجے میں ایک صحیح قسم کا فکری انقلاب بپا ہونے کی توقع تھی۔ اگرچہ مولانا کی زندگی نے اتنی وفا نہ کی کہ وہ یہ سارے کام خود انجام دے سکتے لیکن انھوں نے اس بارے میں واضح اشارات چھوڑے ہیں اور کام کا خاکہ تک ترتیب دے دیا ہے۔ اب یہ ان کے بعد آنے والوں کا کام ہے کہ وہ ان کے فکر کو نہ صرف زندہ رکھیں بلکہ ترقی دے کر دنیا میں علم صحیح کے علم بردار بنیں۔ اس کے نتیجے میں یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ زمانہ اسلام کی حقانیت اور برتری کا قائل ہو سکے اور مسلمان اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کر لیں۔  
مشاہیر اسلام
امام حمیدالدین فراہیؒ
حسان عارف