مہنگا حج سستے دلائل

مصنف : آصف محمود

سلسلہ : منتخب کالم

شمارہ : مارچ 2019


عہد نبوی وعہد صحابہ وتابعین میں 'حجاب' امہات المومنین کی امتیازی علامت سمجھا جاتا تھا.
۱۔ انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ
یا رسول اللہ، یدخل علیک البر والفاجر فلو امرت امہات المومنین بالحجاب، فانزل اللہ آیۃ الحجاب (بخاری، رقم ۰۹۷۴، مکتبہ شاملہ)
''یا رسول اللہ، آپ کے پاس نیک اور بد ہر طرح کے لوگ آتے ہیں۔ بہتر ہے کہ آپ امہات المومنین کو پردے میں رہنے کی ہدایت فرما دیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے حجاب کی آیت نازل کر دی۔''
۲۔ انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب غزوہ خیبر سے واپسی پر راستے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہا کو اپنے لیے چن لیا تو مسلمانوں میں چہ میگوئیاں ہونے لگیں کہ آپ صفیہ کو کس حیثیت سے رکھیں گے؟
فقال المسلمون: احدی امہات المومنین او ما ملکت یمینہ؟ قالوا: فان حجبہا فہی احدی امہات المومنین وان لم یحجبہا فہی مما ملکت یمینہ، فلما ارتحل وطا لہا خلفہ ومد الحجاب (بخاری، رقم ۳۱۲۴، مکتبہ شاملہ)
''مسلمانوں نے کہا کہ یہ امہات المومنین میں سے ایک ہیں یا آپ کی باندی؟ لوگوں نے کہا کہ اگر آپ نے ان پر حجاب عائد کیا تو وہ امہات المومنین میں سے ہوں گی، ورنہ آپ کی باندی۔ جب آپ کوچ کرنے لگے تو آپ نے صفیہ کے بیٹھنے کے لیے اپنی سواری کے پیچھے جگہ بنائی اور حجاب لٹکا دیا۔''
۳۔ سیدنا عمر او رسیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما نے سیدہ صفیہ کی حیثیت کو واضح کرتے ہوئے فرمایا:
ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ضرب علیہا الحجاب فکان یقسم لہا کما یقسم لنساء ہ (ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، ۱۰۱۸)
''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر حجاب لاگو کیا اور آپ دوسری ازاوج کی طرح انھیں بھی باری کا دن دیا کرتے تھے۔''
۴۔ ریحانہ بنت شمعون رضی اللہ عنہا کا تعلق بنو قریظہ سے تھا۔ بنو قریظہ کے واقعے کے بعد انھوں نے اسلام قبول کر لیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں نکاح کی پیش کش کی:
وعرض علیہا ان یعتقہا ویتزوجہا ویضرب علیہا الحجاب فقالت یا رسول اللہ بل تترکنی فی ملکی فہو اخف علی وعلیک (الاصابہ، ترجمہ ریحانہ بنت شمعون)
''آپ نے انھیں آزاد کر کے نکاح کرنے کی پیش کش کی اور یہ کہ اس صورت میں ان پر حجاب کا حکم لاگو کیا جائے گا۔ لیکن ریحانہ نے کہا کہ یا رسول اللہ، آپ بس مجھے اپنی ملکیت میں رہنے دیں (یعنی نکاح نہ کریں)۔ اس سے آپ کو بھی آسانی رہے گی اور مجھے بھی (یعنی میں حجاب کی پابندیوں سے آزاد رہوں گی)۔''
۵۔ ابو اسید ساعدی رضی اللہ عنہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نمائندے کے طور پر اسماء بنت نعمان کو، جن سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نکاح ہوا تھا، ان کے گھر سے لینے کے لیے گئے تو اسماء نے انھیں اپنے پاس طلب کیا۔ لیکن ابو اسید نے ان سے کہا:
ان نساء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لا یراہن احد من الرجال، قال ابو اسید: وذلک بعد ان نزل الحجاب (ابن سعد، الطبقات الکبریٰ)
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کو کوئی دوسرا مرد نہیں دیکھ سکتا۔ ابو اسید کہتے ہیں کہ یہ واقعہ حجاب کا حکم نازل ہونے کے بعد کا تھا۔‘‘
۶۔ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نکاح اسماء بنت نعمان رضی اللہ عنہا سے ہوا، لیکن رخصتی سے قبل علیحدگی ہو گئی۔ آپ کی وفا ت کے بعد اسماء نے مہاجر بن ابی امیہ سے نکاح کر لیا تو سیدنا عمر نے اس پر انھیں سزا دینا چاہی (کیونکہ امہات المومنین کے لیے کسی اور سے نکاح کرنا ممنوع تھا)۔ اس پر اسماء بنت نعمان نے یہ دلیل پیش کی:
واللہ ما ضرب علی حجاب ولا سمیت بام المومنین (الاصابہ، ترجمہ اسماء بنت النعمان)
’’بخدا، نہ تو مجھ پر حجاب کا حکم نافذ کیا گیا اور نہ مجھے ام المومنین قرار دیا گیا۔‘‘
مراد یہ تھی کہ چونکہ رخصتی سے قبل ہی علیحدگی ہو گئی تھی، اس لیے مجھ پر امہات المومنین کے مخصوص شرعی احکام لاگو نہیں ہوتے۔ چنانچہ سیدنا عمرؓ نے انھیں سزا دینے کا فیصلہ واپس لے لیا۔
۷۔ قیلہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کا نکاح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بالکل آخری دنوں میں ہوا، لیکن رخصتی سے قبل آپ کا انتقال ہو گیا۔ بعد میں عکرمہ رضی اللہ عنہ نے ان سے نکاح کر لیا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میرا یہ جی چاہتا ہے کہ ان دونوں کو ان کے گھر سمیت جلا دوں۔ لیکن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ
ما ھی من امھات المومنین ولا دخل بہا ولا ضرب علیہا الحجاب (الاصابہ، ترجمہ قیلہ بنت قیس)
’’وہ امہات المومنین میں سے نہیں۔ اس کی رخصتی نہیں ہوئی اور نہ اس پر حجاب عائد کیا گیا۔‘‘
۸۔ عہد تابعین میں ارباب سیرت میں سیدہ جویریہ رضی اللہ عنہا کے متعلق اختلاف ہوا کہ وہ کس حیثیت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں تھیں۔ اس تناظر میں امام زہری نے کہا:
کانت جویریۃ من ازواج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وکان قد ضرب علیہا الحجاب وکان یقسم لہا کما یقسم لنساء (ابن سعد، الطبقات الکبریٰ مکتبہ شاملہ)
’’وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ تھیں۔ آپ نے ان پر حجاب لاگو کیا تھا اور دوسری ازواج کی طرح ان کے لیے بھی باری کا دن مقرر فرمایا تھا۔‘‘
۹۔ شعبی فرماتے ہیں:
کن نساء وہبن انفسہن لرسول اللہ لم یدخل بہن ولم یضرب علیہن الحجاب ولم یتزوجہن احد بعدہ (الطبقات الکبریٰ )
’’کچھ ایسی خواتین بھی تھیں جنھوں نے خود کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کر دیا، لیکن آپ نے ان سے تعلق زن وشو قائم نہیں کیا، نہ ان پر حجاب عائد کیا اور نہ آپ کے بعد کسی نے ان کے ساتھ نکاح کیا۔‘‘