كيا امام مقتديوں كي نماز كا ذمہ دار ہے

مصنف : ڈاکٹر طفیل ہاشمی

سلسلہ : دین و دانش

شمارہ : دسمبر 2022

کیا امام مقتدیوں کی نماز کا ذمہ دار ہے؟
کہا جاتا ہے کہ فلاں مسلک کے امام کے پیچھے دوسرے مسلک کے مقتدی کی نماز نہیں ہوتی ۔اسی وجہ سے بریلوی، دیوبندی یا اہل حدیث کے پیچھے، اہل حدیث اور دیوبندی بریلوی کے پیچھے اور اہل حدیث دوسرے دونوں مسالک کے پیچھے، شیعہ اور سنی ایک دوسرے کے پیچھے بلکہ حیاتی مماتی ایک دوسرے کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے۔بے وضو امام کے پیچھے نماز نہیں ہوتی اور اگر کوئی غیر مسلم مسلمان بن کر امامت کرواتا رہا تو اس کے پیچھے پڑھی ہوئی تمام نمازیں لوٹانے کا حکم ہے.
اس فتوے کی دلیل کیا ہے؟
سنن ترمذی میں روایت ہے:الإمام ضامن و المؤذن مؤتمن (امام ذمہ دار ہے اور مؤذن امین، حدیث نمبر 207)
اس حدیث کی بنا پر یہ کہا جاتا ہے کہ اگر مسلکی اختلاف یا کسی دوسرے سبب سے امام کی نماز نہیں ہوئی تو مقتدی کی بھی نہیں ہو گی.اس دلیل پر دوپہلو سے نظر ڈالی جا سکتی ہے. روایت یعنی سلسلہ سند کی رو سے اور درایت یعنی عقلی اعتبار سے.
ترمذی نے اس کی سند پر گفتگو کرتے ہوئے بتایا ہے کہ اس حدیث کی جس سند کو بہترین کہا جاتا ہے، وہ بھی امام بخاری کے استاذ علی بن المدینی کے مطابق درست نہیں ہے۔اگر اسے درایت کے اعتبار سے دیکھا جائے تو اس کامطلب یہ ہے کہ فرض کیجیے امام نے بے وضو یا ناپاک لباس کے ساتھ نماز پڑھا دی تو مقتدیوں کی نماز نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ایک کے گناہ کی سزا دوسرے بے گناہ افراد کو دے دی جائے اور لاتزر وازرۃ وزر اخری کی رو سے یہ درست نہیں. پھر یہ پابندی تب عائد کی جا سکتی ہے جب ہر مسجد کے ہر مقتدی کو یہ اختیار ہو کہ وہ امام کے عقیدے اور اعمال کے بارے میں ہر وقت جانچ پڑتال یا بازپرس کر سکے جب کہ اس طرح سماجی نظم نہیں چل سکتا۔نیز ہر مقتدی کے پاس امام کی تقرری اور معزولی کا اختیار بھی ہو تاکہ اسے اطمینان ہو کہ اس کی نمازیں درست امام کے پیچھے ادا ہو رہی ہیں۔دوسری طرف ایسے بہت سے واقعات پیش آئے ہیں کہ کوئی غیر مسلم جاسوس کسی علاقے میں مذہبی رہنما، امام اور خطیب بن کر سال ہا سال نمازیں پڑھاتا رہا، کیا ان سب لوگوں کی ان سالوں کی نمازیں غارت ہو گئیں. جو اس دوران مر گئے وہ کیسے قضا کریں۔جس کسی نے اتفاقاً دوران سفر پڑھی تھی اسے بعد میں بھی معلوم نہیں ہوا، وہ کیا کرے۔
الغرض یہ فتوی روایت و درایت دونوں سے ہم آہنگ نہیں ہے.
ہماری رائے میں اس ضمن میں امام شافعی اور شیعہ فقہا کی رائے قرین صواب ہے کہ با جماعت نماز ادا کرنے کی صورت میں بھی ہر کوئی اپنی نماز کا خود ذمہ دار ہے اور خود جواب دہ۔اگر امام کی نماز کسی وجہ سے نہ بھی ہوئی ہو تو بھی اس کا مقتدی پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔اس لیے نماز ہر مسلک کے امام کے پیچھے اور ہر مسجد میں پڑھ لینا ہی درست اسلامی روایت ہے۔
. تاریخ کے طالب علم جانتے ہیں کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف بغاوت کے دوران باغیوں نے مسجد نبوی کی امامت پر بھی قبضہ کر لیا تھا لیکن تمام اجل صحابہ کرام ان کے امام کی اقتدا میں نماز ادا کرتے رہے نیز اموی حکام میں سے کئی ایک معلن فاسق تھے لیکن اہل بیت اطہار کے افراد نے ان کے پیچھے نماز پڑھنے سے ابا نہیں کیا۔


دین و دانش
کیا امام مقتدیوں کی نماز کا ذمہ دار ہے ؟
طفیل ہاشمی