سوال جواب

مصنف : شیخ محمد صالح المنجد

سلسلہ : یسئلون

شمارہ : نومبر 2022

جواب تلاش کے بعد بھی ہمیں سوال میں مذکور: '' مجھ پر درود بھیجنے کے علاوہ تمام اعمال قبول یا مسترد ہو سکتے ہیں '' حدیث کے اثرات نہیں ملے؛ کیونکہ ہماری تلاش کے مطابق اس حدیث کو محدثین، مفسرین اور فقہائے کرام میں سے کسی نے بھی ذکر نہیں کیا۔ بلکہ اس مفہوم کی کوئی اور حدیث بھی صحیح احادیث میں سے ہمیں نہیں ملی۔
غالب گمان یہی ہے کہ یہ روایت نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف جھوٹی منسوب کی گئی ہے، اور ایسا بھی ممکن ہے کہ یہ حدیث دورِ حاضر میں ہی گھڑی گئی ہو، ویسے بھی اس حدیث میں باطل اور غلط مفہوم پایا جاتا ہے، کیونکہ یہ بات ٹھیک ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر درود و سلام افضل ترین عبادات اور قرب الہی کے مؤثر ذرائع میں سے ایک ہے، لیکن پھر بھی یہ عمل دیگر تمام اعمال کی طرح قبولیت اور رد دونوں میں سے کسی ایک کا حامل ہے۔
 سیدنا ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: (ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آیا اور کہنے لگا: آپ بتلائیں کہ: ایک شخص جہاد میں شریک اس لیے ہوتا ہے کہ اسے اجر اور شہرت دونوں ملیں، تو اسے کیا ملے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: اسے کچھ نہیں ملے گا۔ تو اس شخص نے یہی سوال تین بار دہرایا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اسے ہر بار یہی فرماتے: اسے کچھ نہیں ملے گا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: یقیناً اللہ تعالی بندے سے وہی عمل قبول فرماتا ہے جو خالصتاً اسی کے لیے کیا گیا ہو، اور رضائے الہی کے لیے ہو) سنن نسائی: (3140)
اس حدیث کو البانی نے صحیح سنن نسائی میں صحیح قرار دیا ہے۔
 رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر درود پڑھنے والوں کے درود کو مسترد اس لیے کر دیا جاتا ہے کہ درود پڑھتے ہوئے ان کی نیت ریا کاری اور شہرت کی ہوتی ہے، یا پھر ان کے درود میں بدعتی الفاظ پائے جاتے ہیں، یا پھر عدم قبولیت کا کوئی اور سبب درود پڑھنے والے میں موجود ہوتا ہے، جبکہ اللہ تعالی کا فیصلہ ہے کہ:إِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللَّہُ مِنَ الْمُتَّقِینَ
 ترجمہ: یقیناً اللہ تعالی متقین لوگوں سے قبول فرماتا ہے۔المائدۃ: 27

(شیخ محمد صالح المنجد)

خلع اور طلاق میں فرق
 سوال:میں نے اپنے خاوند کو حق مہر واپس کر دیا ہے اور اس سے خلع مانگا ہے، تو اس شخص نے حق مہر وصول کر کے مجھے شکریہ کہا، اور کہنے لگا کہ: اللہ آپ کو جزائے خیر دے، اب آپ آزاد ہیں، آپ کہیں بھی جا سکتی ہیں، تو میں مکان سے چلی گئی اور اپنی بہن کے ساتھ رہنے لگی، وہاں میں تقریباً 2 ماہ رہی اور پھر بیمار ہونے کی وجہ سے صاحب فراش ہو گئی، تو پڑوسیوں نے اللہ انہیں جزائے خیر دے، میرا اور میرے بچوں کا بہت خیال کیا۔ اسی دوران میں امید سے تھی اور زچگی کا وقت بھی قریب ہی تھا تو مجھے اس شخص کی کال آئی اور کہنے لگا کہ وہ میرا اور اپنے بچے کا حال دریافت کرنا چاہتا ہے، پھر بعد میں اس نے مجھے یہ بھی کہا کہ: ہم اب بھی نکاح کے بندھن میں ہیں؛ کیونکہ خلع طلاق نہیں ہوتا۔ ہم نے امام مسجد سے بھی بات کی تو امام مسجد نے کہا کہ: آپ طلاق یافتہ ہیں، تو کیا یہ صحیح ہے؟ اور کیا آنے والے بچے کا عقیقہ کرنے کے لیے ہمارے لیے نئے سرے سے نکاح کرنا لازمی ہے؟ یا پھر ہم الگ الگ رہتے ہوئے بھی عقیقہ کر سکتے ہیں؟

جواب:

خلع طلاق نہیں ہوتا، یہ فسخ نکاح ہے، نیز خلع کے بعد دوبارہ رجوع کے لیے نیا نکاح کرنا لازم ہے۔فسخ نکاح اور طلاق کے درمیان مزید فرق یہ ہے کہ: فسخ نکاح حق طلاق میں شمار نہیں ہوتا، چنانچہ اگر آپ اپنے خاوند کے پاس دوبارہ چلی جاتی ہیں تو پھر بھی ان کے پاس طلاق کے تین حق باقی ہیں۔چنانچہ اگر آپ کا خاوند کبھی آپ کو طلاق دے بھی دے، اور آپ کی عدت ختم ہو جائے اور خاوند نیا نکاح کر کے آپ کو اپنے عقد میں لے لے تو پھر اس کے پاس صرف دو طلاق کا حق ہو گا۔
ہر وہ لفظ جس میں بیوی کی طرف سے معاوضہ دے کر جدائی ہو تو وہ خلع شمار ہوتا ہے۔اور اگر خاوند طلاق خلع کے ساتھ دیتا ہے، مثلاً: وہ کہتا ہے کہ میں تمہیں اس شرط پر طلاق دیتا ہوں کہ تم مجھے میرا حق مہر لوٹا دو، تو راجح موقف کے مطابق فسخ نکاح ہو گا، یعنی خلع اور فسخ نکاح ہی شمار ہو گا چاہے خاوند اس کے ساتھ طلاق کا لفظ ہی کیوں نہ استعمال کرے۔
دوم:آپ دونوں بچے کی پیدائش پر خوشی منا سکتے ہیں اور جدا، جدا رہتے ہوئے بھی عقیقہ کر سکتے ہیں، تاہم اس خوشی کو منانے کے لیے دوبارہ نکاح کرنا واجب نہیں ہے، لیکن واضح رہے کہ آپ کے اس بچے کا والد تمام احکامات میں آپ کے لیے ایک اجنبی شخص ہے۔ہم آپ کو آپ کے سابقہ خاوند کی طرف رجوع کرنے سے قبل مشورہ دیں گے کہ استخارہ کریں اور اچھی طرح غور و خوض کر لیں؛ چنانچہ اگر آپ رجوع کرنے کو مناسب سمجھیں تو تجدید نکاح کے لیے یہ بہت ہی مناسب وقت ہے۔

(شیخ محمد صالح المنجد)

جواب:عورت اپنے محرم رشتہ داروں اور خواتین کے سامنے بالوں کو کھولے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، اور چاہے اکیلی بھی ہو تو تب بھی کوئی حرج نہیں، یہ بات تو اہل علم کے ہاں متفقہ طور پر مسلمہ ہے، مسلمان خواتین رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے سے لے کر اب تک اس پر عمل پیرا ہیں۔یہ دعوی کرنا کہ عورت اگر اپنے بالوں کو گھر میں کھولتی ہے تو شیطان اس کے بالوں سے کھیلتا ہے، تو یہ جھوٹا دعوی ہے، اس کی کوئی دلیل نہیں ہے، حدیث یا اقوال سلف میں اس کا کہیں ذکر نہیں ہے، اس لیے یہ دعویٰ کرنا جائز نہیں ہے، نہ ہی ایسی بات کو لوگوں کے درمیان بیان کرنا جائز ہے؛ کیونکہ فرمانِ باری تعالی ہے:
وَلَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَکَ بِہِ عِلْمٌ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ کُلُّ أُولَئِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْئُولًا
 ترجمہ: ایسی بات کے پیچھے مت لگ جس کے متعلق تجھے علم نہیں ہے؛ یقیناً سماعت، بصارت، اور دل ان تمام چیزوں کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ ] الإسراء :36[شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے درج ذیل سوال پوچھا گیا:جب کوئی مؤذن نماز کے لیے اذان دے، اور کسی عورت کے بال اپنے ذاتی گھر میں یا اہل خانہ کے ساتھ، یا پڑوسیوں کے گھر میں ہوتے ہوئے کھلے ہوں، وہاں پر اسے محرم مردوں اور خواتین کے علاوہ کوئی اور نہ دیکھ رہا ہو تو کیا یہ حرام عمل ہے؟ اور جب تک اذان ہوتی رہے گی اس وقت تک فرشتے اس پر لعنت کرتے رہیں گے؟تو انہوں نے جواب دیا:یہ بات صحیح نہیں ہے، چنانچہ اگر عورت کو کوئی اجنبی نہ دیکھ رہا ہو تو اسے بال کھولے رکھنے کی اجازت ہے چاہے مؤذن اذان دے رہا ہو، تاہم عورت جب نماز ادا کرے گی تو پھر اپنے چہرے کے علاوہ مکمل جسم کو ڈھانپے گی، نماز کی حالت میں متعدد اہل علم نے اپنی ہتھیلیوں اور قدموں کو بھی کھلا رکھنے کی اجازت دی ہے، لیکن احتیاط اسی میں ہے کہ انہیں بھی ڈھانپ لے، صرف چہرہ کھلا رکھنے کی اجازت ہے۔ یہ اس صورت میں ہے جب اس کے آس پاس اجنبی لوگ نہ ہوں، چنانچہ اگر اجنبی لوگ موجود ہوں گے تو اس پر چہرہ بھی ڈھانپ کر رکھنا لازمی ہے؛ کیونکہ اجنبی لوگوں کے سامنے چہرہ کھولنا جائز نہیں، صرف خاوند اور محرم مردوں کے سامنے جائز ہے۔'' 
 

(شیخ محمد صالح المنجد)

جواب:مصیبت رفع کرنے کی غرض سے اللہ تعالی سے دعا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، بلکہ یہ افضل ہے؛ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں آزمائشوں سے عافیت مانگنے کی ترغیب دلائی ہے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (دشمن سے جنگ کی تمنا مت کرو، بلکہ اللہ تعالی سے عافیت مانگو) اس حدیث کو امام بخاری: (7237) اور مسلم: (1742) نے روایت کیا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب مریض کی عیادت کرتے تو دعا فرمایا کرتے تھے: اللَّہُمَّ أَذْہِبْ الْبَأْسَ رَبَّ النَّاسِ، وَاشْفِ، فَأَنْتَ الشَّافِی، لَا شِفَاءَ إِلَّا شِفَاؤُکَ، شِفَاءً لَا یُغَادِرُ سَقَمًا یعنی: یا اللہ! لوگوں کے پروردگار بیماری دور کر دے، اور شفا دے، تو ہی شفا دینے والا ہے، تیری شفا کے بنا کوئی شفا نہیں، یا اللہ! ایسی شفا دے کہ کوئی بیماری نہ چھوڑے۔اس دعا کو ترمذی: (3565) نے روایت کیا ہے اور البانی نے صحیح ترمذی میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔ایسے ہی ایک بار سیدنا عثمان بن ابو عاص رضی اللہ عنہ نے اپنے جسم میں درد کی شکایت کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں فرمایا: (اپنے جسم کی درد والی جگہ پر ہاتھ رکھو اور تین بار کہو: بسم اللہ، بسم اللہ، بسم اللہ۔ پھر سات بار کہو: { أَعُوذُ بِاللَّہِ وَقُدْرَتِہِ مِنْ شَرِّ مَا أَجِدُ وَأُحَاذِرُ}یعنی: میں اللہ تعالی کی ذات اور قدرت کی پناہ چاہتا ہوں اس بیماری سے جو مجھ میں ہے یا جس کا مجھے خدشہ ہے۔) مسلم: (2202)پھر اللہ تعالی نے بھی تمام انبیائے کرام کے بارے میں بیان کیا کہ انہوں نے بھی اللہ تعالی سے تکلیف رفع کرنے کی دعائیں کی ہیں، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے: وَأَیُّوبَ إِذْ نَادَی رَبَّہُ أَنِّی مَسَّنِی الضُّرُّ وَأَنْتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِینَ ]83[ فَاسْتَجَبْنَا لَہُ ترجمہ: ایوب نے جب اپنے پروردگار کو پکارا کہ: مجھے تکلیف پہنچی ہے، اور تو ہی رحم کرنے والا ہے ]83[تو ہم نے ان کی دعا قبول کی۔ ]الأنبیاء:38، 84اسی طرح سیدنا یونس علیہ السلام کے بارے میں فرمایا:وَذَا النُّونِ إِذْ ذَہَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ أَنْ لَنْ نَقْدِرَ عَلَیْہِ فَنَادَی فِی الظُّلُمَاتِ أَنْ لَا إِلَہَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَکَ إِنِّی کُنتُ مِنْ الظَّالِمِینَ ]87[ فَاسْتَجَبْنَا لَہُ وَنَجَّیْنَاہُ مِنْ الْغَمِّ وَکَذَلِکَ نُنْجِی الْمُؤْمِنِینَ ترجمہ: مچھلی والے کو یاد کرو! جبکہ وہ غصہ سے چل دیے اور خیال کیا کہ ہم اس پر قدرت نہیں رکھتے! بالا آخر وہ اندھیروں کے اندر سے پکار اٹھا کہ الٰہی تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو پاک ہے بیشک میں ظالموں میں ہو گیا۔ تو ہم نے ان کی دعا کو قبول کیا اور ہم نے اسے غم سے نجات دی، اور اسی طرح ہم مومنین کو نجات دیتے ہیں۔ ]الأنبیاء:87، 88۔جب بھی کوئی پریشانی ہو تو دعا کی جائے اور بار بار کی جائے، اور اللہ تعالی سے گڑ گڑا کر دعائیں مانگیں۔
اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ مصیبت رفع کرنے کی دعا اور صبر کرنے میں کوئی تعارض ہے ہی نہیں؛ کیونکہ اللہ تعالی نے ہی ہمیں دعا کرنے کا کہا کہ ہم اس کے سامنے پوری طرح گڑگڑا کر دعائیں کریں، ہمارا دعا کرنا بھی اللہ تعالی کی عبادت ہے، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:وَقَالَ رَبُّکُمْ ادْعُونِی أَسْتَجِبْ لَکُمْ ترجمہ: اور تمہارے رب نے کہا ہے کہ: تم مجھے پکارو میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا۔]غافر:60[
اسی نے ہمیں صبر کرنے کا حکم بھی دیا ہے اور صبر کرنے پر ڈھیروں اجر و ثواب کا وعدہ بھی کیا اور فرمایا:إِنَّمَا یُوَفَّی الصَّابِرُونَ أَجْرَہُمْ بِغَیْرِ حِسَابٍ ترجمہ: یقیناً صبر کرنے والوں کو ان کا اجر بے حساب دیا جائے گا۔ ]غافر: 60 پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی اللہ تعالی سے دعا مانگی، حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سب سے زیادہ صبر کرنے والے ہیں، اور اللہ تعالی کے فیصلوں پر سب سے زیادہ راضی رہنے والے ہیں، چنانچہ اس سے معلوم ہوا کہ دعا کرنا صبر کے منافی نہیں ہے؛ کیونکہ صبر در حقیقت اپنے آپ کو تقدیری فیصلوں پر ناراضی سے بچانے کا نام ہے۔اس لیے اس میں کوئی مانع نہیں ہے کہ انسان دعا اور صبر دونوں عبادات بیک وقت کرے، بلکہ یہ افضل ترین کیفیت ہے؛ کیونکہ یہی کیفیت ہمارے نبی جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت ہے۔
 

(شیخ محمد صالح المنجد)

جواب:اگر معاملہ ایسے ہی جیسے آپ نے ذکر کیا ہے تو آپ کو اپنے اس عمل پر اجر نہیں ملے گا؛ کیونکہ آپ نے یہ رقم دیتے ہوئے رضائے الہی کو مد نظر نہیں رکھا، آپ نے تو اپنے مدیر سے ڈرتے ہوئے چندہ دیا تھا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت ہے کہ: (اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے، یقیناً ہر شخص کے لیے وہی ہے جس کی اس نے نیت کی۔)
 

(شیخ محمد صالح المنجد)

جواب:جس چیز کا نقصان دہ ہونا ثابت ہو جائے تو اسے کھانا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ فرمانِ باری تعالی ہے:وَلَا تَقْتُلُوا أَنْفُسَکُمْ إِنَّ اللَّہَ کَانَ بِکُمْ رَحِیمًا ترجمہ: اپنی جانوں کو قتل مت کرو؛ یقیناً اللہ تعالی تم پر نہایت مہربان ہے۔النساء: 29ایسے ہی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (اپنے آپ کو نقصان نہ پہنچاؤ اور نہ ہی کسی دوسرے کو نقصان پہنچاؤ) اس حدیث کو احمد، اور ابن ماجہ: (2341) نے روایت کیا ہے، اور البانی نے اسے صحیح ابن ماجہ میں صحیح قرار دیا ہے۔جب یہ بات ثابت ہو کہ کوئی بھی کھانے یا پینے کی چیز جسم کو یقینی طور پر نقصان پہنچاتی ہے تو اسے کھانا یا پینا جائز نہیں ہے، لیکن اگر محض گمان یا بے دلیل دعویٰ ہی ہو تو پھر اس سے حرمت ثابت نہیں ہوتی۔کھانے پینے کی چیزوں میں اصل یہ ہے کہ وہ حلال ہیں؛ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:ہُوَ الَّذِی خَلَقَ لَکُمْ مَا فِی الْأَرْضِ جَمِیعاً۔ ترجمہ: وہی ذات ہے جس نے تمہارے لیے زمین کی ہر چیز بنائی ہے۔]البقرۃ:29[
اس لیے کسی بھی چیز کے بارے میں حرام ہونے کا موقف صحیح اور واضح دلیل کے بغیر نہیں اپنایا جا سکتا، چنانچہ محض گمان یا شبہات سے کسی چیز کی حرمت ثابت نہیں ہوتی۔پھر اگر یہ بات ثابت ہو کہ ان مشروبات کی زیادہ مقدار جسم کو نقصان پہنچاتی ہے، اور اسی نقصان کی وجہ سے اس پر حرام ہونے کا حکم لگے تو پھر اس کی وہی مقدار حرام ہو گی جو نقصان دہ ہو، چنانچہ ان مشروبات کی قلیل مقدار حرام نہیں ہو گی، اہل علم یہ اصول ذکر کرتے ہیں کہ: ''جس چیز کی کثیر مقدار نقصان دہ ہو تو اس کی قلیل مقدار حلال ہوتی ہے۔''
اگر کوئی شخص ذاتی احتیاط کے طور پر ان مشروبات کو نہیں پینا چاہتا تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے، تاہم اس کے لیے ان مشروبات کو واضح دلیل کی صورت میں ہی حرام کہنا ممکن ہے۔
 

(شیخ محمد صالح المنجد)

جواب:جن چیزوں کے بارے میں ذخیرہ اندوزی کی ممانعت ہے ان کی تعیین میں اہل علم کی مختلف آرا ہیں، چنانچہ کچھ اہل علم صرف غذائی اجناس تک محدود کرتے ہیں تو کچھ ہر ایسی چیز کو بھی اس میں شامل کرتے ہیں جن کی لوگوں کو ضرورت پڑ سکتی ہے اور جس کی عدم دستیابی کی صورت میں لوگوں کو نقصان ہو، یہ مالکی فقہائے کرام کا موقف ہے اور امام احمد سے ایک روایت اسی کے مطابق منقول ہے، اور یہی موقف احادیث کے ظاہر کے مطابق صحیح ہے۔
'احادیث کا ظاہر یہی بتلاتا ہے کہ ذخیرہ اندوزی حرام ہے اور اس کے لیے انسانوں یا حیوانوں کی غذا میں کوئی فرق نہیں ہے، اگر کسی حدیث میں ''طعام'' یعنی انسانی غذائی جنس کے الفاظ ہیں تو یہ روایات دیگر مطلق روایات کو مقید کرنے کے لیے مناسب نہیں ہیں؛ کیونکہ یہ مطلق کے افراد میں سے کسی ایک کا صراحت کے ساتھ نام لینے کے قبیل سے ہے۔'' 
اسی طرح علامہ رملی شافعی ''أسنی المطالب'' پر حاشیہ کے صفحہ نمبر: (2/39) پر کہتے ہیں:''مناسب یہی ہے کہ ممنوعہ ذخیرہ اندوزی ہر اس کھانے اور پہننے کی چیز میں ہونی چاہیے جس کی عام طور پر ضرورت پڑتی رہتی ہے۔'' یہی موقف اس حکمت کے ساتھ بھی مناسب ہے جس کی وجہ سے ممنوعہ ذخیرہ اندوزی سے منع کیا گیا ہے، اور وہ ہے لوگوں کو نقصان پہنچانے کا ارادہ، چنانچہ اسی موقف کے مطابق دائمی فتوی کمیٹی (13/184) نے بھی فتوی جاری کیا ہے کہ:''ایسی چیز کو ذخیرہ کرنا جائز نہیں ہے جس کی لوگوں کو ضرورت ہو، اور اسی کو عربی میں احتکار کہتے ہیں؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (ناجائز ذخیرہ اندوزی خطا کار ہی کرتا ہے۔) اس حدیث کو احمد، مسلم، ابو داود، نسائی، اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔ نیز اس ذخیرہ اندوزی سے مسلمانوں کو نقصان پہنچانا مقصود ہوتا ہے۔
لیکن اگر لوگوں کو اس چیز کی ضرورت نہ ہو، تو پھر اس وقت تک کے لیے ان چیزوں کو ذخیرہ کرنا جائز ہے جب ان کی ضرورت پڑے اور پھر لوگوں کو مہیا کر دی جائیں تا کہ لوگوں کو کسی قسم کی کوئی تکلیف نہ ہو۔'' 
مذکورہ بالا تفصیلات کے مطابق: اگر موبائل ریچارج کارڈ ذخیرہ کرنے پر لوگوں کو کوئی نقصان نہیں ہوتا؛ کیونکہ لوگ کسی اور ذریعے سے اپنا کام چلا سکتے ہیں تو انہیں ذخیرہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، اور یہ ممنوعہ ذخیرہ اندوزی میں بھی نہیں آئے گا۔
لیکن اگر اب انہیں فروخت نہ کیا جائے تو اس سے لوگوں کو نقصان ہو گا، اور متبادل
 دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کو سخت تکلیف ہو گی، جس کی وجہ سے معمول سے بڑھ کر انہیں زیادہ قیمت ادا کرنا پڑے گی تو یہ حرام ذخیرہ اندوزی ہے۔
 

(شیخ محمد صالح المنجد)

جواب:تسمیہ پڑھنا مستحب ہے، واجب نہیں ہے، نیز سورت کے آغاز سے تلاوت کرے تو تب بھی بسم اللہ پڑھنا مستحب ہے، لہذا سورت فاتحہ کے آغاز میں نمازی تسمیہ پڑھے گا، جبکہ فاتحہ کے بعد والی قرائت اگر سورت توبہ کے علاوہ کسی اور سورت کے آغاز سے ہو تو تسمیہ پڑھے گا، وگرنہ نہیں پڑھے گا، چنانچہ اگر آغاز تلاوت درمیان سورت سے ہو تو بسم اللہ پڑھنا مستحب نہیں ہے۔
 

(شیخ محمد صالح المنجد)

جواب:اگر کوئی مسلمانوں کی ضروریات زندگی کی فراہمی کو مشکل بنانے کے لیے رکاوٹیں کھڑی کرتا ہے، مارکیٹ سے سارا مال اٹھا لیتا ہے اور لوگ پھر اسی سے مہنگے اور من مانے داموں خریدنے پر مجبور ہو جاتے ہیں تو یہ بلا شبہ احتکار یعنی ممنوعہ ذخیرہ اندوزی ہے، ایسے شخص کو گرفتار کرنا چاہیے اور اس عمل سے منع کرنا چاہیے۔ اگر معاملہ ایسے ہی ہے جیسے سائل نے ذکر کیا ہے کہ مارکیٹ میں اس کے علاوہ مال ہی نہیں ہے اور لوگوں کو اس کی ضرورت بھی ہے، لیکن یہ تاجر اکیلا ہی مارکیٹ سے سارا مال خرید لیتا ہے اور من مانی قیمت پر فروخت کرتا ہے تو یہ جائز نہیں ہے، ذمہ داران پر لازم ہے کہ ایسے شخص کو روکیں۔ لیکن اگر یہ چیزیں ضروریات سے نہیں بلکہ سہولیات سے تعلق رکھتی ہیں اور لوگوں کو اس کی ضرورت بھی نہیں ہے، یا پھر کسی اور بازار میں یہ چیز دستیاب ہے، یا اس چیز کا متبادل بھی بلا کسی مشقت کے دیگر جگہوں پر موجود ہے تو پھر یہ حرام نہیں ہو گا، تاہم پھر بھی مسلمان کو زیب نہیں دیتا کہ لوگوں پر تنگی ڈالے۔
 

(شیخ محمد صالح المنجد)

جواب:بیٹی پر شفقت و رحمدلی اور نرمی کرتے ہوئے اپنی بیٹی کو والد کا اپنے ساتھ لگانا اور اس کا سر یا رخسار کا بوسہ لینا جائز ہے، چاہے بیٹی بالغہ اور بڑی عمر کی ہو، لیکن اس میں شرط یہ ہے کہ فتنہ یا شہوت کا ڈر نہ ہو تو ایسا کرنا جائز ہے اور اس میں ہونٹوں کا بوسہ لینا جائز نہیں یہ مستثنی ہے کیونکہ یہ صرف خاوند اور بیوی کے ساتھ مخصوص ہے، اور اس لیے بھی کہ اس سے غالبا شہوت میں حرکت پیدا ہوتی ہے۔امام احمد رحمہ اللہ سے دریافت کیا گیا:آیا مرد اپنی محرم عورت کا بوسہ لے سکتا ہے یا نہیں؟انہوں نے جواب دیا:'' جب سفر سے واپس آئے اور اسے اپنے نفس کا (شہوت) کا ڈر نہ ہو تو.
اور الاقناع میں درج ہے:'' اگر کسی کو اپنے نفس کا خطرہ نہ ہو تو سفر سے واپس آنے والے شخص کے لیے اپنی محرم عورتوں کا بوسہ لینے میں کوئی حرج نہیں، لیکن وہ ایسا ہونٹوں پر مت کرے، بلکہ پیشانی اور سر کا بوسہ لے '' شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے دریافت کیا گیا:
اگر کسی شخص کی بیٹی بلوغت کی عمر سے تجاوز کر جائے اور بڑی ہو جائے چاہے شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ تو کیا اس کا ہاتھ اور مونہہ وغیرہ چومنا جائز ہے یا نہیں؟ اور اگر ان جگہوں کا بوسہ لیا جائے تو کیا حکم ہوگا؟
شیخ رحمہ اللہ کا جواب تھا:'' مرد کے لیے بغیر شہوت اپنی چھوٹی یا بڑی عمر کی بیٹی کا بوسہ لینے میں کوئی حرج نہیں، اور اگر بیٹی بڑی ہے تو پھر رخسار کا بھی بوسہ لے سکتا ہے کیونکہ ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ سے ثابت ہے کہ انہوں نے اپنی بیٹی عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ کے رخسار کا بوسہ لیا تھا۔
اور صحیح بخاری میں ہی روایت ہے کہ:براء رضی اللہ تعالی عنہ ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ ہجرت کے بعد ان کے گھر گئے تو ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ کی بیٹی عائشہ لیٹی ہوئی تھی اور انہیں بخار تھا تو عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کے باپ نے عائشہ کا رخسار چوما اور کہنے لگے: میری بیٹی تم کیسی ہو؟ ''
صحیح بخاری حدیث نمبر (3704).
 

(شیخ محمد صالح المنجد)