ضرب المثل اشعار

مصنف : اسلم ملک

سلسلہ : شعر و ادب

شمارہ : نومبر 2022

فانوس بن کے جس کی حفاظت ہوا کرے
وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے
شہیر مچھلی شہری
مدعی لاکھ برا چاہے تو کیا ہوتا ہے
وہی ہوتا ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے
ثاقب لکھنوی
بڑے شوق سے سن رہا تھا زمانہ
ہمیں سو گئے داستاں کہتے کہتے
ثاقب لکھنوی
دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
مہتاب رائے تاباں
خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے
امیر مینائی
قیس جنگل میں اکیلا ہے مجھے جانے دو
خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو
میاں داد خان سیاح
لب پہ آتی ہے دُعا بن کے تمنا میری
زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری
علامہ اقبال
قتل حسین اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
مولانا محمد علی جوہر
بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالبؔ
تماشائے اہلِ کرم دیکھتے ہیں
مرزا غالب
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
کلیم عاجز
کعبے کس منہ سے جاؤ گے غالب
شرم تم کو مگر نہیں آتی
مرزا غالب
وحشت میں ہر اک نقشہ الٹا نظر آتا ہے
مجنوں نظر آتی ہے لیلیٰ نظر آتا ہے
ظریف لکھنوی
فسانے اپنی محبت کے سچ ہیں، پر کچھہ کچھہ
بڑھا بھی دیتے ہیں ہم زیب داستاں کے لئے
شیفتہ
تقدیر کے قاضی کا یہ فتوی ہے ازل سے
ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات
خودی کا سر نہاں لا الہ الا اللہ
خودی ہے تیغ فساں لا الہ الا اللہ
دیارِعشق میں اپنا مقام پیدا کر
نیا زمانہ نئے صبح و شام پیدا کر
پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر
مردِ ناداں پر کلامِ نرم و نازک بے اثر
(بھرتری ہری کا خیال اقبال کے الفاظ میں)
نہ تو زمیں کے لیے ہے نہ آسماں کے لیے
جہاں ہے تیرے لیے تو نہیں جہاں کے لیے
اقبال بڑا اپدیشک ہے، من باتوں میں موہ لیتا ہے
گفتار کا یہ غازی تو بنا، کردار کا غازی بن نہ سکا
تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر
علامہ اقبال
ہم نہ کہتے تھے کہ حالی چپ رہو
راست گوئی میں ہے رسوائی بہت
حالی
خلاف شرع کبھی شیخ تھوکتا بھی نہیں
مگر اندھیرے اجالے میں چوکتا بھی نہیں
اکبر الہ آبادی
لگا رہا ہوں مضامینِ نو کے انبار
خبر کرو میرے خرمن کے خوشہ چینوں کو
میر انیس
نازکی اس کے لب کی کیا کہیے
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے
میرتقی میر
آ عندلیب مل کے کریں آہ و زاریاں
تو ہائے گل پکار میں چلاؤں ہائے دل
سید محمد خاں رند
وہ آئے بزم میں اتنا تو برق نے دیکھا
پھر اسکے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی
مہاراج بہادر برق
رندِ خراب حال کو زاہد نہ چھیڑ تو
تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو
ابراہیم ذوق
آئے بھی لوگ، بیٹھے بھی، اٹھ بھی کھڑے ہوئے
میں جا ہی ڈھونڈتا تیری محفل میں رہ گیا
آتش
وہ شیفتہ کہ دھوم ہے حضرت کے زہد کی
میں کیا کہوں کہ رات مجھے کس کے گھر ملے
شیفتہ
چل ساتھ کہ حسرت دلِ محروم سے نکلے
عاشق کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
فدوی عظیم آبادی
اب یادِ رفتگاں کی بھی ہمت نہیں رہی
یاروں نے کتنی دور بسائی ہیں بستیاں
فراق گورکھپوری
داور حشر میرا نامہ اعمال نہ دیکھ
اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں
محمد دین تاثیر
فصل بہار آئی، پیو صوفیو شراب
بس ہو چکی نماز، مصلّا اٹھائیے
آتش
مری نمازہ جنازہ پڑھی ہے غیروں نے
مرے تھے جن کے لئے، وہ رہے وضو کرتے
آتش
امید وصل نے دھوکے دئیے ہیں اس قدر حسرت
کہ اس کافر کی ہاں بھی اب نہیں معلوم ہوتی ہے
چراغ حسن حسرت
ہر تمنا دل سے رخصت ہو گئی
اب تو آجا اب تو خلوت ہو گئی
عزیز الحسن مجذوب
دی موذن نے شب وصل اذاں پچھلی رات
ہائے کم بخت کو کس وقت خدا یاد آیا
داغ دہلوی
 درم و دام اپنے پاس کہاں
چیل کے گھونسلے میں ماس کہاں
غالب
چتونوں سے ملتا ہے کچھ سراغ باطن کا
چال سے تو کافر پہ سادگی برستی ہے
یگانہ چنگیزی
دیکھ کر ہر درو دیوار کو حیراں ہونا
وہ میرا پہلے پہل داخل زنداں ہونا
عزیز لکھنوی
اپنے مرکز کی طرف مائل پرواز تھا حسن
بھولتا ہی نہیں عالم تیری انگڑائی کا
عزیز لکھنوی
دینا وہ اُس کا ساغرِ مئے یاد ہے نظام
منہ پھیر کر اُدھر کو اِدھر کو بڑھا کے ہاتھ
نظام رام پوری
گرہ سے کچھ نہیں جاتا ہے پی لے زاہد
ملے جو مفت تو قاضی کو بھی حرام نہیں
امیر مینائی
یہی فرماتے رہے تیغ سے پھیلا اسلام
یہ نہ ارشاد ہوا توپ سے کیا پھیلا ہے
اکبر الہ آبادی
بے پردہ کل جو آئیں نظر چند بیبیاں
اکبر زمیں میں غیرت قومی سے گڑ گیا
پوچھا جو ان سے آپ کا پردہ وہ کیا ہوا
کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کی پڑ گیا
اکبر الہ آبادی
توڑ کر عہد کرم نا آشنا ہو جائیے
بندہ پرور جائیے اچھا خفا ہو جائیے
حسرت موہانی
تمہیں چاہوں، تمہارے چاہنے والوں کو بھی چاہوں
مرا دل پھیر دو، مجھ سے یہ جھگڑا ہو نہیں سکتا
مضطر خیر آبادی
دیکھ آؤ مریض فرقت کو
رسم دنیا بھی ہے، ثواب بھی ہے
حسن بریلوی
الجھا ہے پاؤں یار کا زلفِ دراز میں
لو آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا
مومن خان مومن
دیکھا کئے وہ مست نگاہوں سے بار بار
جب تک شراب آئے کئی دور ہو گئے
شاد عظیم آبادی
گو واں نہیں، پہ واں کے نکالے ہوئے تو ہیں
کعبے سے ان بتوں کو بھی نسبت ہے دور کی
غالب
جانتا ہوں ثوابِ طاعت و زہد
پر طبیعت ادھر نہیں آتی
غالب
غالب برا نہ مان جو واعظ برا کہے
ایسا بھی کوئی ہے کہ سب اچھا کہیں جسے
غالب
بلبل کے کاروبار پہ ہیں خندہ ہائے گل
کہتے ہیں جس کو عشق خلل ہے دماغ کا
غالب
ہزار شیخ نے داڑھی بڑھائی سن کی سی
مگر وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی
اکبر الہ آبادی
فکر معاش، عشقِ بتاں، یادِ رفتگاں
اس زندگی میں اب کوئی کیا کیا کرے
سودا
یہ دستور زباں بندی ہے کیسا تیری محفل میں
یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری
اقبال
یہ بزم مئے ہے یاں کوتاہ دستی میں ہے محرومی
جو بڑھ کر خود اٹھا لے ہاتھ میں وہ جام اسی کا ہے
شاد عظیم آبادی
حیات لے کے چلو، کائنات لے کے چلو
چلو تو سارے زمانے کو ساتھ لے کے چلو
مخدوم محی الدین
صد سالہ دور چرخ تھا ساغر کا ایک دور
نکلے جو مے کدے سے تو دنیا بدل گئی
گستاخ رام پوری
اگر بخشے زہے قسمت نہ بخشے تو شکایت کیا
سر تسلیمِ خم ہے جو مزاجِ یار میں آئے
میرتقی میر
اندازِ بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے
شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات
اقبال
آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہونے تک
کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک
مرزاغالب
دیکھے ہیں بہت ہم نے ہنگامے محبت کے
آغاز بھی رسوائی انجام بھی رسوائی
صوفی غلام مصطفےٰ تبسم
دائم آباد رہے گی دنیا
ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہو گا
ناصرکاظمی
نیرنگء سیاست دوراں تو دیکھئے
منزل انھیں ملی جو شریک سفر نہ تھے
محسن بھوپالی
جس عہد میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی 
اس عہد کے سلطان سے کچھ بھول ہوئی ہے 
ساغر صدیقی
اب تو جاتے ہیں بت کدے سے میر
پھر ملیں گے اگر خدا لایا
میر تقی میر
شرط سلیقہ ہے ہر اک امر میں
عیب بھی کرنے کو ہنر چاہئیے
میر تقی میر
بہت کچھ کہنا ہے کرو میر بس
کہ اللہ بس اور باقی ہوس
میر تقی میر
بھانپ ہی لیں گے اشارہ سر محفل جو کیا
تاڑنے والے قیامت کی نظر رکھتے ہیں
مادھو رام فرخ جوہر آبادی
بیٹھنے کون دے ہے پھر اس کو
جو تیرے آستاں سے اٹھتا ہے
میر تقی میر
ہم فقیروں سے بے ادائی کیا
آن بیٹھے جو تم نے پیار کیا
میر تقی میر
دن کٹا، جس طرح کٹا لیکن
رات کٹتی نظر نہیں آتی
سید محمد اثر
تدبیر میرے عشق کی کیا فائدہ طبیب
اب جان ہی کے ساتھ یہ آزار جائے گا
میر تقی میر
میرے سنگ مزار پر فرہاد
رکھ کے تیشہ کہے ہے، یا استاد
میر تقی میر
سرخ رو ہوتا ہے انساں ٹھوکریں کھانے کے بعد
رنگ لاتی ہے حنا پتھر پہ پس جانے کے بعد
سید غلام محمد مست کلکتوی
زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے
جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں
ساغر صدیقی
دنیا میں ہوں، دنیا کا طلب گار نہیں ہوں
بازار سے گزرا ہوں، خریدار نہیں ہوں
اکبر الہ آبادی
اے عدم احتیاط لوگوں سے
لوگ منکر نکیر ہوتے ہیں
عبدالحمید عدم
دیوار کیا گری مرے خستہ مکان کی 
لوگوں نے میرے صحن میں رستے بنا لیے
سبط علی صبا
اب اداس پھرتے ہو سردیوں کی شاموں میں
اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں
شعیب بن عزیز
گو ذرا سی بات پر برسوں کے یارانے گئے
لیکن اتنا تو ہوا کچھ لوگ پہچانے گئے
خاطر غزنوی
جہاں بھونچال بنیاد فصیل و در میں رہتے ہیں
ہمارا حوصلہ دیکھو ہم ایسے گھر میں رہتے ہیں
اقبال ساجد
سیف اندازِ بیاں رنگ بدل دیتا ہے
ورنہ دنیا میں کوئی بات نئی بات نہیں
سیف الدین سیف
میں کس کے ہاتھ میں اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے
انہیں پتھروں پہ چل کر اگر آ سکو تو آؤ
مرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے
مری روح کی حقیقت مرے آنسوؤں سے پوچھو
مرا مجلسی تبسم مرا ترجماں نہیں ہے
مصطفی زیدی 
ایک مدت سے میری ماں نہیں سوئی تابش
میں نے اک بار کہا تھا مجھے ڈر لگتا ہے
عباس تابش
اک اور دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
منیر نیازی
کیسے کہہ دوں کہ مجھے چھوڑ دیا ہے اس نے
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی
پروین شاکر
’’گرتے ہیں شہسوار ہی میدانِ جنگ میں
وہ طفل کیا گرے گا جو گھٹنوں کے بل چلے‘‘
عظیم دہلوی
’’زندگی زندہ دلی کا نام ہے
مردہ دل کیا خاک جیا کرتے ہیں‘‘
شیخ امام بخش ناسخؔ
تھی خبر گرم کہ غالب کے اڑیں گے پرزے
دیکھنے ہم بھی گئے تھے پہ تماشا نہ ہوا
غالب
سدا عیش دوراں دکھاتا نہیں
گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں
میر حسن
کہتے ہیں آج ذوق جہاں سے گذر گیا
’’کیا خوب آدمی تھا، خدا مغفرت کرے‘‘
(ذوق)

شعر و ادب
ضرب المثل اشعار
محمد اسلم ملک