داؤدي بوہري فرقہ

مصنف : محمد فہد حارث

سلسلہ : مذاہب عالم

شمارہ : اكتوبر2022

داؤدی بوہرے اہل تشیع کے اسمٰعیلی باطنی طیبی مذہب سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے نزدیک قرآن کے دو معنی ہیں۔ ایک ظاہر جس پر عوام الناس مطلع ہوتے ہیں جبکہ دوسرے باطنی جس تک رسائی صرف اماموں اور داعی مطلق کو ہی ہے۔ ان کے عقائد قدیم روافض، معتزلہ اور یونانی فلاسفہ کا معجون مرکب ہیں۔ ان کے عقائد میں یہ بات داخل ہے کہ سیدنا علیؓ اور ان کے ائمہ کو اللہ نے دنیا کی بیشتر ذمہ داریاں اور اپنے بہت سے اختیارات تفویض کررکھے ہیں۔ یہ نہایت ضعیف الاعتقاد ہوتے ہیں۔ ان کے بیشتر عقائد اثنا عشریہ جیسے ہی ہیں۔ البتہ دونوں فرقوں کے عقائد کا موازنہ کرنے سے سمجھ میں نہیں آتا کہ کس پر ''زیادہ گمراہ '' ہونے کا فتویٰ لگایا جائے۔
بوہرے اثنا عشریہ کو بہت حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ان کو بدعتی جانتے ہیں۔ان کے ہاں امامت کا سلسلہ امام طیب پر ختم ہوچکا ہے اور اس کے بعد داعیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ ان کے نزدیک اثنا عشریہ شیعوں کا امامت کا نظریہ ایک طرح سے ختمِ نبوت کے منافی ہے۔ ان کے ہاں محرم کا سوگ صرف ۱۰دن کا ہوتا ہے جس میں کسی قسم کا ماتم نہیں کیا جاتا۔ بوہرے اثنا عشریہ شیعوں کے مراسم ِمحرّم کو سخت ناپسند کرتے ہیں اور اسکو بدعت قرار دیتے ہیں البتہ محرّم میں سینہ کوبی اور ہلکی آواز سے بین کرنے کا رواج موجود ہے۔ یہ لوگ اثنا عشریہ شیعوں کے ہاں مروج تعزیہ کو سخت برا جانتے ہیں اور اسکو بت پرستی قرار دیتے ہیں۔ ان کے ہاں مرثیے پڑھنے کا رواج بھی تقریباً ختم ہوتا جارہا ہے۔ محرم کی مجالس میں زیادہ تر صرف روایات پڑھی جاتی ہیں۔
بوہرے سفید چادر پر نماز پڑھتے ہیں جو کہ صرف نماز پڑھنے کے لئے مخصوص ہوتی ہے۔ یہ مصلٰی بوہرے عموماً اپنے ساتھ لیکر سفر کرتے ہیں البتہ اگر کہیں یہ مصلیٰ یعنی سفید چادر میسر نہ آئے تو پھر کسی سے سفید دھلی چادر مستعار لے کر اس پر صلوٰۃ ادا کرلیتے ہیں۔ نماز کے نہایت پابند ہوتے ہیں اور بغیر اپنی مخصوص سنہری کامدار ٹوپی کے نماز نہیں پڑھتے۔ چونکہ بنو عباس کا سرکاری لباس سیاہ رنگ کا ہوتا تھا سو ان کی مخالفت میں ان کا مذہبی لباس سفید رنگ پر مشتمل ہوتا ہے جس کو یہ اپنی مذہبی مجالس، جماعت خانے آنے جانے میں اور محرم میں زیب تن کرتے ہیں۔ عموماً جو حضرات زیادہ مذہبی ہوتے ہیں وہ مستقل بنیادوں پر یہ لباس اور ٹوپی پہنے رکھتے ہیں۔ یہ لباس سفید شیروانی اچکن، پاجامے اور سفید سنہری کام والی ٹوپی پر مشتمل ہوتا ہے۔
 بیس سال کی عمر ہونے پر لڑکے کی دھوم دھام سے سالگرہ مناتے ہیں جو ان کے ہاں ایک طرح سے مذہبی تقریب سمجھتی جاتی ہے جس میں داعی مطلق یا ان کے نائب یعنی ماذون یا عامل سے لڑکے کے لئے خصوصی دعا کروائی جاتی ہے۔ میں خود اس طرح کی ایک تقریب میں شریک رہا ہوں ہر بوہری کے گھر اور دکان میں ان کے موجودہ داعی مطلق جن کو یہ ''سیدنا'' پکارتے ہیں کی تصویر آویزاں ہوتی ہے جبکہ انہی سیدنا کی ایک چھوٹی تصویر ہر بوہری مرد و عورت، بچہ و بچی برکت کی غرض سے اپنے بٹوے میں رکھتا ہے۔
گھوڑا بوہروں کے ہاں پسندیدہ جانور مانا جاتا ہے جبکہ ہندوؤں سے تنفر کی بناء پر ہاتھی کو سخت ناپسند کرتے ہیں اور گھر میں کسی صورت اس کی کوئی تمثیل یا شبیہ رکھنے کو از حد ناپسند کرتے ہیں۔ البتہ ان کے گھروں میں گھوڑوں کی تصاویر و تماثیل اکثر نظر آجاتی ہیں۔ ہندوؤں سے تنفر کے سبب ہی یہ اپنے بیت الخلاء میں ہندو پنڈتوں کی مخصوص لکڑی کی چپلیں جن کو کھڑاؤں کہا جاتا ہے، پہنتے ہیں۔ ہر بوہری کے گھر میں آپ کو واش روم میں یہ کھڑاؤن نظر آتی ہے ۔ اس کھڑاؤن کو پہن کر باتھ روم جانا سرکس کی رسی پر چلنے سا مشکل لگتا ہے۔ راقم کو کئی دفعہ اس کھڑاون کو پہن کر واش روم جانے کا جوکھم اٹھانا پڑا ہے۔ ان کے بیت الخلاؤں میں عام لوٹے نہیں ہوتے بلکہ اسٹیل کے مخصوص سلینڈر شکل کے لوٹے ہوتے ہیں جن کے آگے ایک پتلی اور لمبی سی نالی سے پانی باہر آتا ہے۔ یہ لوٹے بالکل اسی طرح کے ہوتے ہیں جیسے پانی کے لوٹوں سے عموماً گھروں میں پودوں کو پانی دیا جاتا ہے۔ بس ان لوٹوں کے آگے پودوں کو پانی دینے والے لوٹوں کی طرح کے شاور نہیں لگے ہوتے۔ استنجاء کرنے کے لئے ان مخصوص لوٹوں کا استعمال بھی کسی مشکل سے کم نہیں۔ بیت الخلاء میں کموڈ کو ناپسند کرتے ہیں اور اشد مجبوری نہ ہو تو ہر بوہری کے گھر میں بیت الخلاؤں میں ڈبلیو سی ہی لگے ہوتے ہیں۔ واش روم یعنی بیت الخلاء اور باتھ روم یعنی نہانے کا کمرہ الگ الگ ہوتا ہے۔ یہ کبھی واش روم یعنی بیت الخلاء میں وضو نہیں کرتے۔
یہ زمین پر بیٹھ کر تھال میں کھانا کھاتے ہیں ڈائننگ ٹیبل کا کوئی تصور نہیں ہوتا۔ مختصر خاندانوں کے لئے چھوٹے تھال ہوتے ہیں جس میں ایک وقت میں ۴ سے ۵ افراد ایک ساتھ کھانا کھاسکتے ہیں اور بڑے خاندانوں کے لئے بڑے تھال ہوتے ہیں جس میں ایک وقت میں ۸ سے ۱۰’ افراد کھانا کھاتے ہیں۔ کھانے کی ابتدا یہ ہمیشہ نمک چاٹ کر کرتے ہیں جو کہ تھال کے بیچ میں ایک چھوٹی کٹوری یا پھر ایسے ہی ڈھیر کی صورت میں رکھا ہوا ہوتا ہے۔ کھانے کے اختتام پر تھال کو بالکل صاف کرکے اٹھتے ہیں اور ہاتھوں سے کھانا کھاتے ہیں۔ البتہ میٹھے کے لئے چمچے استعمال کرتے ہیں۔ غیر بوہری مہمانوں کو ان کے ہاں کھانا کھانے میں مشکل محسوس ہوتی ہے کیونکہ وہ اس طرز کے عادی نہیں ہوتے۔ کھانے کا ایک دانہ نالی میں نہیں بہنے دیتے اسی سبب بوہری خواتین کھانے کے برتن دھوتے ہوئے تمام برتنوں کو انگلیوں سے چاٹتی جاتی ہیں کہ کوئی دانہ برتنوں کی دھلائی کے وقت نالی میں نہ چلا جائے۔
داؤدی بوہرے نہایت ضعیف الاعتقاد ہوتے ہیں۔ ان کے ہاں مذہب کے نام پر کئی عجیب چیزیں رائج ہیں۔ مثال کے طور پر جب کسی خاتون کا شوہر انتقال کرجاتا ہے تو وہ عدت کے دنوں میں آئینہ نہیں دیکھ سکتی۔ گھر میں جتنے آئینے ہوتے ہیں سب کو یا تو ہٹا دیا جاتا ہے یا پھر ان پر سفید کپڑا ڈال دیا جاتا ہے۔ عدت کے دنوں میں خاتون خاص طرز کا سلا ہوا مکمل سفید لباس پہنتی ہیں اور سخت پردے میں رہتی ہیں۔ یہ پردہ اتنی سخت نوعیت کا ہوتا ہے کہ گود کے بچے تک سے کیا جاتا ہے۔ آج سے تین سال قبل میرے بوہری دوست کے والد کا انتقال ہوا۔ میں اپنی زوجہ، تین سال کی بیٹی ہند اور ۶ماہ کے بیٹے معاویہ کے ساتھ دوست کے گھر تعزیت کرنے گیا۔ میری زوجہ جب دوست کی والدہ سے ملنے اندر گئیں تو ہمارے چھ ماہ کے بچے کو باہر میرے پاس چھوڑ کر جانا پڑا کیونکہ دوست نے کہا کہ ان کے ہاں عدت میں گود کے بچے سے بھی پردہ ہوتا ہے۔ اسی طرح آپ کو اکثر بوہروں کے چھوٹے بچوں کے کان کے پاس کسی مارکر یا پین سے الف اورنون لکھا نظر آئے گا۔ یعنی دائیں کان
 کے پاس گال پر ''الف'' اور بائیں کان کے پاس ''ن'' لکھا جاتا ہے۔ یہ بچوں کو نظرِ بد سے بچانے کے لئے ان کے سیدنا یعنی داعی مطلق کی طرف سے بتایا گیا مشہور وظیفہ ہے جس پر تقریباً ہر بوہری عمل پیرا ہوتا ہے۔
اس طرح کی دیگر کئی تفصیلات آپ کو ہمارے ادارے سے شائع شدہ کتاب ''داؤدی بوہرے۔ ایک اجمالی تعارف'' میں مل جائیں گی۔