قدرت اور قانون قدرت

مصنف : محمد صدیق بخاری

سلسلہ : آواز دوست

شمارہ : ستمبر 2022

ایکسیڈنٹ میں اس کی ٹانگ تین جگہ سے ٹوٹ چکی تھی ، سر اور چہرہ بھی بر ی طرح زخمی تھا، ہاتھ و بازو پہ بھی چوٹیں اور پسلیاں بھی مجروح تھیں مگر پھر بھی وہ حوصلے میں تھامگر جب اسے یہ معلوم ہوا کہ ایک آنکھ کی بینائی بھی رخصت ہو رہی ہے تو وہ بہت پریشان ہوا۔باقی تمام چوٹوں کے بارے میں اسے یقین تھا کہ وقت تو لگے گا مگر وہ سب ٹھیک ہو جائیں گی لیکن آنکھ کے بارے میں وہ اس پریشانی کا شکار تھا کہ اب وہ کیسے پڑھ لکھ سکے گا؟ پڑھنالکھنا اس کی زندگی تھا اسی لیے اسے یہ احساس شدت کے ساتھ اندر سے کاٹ رہا تھا کہ شایداب نارمل زندگی گزارنا مشکل ہو۔بستر سے اٹھتے اٹھتے ڈیڑھ برس بیت گیا۔چلنا پھرناممکن ہوا تو اس نے بہت سے ماہرین چشم سے مشورہ کیا۔سب کی متفقہ رائے تھی کہ آنکھ کی بینائی واپس نہیں آ سکتی کیونکہ دماغ میں اس آنکھ سے متعلقہ مرکز ضائع ہو چکا ہے۔انسان ہونے کے ناطے اس کے مزاج میں بھی ایک قسم کی کمزوری اور ضعف موجود تھا۔ اسی ضعف نے اسے کچھ عرصہ تو پریشان رکھا مگر پھر اس نے سوچا کہ وہ جو دو آنکھو ں کا خالق ہے کیا اس کے لیے یہ مشکل ہے کہ وہ دو کا کام ایک ہی آنکھ سے لے لے ؟ دل نے بتایا کہ اس کے لیے کچھ بھی مشکل نہیں وہ سب کچھ کے بغیر سب کچھ کر سکتا ہے ۔اس نے اپنی کائنات کو بنانے کے لیے قوانین تو بنائے ہیں مگر وہ ان کا محتاج نہیں اس کی قدرت ان سب پر حاوی ہے اور اس کی قدرت یہ ہے کہ وہ جوچاہے ، جب چاہے ،جہاں چاہے اورجتنا چاہے کر سکتا ہے ۔یہی سوچ کر اس نے جبین نیاز مالک کے حضور رکھ دی اور عر ض کی کہ مالک میں تیرے ہر فیصلے پر راضی ہوں ۔تو نے مجھے اس حال میں زندگی بخشی ہے کہ جب کسی کو بھی یقین نہ تھا کہ اس کی زندگی بچ جائے گی۔ اب مزید احسان فرما اور مخلوق میں رسوا ہونے سے بچا لے۔ میری کمزوری ، بے بسی پہ رحم فرما۔ اپنی بے بسی کی فریاد تجھی سے کرتاہوں اور تجھی سے مدد کا خواستگار ہوں۔اپنی فریاد مالک کے حضور پیش کر کے وہ مطمئن ہو گیا اور اس نے سوچا کہ مالک نے زندگی نئے سرے سے بخشی ہے تو اسے اسی کے دین کے لیے استعمال کرنا چاہیے ۔ یہی سوچ کر اس نے دین کی تعلیم حاصل کر نے کا فیصلہ کیا۔اور پھر تین برس وہ اس طرح دین پڑھتا رہا کہ اس دوران میں اس نے جتناپڑھا، اتنا پچھلی ساری زندگی میں نہ پڑھاتھا۔ وہ پڑھائی جو وہ دو آنکھوں سے کیا کرتا تھا اس سے زیادہ وہ ایک آنکھ سے کر رہا تھا اور مالک نے اسے یہ احساس بھی نہ ہونے دیا تھا کہ اس کی ایک آنکھ ہے ۔ قانو ن قدرت یہی تھا کہ دو آنکھیں اتنا کام کیا کرتی ہیں مگرقدرت یہ تھی کہ وہ چاہے تو ایک سے دونوں کا کام لے لے بلکہ دو سے بھی زیادہ لے لے اور محسوس بھی نہ ہونے دے۔اور پھر مالک نے مزید کرم یہ فرمایا کہ بظاہراس کی آنکھ کو ایسا کر دیا کہ کوئی بھی دیکھنے والا یہ نہیں کہہ سکتا تھاکہ اسکی یہ آنکھ بینائی سے محروم ہے 
اس تجربے سے گزر کر اس کا یہ یقین ، یقین کامل میں بدل گیا کہ قانون قدرت اور قدرت دو الگ الگ چیزیں ہیں۔اللہ اپنے بنائے ہوئے قوانین کاپابند نہیں وہ جب چاہے،جہاں چاہے اور جس کے لیے چاہے انہیں معطل کر سکتا ہے اورجب چاہے انکے برعکس بھی کر سکتا ہے ۔ پانی کاکام ڈبونا ہے مگر چاہے تو وہی پانی موسی کو نہ ڈبوئے اور فرعون کو ڈبو دے۔ آگ کا کام جلانا ہے مگر وہی آگ چاہے تو ابراہیم کو نہ جلائے ۔قانون یہی ہے کہ پانی اور ہائیڈروجن ملیں گے تو پانی بنے گا، اور یہ کہ دو اور دو چار ہوتے ہیں مگر ہر قانون کے اندر یہ مضمر شرط موجود ہے کہ اگر وہ چاہے تو۔۔۔! اس نے کائنات کو قوانین میں باندھ رکھا ہے اور عموماً یہ قوانین رو بہ عمل رہتے ہیں مگرتبھی تک جب تک وہ چاہے ۔ اپنے جس بندے ،جس گروہ ، جس قوم کے لیے وہ چاہے ، اپنی قدرت کو بروئے کار لا سکتا ہے اور اس کی قدرت اس کے قوانین سے بالا تر ایک چیز ہے انبیا کی محنت کا بہت بڑا جز یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ انسانو ں کو قانون قدرت سے بالا تر ہو کر اس کی قدرت سے لینا سکھادیں۔ نبوت کا یہ وہ اہم سبق ہے جو مسلم امت من الحیث القوم بھول چکی ہے۔ کوئی فرد ، کوئی جماعت ، کوئی لیڈر ان کو یہ سبق یاد نہیں دلاتا۔ عام حالات میں قانون قدرت پرعمل ہی کامیابی کا ضامن ہے مگر خاص حالات میں قدرت سے کام لینا بھی ہمارے علم میں ہونا چاہیے۔ہم یہ سمجھتے ہیں کہ آج کی دنیا میں مسلمانوں کے بہت غموں کا علاج اس امر میں پوشید ہ ہے کہ قوانین قدرت کے ساتھ ساتھ ان کا مالک کی قدرت سے بھی تعلق قائم ہوجائے۔ جب اسکی قدرت ساتھ ہوجاتی ہے تو تو بعض اوقات قوانین کے پردے ہٹ جایا کرتے ہیں۔ قدرت کو ساتھ لینے اور اس سے تعلق بنانے کاراستہ بھی اس نے خود ہی بتا دیا ہے اور وہ ہے تقوی۔اسی تقوے پر اس کا وعدہ ہے کہ میں کرہ ارضی کی خلافت تمہیں دے دوں گا اور تمہیں وہاں سے رزق فراہم کروں گا جہاں سے تمہیں وہم و گما ن بھی نہ ہوگا۔وہم و گمان سے بالا تر وہی چیز ہوتی ہے جو قوانین سے بالاتر ہو اور قوانین سے بالا تر چیز بہر حال اس کی قدرت ہی ہے ۔تو پھرکیوں نہ انفرادی اوراجتماعی طور پر اس کی قدرت سے تعلق قائم کیا جائے ؟ انفرادی تعلق ہو گا تو انفرادی نصرت آئے گی اور اجتماعی تعلق ہو گا تو اجتماعی۔ لیکن یہ امر بہر حال مستحضر رہنا چاہیے کہ قدرت سے تعلق قوانین قدرت کو چھوڑ کر یا توڑ کر حاصل نہیں ہو سکتا بلکہ ان کے دائرے میں چلتے ہوئے تقوی کی ایک خاص سطح، بندگی کی ایک خاص حالت، اور بے بسی کی ایک خاص کیفیت میں خود بخود حاصل ہو جاتا ہے بشرطیکہ وہ سطح ، وہ حالت اور وہ کیفیت صرف مالک کے لیے ہو اور وہ مالک کو پسند بھی آجائے-