کون کہاں کھڑا تھا

مصنف : مصطفی ملک

سلسلہ : پاکستانیات

شمارہ : اگست 2022

اصل تاریخ جو ہماری نسل سے چھپا لی گئی-
پاکستان میں پہلی دھاندلی 1965 کے صدارتی الیکشن میں فوج ،بیوروکریٹس، پیروں اور وڈیروں کےگٹھ جوڑ سے ہوئی جس کے بعد حق سچ کا ساتھ دینے والے کتنے ہی لوگ جنہوں نے پاکستان کیلئےسب کچھ قربان کردیا تھا غدار کہلائے۔اور کیسے کیسے لوگ معتبر بن بیٹھے 
صدارتی الیکشن۔1965 وہ سیاہ دن تھا جب کتّا کنویں میں گرا تھا جسے آج تک نہیں نکالا جاسکا بس ضرورتاً چند ڈول پانی نکال کر ہر کوئی اپنا راستہ ہموار کر لیتا ہے۔ فساد کی ماں 1965 کے صدارتی الیکشن پر اب کوئی بات بھی نہیں کرتا اور نہ انکے بارے میں کچھ لکھا جاتا ہے کہ نئی نسل کو آگہی ہو کہ کیسے اس الیکشن نے پاکستان کی تباہی کی بنیاد رکھی، کیسے اس نے پاکستان کو دولخت کرنے میں جلتی پر تیل کا کردار ادا کیا اور باقی ماندہ پاکستان پر اک ایسی رجیم مسلّط کردی جس نے یہاں کبھی جمہوریت کو پنپنے ہی نہیں دیا   
1965کےصدارتی الیکشن میں پہلی دھاندلی خود فیلڈ مارشل ایوب خان نےکی جو پہلے الیکشن۔بالغ رائےدہی کی بنیاد پر کروانےکا اعلان کر کے مُکر گئے-
یہ اعلان 9اکتوبر1964کو ہوا مگر مادر ملت فاطمہ جناح کےامیدوار بننے اور ایوب خان کے خلاف میدان میں اترنے کے بعد یہ اعلان صدرِ پاکستان کا نہیں ایوب خان کا انفرادی اعلان ٹھہرا-اور سازش کےتحت یہ ذمہ داری حبیب اللہ خان پر ڈالی گئی ۔یہ پاکستان کی پہلی پری پول دھاندلی تھی۔کابینہ اجلاس میں تو وزراء نےخوشامد کی انتہا کردی- حبیب اللّہ خان نےفاطمہ جناح کو ایبڈو کرنےکی تجویز دی ، اگر یہ تجویز منظور کر کے مس فاطمہ جناح کو غدّار قرار دے دیا جاتا تو پاکستان کی تاریخ کا بھیانک سانحہ ہوتا ۔وحید خان نےجو وزیر اطلاعات اور کنوینشن لیگ کےجنرل سیکرٹری تھےتجویز دی کہ ایوب کو تاحیات صدر قرار دینےکیلئے ترمیم کی جائے- ایوب خان کےمنہ بولے بیٹے ذوالفقار بھٹو نے مس جناح کو بڑھیا اور ضدی کے القابات سے نوازا۔
دوسری طرف جماعت اسلامی کے امیر  سید ابوالاعلی مودودی، سندھ سےجی ایم سید اور صوبہ سرحد سےخان عبدالغفار خان نے جبکہ مشرقی پاکستان سے شیخ مجیب نےکھل کر فاطمہ جناح کی حمایت کی۔
‏پنجاب کےتمام سجادہ نشینوں نے سوائے پیر مکھڈ صفی الدین کےفاطمہ جناح کےخلاف فتویٰ دیا۔ایوب خان کی انتظامی مشینری نے دھاندلی کا منصوبہ ترتیب دیا اور الیکشن تین طریقوں سےلڑنےکا فیصلہ کیا-
پہلا مذھبی سطح پرجس کےانچارج پیر آف دیول شریف تھے جنہوں نےمس جناح کےخلاف فتوے نکلوائے-
*دوسرا انتظامی سطح پر-چونکہ 62 کےآئین کے تحت ایوب خان کو یہ سہولت میسرتھی کہ وہ تب تک صدر رہ سکتےتھےجب تک انکاجانشین نہ منتخب ہو جائے ۔لہذا اک حاضر سروس طاقتور صدر کے حق میں پوری سرکاری مشینری استعمال کی گئی جسکا نتیجہ یہ ہےکہ آج بھی الیکشن سرکاری ملازمین کےدباؤ سےجیتےجاتے ہیں -
*تیسری سطح پر*مس جناح کےحامیوں پر جھوٹے مقدمات درج کئےگئے عدالتوں سےانکے خلاف فیصلے لئے گئےاور یہی عدلیہ کےتابوت میں پہلی اور آخری کیل ثابت ہوئی جو آج تک ٹھکی ھوئی ہے- سندھ کےتمام جاگیردار گھرانے ایوب خان کےساتھ ھو گئے تھے۔بھٹو فیملی ،جتوئی فیملی ،محمدخان جونیجو فیملی ،ٹھٹھہ کے شیرازی ،خان گڑھ کےمہر‘نواب شاہ کےسادات ،بھرچونڈی۔۔رانی پور ہالاکے اکثر پیران کرام، ایوب خان کے ساتھ تھے-
سوائے کراچی میں گہری جڑیں رکھنےوالی جماعت اسلامی ،اندرون سندھ کےجی ایم  سید حیدرآباد کےتالپور برادران ،بدین کے فاضل راہو اور رسول بخش پلیجومس جناح کےحامی تھے ۔تاریخ کا جبر دیکھیں یہی لوگ بعد میں پاکستان کےغدار بھی ٹھہرائے گئے -پنجاب کےتمام گدّی نشین اور صاحبزادگان و سجادہ نشین سوائےپیر مکھڈ۔صفی الدین باقی سب ایوب خان کےساتھ ھو گئےتھے-سیال شریف کےپیروں نےتو فاطمہ جناح کےخلاف فتوی بھی دیا تھا۔پیر آف دیول نے داتا دربار پر مراقبہ کیا اور فرمایا کہ داتا صاحب نےحکم دیا ہےایوب خان کو کامیاب کیاجائےورنہ خدا پاکستان سےخفا ہو جائے گا۔آلو مہارشریف کےصاحبزادہ فیض الحسن نےعورت کےحاکم ہونے کےخلاف فتوی جاری کیا-مولانا عبدالحامد بدایونی صدر جمعیت علماء پاکستان نے فاطمہ جناح کی نامزدگی کو شریعت سےمذاق اورناجائز قرار دیا-مولانا حامدسعیدکاظمی کےوالد علامہ احمد سعید کاظمی نےایوب خان کو ملت اسلامیہ کی آبرو قرار دیا-یہ وہ لوگ تھے جو دین کےخادم ہیں-
لاھور کےمیاں معراج الدین نےفاطمہ جناح کےخلاف جلسہ منعقد کیاجس سےمرکزی خطاب عبدالغفار پاشا اور وزیر بنیادی جمہوریت نےخطاب کیا-معراج الدین نے فاطمہ جناح پر اخلاقی بددیانتی کا الزام لگایا موصوف موجودہ بیماروزیر صحت یاسمین راشد کےسسر تھے۔گجرانوالہ کےغلام دستگیر نے مس جناح کی تصویریں کتیا کےگلے میں ڈال کر پورے گجرانوالہ میں جلوس نکالے-میانوالی کی ضلع کونسل نےفاطمہ جناح کےخلاف قرار داد منظور کی۔مولانا غلام غوث ہزاروی سابق ناظم اعلی مجلس احرار اور مرکزی رہنماء جمعیت علمائےاسلام نےکھل کر ایوب خان کی حمایت کا اعلان کیا اور دعا بھی کی۔پیر آف زکوڑی نےفاطمہ جناح کی نامزدگی کو اسلام سےمذاق قرار دیکر عوامی لیگ سے استعفی دیا۔اور ایوب کی حمایت کا اعلان کیا-
دوسری طرف جماعت اسلامی کےامیر مولانا سید ابوالاعلی مودودی کا ایک جملہ زبان زد عام ہوگیا-ایوب خان میں اسکے سوا کوئی خوبی نہیں کہ وہ مرد ہیں اورفاطمہ جناح میں اسکے سوا کوئی کمی نہیں کہ وہ عورت ہیں۔بلوچستان میں مری سرداروں اور جعفر جمالی ظفر اللہ  جمالی کے والد صاحب کوچھوڑ کرسب فاطمہ جناح کےخلاف تھے
قاضی محمد عیسیٰ جسٹس فائز عیسی کےوالد مسلم لیگ کا بڑا نام بھی فاطمہ جناح کےمخالف اور ایوب خان کےحامی تھے-انہوں نےکوئٹہ میں ایوب خان کی مہم چلائی-حسن محمود نےپنجاب اور سندھ کے۔روحانی خانوادوں کو ایوب کی حمایت پرراضی کیا-
پورا مشرقی پاکستان غدار ٹہرا کہ وہ سب مس جناح کےساتھ تھے خطۂ پوٹھوہار کےتمام بڑے گھرانے اور سیاسی لوگ ایوب خان کےساتھ تھے-برئگیڈئر سلطان والد چودھری نثار، ملک اکرم دادا امین اسلم، ملکان کھنڈا۔کوٹ فتح خان۔پنڈی گھیب۔تلہ گنگ۔ایوب کےساتھ تھے اسکی وجہ یہاں کے سب لوگ فوج سے وابستہ تھے سوائےچودھری امیر۔اور ملک نواب خان کے جن کو الیکشن کےدو دن بعد قتل کردیا گیا۔شیخ مسعود صادق نےایوب خان کی لئےوکلاءکی حمایت کا سلسلہ شروع کیا کئی لوگوں نےانکی حمایت کی ،پنڈی سے راجہ ظفرالحق بھی ان میں شامل تھے-
اسکے علاوہ میاں اشرف گلزار بھی فاطمہ جناح کےمخالفین میں شامل تھے-
صدارتی الیکشن۔1965 کے دوران گورنر امیر محمد خان صرف چند لوگوں سے پریشان تھے-ان میں سرفہرست سید ابوالاعلی مودودی،شوکت حیات ،خواجہ صفدر والد خواجہ آصف چودھری احسن والد اعتزاز احسن، خواجہ رفیق والد سعدرفیق، کرنل عابد امام والد عابدہ حسین اور علی احمد تالپور شامل تھے یہ لوگ آخری وقت تک فاطمہ جناح کےساتھ رہے-
صدارتی الیکشن کے دوران فاطمہ جناح پر پاکسان توڑنےکا الزام بھی لگا-
یہ الزام ZA-سلہری نے اپنی ایک رپورٹ میں لگایا جسمیں مس جناح کی بھارتی سفیر سےملاقات کا حوالہ ديا گیا تھا
یہ بیان کہ قائداعظم تقسیم کےخلاف تھے یہ وہی تقسیم تھی جسکا پھل کھانےکیلئےآج  سب اکٹھےہوئے تھے-یہ اخبار ہر جلسے میں لہرایا گیا ۔ایوب اسکو لہرا لہرا کر مس جناح کوغدار کہتے رہے-
پاکستان کا مطلب کیالاالہ الااللّہ جیسی نظم لکھنے والے اصغرسودائی ایوب خان کے قصیدے اور ترانے لکھتے تھے-اوکاڑہ کےایک شاعر ظفراقبال نےچاپلوسی کے ریکارڈ توڑ ڈالے یہ وہی ظفراقبال ہیں جو بعد میں اپنےکالموں میں سیاسی راہنماؤں کا مذاق اڑاتے رہے۔سرورانبالوی و دیگر کئی شعراء  اسی کام میں مصروف تھے-
دوسری طرف حبیب جالب،ابراھیم جلیس میاں بشیر فاطمہ جناح کےجلسوں کے شاعر تھے۔ جالب نے ان جلسوں سے اپنے کلام میں شہرت حاصل کی-میانوالی جلسے کے دوران جب گورنر امیرخان کےغنڈوں نےفائرنگ کی توفاطمہ جناح ڈٹ کر کھڑی ہوگئیں-اسی حملےکی یادگار
*بچوں پہ چلی گولی۔*
*ماں دیکھ کے یہ بولی* نظم ہے
فیض صاحب خاموش حمائتی تھے
‏چاغی۔لورالائی،سبی ژوب، مالاکنڈ،باجوڑ، دیر،سوات، سیدو، خیرپور، نوشکی ،دالبندین ، ڈیرہ بگٹی، ہرنائی، مستونگ، چمن،  سبزباغ، سے فاطمہ جناح کو کوئی ووٹ نہیں ملا۔سارا اردو اسپیکنگ طبقہ جو جماعت اسلامی کی طاقت تھا فاطمہ جناح کی حمایت کرتا رہاانکو کراچی سے 1046 ایوب خان کو837 ووٹ ملے-مشرقی پاکستان مس جناح کےساتھ تھا-فاطمہ جناح کو ڈھاکہ سے353 اور ایوب خان کو 199ووٹ ملےجسکی سزا اسٹیبلشمنٹ نےیہ دی کہ انہیں دو نمبر شہری اور پاکستان سےالگ ہونےپر مجبور کردیاگیا- ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ایوب خان اور مس فاطمہ کے ووٹ برابر تھے-مس جناح کےایجنٹ ایم حمزہ تھے اور اے-سی جاویدقریشی جو بعد میں چیف سیکرٹری بنےمس جناح کوکم ووٹوں سے شکست اکیلی عورت فوج ،بیوروکریٹ، پیروں، وڈیروں، جاگیر داروں سےمقابلہ کر رہی تھی- جہلم سے ایوب کے82 اور مس جناح کے67 ووٹ تھے-اس الیکشن میں جہلم کےچودھری الطاف فاطمہ جناح کےحمائتی تھے مگر نواب کالاباغ کے دھمکانےکے بعد پیچھے ہٹ گئے یہاں تک کہ جہلم  کےنتیجے پر دستخط کیلئےمس جناح  کےپولنگ ایجنٹ گجرات سے آئے- اسطرح کی دھونس اور دھاندلی عام رہی- اس الیکشن میں مس فاطمہ جناح نہیں ہاری بلکہ جمہوریت ہار گئی پاکستان ہار گیا ۔جو محبِ وطن اور جان نثار تھے غدّار ٹہرے اور اسمبلیوں اور ایوانوں سے ان کا خاتمہ ہو گیا۔ ابن الوقت اور چاپلوسی کرنے والے معتبر ٹھہرے اور آج بھی اسمبلیوں میں انہی ‏کی اولادیں موجود ہیں-اس کے بعد پاکستان کی عوام نےکوئی نیا لیڈر پیدا نہیں کیا
*حوالےکیلئے دیکھئے
ڈکٹیٹرکون۔۔ایس-ایم-ظفر
میرا سیاسی سفر۔۔حسن محمود
فاطمہ جناح۔۔ابراھیم جلیس
مادرملت۔۔ظفرانصاری۔
فاطمہ جناح۔۔حیات وخدمات۔۔وکیل انجم