شیڈو

مصنف : ندا اسحاق

سلسلہ : نفسیات

شمارہ : جولائی 2022

“شیڈو (Shadow)”
ہم جانتے ہیں کہ ہمارا بڑھتا وزن ہماری صحت کے لیے مضر ہے، ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ہمیں اپنے کیریئر کو نیا موڑ دینے کی ضرورت ہے، علم ہوتا ہے کہ ہم موجودہ فائیننشل حالات سے نکل کر بہتر اِنکم بنا سکتے ہیں، بکھرے اور کنفیوژڈ رشتوں کو سمیٹنا چاہتے ہیں لیکن کوئی ایسی قوت ہمارے اندر موجود ہوتی ہے جو ہمیں ہمارا بیسٹ ورژن بننے سے روک رہی ہوتی ہے۔ ہم چاہ کر بھی اپنے اہداف کی جانب قدم نہیں اٹھا پاتے..اس قوت کو سائیکالوجی کی زبان میں “شیڈو” (shadow) کہتے ہیں۔
وہ لوگ جو ایمانداری کا درس دیتے ہیں اکثر کرپشن کرتے پائے جاتے ہیں، متقی اور پرہیزگار مرد و خواتین اکثر عجیب و غریب جنسی سرگرمیوں میں ملوث نظر آتے ہیں، وہ افراد جوہم جنس پرستوں سے شدید نفرت کرتے ہیں اکثر خود ہی خفیہ طور پر انہی سرگرمیوں میں سرگرم دیکھے جاتے ہیں، اکثر لوگ دوہری زندگی جیتے ہیں، انکا پبلک اور پرائیویٹ امیج مختلف ہوتا ہے۔ کیا یہ انکی منافقت ہے یا انکا شیڈو؟ 
کانسیپٹ ’’شیڈو‘‘ کے بانی بیسویں صدی کے مشہور سائیکیٹرسٹ کارل یونگ (Carl Jung) ہیں۔ ہماری شخصیت کے وہ منفی پہلو (بعض اوقات مثبت پہلو بھی) جنہیں ہمارے والدین اور سوسائٹی قبول نہیں کرتے ہمارا ذہن انہیں بہت مہارت کے ساتھ دماغ کے اس حصے میں بند کر دیتا ہے جہاں شعور کی روشنی پہنچ نہیں پاتی اسی لیے کارل یونگ نے اسے ’’شیڈو‘‘ کا نام دیا ہے۔ شیڈو عموماً ہماری شخصیت کے منفی پہلو  ہوتے ہیں۔ 
انسان “سینس آف بلانگنگ” (sense of belonging) کے بغیر نہیں رہ سکتا   بچپن میں ہمیں اچھی عادتوں، پیاری باتوں پر تعریف ملتی ہے، لیکن اگر ہم اپنے غصے، جلن، حسد، خودغرضی، لالچ کا اظہار کریں یا کوئی ایسی بات کہہ دیں جو سو-کالڈ تمیز کے دائرے سے باہر ہو تو اس پر شدید ری - ایکشن دیکھنے کو ملتا ہے۔ ایک بچہ خود کو ماں باپ اور باہری دنیا کے بنائے اسٹینڈرڈ پر پورا اتروانے کے لیے اپنی اندر کی دنیا کے تمام احساسات، جذبات، اپنی جنسی خواہشات، اپنے ٹیلنٹ مار دیتا ہے لیکن افسوس کہ وہ سب مرتے نہیں بلکہ لاشعور (unconscious) میں پھینکے جانے پر وہ ہمارے شعور سے باہر ہوجاتے ہیں۔ کارل کہتے ہیں کہ وہ نظرانداز یا کراہت سے دیکھے جانے والے تمام حصے زندگی بھر ہمیں پریشان کرتے ہیں-ہم یہ سمجھنے کی بھول کر بیٹھتے ہیں کہ شخصیت کے وہ پہلو جو ہمارے لیے قابلِ نفرت ہیں یا جو برے اور شیطان صفت مانے جاتے ہیں ان کو لاشعور میں دھکیل کر ہم ان سے نجات حاصل کرلیں گے۔ بقول کارل یونگ کے وہ دبے ہوئے پہلو ہمارے لاشعور میں اپنی ایک الگ شخصیت بنا لیتے ہیں جسے ’’شیڈوسیلف‘‘(shadow self) کہتے ہیں۔ یہی وہ دہرا امیج ہوتا ہے جسے ہم نہ صرف خود سے بلکہ دنیا سے چھپائے پھرتے ہیں۔ ہمارا یہ دہرا امیج دوسروں کو اکثر و بیشتر دِکھ جاتا ہے لیکن ہمارے اپنے شعور (conscious ) سے بہت پرے ہوتا ہے۔ ہم جتنا اسے دبانے کی کوشش کرتے ہیں یہ اتنا ہی ہمارے شعور سے دور جاکر اور بھی مضبوط ہونے لگتا ہے، اور یوں کسی دن لاشعوری میں ہم کچھ ایسی حرکات اور فیصلے لے لیتے ہیں جس سے ہماری ریپیوٹیشن اور ساخت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچتا ہے، ہم حیرانی میں مبتلا رہتے ہیں کہ ہم سے اتنی بڑی غلطیاں کیسے ہو گئیں 
 اکثر دوسروں کی جو بات ہمیں شدید ناپسند ہو وہ عادت ہمارا خود کا شیڈو ہوتی ہے، ہمیں اس سے تکلیف ہوتی ہے کیونکہ کبھی اس عادت پر ہم نے شدید ری-ایکشن یا نفرت کا سامنا کیا ہوتا ہے۔
شیڈو کو اپنے شعور میں لاکر اپنی شخصیت کے ساتھ ضم کرنے کے عمل کو ’’شیڈو انٹیگریشن‘‘ (shadow integration) کہتے ہیں۔ اس عمل میں وہ سائیکوتھیرپسٹ جو “یونگیئن سائیکالوجی” (Jungian psychology) میں مہارت رکھتے ہیں اس کام کو کرنے میں جسے ’’شیڈو ورک‘‘ (shadow work) کہتے ہیں، مدد کرتے ہیں۔ 
شیڈو ورک کیوں ضروری ہے؟
ہمارا سب سے قیمتی سرمایہ ہمارا دماغ اگر اپنی ساری انرجی اپنی شعوری اور لاشعوری شخصیت کے درمیان چل رہی جنگ میں ضائع کرتا رہے تو ہم زندگی میں آنے والے چیلنجز کا سامنا کرنے کے لیے کیسے تیار رہیں گے- ہماری مینٹل گروتھ کس طرح ہوگی؟ جب ہم اپنے دماغ میں اپنے ہی احساسات اور جذبات کی جنگ میں پھنسے رہیں گے تو وہ مسائل جو ہماری توجہ کے منتظر ہیں انکو کیسے حل کرسکیں گے؟ خود سے خود کی جنگ میں جیت کس کی ہوگی؟ ہمارے اندر کی لالچ بھی ہم ہیں سخاوت بھی ہم۔ ہوس ہو یا خود غرضی، یہ ہمارے اندر ہی ہیں۔ 
شیڈو ورک ہم خود بھی کرسکتے ہیں۔ بیشک اس عمل کے لیے بہت وقت درکار ہوتا ہے، کیونکہ لاشعوری دماغ کی پرتیں ہٹا کر دبے ہوئے احساسات، خواہشات اور ٹیلنٹ کو شعور میں لانے میں وقت لگتا ہے۔شیڈو ورک کے لیے صبر، ایکسیپٹنس (acceptance)، توجہ، خود آگاہی اور خود سے بروٹل آنیسٹی (brutal honesty) کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ ہرگز آسان کام نہیں۔ وہ پہلو جن سے ہمیں نفرت ہو انہیں شعور میں لاکر ہم خود کو مکمل (as a whole) طور پر قبول کریں، یہ عمل تکلیف دہ ہوسکتا ہے۔
میڈیٹیشن اور جرنلنگ بھی کارآمد ہوسکتے ہیں۔ آپ کو اپنے شیڈوز فیس بک پر پوسٹ کرنے یا دوسروں سے شیئر کرنے کی ضرورت نہیں، یہ ایک پرسنل ورک ہے، اسے خود تک رکھیں۔ البتہ دوسروں سے اپنی عادات سےمتعلق فیڈ بیک لینا غلط نہیں۔ فیڈ بیک ہمیں بہتر انسان بناتا ہے، نفرت آمیز تنقید محض نفرتیں بڑھاتی ہے اور یہ آپ کے عدم تحفظ (insecurity) کی نشانی ہوتی ہے۔ 
ہم سب ایک ایسی اسپیس چاہتے ہیں جہاں ہم آزادی سے اپنے دماغ اور باڈی کے سارے ڈائیمنشنز(dimensions) کو ایکسپلور کر سکیں۔ اگر آپ زندگی میں اس قسم کی اسپیس حاصل کرلیں تو برائے مہربانی اپنے ارد گرد والوں کو بھی اس آزادی کا احساس دلائیں۔ 
جج کرنا یا تنقید کرنا بہت آسان ہے کہ فلاں شخص بہت منافق ہے یا برا ہے لیکن دوسروں کو ان کی تمام تر کمیوں کے سنگ قبول کرنا انہیں سمجھنا یقیناً بہت مشکل کام ہے- اور یہ تب ہی ممکن ہے جب آپ خود اپنے ڈارک ٹریٹز(shadow work) کو قبول کرچکے ہوں۔ تنقید کرنا آسان ہے لیکن اپنے گردو نواح میں موجود لوگوں کو سپورٹ کرنا مشکل!!!
سپورٹ چاہیے، محض تنقید نہیں! 
ایسا گھر (اور معاشرہ) جہاں بچوں کو ان کے فطری جذبات اور احساسات کے لیے تنقید کا نشانہ بنانے کی بجائے انہیں ان پہلوؤں کو ایکسپلور کرنے دیا جائے، تو یہی وہ بچے ہوتے ہیں جو اپنی دماغی انرجی کو زندگی کے چیلنجز اور مسائل کو بہتر طور پر حل کرنے میں صرف کرتے ہیں، وہ اپنے منفی جذبات، جنسی خواہشات یا ایسا ٹیلنٹ جو دنیا کی نظر میں بیکار ہے، کو ساری زندگی دبانے کی بجائے ان کو قبول کرکے آگے بڑھ جاتے ہیں۔