پردیسیوں کے د کھ

مصنف : رشاد بخاری

سلسلہ : سچی کہانی

شمارہ : جولائی 2022

آج پردیس میں گھر یاد آیا
ویسے تو میری بہت سی کمزوریاں ہیں لیکن پاکستانی کھانے میری سب سے بڑی کمزوری ہیں۔ قورمہ، متنجن، روغنی نان، زردہ، پلاوٗ، کوفتے، بریانی وغیرہ تو دور کی بات ہے دیار غیر میں اگر مجھے کہیں کڑہی پکوڑا، دال، سبزی، چٹنی، ساگ اور دودھ پتی چائے بھی مل جائے تو میری عید ہوجاتی ہے۔ مجھے اپنے کام کے سلسلے میں اکثر بیرونی ممالک میں سفر کرنے کا موقع ملتا ہے ۔ کبھی یہ قیام مختصر ہوتا ہے اور کبھی طویل۔ جہاں بھی رہوں، میری ترجیح ہوتی ہے کہ ایسی جگہ ہو جہاں پاکستانی کھانا ملتا رہے، ہمیشہ یہ ممکن نہیں ہوتا لیکن اکثر ہوجاتا ہے۔ صبح میں تو اکثر باہر رہتےہوئے پنیر، مکھن، آملیٹ اور ٹوسٹ کے ساتھ گزارا ہوجاتا ہے، دن میں بھی کام کی مصروفیت کی وجہ سے سینڈوچ، برگر یا پییزا وغیرہ سے کام چل جاتا ہے، لیکن رات کو اگر مجھے بریانی، یا پلاوٗ، یا دال، سبزی، تکے یا کڑاہی نہ ملے تو میری بیٹری اکثر ڈاوٗن ہوجاتی ہے۔
چند سال قبل مجھے دبئی میں کوئی لگ بھگ دس ماہ رہنے کا موقع ملا۔ میری رہائش سے چند سو گز کے فاصلے پر ایک پاکستانی ریستوران تھا جہاں کی بریانی، بار بی کیو، دال چاول اور چپاتی کا جواب نہیں تھا۔ میں اکثر بلکہ تقریبا روز ہی جب مجھے کہیں اور نہ جانا ہوتا وہیں شام کا کھانا کھاتا۔ وہیں میری ملاقات رفیق سے ہوئی۔ رفیق کوئی تیس بتیس سال کا صحت مند، ہنس مکھ اور محنتی نوجوان ویٹر تھا، جس کا تعلق جنوبی پنجاب کے کسی دور دراز گاوٗں سے تھا۔ اسے یہاں کام کرتے ہوئے چھ سال ہوچکے تھے۔ اسے یہ کام اس کے ماموں نے دلوایا تھا جو گزشتہ بیس سال سے دبئی مں کام کررہے تھے۔ایک روز شام کو میں کھانا کھانے ریستوران گیا تو میں نے رفیق کو بہت خوش دیکھا۔ اس نے بتایا کہ وہ چند دن میں دو ماہ کی چھٹی پر اپنے گاوں جارہا ہے۔ اسے ہر دو سال بعد دو ماہ کی چھٹی ملتی تھی۔ اپنے ماں باپ اور بیوی سے ملنے کی خوشی تو تھی ہی لیکن وہ زیادہ اپنے بیٹے سے ملنے کے لیے پرجوش تھا جو اب تین سال کا ہو رہا تھا۔ فون پر اکثر اس سے اپنی توتلی زبان میں باتیں بھی کرتا تھا اور رفیق فخر سے بتا رہا تھا کہ اب اس کی زبان کافی صاٖف ہوچکی ہے اور وہ اسے بابا بابا کہہ کر بلاتا ہے اور جب معصومیت سے اسے آئی لو یو بولتا ہے اور پوچھتا ہے کہ بابا کب آوٗ گے، تو اس کے لیے اپنے آنسو روکنا مشکل ہوجاتا ہے۔ رفیق نے جب مجھے بتایا کہ اس کا بیٹا اسے بہت یاد کرتا ہے تو اس کے چہرے پر بہت سے رنگ تھے، یہ اندازہ لگانا تاہم مشکل تھا کہ ان میں سے حسرتوں کے رنگ کتنے تھے، خوشیوں کے کتنے اور امید کے کتنے۔
چند ماہ بعد اس سے دوبارہ وہیں ملاقات ہوئی تو وہ کچھ افسردہ سا نظر آیا۔ میں نے اس سے گھر بار کا پوچھا تو بولا کہ اللہ کا شکر ہے سب خیریت سے ہیں، نظام ٹھیک چل رہا ہے اور اوپر والے کا بہت کرم ہے کہ اس زمانے میں اسے یہاں ایسی نوکری ملی ہوئی ہے جس سے اس کے گھر والے اچھی زندگی گزارنے کے قابل ہیں۔ لیکن اس نے اپنے بیٹے کے بارے میں کچھ نہیں بتایا۔ میں نے زیادہ کریدنا مناسب نہ سمجھا لیکن میرے دل میں کھد بد سی لگ گئی کہ معلوم نہیں کیا بات ہے، پہلے تو اپنے بیٹے کا ذکر اتنے جوش و جذبے سے کر رہا تھا اور اب بات بھی نہیں کررہا۔ کچھ پریشان اور بجھا بجھا بھی نظر آتا ہے۔ چنانچہ میں نے اسے دعوت دی کہ شام کو چھٹی کے بعد کہیں ملتے ہیں، بلکہ وہ میرے فلیٹ پر آ کرچائے پیے تو گپ شپ کرتے ہیں۔ لیکن وہ بولا کہ رات کو وہ دیر سے فارغ ہوگا اس لیے اتوار کی شام کو آجائے گا۔اکثر دوسرے ملکوں سے آئے لوگ یہاں بارہ سے چودہ گھنٹے کی ڈبل ڈیوٹی کرتے ہیں، تاکہ زیادہ سے زیادہ پیسے کما سکیں، آخر یہی کرنے تو آئے ہیں۔ ورنہ اتنی دور آنے اور جان کھپانے کا مقصد ہی کیا ہے۔ گھر والوں اور اپنے پیاروں سے دور، دیار غیر میں رہنے والوں کی زندگی بھی عجیب ہے، ہروقت وطن کے سپنے دیکھتے ہیں، اپنوں کو یاد کر کے ان کی خوشی اور آرام کے لیے ان سے دور رہ کر اپنا خون پسینہ ایک کرتے ہیں، پردیس میں کوئی اپنے ملک کا غیر بھی مل جائے تو اپنا لگنے لگتا ہے۔ اپنے ملک میں لوگ سمجھتے ہیں کہ خوشحال ملکوں میں دولت کما رہا ہے اور عیاشی کی زندگی گزار رہا ہے۔ لیکن جتنا مرضی کما لیں یہ کسی کو کیا پتہ کہ کس طرح کندھے تلاش کرتے پھرتے ہیں جن پر تھوڑی دیر سر ٹکا لیں، اور روشنی کی چکا چوند میں اندھے ہوجانے والے شہر میں وہ ننھا سا ستاروں کا جھرمٹ تلاش کریں جو اپنے کچے کوٹھے کی چھت پر رات کو چارپائی پر لیٹے ہوئے نظر آتا تھا۔
اتوار کی شام رفیق آیا تو ہم نے چائے کے کپ اور بسکٹ کی پلیٹ اٹھائی اور ٹیرس پر آ کر بیٹھ گئے اور اپنے وطن کی باتیں کرنے لگے۔ رفیق نے بتایا کہ ابھی اس کی شادی کو بمشکل دو ماہ ہی ہوئے تھے کہ اسے دبئی میں اپنے ماموں کی کوششوں سے نوکری کی آفر آگئی۔ سارا خاندان بہت خوش ہوا اور سب ایک دوسرے کو مبارکبادیاں دینے لگے کہ بیٹا اب دبئی جا کر غربت کی اس دلدل سے نکل جائے گا اور ہمارے بھی دن پھریں گے۔ اس سے پوچھنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا کہ وہ جانا بھی چاہتا ہے کہ نہیں۔ دبئی میں کام کی آفر، درہموں میں تنخواہ، کسی کا دماغ تو خراب نہیں کہ وہ یہ چھوڑ دے۔ حتیٰ کہ اس کی بیوی بھی، جسے  اس کے گھر آئے ابھی دو ماہ بھی نہ ہوئے تھے، بڑے فخر اور مان سے کہنے لگی کہ اس کے اس گھر میں آنے سے کیسے سب کی قسمت جاگ گئی ہے، اور یہ اس کی خوش بختی ہے کہ اس کے خاوند کو اس کے آتے ہی دبئی میں نوکری مل گئی ہے۔ یہ بتاتے ہوئے نجانے کیوں رفیق کے حلق میں کوئی گولا سا پھنس گیا اور اچھو لگنے سے اس کی آنکھوں میں پانی آگیا۔تھوڑی دیر میں اس کا سانس بحال ہوا تو میں نے پوچھا کہ اس بار وہ گھر گیا تو کیا حالات تھے، اب تک تو کافی حالات بہتر ہوگئے ہوں گے اور یہ کہ اس کے بیٹے کا کیا حال ہے؟ کہنے لگا کہ اب انہوں نے اپنا گھر پکا کرلیا ہے، بلکہ ساتھ والا پلاٹ بھی لے لیا ہے اور کچھ عرصے بعد جب مزید پیسے جمع ہوں گے تو وہ اپنا گھر بڑا کرلیں گے۔ اس کے چھوٹے بہن بھائی سکول میں پڑھ رہے ہیں، قرضہ وغیرہ جو لیا تھا وہ اتر گیا ہے اور اب اللہ کے فضل سے وہ سب کافی خوشحال زندگی گزار رہے ہیں، کھانا پینا بھی اچھا ہوگیا ہے، بدن پر کپڑے اور جوتے بھی ڈھنگ کے آگئے ہیں اور گاوٗں میں بڑی عزت بنی ہوئی ہے۔ بیٹے کا ذکر پھر سے گول کرگیا۔ میں نے دخل دینا مناسب نہ سمجھا کہ وقت آنے پر خود ہی سامنے آجائے گا۔اس نے بتایا کہ اس بار وہ گھر گیا تو اس نے بات چھیڑی کہ اب جب کہ ان کے حالات کافی بہتر ہوگئے ہیں تو کیوں نہ واپس آکر یہاں کوئی چھوٹا موٹا کاروبار شروع کردے، آخر کب تک پردیس میں رہے گا، بچوں کو اور گھر والوں کو بھی تو اس کی ضرورت ہوگی، خاندان میں سو نیکی بدی لگی رہتی ہے، اور پردیس میں رہ کر یہ ساری ذمہ داریاں پوری نہیں کی جاسکتیں۔ لیکن اس کی اس تجویز کی گھر میں سب نے ہی مخالفت کی۔ سب کا خیال یہ تھا کہ دبئی کوئی اتنا دور تو ہے نہیں اور پھر وہاں لگی لگائی نوکری ہے، اچھے خاصے پیسے مل رہے ہیں، ان سے ہی تو یہ سب کچھ چل رہا ہے، یہاں کاروبار کا کیا پتہ، چلے نہ چلے، اتنا بڑا رسک نہیں لیا جاسکتا۔ پھر یہ بھی ہے کہ اس کے ابا جو اس کے پردیس میں رہنے کے باوجود اب تک محنت مزدوری کر رہے تھے، وہ بھی اب کچھ عرصے سے گھر بیٹھ گئے ہیں کہ ان کی صحت زیادہ محنت کا کام کرنے کی اجازت نہیں دے رہی۔ بڑھاپا خود ایک بیماری ہے اور اس عمر میں جو طرح طرح کی بیماریاں لگ گئی ہیں، اور دوا دارو کا خرچہ بھی بڑھ گیا ہے، وہ سب کیسے پورا ہوگا۔ رفیق کہنے لگا کہ اسے خود اپنی اس خودغرضانہ تجویز پر شرمندگی سی ہوئی اور اس نے فیصلہ کیا کہ اسے باہر رہ کر ہی محنت کرنی ہوگی۔میں نے ہمت کر کے دوبارہ اس سے بیٹے کا پوچھ ہی لیا کہ اس کا بھی تو بتائے وہ تو اسے دیکھ کر بہت خوش ہوا ہوگا، اسے اتنا یاد بھی تو کرتا تھا۔ رفیق بولا کہ ہاں یہ تو ہے، لیکن اب جب سے میں واپس آیا ہوں وہ مجھ سے فون پر بات نہیں کرتا۔ پھر خودکلامی کے انداز میں کہنے لگا کہ شائد یہ اچھا ہی ہے، وہ یاد آتا ہے تو مجھ سے یہاں کام نہیں ہوتا۔ اب میں اسے یاد کروں، وہاں رہ کر اسے اپنے سینے سے چمٹا کر رکھوں، اس کے ساتھ لاڈیاں کروں یا اس کے بہتر مستقبل کی فکر کروں۔ یہ کہتے ہوئے اس کی سپاٹ اور بے روح آواز جیسے دور کہیں خلا سے آتی سنائی دی۔اس کی باتیں سن کر ایسے ہی میرے دل میں خیال آیا کہ کیا ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ ایک پیار کرنے والا شفیق باپ بننا خاندان اور اپنے ہی بچوں کی بہبود کی راہ میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔ اس کی اپنے بیوی بچوں سے موانست پیدا کرنے اور ان کی قربت کا حق اس کی معاشی ذمہ داریوں کے بوجھ تلے اس طرح دب جاتا ہے کہ خود اسے بھول جاتا ہے ہے کہ وہ کسی مشین کا ایک پرزہ، کسی کولہو کا ایک بیل اور کسی تپتی سڑک پر مسلسل گھومنے والا ایک پہیہ ہونے کے علاوہ کچھ اور استحقاق بھی رکھ سکتا ہے۔ لیکن کوئی یہ جان لے تو پھر اپنے حالات سے سمجھوتہ کیسے کرے؟