مسافر تو گیا

مصنف : محمد حامد سراج

سلسلہ : افسانہ

شمارہ : جولائی 2022

1
کوئی ہے۔؟ آواز تودو۔بھائی عبدالحمید 
اے بھائی عبدالحمید۔میرے بھائی۔ دروازے کا پٹ کھلا رہنے دو۔ میرا بھائی آ رہا ہے، دیکھو سامنے شیشم تلے وہ بیٹھا وضو کر رہا ہے۔ میں کہتا نہ تھا میرا ماں جایا ضرور آئےگا۔ 
حکیم جی، سردی شدید ہے، دروازہ بند کر لینے دیں۔ مؤذن بابا عزیز نے کہا۔ عزیز بابا۔۔ دروازہ مت بھیڑ۔۔ کھلا رہنے دے دروازے بند نہیں کرنے چاہئیں۔ یہ بند ہو جائیں تو گھروں میں چڑیلیں بسیرا کر لیتی ہیں۔ بند دروازوں کے پیچھے جانے کیا ہوتا رہتا ہے۔؟ مجھے خوف آتا ہے بند دروازوں سے۔
عبدالحمید جب آخری بار حویلی سے نکلا تھا تو دروازہ بند کرکے گیا تھا۔ میں اسی بند دروازے کا عذاب بوڑھی آنکھوں کی دہلیز پہ رکھے جی رہا ہوں۔ کاش دروازے کی طرح میری آنکھیں بھی بند ہو جائیں۔ بند آنکھوں کو کون کھولنے آئےگا۔ کوئی نہیں، میں جی لوں گا۔ میں مربھی گیا تو شاید عبدالحمید کے انتظار میں یہ آنکھیں کھلی رہیں  حویلی کے دروازے بند ہو گئے تھے۔ یہ آنکھیں تو کھلی رہیں، عزیز بابا دروازہ کھلا رہنے دے۔ 
حکیم عبدالرحمن کی حالت دن بہ دن بگڑتی جا رہی تھی۔ ضعیفی اور جوڑوں کے درد نے اسے چارپائی کا اسیر کر دیا تھا۔ دن بھر طویل برآمدے میں بوسیدہ چارپائی پربیٹھے وہ خلا میں گھورتے رہتے۔ تکیے پر ماتھا ٹیک کر نماز ادا کر لیتے۔ قوت سماعت متاثر ہونے سے وہ اونچا سننے لگے۔ ساٹھ سالہ سفید ریش عزیز بابا نے مسجد کے پہلو سے ایک ایک اینٹ اکھاڑ کر چولہا بنایا۔ لکڑیاں چن کر آگ جلائی اور حکیم جی کے لیے دلیہ بنانے لگا۔ حکیم جی چارپائی پر بیٹھے بڑبڑاتے رہے۔ انوش دارو۔ اچھا انوش دارو اس سے معدہ درست رہےگا۔ سفوف راحت کی پڑیا بھی معدے کے لیے اکسیر ہے ۔ سیاہ لمبے گھنے بال۔ گیلے۔ بارش کی بوندیں گر رہی ہیں۔ سفوف جواہر پانچ سو روپے تولہ ہے، میرا کیا قصور ہے۔ عنبر اور کستوری خالص ڈالی ہیں۔ اجزاء مہنگے ہیں۔ وہ زلفیں تھیں کہ شب دیجور۔ جوارش جالینوس توطب میں صدیوں سے رائج ہے  میں نے زکام کے لیے ایسا نسخہ تجویز کیا ہے، بس نہ پوچھیں۔ سونف کا بھنبھل، اسے سستا اور معمولی جان کر چھوڑنا نہیں۔ اس میں خشخاش بھی ہے۔ ایک اور نسخہ ہے زکام کا۔ آدھ کلو بکری کا گوشت۔ اس میں بیس بادام، چھوٹی الائچی، خشخاش اور تھوڑا زعفران ڈال کر بھون لیں۔ سردیوں میں زکام کے لیے تیر بہدف ہے۔ ہائے میری طب کی کتابیں۔! حکیم جی۔۔ چپ رہیے، دلیہ بن رہا ہے۔ 
آگ بجھنے لگی تو عزیز بابا نے اور لکڑیاں چن کر آگ جلائی۔ گیلی لکڑیوں کے سلگنے سے دھواں دلیے میں شامل ہوتا رہا۔ حکیم جی نے جیسے ہی دلیے کا پہلا چمچہ منہ میں ڈالا۔ منہ بنا کربولے، اخ تھو۔۔ یہ دلیہ ہے۔  عزیزبابا تم نے دھواں پکایا ہے کہ دلیہ۔؟ 
نہیں کھانا تو نہ سہی، یہ رہی لنگر کی دال اور روٹی۔ عزیز بابا نے دلیے کی پلیٹ اٹھا لی۔ 
مرچ زیادہ ہے دال میں اور میں معدے کا مریض ہوں۔ حکیم جی یہاں آپ کا کون بیٹھا ہے؟ صبر شکر کیا کریں۔ جو مل جائے کھا لیا کریں۔ 
عزیز بابا۔۔ میرا ایک کام کروگے۔۔؟ کیا کام ہے۔۔؟ پیر جی سے کہو، میری عمر جا رہی ہے۔ ہم مسافر ہیں مسافر۔ گھڑی بھر کے مہمان۔ پیر جی سفر میں ہیں، سوموار کو لوٹیں گے۔ ساری دنیا سفر میں ہے۔ سب چلے جائیں گے۔ کوئی نہیں رہےگا۔ ایک دن یہ کائنات بھی نہیں رہےگی۔۔ یہ مسافر بھی چلا جائےگا۔ کون مسافر۔۔۔؟ 
میں مسافر۔۔ عبدالرحمن۔۔ جس کی روح میں آبلے ہی آبلے ہیں۔ میرے اندرماضی کا ناسور پل رہا ہے۔ اندر سے گل سڑ گیا ہوں میں۔ میرے وجود سے لوگوں کو گھن کیوں نہیں آتی۔ شاید مجھے روح نے ڈھانپ رکھا ہے۔ نہیں رہے گی تو مجھے اٹھا کر گڑھے میں ڈال آئیں گے۔ پیوند خاک ہو جاؤں گا۔ میں چلا گیا تو کچھ بھی نہیں ہوگا۔ ساری کائنات کا نظام اسی طرح رواں دواں رہےگا۔ کسی ایک کے مر جانے سے کچھ بھی تو نہیں بدلتا۔ 
عزیز بابا خاموشی سے حکیم جی کی باتیں سنتا رہا۔وہ ان کا مزاج شناس ہو گیا تھا۔ پیرجی سفر سے لوٹے تو حکیم جی نے ان سے کہا، میری عمرجارہی ہے، میں کوئی دم کا مہمان ہوں، کتنا نادان تھا میں، سو برس کا سامان کیا اور پل کی خبرنہ تھی۔ مرنے سے پہلے اس زمین پر ایک سرائے، ایک چھت بنا جاؤں، شاید میرارب مجھے وہاں عرش کا سایہ نصیب کر دے۔ پیرجی میرے پاس نوے ہزار روپیہ ہے۔ میری کل پونجی آپ لے لیجیے اور درویشوں کی قیام گاہ کے سامنے برآمدہ بنوا دیجیے۔ عاقبت سنور جائےگی میری۔ یہ میری آخری خواہش ہے۔ 
اسی ہفتے برآمدے کی تعمیر شروع ہوگئی۔ بنیادیں اٹھائی گئیں۔ مستریوں کی کرنڈیوں کی آوازوں میں حکیم جی دن بھردھوپ میں چارپائی ڈالے تعمیردیکھنے میں مگن رہتے۔ برآمدہ مکمل ہوا تو حکیم جی دن بھر تکیے پر سجدہ ریز رہے۔ تکیہ آنسوؤں سے بھیگتا رہا۔ ان کی ویران اور بےچین روح بارش میں دھلتی رہی۔ انہیں لگا کہ زندگی بھر کی پریشانیاں او پشیمانیاں دھل گئی ہیں۔ 
ہوا سرد تھی۔ عزیز بابا ایک درویش کی مدد سے حکیم جی کی چارپائی کمرے میں اٹھا لایا۔ گیلی لکڑیوں کے سلگنے سے کمرے میں دھواں تھا۔ عزیز بابا نے دلیہ حکیم جی کے سامنے رکھا۔ ان کی آنکھیں نم ناک تھیں۔ اس نے اپنا بوڑھا ہاتھ بوڑھے کندھے پر رکھا تو حکیم جی کا پنجر ہلنے لگا اور چشمے بہہ نکلے۔ عزیز بابا، میرا کوئی نہیں، بہن نہ بھائی، رشتہ دار نہ عزیز۔ میری عمر بھر کی کمائی یہی ایک برآمدہ ہے۔ میں اب سکون سے مر سکوں گا۔ عبدالحمید ضرور آئےگا، تم دروازہ کھلا رکھنا۔ اﷲ پیر جی کی عمردراز کرے۔ اگلی صبح حکیم جی کے کہنے پر چارپائی برآمدے میں بچھا دی گئی۔ انہوں نے قرآن مجید کھولا۔ عزیز بابا حروف دھندلا کیوں رہے ہیں۔؟ عینک کے شیشے گدلے ہو رہے ہیں۔ اچھا۔! عزیزبابا چائے تو پلا دو، آخری چائے۔ کل میں چلا جاؤں گا۔ مسافر کا سفر مکمل ہو گیا ہے۔ پیرجی سے اجازت لی تھی نا۔ کہ مجھے اپنے قبرستان میں تھوڑی جگہ دے دیں۔ شہر خموشاں بھی تو ایک آباد جگہ ہے۔ دیکھو، کتنے لوگ وہاں رہتے ہیں۔ وہاں تنہائی کا احساس تو نہیں ہوگا۔؟ ہمارے شہربھی توشہر خموشاں سے کم نہیں۔ دیوار سے دیوار جڑی ہے۔ لیکن ہمسائے کو ہمسائے کی خبر نہیں ۔  یہاں اور وہاں کیا فرق ہوا۔؟ عزیزبابا بولو۔ نا۔ تم بھی آنے میں جلدی کرنا۔ وہاں میں تمہارا انتظار کروں گا۔ مجھے کمبل اوڑھا دو، سردی لگ رہی ہے۔ آسمان سے فرشتے اتر رہے ہیں۔ 
حکیم جی، صبر کیجیے۔ مایوسی کفر ہے۔ عزیز بابا کی آنکھیں نم تھیں۔ صبر کیسے کیا جائے۔ عمر بھر کی یادیں سامنے دست بستہ کھڑی ہیں۔ وہ کہی اور ان کہی کا جواب مانگتی ہیں۔ ان یادوں سے کہو، اوٹ میں ہو جائیں۔ آخری لمحے تو مجھے اذیت کی سولی پہ نہ لٹکائیں ۔ ایک عورت کی خاطر میں نے کتنی روحوں کے طاقوں میں رکھے چراغ اپنی نافرمانی اور ہٹ دھرمی کی پھونک سے بجھا دیے بابا۔۔ اماں۔۔ عبدالحمید، دلاس۔ میں نے کتنے دل توڑے۔ مجھ غریب الدیار پر آج کوئی رونے والا بھی نہیں۔ عزیز بابا، مجھے جی بھرکے رو لینے دے، میری موت پر کوئی نہیں روئےگا۔ مجھے اپنے مرقد پر اپنے آنسوؤں سے چراغاں کر لینے دے۔ 
باہر سرد ہوا کا زور اور بونداباندی ہو رہی تھی۔ رات تاریک اور خاموش تھی۔ حکیم جی کے اصرار پر کمرے کا دروازہ کھلا رہنے دیا گیا۔ انہیں یقین تھا عبدالحمید ضرور آئےگا۔ گدلے آئینوں کے پیچھے شفاف آنکھوں میں امیدکی رمق باقی تھی۔ 
عزیز بابا لحاف لپیٹ کر سو گیا۔ جانے رات کا کون سا پہر تھا۔ عزیز بابا کی آنکھ کھل گئی۔ کمرے میں خامشی تھی۔ حکیم جی کے خراٹوں کی آواز نہیں آ رہی تھی۔ اس نے اٹھ کر دروازہ بند کیا۔ ماچس تلاش کی اور چراغ جلایا۔ چراغ بھڑکا اور بجھ گیا۔ چراغ دوبارہ روشن کرکے وہ حکیم جی کی چارپائی کے پاس آیا۔ وہاں خاموشی کے سوا کچھ نہ تھا۔ ڈرتے ڈرتے اس نے حکیم جی کو چھوا۔ وہ جا چکے تھے۔ کانپتے ہاتھوں سے اس نے لحاف ان کے چہرے پر ڈالا۔ گھڑی دیکھی اور مسجد کی راہ لی۔ 
جنازے میں گنے چنے افراد تھے۔ چند درویش اور مدرسے کے طالب علم۔ جسد خاکی جب لحد میں اتارا گیا، شرینہہ کے درخت میں کوئی پرندہ رو رہا تھا۔ قبرستان سے لوٹ کر بابا عزیز نے چولہا جلایا اور دیگچی اوپر رکھ دی۔ 
(۲) 
عبدالرحمن گلی میں سے گزر رہا تھا۔ اس پربارش کی بوندیں پڑیں تو اس نے چونک کر آسمان کی طرف دیکھا۔ آسمان صاف تھا۔ بوندیں کہاں سے گریں۔۔؟ چوڑیاں کھنکنے کی آواز سن کر اس نے اوپر دیکھا، کلثوم نے اپنے سیاہ بال جھٹکے تھے۔ بالوں سے برسنے والی بوندوں سے عبدالرحمن سوچوں کی رم جھم میں بھیگنے لگا۔کب تک ۔  آخرکب تک یہ چوری چھپے کی ملاقاتیں، کتنے برس گزر گئے۔ کلثوم میرے ساتھ پٹھو گرم کھیلتی اور چھتیں پھلانگتی جوان ہو گئی ہے۔ ہم کب تک سیڑھیوں میں آدھے چاند کی روشنی کے ساتھ پسینہ پسینہ ہوتے رہیں گے؟ کلثوم کو تو ڈر بھی نہیں لگتا، کبھی انگلی مروڑ لیتی ہے۔ کبھی بےشرمی سے گال پرچٹکی بھر کے بھاگ جاتی ہے۔ اوپر سے رعب جھاڑتی ہے کہ میں بزدل ہوں۔ میں اسے کیسے سمجھاؤں، بابا کتنے سخت گیر ہیں۔ ابھی کل ہی کہہ رہی تھی۔ کچھ کرو، نہیں تومیں زہر کھالوں گی۔ کہیں سچ مچ کچھ کر نہ بیٹھے۔ پھر ہوگا کیا۔؟ بھائی عبدالحمید تو کہہ رہا تھا۔ وہ حویلی کے خواب دیکھ رہی ہے۔بھائی بھی بے وقوف ہے، اسے کیا خبر، محبت ہوتی کیا ہے۔؟ خواہ مخواہ ہم سے جلتاہے۔ آج میں ماں سے بات کروں گا۔ 
عبدالرحمن گھر پہنچا تو اداس تھا۔ اس کا ذہن کلثوم کی زلفوں کے حصارمیں تھا۔ بڑے حکیم جی کئی دن سے پریشان تھے۔ مطب سے لوٹ کر اہلیہ سے رات گئے تک یہی موضوع زیر بحث رہتا کہ بیٹے کو کیا روگ لگ گیا ہے؟ پڑھائی سے اس کی طبیعت اچاٹ رہنے لگی ہے۔ رات کھانے کے بعد انہوں نے عبدالرحمن کو بلایا تو ان کی اہلیہ نے انہیں نرم لہجے میں بات کرنے کا مشورہ دیا۔ عبدالرحمن بابا کی پائینتی سرجھکا کر ناخن چباتا رہا۔ آپ اندر چلئے، میں اپنے چاند سے خود بات کر لوں گی۔ حکیم جی اٹھ کر دوسرے کمرے میں چلے گئے۔ عبدالرحمن مجرموں کی طرح سر جھکائے خیالوں میں غرق رہا۔ اس کے کانوں میں ابھی تک چوڑیوں کی کھنک اور چہرے پر ریشمی قطروں کے لمس کی ملائمت تھی۔ باہر مطب سے دھم دھم کی آواز آ رہی تھی۔ دلاس اوکھلی میں جڑی بوٹیاں کوٹ رہا تھا۔ اس کی ماں نے ملائمت سے پوچھا۔ بیٹا بول تو سہی، کیا بات ہے؟ مجھے تو ہم راز بنالے، کیوں روگی بن گیا ہے۔؟ تونے بن استری کبھی کپڑے نہیں پہنے تھے۔ تیری نزاکت ونفاست کیا ہوئی۔ میرے لال، کہاں تو سلوٹ بھرے بستر پر نہیں سوتا تھا اور اب اپنا لباس دیکھ۔ دیکھ تو سہی، تیری صحت گرتی جا رہی ہے۔ 
ماں۔ مجھے کوئی روگ، کوئی بیماری نہیں۔ سب وہم ہے آپ کا۔ پھر بھی۔۔ میرے چندا، تیرا چہرہ۔۔؟ میرے چہرے کو کیا ہے؟ میرے چہرے پرلکھی تحریر کس نے پڑھی اور سمجھی ہے۔۔؟ سمجھ بھی لیا تو جواب کون لکھےگا۔۔؟ چہرے کی تحریروں کا کوئی جواب نہیں ہوتا۔ چہرے صرف سوالات کی گزرگاہ ہوتے ہیں۔ راہوں میں آوارہ پھرنے والے بے گھر سالوں کو کبھی ٹھکانہ نہیں ملتا۔ آپ میرے سوالوں کا جواب کہاں سے خریدیں گے۔؟ عبدالرحمن اپنے ذہن کی تختی پر لکھے سوالات ماں کو نہ سنا سکا۔ صرف اتنا بولا۔ ماں۔۔ مجھے۔۔ مجھے۔۔ کلثوم لے دے۔۔! 
اس کی ماں نے سکون کا سانس لیا۔ بیماری کی تشخیص ہو جائے توعلاج آسان ہو جاتا ہے۔ عبدالرحمن کو آہیں بھرنی پڑیں نہ کلثوم کو چناب میں کچا گھڑا ڈالنا پڑا۔ پر ُسکون لہروں پر وقت نے فیصلہ لکھ دیا اور ان کی شادی ہو گئی۔ رکتے وقت کی چال کسے معلوم تھی۔ گھوڑا کب چلے اور پیادہ کس سمت کو جائے۔ کھیل میں شاہ کو بھی مات ہو جاتی ہے۔ شطرنج زیست کے مہرے چلتے رہے۔ 
عبدالرحمن نے طب کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد مطب سنبھال لیا۔ دلاس ان کا خاندانی ملازم تھا۔ دن بھرجڑی بوٹیاں کوٹتے، کشتے کھرل کرتے اورمعجون بناتے گنگناتا رہتا  اسے بہادر شاہ ظفر کا ایک ہی شعر ازبر تھا۔اوکھلی کی دھم دھم میں وہ مغلیہ عہد کو بھی کھرل کرتا رہتا۔ 
نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں نہ کسی کے دل کا قرار ہوں 
جو کسی کے کام نہ آ سکے میں وہ ایک مشت غبار ہوں 
جڑی بوٹیوں کی نسبت سے اسے زندگی کی تلخیوں کے ذائقے بھی معلوم تھے۔ بڑے حکیم جی اور ماں جی کی موت کے بعد اس نے حکیم عبدالرحمن کو زندگی کے نشیب وفراز سمجھانے کی کوشش کی لیکن بےسود۔ حکیم عبدالرحمن کی جھڑکیوں میں نہ وہ کسی کی آنکھ کا نور رہتا نہ دل کا قرار۔ اوکھلی سے نکلنے والی آواز میں مشت غباربن کے آنسوپیتا رہتا۔ 
حکیم عبدالرحمن کی طب کا دور دور تلک شہرہ تھا۔ لا علاج مریض لائے جاتے جو شفا یاب ہوکر جاتے۔ ان کی خالص ادویہ کی دھوم تھی۔ مطب میں ہر وقت جمگھٹا رہتا۔ معاملات کی ترتیب حکیم عبدالرحمن نے دی  اس کی طبیعت میں تیزی اور قدرے ترشی تھی۔اسی ترشی کے سبب اس کا بھائی عبدالحمید دل کے پھپھولے لے کر کنارہ گیر ہو گیا۔ بےاولاد ہونے کی وجہ سے حکیم جی میں چڑچڑاپن سرایت کرنے لگا۔ گھر کا سودا سلف، ملازمین کی تنخواہیں اور طب کی آمدن کلثوم کے ہاتھ میں تھی۔ سارے معاملات وہ خود سنبھالتی تھی۔ بڑے حکیم جی روزانہ کی آمدن بینک میں جمع کرایا کرتے تھے۔ کلثوم نے بینک کی بجائے رقم گھر لاکر میں رکھنے کا فیصلہ کیا۔ وہ عبدالرحمن کے حواس پرپوری طرح چھا گئی۔ حکیم جی اسی کے دماغ سے سوچتے اور فیصلے کرتے۔ ان کی مردہ سوچیں ذہن کے قبرستان میں دفن ہو گئیں۔ اس کے بھائی عبدالحمید نے اپنا الگ مکان لے لیا۔ وہ بھائی کے رویے پر کڑھتا رہتا۔ اسے بھائی کے بےاولاد ہونے کے دکھ سے زیادہ کلثوم کی چالوں سے ڈر تھا۔ سمجھانے کی غرض سے عبدالرحمن سے جو بات بھی کہتا، چکنے گھڑے کی طرح وہ اس کے ذہن سے پھسل جاتی۔ اس نے بھائی کو کلثوم کے بھائیوں کی عیاری اور مکاری سمجھانے کی پوری سعی کی، لیکن کلثوم کے حسن میں ساری باتیں ماند پڑ گئیں۔ سورج اس دن سوا نیزے پر آیا اور زمین تانبے کی ہوئی جس دن حکیم جی نے حویلی کلثوم کے نام کرنے کا فیصلہ کیا۔ دلاس اور عبدالحمید نے پوری رات جاگ کر گزار دی، لیکن صبح دم وہ وکیل کو ساری کارروائی کرنے سے نہ روک سکے۔ 
عبدالحمید جس وقت حویلی سے نکلا، کلثوم دالان میں بڑے سے پیڑھے پر زلفیں پھیلائے بیٹھی تھی۔ اس نے زہرخند مسکراہٹ سے عبدالحمید کو دیکھا اور عبدالحمید ناگن زلفیں آخری بار دیکھ کر باہر نکل آیا۔ 
نہ کسی کی آنکھ کا نور۔۔۔ نہ کسی کے دل کا قرار۔۔ دھم دھما دھم اوکھلی۔۔ دھم دھم ۔۔ جڑی بوٹیاں۔۔ دھول، دھم دھم۔۔ دلاس جب عبدالحمید سے گلے ملا تو پھوٹ پھوٹ رویا۔ حکیم عبدالرحمن مطب میں مصروف تھا۔ گلی میں ایک کالی بلی عبدالحمید کا رستہ کاٹ گئی۔ وہ چونکا اور مڑکے دیکھے بغیر آگے بڑھ گیا۔ 
حکیم عبدالرحمن کو جوڑوں میں درد کی شکایت رہنے لگی۔ گھٹنوں کا درد سوا ہو گیا۔ تمام نسخے آزما دیکھے، لیکن درد بڑھتا گیا۔ جوڑوں کے درد کے ساتھ ساتھ کلثوم کی سردمہری کا درد ان کے دل میں رہنے لگا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کلثوم کی گرم جوشی سرد پڑتی گئی۔ حویلی میں اس کے بھائیوں کی آمدورفت بڑھنے لگی اور سازشیں پلنے اور پروان چڑھنے لگیں۔ حکیم جی کی سوچیں کرم خوردہ ہو گئیں۔ یہ سب کیسے ہو گیا؟ کیوں ہو گیا۔؟ اسی کیوں کا جواب تلاش کرتے ہوئے حکیم جی کھنڈر ہو گئے۔ کلثوم توزلفوں کے ساتھ ساتھ جان چھڑ کتی تھی۔۔ اب تک کیوں۔۔؟ میں اس کی چالیں کیوں نہ جان سکا۔۔؟ سوالوں کے بھنور میں حکیم جی ایسے پھنسے کہ کوئی نکالنے والا بھی نہ رہا۔ کلثوم نے حویلی بھائیوں کے نام کر دی اور میں خاموش تماشائی بنا رہا۔ ہائے میری بےبسی۔حکیم جی دالان کے ایک کونے میں چارپائی پر بیٹھے رہتے۔ اپنے آپ سے الجھتے۔ ان کی عمر گزرنے لگی۔ دلاس کی دھم دھم تھم گئی۔ مطب میں کبھی کبھار کوئی مریض آتا۔ 
اس روز حکیم جی نے دلاس کو جڑی بوٹیاں لانے اور سفوف بنانے کو کہا۔ بند کیجیے اپنی اس لاڈلی طب کو۔ کھوٹا پیسہ تک گھر میں نہیں آتا۔۔ کلثوم بولی۔ تونے مجھے کس قابل چھوڑاہے۔ بڈھے مجھے الزام نہ دے۔ میں نے تجھ سے ٹوٹ کر محبت کی ہے۔ 
جھوٹ بکتی ہے تو۔ 
کلثوم کے طعنوں کا کینسر حکیم جی کی ہڈیوں میں سرایت کرنے لگا۔ وہ غصے سے کپکپا رہے تھے۔ میں نے تمہیں کیا نہیں دیا۔ 
محبت، دولت، شہرت، حویلی، زیور۔ اور۔۔ تم۔۔ تم نے مجھے کیا دیا۔۔ نفرت اور عیاری۔! دالان کے ایک کونے میں پڑا ہوں، یہاں سے بھی نکال پھینک۔ اﷲ کی زمین بہت بڑی ہے کہیں تو پناہ مل جائےگی۔۔ تو۔۔ تو۔۔ جا، میں تجھے گالی بھی نہیں دیتا۔ بڈھے خبیث، دفع ہو یہاں سے۔کلثوم نے حکیم جی کو گھسیٹ کر باہر پھینکا اور کنڈی چڑھا لی۔ 
نہ کسی کی آنکھ کا نور۔ دھم۔۔ دھم۔۔ دھما دھم ۔۔ نہ کسی کے دل کا قرار۔ دلاس چونکا۔۔ اٹھ کر حکیم جی کو سنبھالا۔ دلاس۔۔ دلاس۔۔ مجھے پیرجی کے پاس چھوڑ آؤ۔ 
(۳) 
دلاس، کسی روز بھائی کو نہ مل آئیں۔۔؟ جی، ضرور چلیں گے۔۔ دلاس کے آنسونکل آئے۔ لیکن چند دن ٹھہر جاؤ۔ مقدمے کا فیصلہ ہو لینے دو۔ اﷲ کرے ہم مقدمہ جیت جائیں اور عبدالرحمن کو حویلی واپس مل جانے کی خوش خبری سنائیں۔ عبدالحمید کے چہرے پرا طمینان تھا۔ نہیں جی۔۔ ابھی چلئے۔۔ کتنا عرصہ گزر گیا ہے۔ وہ بیمار بھی تو تھے۔ ہم نے پلٹ کر خبر ہی نہ لی۔ کیا سوچتے ہوں گے حکیم جی۔۔؟ دلاس کے آنسو بہہ رہے تھے۔ ایک بار بھائی عبدالرحمن کا کارڈ آیا تھا۔ اچھا۔ کیا لکھا تھا۔؟ بہادر شاہ کا ایک شعر 
کتنا ہے بدنصیب ظفرؔ دفن کے لیے 
دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں 
تیاری کیجیے جی۔۔ دیر نہیں کرنی۔۔ دلاس پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ مقدمے کا فیصلہ توہولے۔ چھوڑئیے جی۔۔۔ فیصلہ ہوتا رہےگا۔ اور ہاں۔۔ جوارش جالینوس، سفوف جواہر اور انوش داروضرور ساتھ لے لینا۔ بھائی خوش ہو جائےگا۔ جانے وہاں اس کی گزر بسر کیسے ہو رہی ہوگی۔۔۔؟ 
قریبی اسٹیشن پر اترکر انہوں نے ٹیکسی پکڑی اور گاؤں کی راہ لی۔ وہ عصرکے قریب پیرجی کی خانقاہ پہنچے۔ ایک درویش نے انہیں برآمدے میں بٹھایا، پانی پلا کر وہ چائے لینے چلا گیا تو دلاس نے پوچھا۔ 
حکیم جی نظر نہیں آ رہے؟ میرے خیال میں سو رہے ہیں۔ وہ دیکھو۔۔ سامنے ان کا بکس رکھا ہے اور چارپائی کے ساتھ چپل بھی۔ بس مغرب کا وقت ہو رہا ہے، خود جاگ جائیں گے۔ دونوں مطمئن ہوکر باتیں کرنے لگے۔ اتنے میں درویش چائے لے آیا۔ پیالیوں میں چائے انڈیلتے ہوئے اس نے آواز دی۔۔ عزیز بابا اٹھو، اذان دینے کا وقت ہو گیا ہے۔۔ چادر سر کی، عزیز بابا اٹھا۔ عبدالحمید اور دلاس نے چونک کر ایک دوسرے کو دیکھا اور خوفزدہ آواز میں پوچھا۔ ہمیں تو حکیم عبدالرحمن سے ملنا ہے۔ پاؤں میں چپل اڑستے ہوئے بابا عزیز نے کہا۔ عبدالحمید ۔۔ ’’مسافر تو گیا‘‘۔!