انڈونیشیا کے وہ گاؤں جہاں مائیں نہیں ہوتیں

مصنف : بی بی سی

سلسلہ : سماجیات

شمارہ : جون 2022

 انڈونیشیا میں ان علاقوں کو "بغیر ماں کے گاؤں" کہا جاتا ہے جہاں کی تقریباً تمام مائیں دوسرے ملکوں میں کام کر رہی ہیں.  بی بی سی کی نامہ نگار ربیکا ہینسیک نے اس گاؤں میں بغیر ماں کے رہنے والے بچوں سے ملاقات کی۔
ایلی سوسی اوتی کی ماں جب اسے اس کی دادی کے پاس چھوڑ کر گئیں تو وہ صرف گیارہ سال کی تھی۔ ایلی کے والدین میں علیحدگی ہو چکی ہے اور ان کی ماں مارثیا کو سعودی عرب میں گھریلو ملازمہ کا کام کرنے جانا پڑا۔’ گاؤں میں یہ خیال عام تھا کہ اپنے بچوں کو بہتر زندگی دینے کے لیے جوان ماؤں کا ملک سے باہر جا کر کام کرنا ضروری ہے۔ یہاں زیادہ تر مرد کاشتکار یا مزدور ہیں اوران کی آمدنی بہت کم ہے جبکہ عورتیں ملک سے باہر جا کر گھریلو ملازمہ یا آیا کے طور پر کام میں ان سے کہیں زیادہ کما لیتی ہیں۔ مائیں اپنے بچوں کو چھوڑ کر کام کرنے باہر جاتی ہیں تو مرد بچوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں اور ارد گرد کے لوگ بھی ایک دوسرے کے بچوں کا خیال رکھتے ہیں۔
لیکن کسی بھی بچے کے لیے اپنی ماں سے علیحدہ رہنا بہت تکلیف دہ ہوتا ہے۔ کریماتل ادیبیہ کی ماں جب اسے چھوڑ کر گئیں تو وہ محض ایک سال کی تھی۔  کریماتل نے اس وقت پہلی بار اپنی ماں سے ملاقات کی جب وہ پرائمری سکول ختم کر چکی تھی اور اس کی ماں اس سے ملنے آئی تھی۔کریماتل اپنی آنٹی کو ہی ماں سمجھتی تھی جس نے اس کی دیکھ بھال کی تھی۔مجھے یاد ہے کہ میری ماں رو رہی تھی اور میری آنٹی سے کہہ رہی تھی کہ اسے کیوں نہیں معلوم کہ وہ میری بیٹی ہے۔‘کریماتل اب تیرہ سال کی ہے اور ہر رات اپنی ماں کو ویڈیو کال کرتی ہے اور دونوں ایک دوسرے کو میسج بھی کرتی ہیں لیکن ابھی بھی یہ ایک مشکل رشتہ ہے۔کریماتل کی آنٹی بیگ نورجنا نے نو بچوں کی پرورش کی ہے جن میں سے صرف ایک ان کا بچہ ہے۔ نورجنا پچاس کے پیٹے میں ہیں اور انہوں نے اپنے ان تمام بھائی بہنوں کے بچوں کی دیکھ بھال کی ہے جو کام کے لیے ملک سے باہر ہیں۔وہ کہتی ہیں کہ " الحمد للہ میں نے کبھی کسی بچے میں فرق نہیں کیا، یہ سب آپس میں بہن بھائیوں کی طرح ہیں"
انڈونیشیا کے اس علاقے سے عورتوں نے 80 کی دہائی میں ملک سے باہر جا کر کام کرنا شروع کیا تھا۔ کسی طرح کا قانونی تحفظ نہ ہونے کے سبب یہ طرح طرح کی زیادتیوں کا شکار ہوتی ہیں۔ کئی  مر گئیں، کچھ کے ساتھ ان کے مالکان نے بری طرح مار پیٹ کی اور کچھ کو بغیر اجرت کے گھر واپس بھیج دیا گیا۔کبھی کبھی تو یہ مائیں بچے ساتھ لے کر واپس آئیں جو یا تو ان کے ساتھہ زبردستی جنسی تعلق کا نتیجہ تھے یا پھر ان کی مرضی سے ایسا ہوا تھا۔ ان بچوں کو اکثر "تحفہ" سمجھا جاتا ہے۔ مکسڈ ریس یا مخلوط نسل ہونے کے سبب وہ گاؤں میں دوسروں سے الگ نظر آتے ہیں۔ اٹھارہ سال کی فاطمہ کا کہنا ہے کہ کبھی کبھی انہیں لوگوں کی توجہ اچھی لگتی ہے۔ لوگ اکثر مجھے دیکھ کر حیران ہوتے ہیں کیونکہ میں ان سے مختلف لگتی ہوں، کچھ لوگ کہتے ہیں" تم بہت خوبصورت ہو تم میں عرب خون ہے" ۔ فاطمہ ہنستے ہوئے کہتی ہے "مجھے خوشی ہوتی ہے" -لیکن تارکین وطن کے حقوق کے لیے کام کرنے والے گروپوں کا کہنا ہے کہ ایسے بچے جنہیں تحفہ تصور کیا جاتا ہے، انہیں اکثر رسوائی کا سامنا ہوتا ہے اور سکول میں بھی انہیں ہراساں کیا جاتا ہے۔فاطمہ اپنے سعودی باپ سے کبھی نہیں ملی لیکن فاطمہ کے والد ان کی ماں کو پیسہ بھیجتے تھے تاکہ وہ گھر پر رہ کر اپنے بچوں کی دیکھ بھال کر سکیں، لیکن حال ہی میں ان کا انتقال ہو گیا جس کے بعد فاطمہ کی ماں کی زندگی مشکل ہو گئی اور وہ ایک بار پھر ملازمت کے لیے سعودی عرب چلی گئیں۔فاطمہ کہتی ہے کہ ’میری ماں میرے بھائی کی وجہ سے بھی سعودی عرب گئی ہیں کیونکہ وہ جب بھی کسی کی موٹر بائیک دیکھتا تھا تو ماں سے پوچھتا تھا کہ میں ایسی بائیک کب لوں گا۔ کسی کا موبائل دیکھ کر کہتا تھا کہ مجھے بھی ایسا موبائل چاہیے۔‘فاطمہ روتے ہوئے کہتی ہے کہ ’اگر میری ماں سعودی عرب نہ جاتی تو زندگی گزارنے کے لیے ہمارے پاس پیسے نہیں ہوتے۔‘سپری ہاتی بھی کام کے لیے اس وقت سعودی عرب گئی تھیں جب انکے دونوں بیٹے بہت چھوٹے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ انکے اس فیصلے کا نتیجہ اچھا رہا۔میں نے اپنے حصے کی مشکلات جھیل لی ہیں لیکن اب سب کچھ ٹھیک ہے۔‘سپری ہاتی نے پیسے بچا کر اپنے بچوں کی تعلیم پر خرچ کیے اور اب انکی زندگی سدھر چکی ہے۔اب انہیں کام نہیں کرنا پڑتا کیونکہ انکے بچے انکی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ آفریانا کے پانچ بھائی بہن ہیں۔ ماں کے جانے کے بعد ان کی دادی ان کی دیکھ بھال کرتی تھیں جو اب نہیں رہیں تو اب تمام ذمہ داری آفریانا اور انکے والد پر ہے۔آفریانا کی ماں اس وقت انہیں چھوڑ کر گئی تھیں جب ان کی سب سے چھوٹی بیٹی ایک سال سے بھی کم عمر کی تھی۔ کچھ عرصے وہ رقم بھیجتی رہیں لیکن پھر ان سے ہر طرح کا رابطہ ختم ہو گیا۔دوسرے بچوں کی طرح آفریانا کو ماں سے علیحدگی کا دکھ نہیں ہے۔مجھے بہت برا لگتاہے جب لوگ ہم پر ترس کھاتے ہیں کہ تمہاری ماں تمہارے پاس نہیں ہے۔ میں اپنے بھائی بہنوں کا خیال رکھتی ہوں اور ہمیں نہیں لگتا کہ ہمیں کسی طرح کی کمی محسوس ہوتی ہے۔
میرے بھائی بہن بھی ہر چیز کے لیے والد کی جانب دیکھتے ہیں وہ گھر کے کام میں بھی ہاتھ بٹاتے ہیں۔ آفریانا پڑھ لکھ کر انڈونیشیا کی نیوی جوائن کرنا چاہتی ہے۔
انڈونیشیا کے دو تہائی تارکینِ وطن مزدور عورتیں ہیں اور جو رقم وہ کما کر بھیجتی ہیں اس سے اگلی نسل اپنے تمام خواب پورے کر سکتی ہے ۔ایلی سوسیاوتی نے نو سال سے اپنی ماں کو نہیں دیکھا، لیکن اپنی ماں کی تنخواہ کے سبب وہ یونیورسٹی جانے والی اپنے خاندان کی پہلی لڑکی ہے۔ایلی کہتی ہے میں اپنی ماں کی قربانیوں کو سمجھ سکتی ہوں، اگر میری ماں باہر جا کر کام نہ کرتی تو میں تعلیم حاصل نہیں کر سکتی تھی ، میری ماں دنیا کی سب سے طاقتور ماں ہیں۔ماں بیٹی فیس ٹائم اور واٹس ایپ پر بات کرتی ہیں۔ایلی نے ویڈیو کال پر اپنی ماں مارثیا سے بات کروائی انکا کہنا تھا کہ سعودی عرب میں جس خاندان کے لیے وہ کام کرتی ہیں وہ نیک لوگ ہیں اور انہیں وقت پر تنخواہ بھی مل جاتی ہے۔جب میں نے ایلی کی ماں کو بتایا کہ انکی بیٹی انہیں دنیا کی سب سے اچھی ماں کہتی ہے تو ہنسی کے ساتھ مارثیا کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔فون پر بات کرنے کے بعد ایلی نے کہا تعلیم کی کمی کے سبب ہمارے والدین کو ہمیں چھوڑ کر جانا پڑا، یہ بات مسلسل پریشان کرتی ہے، اگر مجھے باہر جانا پڑا تو میں ملازم بن کر نہیں کاروبار کرنے جاؤں گی-