بچوں کو محتاج نہ بنائیے

مصنف : محمد سلیم

سلسلہ : سماجیات

شمارہ : جون 2022

دوست نے فون کر کے پوچھا: سلیم بھائی، بچوں کو سکول میں افزائش کیلیئے ریشم کے کیڑے دیئے گئے ہیں۔ آج کیلیئے تو انہوں نے غذا کے طور شہتوت کے پتے ساتھ دیئے ہیں مگر آئندہ کیلیئے کیسے کرنا ہے کچھ بتائیے؟ میں نے آنلائن ویبسائٹ چیک کی تو بیشمار سیلر شہتوت کے پودے بیچ رہے تھے مگر کیا وہ پتوں سمیت بھی بھیجیں گے یا نہیں اس میں شک تھا۔ کیونکہ اس سے پہلے جتنی بار بھی میں نے پودے منگوائے سب بغیر پتوں یا کم سے کم پتوں کے ساتھ بھیجے گئے تھے۔ اپنی سٹاف سے شہر میں نرسری کا پتہ پوچھ کر دوست کو دیا اور شام کو انہوں نے مجھے شکریہ کا فون کیا۔ 
یہ دوست اس سے پہلے بھی مجھے بتاتے رہتے تھے کہ سکول میں بچوں کو بیج دیئے جاتے ہیں اور پھر ہر ہفتے بچے اپنے اپنے پودے ساتھ لیجا کر سکول میں اپنی کارکردگی دکھاتے ہیں۔ آج کے زمانے میں شعور کو اگر سکولوں میں دی جانے والی تربیت سے جوڑا  جائے تو ہمارے وطن میں اس کی کوئی امید نہیں ہے۔ پاکستان میں آخری سرکاری سکول کو بنے ہوئے 12 سال کا عرصہ ہو چکا ہے۔ اس کے بعد جتنے بھی کھلے ہیں وہ سارے کے سارے ڈربہ سکول ہیں جن میں فزیکل گروتھ یا سوشل ایکٹیویٹی کا تو گمان ہی نہیں کیا جا سکتا۔ دولے شاہ کے چوہے بنائے اور سدھائے جا رہے ہیں جن کا مطمح نظر ماں باپ کی محرومیوں کا مداوا کرنا ہے۔ ہے کوئی درد دل رکھنے والا جو سن 2020 اور سن 2021 میں رجسٹرڈ ہونے والی پیدائشوں کا حساب بتائے کہ محض تین سالوں کے بعد کتنے سکولوں کی ضرورت پیش آنے والی ہے؟
غریب اور بدحال ترین ملکوں میں شمار ہونے والا ہمارا وطن عزیز: جہاں آج بھی باپ بچوں کو سکول ڈھو رہا ہے اور ماں دلچسپی کی دیگر مصروفیات کے علاوہ بچوں کو پیدا کر رہی ہے؟ تعلیم بھیڑ چال ہے جسے بغیر کوئی مقصد متعین کیئے ٹچ می ناٹ قسم کے بچوں کے سروں میں انڈیلا جا رہا ہے۔ ضرورت ٹیکنیکل اور ووکیشنل سکولوں کی تھی بن "ٹک ٹاکر" بنانے والے مونیسٹوری اور سینٹ میری سکول رہے ہیں۔ 
چین، جاپان اور کوریا کی اقتصاد کا اپنے ساتھ موازنہ کر لیجیئے اور یہاں کے بچوں کی تعلیم، تربیت، اولویات اور رجحان کو بھی دیکھ لیجیئے۔ امریکہ تو آپ کا خواب ہے مگر آپ لوگوں کا دھیان اس طرف کیوں نہیں جاتا کہ وہاں پر بچوں کو خود انحصاری بھی سکھائی جاتی ہے۔ 
آنے والا وقت کاشتکاری میں انقلاب کا ہے۔ صنعتی انقلاب کا ہے اور دستکاری کا ہے اور آپ ہیں کہ کلرک پیدا کرتے جا رہے ہیں۔ آپ سے باتیں کرا لو: نانبائی اور حجام سے لیکر پروفیسر تک تاویلیں گھڑ کر دے رہا ہے، ہر کوئی ڈنگ ٹپا رہا ہے۔ دور کی نظر کسی کی کام نہیں کر رہی۔ ہر کوئی اسی زمانے میں سوچ رہا ہے اور جی رہا ہے۔ کل کو کیا مسائل درپیش ہونگے کسی کی سوچ ہی کام نہیں کر رہی۔ محنت کرنا عار بن چکی ہے۔ جو کر رہے ہیں سو کر رہے ہیں باقی اپنی سفید پوشی کے جھوٹے بھرم اور اپنی ذات پات کے بوجھ تلے دبے کاہل اور ہڈ حرامی کر رہے ہیں۔ 
باہر کی دنیا کے آپ کو حالات اور آسمان کو چھوتی قیمتیں بتائی جائیں تو جھٹ سے  وہاں کی اوسط آمدنی کے حوالے دینے لگ جاتے ہیں۔ کچھ کوہ تاہ اندیش امریکہ کی ڈالر میں کمائی بتا کر منہ بند کرا دیتے ہیں لیکن وہاں کمائی کیسے کی جاتی ہے اور گزارہ کیسے ہوتا ہے کا کوئی ذکر نہیں کرتا۔ 
لندن میں مادام تساؤ کا مومی عجائب گھر ہے، باہر سے جانے والے جا کر دیکھتے ہیں۔ اپنے کسی لگتے کو جو وہاں رہتا ہو سے قسم اٹھوا کر پوچھ لیجیئے زندگی میں کتنے بار اندر گیا ہے؟ پاؤنڈ میں ٹکٹ لیتے ہوئے ان کی ساری آمدنی ہاتھ میں آئی پڑی ہوتی ہے۔ بنگلہ دیش کا ڈھنڈورا پیتا جاتا ہے۔ کسی ڈھاکہ گئے دوست سے پوچھ لیجیئے جو آپ کو بتائے گا زندگی کتنی مشکل ہے اور امان بس ہوٹل کے اندر تک ہے باہر جانے میں جان جاتی ہے۔ بند کیجیئے تاویلیں دینا۔ کاشتکار اپنا طرز زندگی بدلیں۔ وسائل اور آمدنی کا ایک آفاق ان کے سامنے موجود ہے۔ لیکن ان کو اپنی زمین بیچ کر لینڈکروزر لینا ترقی نظر آتی ہے محنت سے جان جاتی ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ یہاں پر سپر مارکیٹ میں ہر سبزی کا سیڈلنگ ٹرے پنیری لگا ہوا دستیاب ہے۔ ان کو لیجا کر آپ کی بالکونی تو سجتی ہی ہے سال بھر کی مرچ اور ہر ہفتے کی سبزی کا کچھ کوٹا بھی ملتا ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ یہاں پر لوگ اپنی چھتوں کا استعمال کبوتروں کا ہڈ لگانے کیلیئے نہیں اپنے بجٹ کو سٹیبل رکھنے کیلیئے روف گارڈننگ کر کے پورا کرتے ہیں۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ یہاں پر گھر بیٹھی عورت آنلائن کچھ نہ کچھ ری سیل کر کے باہر گئے مرد سے زیادہ کما لیتی ہے؟اگر آپ اپنے ساتھ ساتھ اپنے بچوں کو بھی موبائل فون کا پیکیج کرا کر دیتے ہیں تو اپنی ترجیحات بدلیئے۔ اپنے بچوں کو ڈیپینڈنٹ نہ بنائیے۔ انہیں معذور اور دولے دولے شاہ کے چوہے بننے سے روکیئے۔