حرف حر ف لہو لہو

مصنف : سید صباح الدین عبدالرحمن مرحوم

سلسلہ : شاعری

شمارہ : اپریل 2022

ملا حکم نامہ امیر کا مجھے عجلتوں میں لکھا ہوا
 کہیں رنجشوں کی کہانیاں کہیں دھمکیوں کا ہے سلسلہ
مجھے کہہ دیا ہے امیر نے کرو حسن یار کا تذکرہ 
تمہیں کیا پڑی ہے کہ رات دن کہو حاکموں کو برا بھلا
تمہیں فکر عمر عزیزہے تو نہ حاکموں کو خفا کرو
جو امیر شہر کہے تمہیں وہی شاعری میں کہا کرو
 کوئی  واردات  کہ  دن  میں  ہو  کوئی  سانحہ  کسی  رات  ہو
نہ امیر شہر کا ذکر ہو نہ غنیم وقت کی بات ہو
 کہیں تار تار ہو عصمتیں مرے دوستوں کو نہ دوش دو
جو کہیں ہو ڈاکہ زنی اگر تو نہ محافظوں کا نام لو
کسی تاک میں لگے ہوئے مرے جاں نثار گلی گلی
ہیں مرے اشارے کے منتظر مرے عسکری مرے لشکری
جو تمہارے جیسے جوان تھے کبھی مرے آگے رکے نہیں
انہیں اس جہاں سے اٹھا دیا وہ جو میرے آگے جھکے نہیں
جنہیں جان و مال عزیز تھے وہ تو مرے ڈر سے پگھل گئے
جو تمہاری طرح اٹھے بھی تو انہیں بم کے شعلے نگل گئے
مرے جان نثاروں کو حکم ہے کہ گلی گلی یہ پیام دیں
جو امیر شہر کا حکم ہے بنا اعتراض وہ مان لیں
جو مرے مفاد کے حق میں ہیں وہی عدلیہ میں رہا کریں
مجھے جو بھی دل سے قبول ہوںسبھی فیصلے وہ ہوا کریں
جنہیں مجھ سے کچھ نہیں واسطہ انہیں اپنے حال پہ چھوڑ دو
ہو ں اصول جن کو عزیز تر انہیں گردنوں سے مروڑ دو
وہ جو بے ضمیر ہیں شہر میں انہیں زر کا سکہ اچھال دو
جنہیں اپنے آپ پہ ناز ہو انہیں کال کوٹھی میں ڈال دو
جو مرا خطیب کہے تمہیں وہی اصل ہے اسے مان لو
جو مرا امام بیان کرے وہی دین ہے سبھی جان لو
جو غریب ہیں مرے شہر میں انہیں بھوک پیاس کی مار دو
کوئی اپنا حق جو طلب کرے تو اسے زمیں میں اتار دو
جو مرے حبیب و رفیق ہیں انہیں خوب مال و منال دو
جو مرے خلاف ہیں بولتے انہیں نوکری سے نکال دو
جو ہیں بے خطا وہی در بدر یہ عجیب طرز نصاب ہے 
جو گنہ کریں وہی معتبر یہ عجیب روز حساب ہے 
یہ عجیب رت ہے بہار کی کہ ہر ایک زیر عتاب ہے 
کہیں پر شکستہ ہے فاختہ کہیں زخم زخم گلاب ہے 
مرے دشمنوں کوجواب ہے نہیں غاصبوں پہ شفیق میں
مرے حاکموںکو خبر کرو نہیں آمروں کا رفیق میں
مجھے زندگی کی ہوس نہیں مجھے خوف مرگ نہیں ذرا
مرا حرف حرف لہو لہو مرا لفظ لفظ ہے آبلہ