مذہب اور چوری

مصنف : مستنصر حسین تارڑ

سلسلہ : متفرقات

شمارہ : اپریل 2022

لندن کا مشہور رائل البرٹ ہال
تماشائیوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔
سب کی نظریں پردے پرگڑی ہوئی تھیں۔
 ہر ایک آنکھ اپنےپسندیدہ سٹینڈ اپ کامیڈین کی ایک جھلک دیکھنے کوبے قرار تھی۔چند ہی لمحوں بعد پردہ اٹھا
 اور اندھیرے میں ایک روشن چہرہ جگمگایا
جس کو دیکھ کر تماشائی اپنی سیٹوں سے
 کھڑے ہو گئے
 اور تالیاں کی گونج میں
اپنے پسندیدہ کامیڈین کااستقبال کیا
یہ گورا چٹا آدمی مشہور امریکی سٹینڈ اپ
کامیڈین ایمو فلپس تھا۔
اس نے مسکراتے ہوئے چہرے کے ساتھ
 ہاتھ اٹھا کر اپنے چاہنے والوں کاشکریہ ادا کیا اور بڑی ہی گھمبیر آواز میں بولا :
دوستو! میرا بچپن بہت ہی
کسمپرسی کی حالت میں گزرا تھا،
مجھے بچپن سے ہی بائیکس کابہت شوق تھا۔
میرا باپ کیتھولک تھا،وہ مجھے کہتا تھا کہ
 خدا سے مانگو وہ سب دیتا ہے۔
میں نے بھی خدا سے مانگنے میںکوئی کسر نہ اٹھا رکھی تھی
 اور دن رات اپنے سپنوں کی بائیک کو خدا سےمانگنا شروع کر دیا۔
میں جب بڑا ہوا تومجھے احساس ہوا کہ
میرا باپ اچھا آدمی تھالیکن تھوڑا سا بے وقوف تھا،اس نے مذہب کو سیکھا تو تھا
لیکن سمجھا نہیں تھا ۔لیکن میں سمجھ گیا تھا۔
اتنا کہہ کر ایموفلپس نےمائیکروفون اپنے منہ کے آگے سےہٹا لیااور ہال پر نظر ڈالی تو
دور دور انسانوں کے سر ہی سر نظر آ رہے تھےلیکن ایسی پِن ڈراپ سائلنس تھی
کہ اگر اس وقت سٹیج پرسوئی بھی گرتی تو
شاید اس کی آواز کسی دھماکے سےکم نہ ہوتی۔ہر شخص ایمو فلپس کی مکمل بات سننا چاہتا تھاکیونکہ وہ بلیک کامیڈی کابادشاہ تھا،
وہ مذاق ہی مذاق میںفلسفوں کیگھتیاں سلجھا دیتا تھا۔
ایمو نے مائیکروفون دوبارہ اپنے ہونٹوں کے قریب کیااور بولا:
میں بائیک کی دعائیںمانگتا مانگتابڑا ہو گیا
لیکن بائیک نہ ملی،
ایک دن میں نےاپنی پسندیدہ بائیک چرالی ۔بائیک چرا کرگھر لے آیا
اور اس رات میں نےساری رات خدا سےگڑ گڑا کر معافی مانگی اور اگلے دن معافی کے بعدمیرا ضمیر ہلکا ہو چکا تھا
اور مجھے میری پسندیدہ بائیک مل چکی تھی
اور میں جان گیا تھا کہ مذہب کیسے کام کرتا ہے۔
اتنا کہہ کر جیسے ہی ایمو فلپس خاموش ہوا
تو پورا ہال قہقہوں سےگونج اٹھا،
ہر شخص ہنس ہنس کربے حال ہو گیا۔
اور کیا آپ جانتے ہیں
اس لطیفے کو سٹینڈ اپ کامیڈی کی تاریخ کے سب سے مشہورلطیفے کا اعزاز حاصل ہے۔
اتنا کہہ چکنے کے بعد ایمو فلپس نےپھر سے مائیکروفون ہونٹوں کے قریب کیااور بولا:
اگر تم کبھی کسی مال دار شخص کو
خدا سے معافی مانگتے دیکھوتو یاد رکھنا وہ مذہب سےزیادہ چوری پر یقین رکھتا ہے"۔
اتنا کہہ کر ایمو فلپس پردے کے پیچھے غائب ہو گیا
اور لاکھوں شائقین ہنستے ہنستےرو پڑے
کیونکہ یہ ایسا جملہ تھاجس نے بہت سارےفلسفوں کی گھتیاںسلجھا دی تھیں۔
میں دو دن سےدیکھ رہا ہوں کہ
وہ تمام لوگ جن پر پاکستان میں کرپشن،
عدالتی کیس چل رہے ہیں،
وہ سب لوگ مکہ مدینہ میںقران پاک پڑھتے ہوئے،نماز پڑھتے ہوئے، جالیوں کو چومتے ہوئےاور ہزار طرح کی مناجات کرتے ہوئےتصویریں کھنچوا کھنچوا کرپاکستان بھیج رہے ہیںاور لوگوں سے کہہ رہے ہیںکہ دیکھوہم کتنے نیک
اور مذہبی ہیں،ہم تو ہر لمحہ اللہ سے توبہ استغفارکرتے رہتے ہیں
لیکن میرے کانوں میںبار بار ایمو فلپس کا
وہ جملہ گونج رہا ہے ۔
اگر تم کبھی کسی مال دار شخص کوخدا سے معافی مانگتے دیکھو تو یاد رکھنا*وہ مذہب سے زیادہ**چوری پر یقین رکھتا ہے.!