جج کے دو بچوں کا قتل

مصنف : نیاز احمد کھوسہ

سلسلہ : سچی کہانی

شمارہ : اپریل 2022

 قرآن پاک کی ایک آیت میں کہا گیا ہے ایک پتہ بھی اللہ پاک کے حکم کے بغیر نہیں گرتا-
ایک اہم کیس کی تفتیش میں امید اور ناامیدی کا معجزاتی قصہ جسے پڑ کر اللہ پاک پر یقین اور بڑھ جاتا ہے۔ 
ایک جج صاحبہ کے دو بچوں کے قتل کا دردناک واقعہ جس نے پورے مُلک کو ہلاکر رکھ دیا تھا ۔ اُن دنوں میری پوسٹنگ سی آئی اے جمشید کواٹر میں تھی ایک جج صاحبہ کے ایک پانچ سالہ بچی اور دوسری دو سالہ بچی  پولیس فائرنگ سے ہلاک ہوگئے تھے پورے مُلک ہر طرف دُکھ اور سوگ کی ایک لہر چھائی ہوئی تھی عدالتیں، کراچی کی مارکیٹیں سارے دکان اور اسکول و کالج وغیرہ  سوگ میں احتاجن بند ہوگئی تھیں اور یہ سلسلہ ہفتوں چلتا رہا ۔میڈیا میں  پولیس کے خلاف نفرت اور غصے کا اظہار کیا جارہا تھا 
آئی جی سندھ جناب کمال شاہ صاحب نے جج صاحبہ کے دو بچوں کا قتل کیس سی آئی اے کے ڈی آئی جی جناب منظور مغل صاحب کو ٹرانسفر کردیا اور ڈی آئی جی صاحب نے وہ کیس مجھے ٹرانسفر کردیا ۔ 
اصل واقعہ یہ ہے کہ PECHS میں واقعہ ایک جج صاحبہ کی رہائش گاھ میں رات کے پچھلے پہر کچھ ڈاکو دیوار پلانگ کر داخل ہوگئے اور جج صاحبہ سمیت پورے گھر کو گن پوائنٹ پر لے لیا اور پورے گھر کی تلاشی لینے لگے اسی دوران سامنے والے ایک بنگلے والوں کو جج صاحبہ کے بنگلے میں غیر معمولی چھل پھل پر شک  ہوا  اور انھوں نے پولیس ایمرجنسی 15 کو فون کردیا کہ فلان بنگلے میں ڈاکوں کی اطلاع ہے ۔
اُس وقت سابقہ ایس ایس پی ملیر مسٹر علی رضا ڈی ایس پی فیروز آباد تھے۔ 15 کی اطلاع پر ڈی ایس پی علی رضا ایس ایچ او فیروز آباد جج صاحبہ کے گھر پہنچ گئے تھے کچھ دیر میں چار اور پولیس موبائلیں ڈی ایس پی کی مدد کیلئے آگئی تھیں  ۔ جج صاحبہ کے گھر سے جب ڈاکوں نے دیکھا کہ پولیس نفری آگئی ہے تو ڈاکوئوں کے سرغنہ نے فلمی انداز میں جج صاحبہ کو کہا کہ مجھے اپنی کار میں بہ حفاظت کہیں چوڑ آئیں اور اپنے ساتھیوں کو کہا کہ تم لوگ یہاں رکو جب جج صاحبہ کی کار گیٹ سے باہر نکلے گی تو پولیس کار کا پیچھا کرے گی اور تم لوگ موقعہ دیکھ کر سامان کے ساتھ نکل جانا !!!! 
اور ایسا ہی ہوا جج صاحبہ کی سرکاری کار بنگلے سے نکلتے ہی پولیس کی چھ موبائلوں نے ڈی ایس پی علی رضا اور ایس ایچ او فیروز آباد کی قیادت میں کار کا پیچھا کیا اسی دوران ڈی ایس پی علی رضا کے گن مین نے کار پر فائر کھول دیا کار نے اسپیڈ پکڑ لی اور اچانک پولیس موبائلوں کا قافلہ رُک گیا ۔ ڈی ایس پی علی رضا کے گن میں کی فائرنگ کی وجہ سے جج صاحبہ کے دو بچوں کو گولیاں لگی تھیں اور ایک گولی جج صاحبہ کو ہاتھ میں لگی تھی۔ 
جج صاحبہ اپنے دونوں زخمی بچوں کو لیکراسپتال پہنچیں اور دوران علاج دونوں بچے اللہ کو پیارے ہوگئے اور جام شہادت نوش کرلیا ایک ممتا کیلئے اس سے بڑا سانحہ اور  کیا ہوگا کہ اُس کے لخت جگر خون میں لت پت بے بسی کے ماحول میں اُس سے ہمیشہ کیلئے جدا ہوجائیں ۔ 
کیس مجھے ملنے کے بعد میں نے جج صاحبہ کے بنگلے اور فیروز آباد تھانے پر کھڑی جج صاحبہ کی  کار کا معائنہ کیا ، کار پر کالے شیشوں کا پیپر لگا ہوا تھا کار کی ڈگی پر صرف گولیوں کے نشان تھے ڈگی کا شیشہ کا بیچ کا حصہ گولیاں لگنے کی وجہ سے ٹوٹ چکا تھا اور ڈگی کی سائڈوں پر بچے کچھے شیشوں پر کالے شیشے کا پیپر چپکا ہوا تھا۔ میں کار کا اندر سے جائزہ لیا سوزوکی مہران کار میں اگلی سیٹیں اور دو سیٹوں کے بیچ والا حصہ جہاں ہینڈ بریک لگا ہوتا وہ بھی خون سے لت پت تھا اور حیرت انگیز بات یہ تھی کہ مہران کار کی ڈگی میں جہاں  اسپیئر وہیل رکھا ہوتا ہے وہ بھی خون میں لت پت تھا، جیساکہ شیشہ کو کالا کرنے والا پیپر کار کو اندر سے لگتا ہے  کالے پییر اور  ڈگی کے چادر پر گولیوں کے واضع نشان تھے جو گنے جاسکتے تھے جب میں نے کالے پیپر کا اندر سے جائزہ لیا تو مجھے حیرانگی ہوئی کہ ڈگی کے کالے پیپر پر اندر سے گولیاں چلنے کی وجہ سے   Blackening as the result of Gun deposit from the dirty powder gases کی موجودگی کے نشانات تھے ۔ 
میرے ان دو سوالات ایک ڈگی میں خون کی موجودگی اور دوسرا گن پاوڈر کی موجودگی جج صاحبہ یا ان کا شوہر  رہنمائی دے سکتے تھے  مگر اتنے بڑے سانحہ کے بعد غم ناک صورتحال میں جس میں پولیس مجرم ہو victim سے رہنمائی لینا ایک مشکل امر تھا  
دوسرے یا تیسرے روز مجھے ڈی آئی جی صاحب جناب منظور مفل صاحب کا فون آیا اور انھوں نے کہا کہ اعلا سطح  پر فیصلہ ہوا ہے ڈی ایس پی علی رضا اور اُس کے گن مینوں کو گرفتار کرنا ہے میں تھوڑی دیر میں ڈی ایس پی علی رضا اور اُس کے گن مینوں کو آپ کے پاس بھیج رہا ہوں آپ ان کو گرفتار کرلیں اور میڈیا کو اطلاع کردیں تاکہ عدلیہ اور عوام کا غم و غصہ کو کم کیا جاسکے۔ 
ایک گھنٹے بعد ڈی ایس پی علی رضا میرے دفتر آگیا وہ بہت پریشان تھا اس کی آنکھوں میں بار بار آنسو آجاتے تھے، میرے عادت ہے کہ کیس کی مکمل تفتیش کے بغیر لوگوں کو گرفتار کرنا مجھے بہت مُشکل لگتا ہے، میں نےاپنے سینٹرز سے اجازت طلب کی کہ فلحال پولیس ککی گرفتاری موخر کی جائے تاکہ تسلی سے شواہد جمع کیئےجائیں سینئرز نے عدلیہ سے مشاورت کرکے مجھے اجازت دے دی اورمیں نے جان بوجھ کر ڈی ایس پی علی رضا کی گرفتاری کی خبر لیک کردی تاکہ حالات کو سنبھالنے میں آسانی ہو۔ (مگر ڈی ایس پی علی رضا کو باضابطہ گرفتار نہیں کیا) فون پر میں ڈی آئی جی منظور مغل صاحب کو کیس کے متعلق ایک ایک چیز بتا رہا تھا اور مغل صاحب آئی جی صاحب اور ڈی آئی جی کراچی جناب طارق جمیل صاحب کو بتا رہے تھے۔ سینئرز کی طرف سے تفتیش لمح  بہ  لمح مانیٹرنگ کی جارہی تھی اور ہر پیش رفت سے عدلیہ کو آگاہ  کیا جارہا تھا -رات کو میں گھر جانے لگا تو علی رضا نے مجھے کہا کہ میں آپ کے دفتر میں رات گُذار لوں، علی رضا کی بات سُن کر مجھے بہت افسوس ہوا اور میں نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے انکار کر کردیا کہ ایسا ممکن نہیں ہے علی رضا کی آنکھیں آنسووں سے تر ہوگئیں اور وہ اپنے جذبات پر کنٹرول کرنے کی کوشش کرنے لگا۔ علی رضا میرے سامنے میری ٹیبل کے ساتھ لگی کُرسی پر بیٹھا تھا، میں علی رضا کا Reaction دیکھ اور محسوس کر رہا، میں اپنے گھر جانے کیلئے اپنے کُرسی سے اٹھا علی رضا بھی اپنی کُرسی سے کھڑا ہوگیا میں نے علی رضا کو ہاتھ دیا اور اُس کے کولھے پر دوسرا ہاتھ رکھ کہا کہ علی رضا جب تک آپ میرے پاس ہیں آپ روزانہ رات کو گھر جاسکتے ہیں اور صبح کو واپس آسکتے ہیں مگر خیال رہے میڈیا کی نظر میں نہ آئیں۔ علی رضا نے میرا ہاتھ دنوں ہاتھوں میں لے لیا اُس سے ضبط کا دامن چھوٹ گیا تھا ۔ 
علی رضا میرے ساتھ میری گاڑی تک آگیا میں نے دفتر سے جاتے ہوئے سجاد علی اور محرر پرویز کیانی کو کہ دیا کہ ڈی ایس پی صاحب روزانہ رات کو گھر جایا کریں گے اور صبح کو واپس آئیں گے، دونوں کو تاکید کردی کہ اس بات کا میڈیا کو پتہ نہیں چلنا چاہیئے ۔ راستے میں میں نے ڈی آئی جی منظور مغل صاحب کو کال کی میں نے بات شروع کرتے ہوئے کہا کہ سر میں نے آپ کی اجازت کے بغیر علی رضا کو گھر جانے کی اجازت دی ہے، مغل صاحب نے مجھے ڈانٹے ہوئے کہا کہ کل اگر علی رضا واپس نہیں آیا تو تم کو نتائج کا پتہ ہے کہ تمھارے ساتھ کیا ہوگا ؟ تمھاری نوکری چلی جائے گی۔ میں نے اُن کو بڑے ادب سے کہا کہ سر آپ ناراض نہ ہوں باقی اللہ پاک بہتر کرے گا۔ 
دوسرے دن میرے دفتر آنے سے پہلے علی رضا میرے دفتر  آگیا تھا، اب وہ کچھ حوصلے میں تھا، میں نے ایس ایچ او فیروزآباد کو فون کیا اور کہا کہ واقعے والی رات ڈیوٹی پر موجود وہ اپنی پوری نفری بلاکر مجھے اطلاع کرے میں تھانے آکر اُن سے اکیلے میں کچھ پوچھ گچھ کرنا چاہتا ہوں۔ میں علی رضا یا ایس ایچ او فیروز آباد کی موجودگی میں فیروزآباد کے اسٹاف سے بات نہیں کرنا چاہتا تھا ۔
فیروز آباد تھانے جاتے وقت میں اپنے ساتھ کچھ اسٹاف لیتا گیا تھا سب انسپیکٹر  سجادعلی اور باقی اسٹاف کو میں نے خاص طور پر ہدایت کی تھی کہ میرے پاس بیان ہونے کے بعد واپس آنے والے پولیس افسر کو کسی سے ملنے اور بات کرنے نہیں دینا ہے تاکہ باقی ڈیوٹی کرنے والوں کو پتہ نہ چلے کہ اُن کا ساتھی کیا بیان دے کر آیا ہے۔ تھانے پہنچ کر میں نے ایس ایچ او صاحب کو اجازت دے دی کہ وہ بھلے اپنا کام کرے اور کہا کہ ہیڈ محرر کو بول دے کہ ایک ایک کرکے اسٹاف والوں  کو میرے دفتر میں بھیجتا جائے۔ 
میں پوچھ گچھ سے پہلے اگلے کو Relax کرنے کی کوشش کرتا ہوں، ہر آنے والے کانسٹیبل کو کُرسی پر بٹھاتا، اس سے نام، اصل کہاں کا رہنے والا ہے گاؤں یا شھر کانام، کتنے بھائی ہیں والد صاحب کیا کرتے ہیں ؟ اپنے گاؤں کب کب جاتے ہو وغیرہ وغیرہ کے پہلے سوالات کرتا پہر اُس رات والے واقعے کے متعلق پوچھتا ۔
پوچھ گچھ سے ایک اہم بات معلوم ہوئی۔ نورانی کباب والی چورنگی پر رات کی ڈیوٹی کرنے والوں نے بتایا کہ واقع والی رات جج صاحبہ والی کار ہمارے پاس آکر رُکی تھی جج صاحبہ کار سے اتریں اُن کے کپڑے خون میں لت پت تھے اور زار و قطار رو رہی تھیں، کار سے اُترتے ہوئے جج صاحبہ نے پہلے اپنا تعارف کروایا اور پکٹ والوں کو بتایا کہ ڈاکو ہم کو یرغمال بناکر لے جارہا تھا  کار کی پچھلی طرف گئیں اور ڈکی کھولی، ڈکی کے اندر ایک آدمی کی لاش تھی مرنے والے کے ہاتھ پسٹل بھی تھا جج صاحبہ نے ہمیں کہا کہ لاش کو کار سے اتارو ہم نے لاش ڈکی سے باہر نکال کر سگنل کے پاس فٹ پاتھ پر رکھ دی اور ایدھی ایمبولنس فون کرکے لاش جناح اسپتال بھجوادی اور پسٹل اپنے پاس رکھ لیا، ڈیوٹی کا وقت ختم ہی وہ تھانے گئے اور اسلحہ جمع کروایا اور گھر چلے گئے ۔  جیساکہ میں ایک ایک کرکے پولیس والوں سے پوچھ گچھ کر رہا تھا اور واپسی پر سجاد علی والے بیان دینے والوں کو کسی سے بات نہیں کرنے دیتے تھے اوراُس کو واپس گھر روانہ کردیتے تھے، جب میں نے اپنے سینئر افسران کو بتایا کہ ڈکی سے لاش ملی ہے صرف پسٹل ہتھیانے کیلئے پکٹ والے اس بات کو گول کر گئے تو سارے افسران آگ بگولا ہو گئے اور فورن فورن سب پکٹ والوں نوکری سے فارغ کردیا گیا۔ یہ اسی طرح ہوا کہ جب ذوالفقار علی بھٹو صاحب کو پھانسی ہوئی تو تارا مسیح نے بھٹو صاحب گھڑی اور انگوٹھی اُتار لی، بعد میں بیگم نصرت بھٹو صاحب نے اعلا حکام سے شکایت کی کہ ہم بھٹو صاحب کا سامان اور پہنے ہوئے کپڑے وغیرہ نشانی کی طور رکھنا چاہتے ہیں مگر گھڑی اور انگوٹھی کسی نے غائب کردی ہے بعد میں تارا مسیح سے سامان برآمد ہوگیا ۔ ہم کیا قوم ہیں اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں !!!!!! 
اس سے ثابت ہوا کہ ڈاکو نے جج صاحبہ کو Hostage بناکر بھاگنے کی کوشش کی اور پولیس کی گاڑیاں راستے ہی رُک گئی تھیں نورانی کباب کی پکٹ والوں سے میں نے بار بار پوچھا کہ جج صاحبہ کی کار اکیلی تھی یا اُس کار کے پیچھے پولیس موبائلیں تھیں مگر پکٹ والوں دو ٹوک جواب دیا کہ پولیس کی کوئی موبائل نہیں تھی ۔ 
پولیس ادارے کا بنیادی سسٹم تھانہ ہے، انگریز نے ایک بہترین پولیس سسٹم چھوڑا تھا مگر ہم نے 1985 میں سسٹم کو نا تجربہ کار  ہونے کی وجہ سے تباہ کردیا۔ پولیس میں دوسری خرابی یہ ہے کہ ایس ایچ او سے اوپر ہرعہدے دارخود کو Supervisor کہتا اور سمجھتا ہے، اور ہر غلط کام کا ذمیدار تھانہ ایس ایچ او کو سمجھا جاتا ہے اور ہراچھے کام کا  فائدہ Supervisor اٹھاتے میں، میرا تجربہ ہے کہ Supervisor کسی کام کو ہاتھ لگانے کو تیار نہیں - وہ گیلی جگہ پر پیر رکھنے کو تیار نہیں-  وہ صرف پوسٹ آفس کا کام کرنے کو اپنی ڈیوٹی سمجھتا ہے ادھر شکایتی آیااُس کو سنے سمجھے بغیر بس درخواست پر دستخط کرتا ہے اوروہ درخواست چلتے چلتے تھانے پہنچتی ہے اُس وقت تک درخواست گُذار کا دم نکل چکا ہوتا ہے ۔ آپ آئی جی کے پاس چلے جائیں اور درخواست دیں آپ کو لڑھکتے لُڑھکتے تھانے آنا ہے ( آسمان سے گرا اور کجور سے اٹکا)  
کی مثال  شاید پولیس کیلئے ایجاد ہوئی تھی 
جب سب کچھ تھانے نے کرنا ہے تو اپنے بنیادی یونٹ کو مضبوط کریں ۔ میں نے نوکری کے دوران ہر آئی جی صاحب کو تھانے کو ٹھیک اور مضبوط کرنے کیلئے تجاویز دی ہیں صرف یہ کرنا ہے کہ 1985 میں جو غلطی کی گئی تھی اُس کو واپس کرنا ہے مگر کوئی ہمت کرنے کو تیار نہیں۔ دوسرے دن میں نے Forensic کے ایس ایس پی سے بات کرکے Forensic experts کو فیروز آباد تھانے بلوالیا اور اپنی موجودگی میں کار کا معائنہ کروایا اس کیس کو میں اپنے نیچے والے افسران کے حوالے کرکے خراب نہیں کروانا چاہتا تھا۔ کچھ ہی دنوں میں ہمیں forensic رپورٹ مل گئی انھوں بتایا کہ اتنی گولیاں باہر سے آکر کار کے پیپر سے کراس ہوئی ہیں اور اتنی گولیاں ڈاکو نے کار کے اندر سے فائر کی ہیں جو بلیک پیپر سے کراس ہوئی ہے، کار کی ڈگی کی چادر سے کافی گولیاں کراس ہوئی تھیں- جناح اسپتال میں جانے والے ڈاکو کی لاش کی شناخت ہوگئی وہ ڈاکو جج صاحبہ کے پاس ایک ڈکیتی کے کیس میں مُلزم تھا جج صاحبہ نے اُسے اور اُس کے ساتھیوں کو ڈکیتی کے الزام میں سزا دی تھی وہ کچھ ہی مہینے پہلے سزا کاٹ کر اپنے ساتھیوں سمیت جیل سے رہا ہوا تھا اب وہ اپنا بدلہ لینے کیلئے جج صاحبہ کے گھر اپنے ساتھیوں کے ہمراہ آن پہچا تھا 
کچھ ہی دنوں میں ڈاکو جسیم اور سالم  بھی گرفتار ہوگئے مُلزم جسیم کی بہن شھناز نے جج صاحبہ کے زیورات ایک سونار محمد خالد  کو فروخت کر دیئے تھے عورت اور سنار بھی گرفتار کرلیا گیا  اور جج صاحبہ کے زیورات بھی سنار محمد خالد سے برآمد ہوگئے۔ میں روزانہ کی کارروائی اپنے ڈی آئی جی صاحب سے شیئر کرتا جارہا تھا ۔ ڈی آئی جی صاحب ڈی آئی جی کراچی طارق جمیل صاحب اور آئی جی صاحب کو بریف کرتے جارہے تھے۔ آئی جی کمال شاہ صاحب بھی روزانہ چیف جسٹس سندھ جناب سید سعید اشعد صاحب کو بریفنگ دے رہے تھے ۔ 
ڈی ایس پی علی رضا بھی پہلے دن کی طرح  ہماری آف دی رکارڈ حراست میں تھا وہ روز رات کو گھر جاتا اور صبح واپس آجاتا، وہ پریشانی کے عالم میں تھا میں نے اپنے اسٹاف کو کہ دیا تھا میں دفتر میں ہوں یا نہ ہوں علی رضا کو میرا دفتر کھول کردیا کریں اور سجاد علی اور پرویز کیانی کو کہ دیا تھا کہ جب تک ڈی ایس پی صاحب ہمارے پاس ہیں تب تک اُن کے عزت اور احترام میں کوئی کمی نہیں آنی چاہیئے ۔ علی رضا مجھ سے روز پوچھتا کہ سر میرا کیا ہوگا ؟ میرے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا۔۔۔
اس کیس کی تفتیش کا حتمی نتیجہ یہ نکلا کہ تھا کہ جج صاحبہ سے انتقام لینے کیلئے ڈاکو اُس کے گھر میں گھسے تھے، محلے والوں کے فون کی وجہ سے پولیس نفری ڈی ایس پی علی رضا کی قیادت میں جج صاحبہ کے بنگلے پر پہنچی اور پولیس آنے کی وجہ سے ڈاکوئوں نے جج صاحبہ اور جج صاحبہ کے شوہر کو یرغمال بنالیا تھا اور جج صاحبہ اور اُن شوہر کو گن پوائنٹ پر مجبور کیا اس کو کار میں بٹھا کر یہاں سے نکالا جائے۔ گرفتار ملزمان نے بتایا کہ جج صاحبہ اپنے بچوں کو ساتھ لیجانے کیلئے راضی نہیں تھیں مگر آخری لمحات میں بچوں کو بھی کار میں بٹھا لیا گیا۔ کار  Reverse میں بنگلے سے باہر نکلی کار کے ڈی ایس پی کا کہنا تھا کار کے کالے شیشوں کی وجہ سے اس کو پتہ نہیں چلا کہ کار میں کون تھا ؟ گلی سے نکلتے ہی کار کے اندر سے فائر آیا ڈی
 ایس پی موبائل سے گن مینوں نے کار پر فائر کھول دیا۔ 
واقعات کے مطابق  جب گھر کے اندر کار اسٹارٹ ہوئی اس وقت گھر کا گیٹ بند تھا بعد میں ڈاکوئوں نے گیٹ کھولا اور بعد میں کار Reverse میں نکلی ۔ ڈی ایس پی کے پاس چھ موبائلیں تھیں وہ کار کو گھر سے نکلنے سے پہلے ہی روک سکتے تھے۔ جب کار اسٹارٹ ہوئی اس وقت گیٹ کے آگے کوئی موبائل کھڑی کی جاسکتی تھے آگر کوشش کی جاتی تو چھ موبائلوں سے ایک مہران کار کہاں بھاگ سکتی ہے کار کے ٹائروں پر گولیاں ماری جاسکتی تھیں - کار سے فائر آنے کے بعد کار پر جوابی فائرنگ کے بعد پولیس قافلہ خوف کی وجہ سے رُک گیا ۔ بلا شبہ ڈی ایس پی اور ایس ایچ او نے انتھائی کوتاہی، غفلت اور لاپرواہی کی تھی- ( پولیس کو پک آپ کی بجائے ہائی ایس وین  تھانوں کو دی جانی چاہیں  پوری دنیا میں ایسا ہے پک آپ میں خرابی یہ ہے کہ افسر اور جوانوں کا آپس میں کوئی رابطہ نہیں  ہوتا ۔ لیاقت پور کا واقعہ بھی اسی وجہ سے ہوا) 
ڈی ایس پی علی رضا والے اگر وین میں ہوتے تو وہ اپنی ذمہ د اریوں سے بچ نہیں سکتا تھا  -میں نے افسران کو بتادیا کہ کار پر پولیس نے جوابی فائرنگ کی ہے- پولیس اپنی ڈیوٹی سرانجام دے رہی تھی اسلئے پولیس کو اس کیس میں چالان کرنا نہیں بنتا- کار کے کالے شیشوں کی وجہ سے پولیس کنفیوزن کا شکار ہو گئی ۔ اس دوران میرے سینئر افسران سے بریفنگ کے کئی دور ہوئے ان کو تفتیش کی ایک ایک چیز بتائی گئی، سینئر افسران نے عدلیہ سے مشاورت کے بعد آخر میں یہی طے کیا کہ گرفتار ڈاکوں کو کیس میں چالان کیا جائے اور ڈی ایس پی اور باقی مُلازمان کو چھوڑ دیا جائے ۔ میں نے دفتر آ کر سب کو چھوڑ دیا ، مگر بعد سینئرز نے اپنے فیصلے میں کچھ تبدیلی کی اور فائرنگ  کرنے والے ملازمان کو کیس میں چالان کردیا گیا ۔ 
اس کیس کی اگر باریک بینی اور گھرائی تک تفتیش نہ کی جاتی تو ڈی ایس پی صاحب اس کیس میں سزا کھا جاتے نوکری الگ سے چلی جاتی- مگر اللہ پاک نے اُن کو معجزاتی طور بچا لیا ۔ آپ اللہ پاک شان دیکھیں کہ کار کے کالے شیشوں کا پیپر جج صاحبہ کیلئے باعث زحمت بن گیا اور ڈی
 ایس پی علی رضا  کیلئے کالا پیپر باعث رحمت بن گیا ۔ اتنے بڑے اہم کیس سے باعزت طور پر نکلنے کے بعد معلوم نہیں کہ موجودہ ایس ایس پی صاحب نے اپنی مُشکلات کی وجہ سے کوئی سبق سیکھا ہے یا نہیں مجھے معلوم نہیں !!!!!! 
میری کی ہوئی تفتیش اور بات پر ڈی آئی جی صاحب، ڈی آئی کراچی طارق جمیل صاحب اور آئی جی صاحب آنکھیں بند کرکے یقین کرتے تھے، آئی جی کمال شاہ صاحب نے کس طرح اُس وقت کے چیف جسٹس جناب  سید سعید اشھد صاحب کو آمادہ کیا ہوگا کہ ڈی ایس پی علی رضا کی جان خلاصی کی جائے یہ آئی جی صاحب کو ہی پتہ ہوگا۔
جج صاحبہ ایک معزز گھرانے سے تعلق رکھنے والی ایک اعلا ظرف کی  صابر، شاکر اور اللہ والی خاتون ہیں، آجکل وہ سندھ ہائیکورٹ میں جسٹس ہیں ان کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ آج تک انھوں نے  کسی مُلزم سے زیادتی نہیں کی یا انھوں نے کبھی پولیس کو انتقامی طور پر نشانہ بنایا ہو، آگر انھوں میں ایک رائی برابر انتقامی جذبہ یا خدا ترسی نہ ہوتی تو آج ایس ایس پی صاحب نوکری میں نہ ہوتے۔