اردگان کے دیس میں

مصنف : ڈاکٹر محمد خالد عاربی

سلسلہ : سفرنامہ

شمارہ : فروری 2019

سفر نامہ قسط۔دہم
اردگان کے دیس میں
ڈاکٹر خالد عاربی

چھتہ بازار المعروف گرینڈ بازار: 
آیا صوفیہ،ہپوڈرم اورمسجدسلطان احمد کے بعد ہماری اگلی منزل گرینڈ بازار تھی ۔یہ قدرے دور تھا لیکن گائیڈ نے کہا پیدل ہی چلتے ہیں۔سو ہم پیدل ہی روانہ ہو گئے۔یہ بھی بازار ہی تھے جن میں سے ہم گزر رہے تھے،سو کئی چیزیں دیکھنے کو مل رہی تھیں۔ ٹریفک موجود تھا لیکن ہموار اور پر سکون،نہ ہارنوں کا شور،نہ پرانی گاڑیوں کاہنگامہ،نہ رکشے ،نہ چنگ چی،کیا ہی ’’بے مزہ ٹریفک‘‘ تھی۔یہ اولڈ سٹی ہے ،آپ ذرا تصور کریں اولڈ سٹی لاہور کی ٹریفک کا ،جو لوہاری دروازے سے بھاٹی گیٹ کی طرف آ رہی ہے،توآپ کو پتہ چلے یہاں اور وہاں کے فرق کا۔ہمارے ہاں تو ہر لمحے سڑکوں پر قیامت ایسا ہنگامہ برپا ہو تا ہے اور یہاں پر سکون اور ہموار ٹریفک۔مزے کی بات یہ کہ ہمیں ٹریفک پولیس کا ایک سپاہی بھی نظر نہیں آرہا ۔ دوکانیں کھلی تھیں اور سامان سے سجیں تھیں ،گاہک بھی موجود تھے اور خرید و فروخت بھی جاری تھی۔لیکن کوئی ہنگامہ برپانہ تھا۔ہر طرف چہل پہل تھی ، زندگی تھی، رونق تھی لیکن بد ترتیبی اور بد نظمی نہ تھی ۔ ایک طرف کوٹرام بھی محو خرام تھی ۔دو بوگیوں والی ٹرام بغیر کسی جنگلے کے ،روڈ کے ایک طرف کو چل رہی تھی۔
’’ یہ سامنے گرینڈ بازارہے۔یہ استنبول میں ٹوریسٹوں کی دلچسپی کا بڑا مرکز ہے۔ ‘‘ ہماری گائیڈصاحبہ نے کہا۔ہم نے اُدھر نظر دوڑائی تومجھے ایسے لگا جیسے ہم کسی انڈرپاس کی انیٹریس کے سامنے آگئے ہوں یا کسی غار کے دھانے پر آگئے ہوں۔کچھ آگے چل کر وہ رک گئی اورایک درخت کے سائے میں کھڑی ہو گئی اور ہمیں اس نے بہت کچھ بریف کیا۔میڈم نے کہا، ’’ اس بازار کا شمار دنیا کے قدیم ترین بازاروں میں کیا جاتا ہے ۔ اس کی خصوصیت یہ ہے کہ اس بازار پر چھت ڈال دی گئی تھی ۔ اس بازار کو دنیا کا پہلا شاپنگ مال بھی کہا جاتا ہے ۔ اس بازار میں تقریباً چار ہزار دوکانیں ہیں۔ مین بازار سے کئی سائیڈ بازار اور شاخ در شاخ مارکیٹیں نکلتی ہیں۔ آپ بازار کے اندر جائیں اور ڈیڑھ گھنٹے بعد اسی جگہ واپس آجائیں ۔جوجی چاہے خرید کیجئے ، یہاں مول تول چلتا ہے،دونمبری بھی چلتی ہے ، بس ذرا دھیان سے۔‘‘ گائیڈ کی ان باتوں کو پلے باندھ کرہم لوگ میدان کاروبار میں کود پڑے۔ میرے بیشتر دوست تو اس میدان خرید و فروخت کے پرانے اور منجھے ہو ئے کھلاڑی معلوم ہوتے تھے ،البتہ ہم ہیں کہ ٹھیرے سدا کے اناڑی دوسرایہ کہ میرے سارے ساتھی اس میدان کے لیے ’’ضروری اسلحہ‘‘ سے بھی لیس تھے جب کہ ہم بالکل نہتے تھے ، لیکن اس گرینڈ بازار کی رونقیں لوٹنے، ہم بھی نکل کھڑے ہو ئے ۔ سوچا شاپنگ نہ سہی ’’ونڈو شاپنگ‘‘ ہی سہی کہ ہم اس میدان کے شہ سوار تھے ۔
پہلے تو رُک کر ہم اس بازار کے داخلی دروازے کی دلکشی میں ہی کافی دیر کھوئے رہے۔کیا شانداردروازہ تھا !اسی کو ہم غار کا دھانہ سمجھ رہے تھے۔اس دروازے کو ’’نور عثمانیہ مسجد دروازہ‘‘ کہا جاتا ہے ۔ یہ نام دروازے کے اوپر ہی کندہ تھا۔مونو گرام بھی بنا تھا۔دروازے کے اوپرہی۱۴۶۱ ء کا سن بھی لکھا ہوا تھا جس کامطلب یہ ہواکہ۱۴۵۳ء میں جب قسطنطیہ فتح ہوا ہو گا تو اس کے ساتھ ہی سلطان محمدفاتح نے اس بازار کی تعمیر شروع کرا دی ہو گی ۔ دروازہ محراب والا تھااور سفید سنگ مر مر سے تعمیر کیا گیا تھا۔ اس پر خوب صورت مینا کاری بھی کی گئی تھی۔اس دروازے سے ہی ہم گرینڈبازار کے اندر داخل ہو گئے میرے سامنے ایک بڑی طویل راہداری تھی جس کے دونوں طرف دکانیں تھیں۔مختلف قسموں کے قمقمے روشن تھے۔ اگرچہ دِن کا وقت تھا لیکن چھتہ بازار ہونے کے باعث یہ بے شمار قمقمے ، ٹیوب لائٹس اوربلب روشن تھے۔ بازار کی چوڑائی قریباًچالیس پچاس فٹ تو ہوگی۔دوکانوں کی سجاوٹ ، آرائش ، سامان کی فراہمی اور اس کی نمائش ، سب انار کلی بازار لاہور کی طرز پہ تھا اس فرق کے ساتھ کہ ہمارے انار کلی بازار کے اوپر چھت نہیں ہے جب کہ اس بازار کو چھت دیا گیا تھا ۔ بازار کی چھت قدیم طرز تعمیر کا شاہکار تھی ۔ چھت کو گنبدوں سے آراستہ کیا گیا تھا اور گنبدوں کے اندرون میں نہایت دلکش اور حیرت انگیزنقاشی کا کام کیا گیا تھا ۔ میں چونکہ شاپنگ میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا تھا اس لیے میرادھیان عمارت کے طرزِ تعمیر کی طرف زیادہ تھا۔ بازار میں اُس طرح کا رش نہ تھا جیسا کہ ہمارے انار کلی بازار میں ہوتا ہے بلکہ اُس سے آدھا بھی نہ تھا ۔ اس بازار میں موٹر سائیکل یاکوئی اور سواری بالکل نہیں تھی اس لیے لوگ اطمینان سے پیدل چل رہے تھے ۔
میں نے خوب ونڈو شاپنگ کی ،دکانوں پر رکا، چیزوں کا نہایت دلچسپی اور خریدارانہ انداز سے مشاہدہ کیا ۔ دوکاندار سے انگریزی میں بھاؤ پوچھتا، بتائے ہوئے لیروں کو روپے پر ضرب تقسیم کر کے ’’ لاہوری قیمت نکالتا‘‘ پھر اس میں اپنا ریٹ لگا کر،لیرے میں تبدیل کرکے،’’اپنے وارے کی قیمت‘‘ دوکاندار سے بیان کر دیتا، جو ظاہر ہے دوکاندار کے انکار پر منتج ہوتی اور اب اُس بیچارے کو کون بتائے کہ ہماری منشا بھی یہی تھی کہ وہ انکار کر دے ۔
ہم آگے بڑھتے رہے ، ہر قسم کی دوکانیں اور ہر قسم کا مال تھا ، گلیاں در گلیاں تھیں ہم بھی ایک گلی میں داخل ہو گئے لیکن جلد ہی باہر نکل آئے کہ مبادا راستہ بھول جائیں۔ اس دوران میں اذان کی آواز بلند ہو ئی، آواز کے تعاقب میں مسجد جا پہنچا وضو کیا اور ظہر کی نماز ادا کی ۔جماعت تو ہو چکی تھی لیکن ایک دواورآدمی آ گئے اور انھوں نے دوسری جماعت شروع کردی،میں بھی اُن میں شامل ہوگیا۔ نماز کے بعد،قریباًپون گھنٹا مزید گرینڈ بازارمیں آوارہ گردی کے بعد میں تو واپس مڑا اور مقررہ جگہ پر پہنچنے کے لیے ’’ نور عثمانیہ مسجد ‘‘والے دروازے کی طرف رخ کر کے چل پڑا۔اندازہ ہوا کہ میں تو کافی آگے نکل آیا تھا۔بہر حال کچھ نشانیاں رکھ لی ہوئی تھی ،اُن کو دیکھتے دیکھتے باہر نکل آیااور ایک درخت کے سائے میں بیٹھ گیا۔
پھر میرے ساتھی بھی ،ایک ایک کرکے ، خریداری سے لدے پھندے واپس آنے شروع ہو گئے۔سب اپنی اپنی خریداری کے معرکوں کی کہانیاں سنا رہے تھے اور خوش تھے کہ دیارِغیر میں آکر،’’ترکی کے سادہ لوح ‘‘ دکانداروں کو جُل دے کر،مہنگا مال سستے داموں خرید لائے اور اس پر یہ اعزاز الگ کہ دنیا کے عظیم ترین اور قدیم ترین بازار سے چیز خریدی ہے۔ایک دو ساتھیوں نے ابھی نماز پڑھنی تھی وہ تیزی سے نور عثمانیہ مسجد کی طرف بھاگے اور ہم باقی لوگ میڈم کے ساتھ اگلا پروگرام ڈسکس کرنے لگے۔ ہماری اگلی منزل سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مزار مبارک تھا جو یہاں سے بقول خاصا دور تھا۔
حضرت ابو ایوب انصاریؓ:
سیدنا ابو ایوب انصاریؓ کا اصل نام خالد بن زید خزرجی تھا ،ابو ایوب اُن کی کنیت تھی اور انصاری اُن کا لقب تھا ۔سیدنا ابو ایوب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اللہ تعالیٰ نے یہ خصوصی اعزاز عطا فرمایا کہ آپ خاص،سیدی محمد کریم ﷺ کے میزبان بنے۔روایات میں آتا ہے کہ ہجرت کے موقع پر جب میرے محبوب کریم ﷺ یثرب پہنچے تو ہر ایک مدنی کا یہ اصرار اوراشتیاق تھا کہ حضور میرے ہاں مہمان ٹھیریں۔ پیارے رسول ﷺ نے سب لوگوں سے ارشاد فرمایا کہ،’’ میری یہ اونٹنی جس کے دروازے کے سامنے خود بخود بیٹھ جائے گی ،میں اُس کا مہمان بنوں گا کیونکہ بارگاہ ایزدی سے یہ اونٹنی مامور ہے‘‘۔اور پھر فلک نے دیکھا کہ یہ اونٹنی حضرت ابو ایوبؓ کے گھر کے باہر تشریف فرما ہوگئی،اہل خانہ نے جب یہ دیکھا تو اپنے مقدر کی سکندری پر ششدر رہ گئے۔ مورخین لکھتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مدینہ طیبہ میں اپنے قیام کے ابتدائی سات ماہ حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے گھرمیں گزارے تھے ۔
جناب ابو ایوب مدینہ طیبہ میں پیدا ہوئے، وہیں پلے بڑھے اور وہیں دین اسلام کے لئے اعلیٰ خدمات سرانجام دیں،لیکن اُن کا مزارِ مقدس مدینہ سے سینکڑوں میل دور استنبول شہر میں ہے جس کی زیارت کے لیے آج ہم جا رہے تھے ۔آپ نے رسول اللہ ﷺ کی زبان مبارک سے یہ سن رکھا تھا کہ قسطنطنیہ پرحملہ آورہونے والاپہلالشکر اسلام نجات یافتہ ہوگاچنانچہ آپ بھی پچاسی سال کی عمر میں حضور کے فرمان کی برکت حاصل کرنے کے لیے اس لشکر میں شامل ہو گئے لیکن بڑھاپے کی وجہ سے اس طویل سفر کی صعوبت کو برداشت نہ کر سکے اور راستے میں ہی بیمار پڑ گئے ۔انھوں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ اگر قلعہ فتح ہو جائے تو مجھے شہر کے اندر لے جا کر دفن کرنااوراگر فتح نہ ہو سکے تو مجھے فصیل شہر کے باہر ہی دفنا دینا تاکہ میری قبر، اس لشکر کے بعد آنے والے لشکروں کے لیے فرش راہ بنے ۔ مسلمان لشکر عیسائیوں کے اس بڑے مرکز پر حملہ آور ہوا لیکن انھیں فتح حاصل نہ ہو سکی ۔ اس دوران حضرت ابو ایوب انصاریؓ انتقال فرما گئے تو مسلمانوں نے انھیں فصیل شہر کے ساتھ دفن کر دیا ۔ قسطنطیہ کی فتح ایک بڑا ہدف تھا مگر جب تک اس کے راستے میں پڑتے دیگر شہر فتح نہ ہو جاتے تب تک قسطنطنیہ کی فتح ممکن نہ تھی اورمجاہدین اسلام اس بڑے ہدف پر گاہے بگاہے حملہ آور ہوتے رہے حتیٰ کہ صدیوں بعد،آخر یہ ناقابل تسخیرقلعہ سلطان محمد فاتح کے ہاتھوں فتح ہوگیا۔ہماری گائیڈ نے ہمیں بتایا کہ وہ سامنے ہی حضرت ابو ایوب انصاریؓ کا مزار مبارک ہے ۔ ہماری گائیڈ نے ترکی لہجے کی انگریزی میں اعلان کیا اورساتھ ہی،سڑک پر، ایک جگہ گاڑی رُک گئی تھی اور ہم لوگ اس سے اتر آئے ۔مزار تک جانے کے لیے ابھی ہمیں پیدل چلنا تھاکیونکہ ایک وسیع احاطہ درمیان میں تھا۔سیدنا ابو ایوبؓ کی نسبت سے یہ سارا علاقہ ہی بلدیہ ایوب سلطان کہلاتا ہے۔
حضرت ابو ایوب انصاریؓ کو یہاں قلعے کی فصیل کے ساتھ دفن کردیا گیا۔مگر چونکہ اُن کے ساتھ آنے والا لشکر ناکام واپس جا چکا تھا اوریہ سارا علاقہ اُس وقت جنگل بیاباں تھا ،آبادی نہ تھی،البتہ قلعے کے اندر تو ایک عظیم شہر آباد تھا لیکن اہل شہر سبھی غیر مسلم تھے لہٰذااس قبر کو یا دیگر مجاہدین کی قبروں کو کون سنبھالتااورکئی صدیوں کا عرصہ اس حالت میں گزر گیا تھالہٰذااب جب یہ قیصرکا شہر۱۴۵۳ء میں فتح ہوا تومیزبانِ رسول کی قبر اپنی شناخت گم کر چکی تھی ۔کسی کو کوئی پتہ نہیں تھا کہ آپؓ کی قبر کہاں ہے۔ حضرت ابو ایوب انصاریؓ کی روح ،صدیوں تک ،اپنے مسلمان مجاہدین کی منتظر رہی، مسلمان بھی اپنے اس مجاہد اعظم کو بھولے نہیں تھے ،اوروہ ہمیشہ اس قلعے پر فوج کشی کرتے رہے۔مسلمانوں کے متعدد لشکر عیسائیوں کے اس مرکز پر حملہ آور ہوئے مگر کامیابی نے اُن کے قدم نہ چومے ۔پھر۱۴۵۳ء میں اللہ تعالیٰ نے سلطان محمد فاتح کے ہاتھوں اس قلعہ کو فتح کرایا اور یوں عیسائیوں کا یہ مرکز مسلمانوں کی گود میں آگرا۔پھر قسطنطنیہ کے چپے چپے پراللہ اکبر کی صدائیں گونجنے لگیں ۔ 
گائیڈ نے ہمیں بتایا کہ جب قلعہ فتح ہو گیا تو وقت کے بادشاہ نے حکم دیا کہ ،مجاہد اول سیدناحضرت ابو ایوب انصاریؓ کی قبر کے آثار کو تلاش کیا جائے مگر مسلمانوں کو،تلاش بسیار کے با وجود اس سلسلے میں کامیابی حاصل نہ ہوسکی ۔پھر اللہ نے اس کاایک سبب پیدا کر دیا اور سلطان محمد فاتح کے ایک وزیر کو خواب میں یہ جگہ دکھائی گئی جس کی رہنمائی پر مسلمانوں نے اُس جگہ مزار تعمیر کر دیا ۔بعض سوانح نگار اس کے برعکس بات کرتے ہیں،اُن کے بقول سیدنا ابو ایوب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قبر مبارک گمنام کبھی نہیں رہی۔آپ کی فصیل قلعہ کے پاس تدفین کے بعد مسلمانوں کا لشکر تو ناکام لوٹ گیا لیکن صحابی رسول کی قبر غیر مسلموں کے لیے مرجع خلائق بن گئی۔یہاں کے باسیوں نے ایک سینٹ کے طور پر ان کو جانا اور ان کی قبر سے کئی قسم کی انوارو برکات کے ظہور کی کہانیاں زبان زد خاص و عام ہوچکی تھیں۔واللہ اعلم 
مزار کے باہر والے احاطے میں ہی ایک پرانی طرز کی وضو گاہ تھی۔یہ ایک مخصوص ڈیزائن تھا جو ہم پہلے بھی مختلف قدیم مساجد میں دیکھ چکے تھے۔ایک ہشت پہلو عمارت بنائی جاتی ہے۔جس کے اندر پانی کی ٹینکی ہوتی ہے اور باہر کو ٹونٹیاں لگی ہوتی ہیں اور ان کے سامنے بیٹھنے کے لئے جگہ بنی ہوتی ہے۔یہاں پر ہم نے وضو کیا۔وضو کرنے کے بعد ہم لوگ مزار مبارک کی طرف بڑھے ،چلتے چلتے مرقد انوار والا مخصوص کمرہ آگیا ۔اُس کے دروازے سے مزار میں داخل ہو گئے ۔ خاموشی اور سکون کے ساتھ راہداری میں سے چلتے چلتے قبرشریف والی جالی تک آ پہنچے۔ جس کمرے میں ہم تھے اُس کے اندر ایک اور کمرہ تھا اُس میں سیدنا ابو ایوبؓ کی قبر مبارک تھی۔صرف ایک جالی تھی جس کے باہر سے فاتحہ پڑھ کر لوگ دوسرے راستے کے ذریعے باہرجارہے تھے ،ہم نے بھی سکون و اطمینان سے فاتحہ پڑھی اور باہر صحن میںآگئے۔جالی کے اندر جھانکا ضرور لیکن نظر کچھ نہ آیا۔باہر آتے ہی، ہم نے دیکھا کہ احاطے میں دو قدیمی درخت ہیں۔ان کے بارے میں، ہماری گائیڈ نے ہمیں بتایا کہ سلطان محمد کے وزیر کو خواب میں،قبر کی نشانی کے طور پر یہی دو درخت دکھائے گئے تھے اور انھی درختوں کی بنا پر حضرت ابو ایوب انصاریؓ کی قبر تلاش کرنا ممکن ہو اتھا۔ گویا یہ صدیوں پرانے درخت ہیں ۔ہم انھی درختوں کو دیکھ ہی رہے تھے کہ اتنے میں قریب سے نہایت ہی خوبصورت اور لطیف آواز میں عصر کی نماز کے لیے اذان دی گئی ۔ واقعتا اس آواز نے ہم پہ سحر طاری کر دیا تھا۔ہم لوگ جامع مسجد کی طرف بڑھے ،میں چونکہ پہلے ہی عصرادا کرچکا تھا،لہٰذا میں تو مسجد کو اندر سے مشاہدہ کر کے باہر آگیا البتہ میرے ساتھی اندر بیٹھ کر جماعت کا انتظار کرنے لگے۔ مسجد کا ڈیزائن وہی تھا جو ہم اس سے پہلے بہت سی مساجد کا دیکھ چکے تھے اور میں بیان بھی کر چکا ہوں۔
مزار کے گرد ایک وسیع و عریض قبرستان بھی موجود تھا ،میں اس کی طرف بڑھ گیا۔ قبرستان کے اندر کچھ قبروں کی زیارت بھی کی ، قبرستان کے کچھ اندر تک بھی گیا۔ ایک مختلف بات جو میں نے محسو س کی وہ یہ تھی کہ ان قبروں پر ہر قبر کے سرہانے اور پاؤں کی طرف بھی،اونچے اونچے مینارچے بنے ہوئے تھے ،جن پر صاحب قبر کا نام، ولدیت اور دیگر ضروری معلومات درج تھیں ،گویا یہ اُن قبروں کے کتبے تھے۔ قابلِ توجہ بات یہ تھی کہ ہمارے ہاں کی قبروں پر جو کتبے لگائے جاتے ہیں وہ چوکور ہوتے ہیں اور فٹ ڈیڑھ فٹ ہی اونچے ہوتے ہیں اور تقریباً اتنے ہی چوڑے ہوتے ہیں ۔ لیکن یہ مینار تو قد آدم کے برابر تھے یعنی پانچ یا چھ فٹ اونچے ہوں گے۔قبرستان میں صفائی کا بھی اچھا انتظام تھا۔یہاں سے واپس آکر میں باہر والے احاطے میں ایک درخت کے نیچے بیٹھ گیا کیونکہ میرے ساتھی ابھی نماز میں تھے۔ 
کروز میں عشائیہ:
نماز عصر ادا کرکے ہمارے دوست بھی یہاں گراؤنڈ میں آگئے اوراب ہم نے واپس ہوٹل پہنچنا تھا۔گاڑی میں سوار ہوئے اور روانہ ہوگئے۔ایک بار پھرہم استنبول کی سڑکوں پر تھے اورکھڑکی نظارہ کر رہے تھے۔ٹریفک کا ہجوم دیکھ کر اپنا لاہور یاد آرہا تھا۔کاش ہمیں ٹرکش زبان آتی ہوتی تو ہم دکانوں پر لگے بورڈز کو پڑھ کر جان سکتے کہ کس کس چیز کی دکان کے سامنے سے گزررہے ہیں اور کون کون سا پلازہ اور کون کون سا محلہ گزر رہا ہے۔عمارتوں کا ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہونا اور ان کا آسمان سے باتیں کرنا اور شہر کا سرسبز و شاداب ہونا یاد رہیں گے۔
ہمارے لئے آج رات کاایک’’ بڑامختلف قسم ‘‘کا تفریحی پروگرام ترتیب دیا گیا تھا۔ایک ایسا تفریحی پروگرام جس کے انعقاد کی خبر،زمانہ طالب علمی میں، جب ہمیں ملا کرتی تو ہم اُس پروگرام کو اُلٹنے کے منصوبے بنایا کرتے،اور ایک دو پروگرام تو ہم نے اُلٹے بھی تھے جس میں خون خرابہ تک بھی ہواتھالیکن آج سیر وتفریح کے اس دورے میں جب یہ بتایا گیا کہ آج رات ہماراعشائیہ سمندرمیں کروز پر ہوگاتوہماری خوشی دیدنی تھی۔مجھے اُس وقت نہ کروز کے معنی آتے تھے اورنہ اس عشائیے کی روایات کی تفصیل کی کوئی خبر تھی۔میرے لئے تو بس سمندر ،اس میں کشتی اور اُس پر لذتِ کام ودہن ہی کشش کا باعث تھے۔ یہ تو بھلا ہو ڈاکٹر غلام مصطفی چیمہ صاحب کا، کہنے لگے ،’’ارے او بھائی مولوی، کھانے کا نام ہی سن کر آپ کی باچھیں کھل رہی ہیں ، کوئی پتہ بھی ہے کروز کیا ہوتا ہے اور اُس پر ڈنر کا کیا مطلب ہے۔‘‘میں نے عرض کیا ، ’’نہیں مجھے تو کوئی خبر نہیں،بتائیے۔‘‘کہنے لگے،’’ بھائی میاں،ہم تو اس عمر میں کروز پر جانے سے رہے،کل کو بچوں نے پوچھ لیا کہ ابو جی آپ کروز پر کیا لینے گئے تھے اس عمر میں،تو کیا جواب دیں گے۔‘‘اب مجھے کچھ کچھ اندازہ ہونا شروع ہوا کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے۔میں ان کومزید کریدتا،لیکن ہمارے بھائی سرجن سروش صاحب بھی،بول پڑے کہ،’’ میں بھی کروز پر نہیں جا رہا،کھانا وانا ادھر ہی کہیں کھا لیں گے،وہاں تو فحاشی ہوتی ہے۔‘‘ اب میرا ماتھا ٹھنکا،میں نے بھی ناصر بھائی سے کہہ دیا کہ میرا نام بھی اس لسٹ سے نکال دیں۔ایک اورساتھی کہنے لگے،’’ارے او یار!ایسی بھی کوئی بات نہیں،ایسے ایسے مواقع کبھی کبھار آتے ہیں،سمندر کی کھلی فضا میں ڈنر کا جو لطف ہے اس سے اپنے آپ کو محروم نہ کرو،باقی رہی فحاشی اورمحفل موسیقی ،تو جب ایسا کوئی کام ہونے لگے تو اُٹھ جانا،میں تو ایسا ہی کروں گا۔‘‘بات دِل کو لگتی تھی، بڑاصائب مشورہ تھا،ممکن تھا کہ میرادِل ڈول ہی جاتا،لیکن ہمارے چیمہ صاحب انکار پر جمے رہے کیونکہ وہ اس طرح کے جھانسوں میں پہلے ایک آدھ بار آ چکے تھے اور سروش صاحب بھی قبل ازیں یہ مزا چکھ چکے تھے اوراب دوبارہ ’’بے مزہ‘‘ ہونا نہیں چاہتے تھے اور پھر یہی ہواکہ رات کو باقی لوگ تو’’جشن بہاراں‘‘ کا لطف لینے پہنچ گئے لیکن ہم تینوں’’ خشک مزاج‘‘اپنے اپنے بیڈ روم میں پڑے خراٹے لیتے رہے اور جب صبح اُٹھ کراپنے وٹس ایپ پر گروپ میں آئی ہوئی،اس محفل کی تصاویر دیکھیں تو اپنے نہ جانے کے فیصلے پرخوشی ہوئی ۔ الحمدللہ علیٰ ذالک،اور مزے کی بات یہ ہے کہ جس ساتھی نے کہا تھاکہ، میں تو ایسا ہی کروں گاکہ غلط پروگرام کے شروع ہوتے ہی اُٹھ جاؤں گا، انھوں نے ہی وہ pics اپ لوڈ کی تھیں۔ الحمدللہ کہ کروز پہ اس عشائیہ میں شامل نہ ہو سکنے کا ذرا برابربھی ملال نہیں،لیکن عام زائرین اور سیاحوں کے لیے باسفورس میں تیرتے کروز میں یہ عشائیہ ایک بہت بڑی دلکشی کی تقریب ہوتی ہے۔صاحبان ذوق صرف اس پارٹی میں شرکت کے لیے ہی استنبول کا سفر اختیار کرتے ہیں۔ان لوگوں کے بقول یہ زندگی کے یادگار لمحات ہوتے ہیں، لیکن میرا خیال ہے کہ جس پروگرام میں آخرت کے نقصان کا اندیشہ ہو ،اُس میں شمولیت سے اجتناب ہی عقلمندی ہے ۔(جاری ہے)