اسلام میں ساس اور سسر کے حقوق

مصنف : آمنہ عبید خواجہ

سلسلہ : دین و دانش

شمارہ : فروری 2019

دین و دانش
اسلام میں ساس اور سسر کے حقوق
آمنہ عبید خواجہ

                                                                                                                                   آج کل بعض علماء سا س اور سسر کے ساتھ سلوک کو ایک غیرحقیقی (twisted)انداز میں پیش کرتے ہیں جو بادی النظر میں اسلام کی روح کے منافی ہے اور مسلم معاشرے کے خاندانی تصورات اور توقعات سے بھی متصادم ہے ''بہو ''کا شوہر کے والدین کی خدمت سے انکار قرآن وحدیث سے ثابت کر دینا کسی طرح بھی اسلامی تعلیما ت کا حسین اور متوازن چہرہ نہیں کہا جا سکتا ۔یہ بات درست ہے کہ والدین کی خدمت کا اولین فرض اولاد ( بیٹے اور بیٹیوں ) پر عائد ہو تا ہے مگر ایسی صورت میں کہ سا س سسر بیٹا اور بہو ایک ہی چھت تلے رہ رہے ہیں تو اسلام کی روح اور تعلیمات کی رو سے قطعی نا مناسب اور غلط طرز عمل ہو گا کہ بہو بوڑھے سا س سسر سے بالکل بے رخی برتے اور ان کی کسی بھی طرح مدد نہ کرے۔ 
1:سورۃ النسا ء میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں 
( واعبد واللہ ولاتشرکوا بہ شیئاً و بالوالدین احساناً وبذی القربیٰ والیتٰمیٰ والمسٰکین والجارذی القربیٰ والجارالجنب والصاحب بالجنب وابن السبیل ۔۔آیت ۳۶) 
اور تم اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک مت ٹھیراؤ اور حسن سلوک کرو ماں باپ کے ساتھ ، قرابت داروں کے ساتھ یتیموں کے ساتھ اور مسکینوں کے ساتھ اور رشتہ دارو ہمسایوں ، اجنبی ہمسایوں ، پہلو کے ساتھ اور مسافر کے ساتھ ۔۔
ہم سب سے پہلے اسی آیت مبارکہ کے مفاہیم کو بنیاد بناتے ہوئے سا س سسر کے ساتھ مطلوب سلوک پررو شنی ڈالیں گے غور فرمائیے کہ کیا سا س سسر قرابت داروں میں شامل نہیں ہیں ؟ اسلام میں دو طرح کے رشتوں اور تعلق کا ذکر ہے : رحمی رشتے اور سسرالی رشتے ( نسباًوصھراً) اور دونوں اہم ہیں ، ( وھو الذی خلق من الماء بشراً فجعلہ نسباًو صھراً) ( الفرقان : ۵۴) اور وہی ہے جس نے پانی سے انسان کو پیدا کیا پھراس کو نسب والا اورسسرال والا بنایا ۔؛اس میں کوئی شک نہیں کہ رحمی رشتوں کی اہمیت زیادہ ہے مگر قانونی اور سسرالی رشتوں کو بالکل نظر انداز کر دینا اور قطعاً کوئی اہمیت نہ دینا بھی غلط ہے اور کسی درجے میں ( یقطعون ماامراللہ بہٰ ان یوصل )کے مترادف ہے اسلام یقیناًاپنی روح کے اعتبار سے اتصال اور ہم آہنگی کا دین ہے نہ کہ انقطاع اور انتشار کا۔
سورۃ النساء کی آیت مبارکہ میں دراصل درجہ بدرجہ انسانی تعلقات کا ذکر کیا گیا ہے حسن سلوک کے اولین حق دار والدین ہیں پھر اس نیک برتاؤ کا دائرہ رشتہ داروں تک وسیع ہو جاتا ہے اس کے بعد اس کی برکات ان تمام محتاجوں اور ضرورت مندوں تک پہنچتی ہیں جو انسانی برادری کا حصہ ہیں ڈاکٹر محمد علی الہاشمی اپنی کتاب شخصیۃالمسلم کمایصوغھا الاسلام فی الکتاب والسنۃ:( ترجمہ : مثالی مسلمان کتاب وسنت کی روشنی میں )میں اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ حسن سلوک کے مستحقین کی یہ ترتیب انسانی مزاج سے میل کھاتی ہے جو حسن سلوک کاآغاز اپنے قریب ترین لوگوں سے کرنا چاہتا ہے یہ انگریزی محاورے "Charity begins at home" والا اصول ہے ۔والدین قرابت داروں ،یتیموں ،اور مسکینوں ، کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید کے بعد اللہ تعالیٰ بے حد خوبصورتی سے جوار یا قرابت کی ایک اور سطح یا ایک اور دائرہ بیان فرماتے ہیں حکم دیا گیا کہ رشتہ دار ہمسائے اور اجنبی ہمسائے سے حسن سلوک کیا جائے مزید یہ کہ پہلو کے ساتھی اور مسافر کے ساتھ بھی حسن سلوک کیا جائے یہاں پر پہلو کے ساتھی کا مفہوم بہت وسیع ہے محفل میں ساتھ بیٹھنے والا جماعت میں ساتھ سا تھ بیٹھنے والا اور کوئی بھی شخص جو عارضی طور پر آپ کی رفاقت میں کسی جگہ موجود ہو شامل ہیں۔ آیت سے ایسا محسوس ہو تا ہے کہ ایک حسن سلوک کا ہالہ ہے جو مؤمن کے گرد ہے اور اس کے ساتھ ساتھ رہتا ہے کہ کوئی بھی جو اس کے جوار میں موجود ہو اس ہالے کی برکت اس تک پہنچنی چاہئے۔ چاہے وہ گھر میں عارضی طور پر آیا ہو ا مہمان ہو یا مستقل طور پر مقیم گھر کا فرد‘ چاہے وہ رشتہ دار ہو غیر رشتے دار مسلم ہو یا غیر مسلم۔ اب اس آیت کے تناظر میں دیکھیے ساس سسر اول تو رشتہ دار ہیں دوسرے یہ کہ اگر وہ اسی گھر میں رہائش پذیر ہیں اس طرح کہ ان کے کمرے منزل یا گھر کا کوئی حصہ علیحدہ ہے تو جار ذی ا لقربیٰ( ہمسائے جو قرابت دار ہوں) کی حیثیت سے حسن سلوک کے حقدار ہیں اگر کوئی ان کو قرابت داربھی نہ مانے تو اجنبی ہمسائے ہی گردان لے اس حیثیت سے بھی حسن سلوک واجب ہو گا ۔ سوچئے کہ اگر بیٹا شادی شدہ ہے اور اسی چھت تلے رہ رہا ہے تو کیا وہ دین جس کی یہ تاکید ہے کہ ( اذاطبخت مرقۃ فاکثرماء ھا و تعاھد جیرانک)(جب شوربہ تم پکاؤ تو اسمیں بے شک پانی ڈال لیا کرو مگر اپنے پڑوسی کی خبر گیری ضرور کر لیا کرو )۔یہ پسند کرے گا کہ جوان بہو صرف اپنے بچوں اور شوہر کے لیے کھانا پکائے جبکہ بوڑھی سا س جو کہ ۶۰یا ۶۵ سال سے زائد عمر کی ہے وہ اپنے اور شوہر کے لیے پکائے اور باورچی خانہ سنبھالے اور بہو لا تعلق رہے۔ 
رسول اللہ ﷺ کی حدیث مبارکہ ہے( الجیران ثلاثہ ۔۔۔۔۔)پڑوسی تین قسم کے ہوتے ہیں ایک وہ ہے جس کا صرف پڑوسی کا حق ہے یعنی ایک حق ہے اور حق کے اعتبار سے اس کا کم از کم حصہ ہے۔ ایک پڑوسی وہ ہے جس کے دو حق ہیں ۔ ایک کے تین حق ہیں وہ ہمسایہ جس کے دو حق ہیں وہ مسلمان ہمسایہ ہے اسے ایک حق اسلام اور دوسرے ہمسائیگی کا حق حا صل ہے اور و ہ ہمسایہ جسے تین حق حاصل ہیں وہ قرابت دار مسلمان ہمسایہ ۔ اسے حق اسلام ، حق قرابت اور حق ہمسائیگی حاصل ہے ( مسند بزار ) 
بوڑھے سا س سسر یقیناًاس تہرے حق کے حقدار ہیں جبکہ وہ اسی چھت کے نیچے اور جوار میں رہائش پذیر ہوں۔ حدیث ملاحظہ فرمائیں قیامت میں بہت سے ایسے پڑوسی ہوں گے جو اپنے پڑوسی کو پکڑیں گے اور کہیں گے یا رب اس نے میرے لیے اپنا دروازہ بند رکھا اور خیر اور احسان کا معاملہ کرنے سے باز رہا ۔
بوڑھے سا س سسرسے بے رخی کیسے رو ا رکھی جا سکتی ہے جبکہ ارشاد نبویﷺ ہے ( مثل المؤمنین فی توادھم وتراحمھم وتعا طفھم مثل الجسد اذا اشتکی منہ عضو تداعی لہ سا ئر الجسد بالسھر والحمی باہمی محبت و مودت و کرم اور رحم و ہمدردی میں مسلمانوں کی مثال ایک جسم کی سی ہے کہ جب اس کے ایک عضو کو تکلیف پہنچتی ہے تو پور ا بدن بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے اور نیند ا چاٹ ہو جاتی ہے۔ اس زمانے میں جب ضرورت اس امر کی ہے کہ باہمی رحم و ہمدردی کی ترغیب دلائی جائے اس بات کا پر چار کرنے سے کہ بہوپر سا س سسر کی مدد کی کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی بوڑھوں کے حقوق یقینی طور پر مجروح ہو نے کا اندیشہ ہے۔ اس طرح ان کے ساتھ بدسلوکی زیاتی اور حق تلفی کی رہ ہموار ہو جائے گی۔ 
(۲)ارشاد نبوی ﷺ ہے ۔ ( لیس منا من لم یر حم صغیر نا ولم یعرف شرف کبیرنا )اس شخص کا تعلق ہم سے نہیں جو ہمارے چھوٹوں پر نہیں کرتا اور ہمارے بڑوں کے شرف وفضل کو نہیں پہچانتا نیز آپ ﷺ نے فرمایا :( ان من اجلال اللہ اکرام ذی الشیبۃ المسلم)یہ اللہ تعالیٰ کی تعظیم میں شامل ہے کہ سفیدبالوں والے ( بوڑھے ) کا احترام کیا جائے ۔
کیا ادب اور تعظیم صرف زبانی احترام ( lip service)تک محدود ہے یا بڑھاپے اور ضعف العمری کا خیال کرتے ہوئے ہاتھ بٹانا اور جسمانی مشقت کے کاموں میں معاونت کرنا بھی اس میں شامل ہے ؟ ہمارے معاشرتی نظام میں جہاں بیٹیاں شادی کے بعد اپنے اپنے گھروں میں ہوتی ہیں ‘بیٹے روزگار کے لیے گھر سے باہر ہوتے ہیں اور عورتیں خانہ داری کے کام سر انجام دیتی ہیں کیا یہ کہنا معقول ہو گاکہ مرد رات گھر واپس آکر ماں باپ کے لیے کھانا پکائے جبکہ سارا دن گھر میں موجود جوان بیوی صرف اپنی ذات اولاد اور میاں کے لیے پکائے۔ 
یہ کہنا کہ سا س یہ سمجھے کہ اگر بہو اس کا کوئی کام کردیتی ہے تو ساس پر احسان کر رہی ہے انتہائی نامناسب بات ہے۔ وہ دین جوچاہتا ہے کہ بڑھاپے میں والدین کو اف تک نہ کہا جائے یہ گوارا کرے گا کہ بہوئیں سا س سسر کو کھری کھری سنائیں اور اعلان کریں کہ ہمارے اوپر آپ کی خدمت قطعاًفرض نہیں ہے ۔اگر کوئی کام کردیا تو احسان یہ ہے ! کچھ باتیں ادب ، خوش اخلاقی اور etiquetteکا تقاضا ہو تی ہیں۔ اگر گھر میں کوئی مہمان آئے تو کیا میں ان کو یہ کہہ دو ں کہ مجھ پر فرض عین تو نہیں کہ آپ کی مہانداری کروں لیکن یہ جو کچھ پیش کررہی ہوں یہ احسان ہے جس پر آپ کو شکر گزار ہو نا چاہیے تو مہمان کو کیا محسوس ہو گا ؟ قرآن کی اصطلاح ،احسان کا معنی وہ نہیں ہے جو عام اردو بول چال میں ہم استعمال کرتے ہیں۔ قرآنی اصطلاح کا مطلب ہے انتہائی عمدہ اور بہترین طرز عمل بہو ،سا س سسر کی خدمت و احترام کا احسان مرد پر نہ رکھے نہ کسی اور کو جتائے بلکہ اللہ کی رضا اور خوشی کے لیے یہ سب کچھ کرے ارشاد باری تعالیٰ ہے ( یایھاالذین اٰمنو ا لا تبطلوا صدقٰتکم بالمن والاذٰی)اے ایما ن والو اپنی نیکی ( صدقہ ) کو احسان جتلا کر ضائع مت کرو ۔
کبشہ بنت کعب بن مالکؓ سے روایت ہے کہ وہ ابن ابی قتادہؓ کے نکاح میں تھیں ایک دن ( میرے سسر) ابو قتادہؓ آئے میں نے ان کے وضو کے لیے پانی رکھا اتنے میں بلی آئی اور پانی پینے لگی ابو قتادہ نے برتن جھکا دیا ۔ مجھے تعجب ہو ا تو ابو قتادہؓ نے کہا کیا تم تعجب کرتی ہو اے میری بھتیجی ؟ میں نے کہا ہاں۔ انہوں نے جواب دیا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بلی نجس نہیں کیونکہ وہ عموماً تمھارے ہاں پھرتی ہے معلوم ہو ا کہ ساس اور سسر کی خدمت عہد رسالت میں بھی بہوئیں کیا کرتی تھیں اور یہی ایک مسلمان بہو کو زیب دیتا ہے ۔ 
(۳) صحیح بخاری کی حدیث ہے ،عورت اپنے خاوند کے گھر والوں کی راعیہ ( نگران ) ہے اور اس سے ان کے بارے میں باز پرس ہو گی ۔
حضرت جابرؓ کی یہ روایت اس کا عملی نمونہ پیش کرتی ہے ۔میں نے نکاح کیا تو آپ ﷺ نے دریافت کیا کنواری سے نکاح کیا یا بیوہ سے ؟ میں نے عرض کیا بیوہ سے آپ ﷺ نے فرمایا کنواری سے کیوں نہیں کیا ؟ ( اس وقت حضرت جابرؓ کی عمر ۱۵،۱۶سال تھی ) میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ میرے باپ شہید ہو گئے ہیں اور انہوں نے اپنے پیچھے نو بیٹیاں ( یا سات )چھوڑی ہیں میں نے چاہا ایک ایسی عورت لاؤں جو ان کی اصلاح او ر نگرانی کرے اور ان کی کنگھی چوٹی کرے آپ ﷺ نے سن کر فرمایا اللہ تجھے برکت دے ( صحیح مسلم ، کتاب الرضاع ) 
معلوم ہو ایہ عورت پر فرض ہے کہ وہ اپنے شوہر کے اہل خانہ کی نگرانی کرے خاوند کے اہل خانہ میں وہ تمام افراد شامل ہیں جو کوئی کفیل یا نگران نہ رکھتے ہوں اور یہی مرد ان کا کفیل ہو مثلا خاوند کے کم سن بہن بھائی ، مطلقہ یا بیوہ بہن خاندان کے دیگر بے سہارا بچے خاوند کے دوسری بیویوں سے بچے خاندان کے کمزور بوڑھے بیمار افراد کنیز غلام اور مہمان ۔
عورت کو ان کا حق نگرانی ادا کرنا چاہیے اسی سلسلے میں یہاں ذکر کر دیا جائے کہ بعض علماء کی رائے میں سورۃ النساء کی آیت ۵۴میں ( حٰفظٰت للغیب بما حفظ اللہ )کے جو الفاظ آئے ہیں کہ نیک عورتیں خاوندوں کی غیر موجودگی میں ان امانتوں کی حفاظت کرنے والی ہوتی ہیں جن کا اللہ نے نگران بنایا اس میں خاوند کے بوڑھے ماں باپ بھی شامل ہیں جن کو اس کا شوہر ایک امانت کے طور پر اس کے سپرد کرتا ہے۔ یہ بھی قابل ذکر ہے کہ فالصلحٰت قنتٰت (نیک عورتیں شوہروں کی فرمانبردار ہوتی ہیں ) اور حدیث کی رو سے عورت پر سب سے زیادہ حق اس کے شوہر کا اور آدمی پر سب سے زیادہ حق اس کی ماں کا ہے۔ سادہ سی بات ہے اگر خاوند بیوی کو حکم دے یا اس سے توقع کرے کہ وہ اس کے ماں با پ کی خدمت کرے تو اس صورت میں بیوی پر اطاعت فرض ہے کسی بھی صورتحال میں ظلم نہیں ہو نا چاہیے ۔یہ نہ ہو کہ عورت پر بہت زیادہ بوجھ پڑ جائے مگر حسب استطاعت معروف طریقے سے بوڑھے ساس سسر کی خبر گیری کا تقاضا اگر خاوند کی طرف سے ہے تو بالکل جائز ہے اور مناسب ہے۔ 
یہ وضاحت ضروری ہے کہ اس مضمون کے ذریعے ہم مشترکہ خاندانی نظام کی حمایت نہیں کر رہے اور نہ ہی یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ اسلام مشترکہ خاندانی نظام کا حامی ہے مگر بہر طور اگر ایک بیٹے کا ان کے ساتھ رہنا ضروری ہے کیونکہ اس عمر میں جب کہ ان کو مدد تعاون اور حسن سلوک کی سب سے زیادہ ضرورت ہو تی ہے ان کو اکیلے چھوڑ دینا صحیح طرزعمل نہیں ہو گا ۔
میں یہاں یہ ذکر کرنا بھی ضروری سمجھتی ہوں کہ بعض لوگ اپنی کم علمی کی وجہ سے یہ سمجھتے ہیں کہ مسلمان کے مسلمان پرصرف وہ ہی پانچ حقوق ہیں جو رسولﷺ کی ایک حدیث میں بیان ہوئے ہیں ۔۔اور یہاں تک دعویٰ کرتے ہیں کہ یہی پانچ حقوق سسرالی رشتہ داروں کے ہیں ایسا بالکل نہیں مسلمان پر مسلمان کے حقوق کا دائرہ بہت وسیع ہے اس حدیث مبارکہ میں کچھ حقوق کا ذکر کیا گیا ہے اس کے علاوہ بے شمار ہیں اور قرآن و حدیث سے ثابت ہیں جو مختلف حیثیتوں کے لحاظ سے لاگو ہوتے ہیں مثلاً ماں باپ کے حقوق قرابت داروں کے حقوق ہمسائے وغیرہ عام مسلمان جس سے دوسرا کوئی تعلق نہیں یعنی صرف امتی ہو نے کا رشتہ ہو۔ ان کے بھی چالیس حقوق مولانا اشرف علی تھانوی ؒ سے بہشتی زیور میں درج کیے ہیں ۔ 
***