نظمیں ‘ غزلیں

مصنف : امجد اسلام امجدؔ

سلسلہ : شعر و ادب

شمارہ : جنوری 2022

وہ آخری چند دن دسمبر کے   
ہر برس ہی گراں گزرتے ہیں
خواہشوں کے نگار خانے میں
کیسے کیسے گماں گزرتے ہیں
رفتگاں کےبکھرتے سالوں کی
ایک محفل سی دل میں سجتی ہے
فون کی ڈائری کے صفحوں سے
کتنے نمبر پکارتے ہیں مجھے
جن سے مربوط بے نوا گھنٹی
اب فقط میرے دل میں بجتی ہے
کس قدر پیارے پیارے ناموں پر
رینگتی بدنما لکیریں سی
میری آنکھوں میں پھیل جاتی ہیں
دوریاں دائرے بناتی ہیں
دھیان کی سیڑھیوں میں کیا کیا عکس
مشعلیں درد کی جلاتے ہیں
ایسے کاغذ پہ پھیل جاتے ہیں
حادثے کے مقام پر جیسے
خون کے سوکھے نشانوں پر
چاک کی لائنیں لگاتے ہیں
ہر دسمبر کے آخری دن میں
ہر برس کی طرح اب بھی
ڈائری ایک سوال کرتی ہے
کیا خبر اس برس کے آخر تک
میرے ان بے چراغ صفحوں سے
کتنے ہی نام کٹ گئے ہونگے
کتنے نمبر بکھر کے رستوں میں
گرد ماضی سے اٹ گئے ہونگے
خاک کی ڈھیریوں کے دامن میں
کتنے طوفان سمٹ گئے ہونگے
ہردسمبر میں سوچتا ہوں میں
ایک دن اس طرح بھی ہونا ہے
رنگ کو روشنی میں کھونا ہے
اپنے اپنے گھروں میں رکھی ہوئی
ڈائری ،دوست دیکھتے ہونگے
ان کی آنکھوں کے خاکدانوں میں
ایک صحرا سا پھیلتا ہوگا
اور کچھ بے نشاں صفحوں سے
نام میرا بھی
کٹ گیا ہوگا
*امجد اسلام امجد*

میرے معبود فقط تیرے لیے تیرے لیے
ایسی مَنڈی جہاں لُٹتا تھا ہمیشہ گاہک
جنسِ گاہک پہ واں بازار لُٹائے ہم نے
دونوں ہاتھوں جہاں لُوٹا کیے سب، ٹھیک وہیں
صبر و تسلیم پہ کردار اٹھائے ہم نے
سارے ماحول میں ارزاں رہی نفسا نفسی
سخت حیرت کہ ترے عہد نبھائے ہم نے
اِدّعا کوئی نہیں فخر و انا کوئی نہیں
تیری توفیق سے یہ کوہ ہلائے ہم نے
کچھ توقّف سے کھلِیں کونپلیں، کلیاں، خوشے
یُوں بظاہر تو سبھی بیج گنوائے ہم نے
عزم اخلاص ارادہ بھی تری دین تھا سب
تیرے ہاتھوں بڑے فرعون گرائے ہم نے
معجزہ دیکھ لیا یہ بھی تری شفقت کا
وہ بھی روشن ہیں جو دیپک نہ جلائے ہم نے
عَجز سے دل ترے قدموں میں جھکائے ہم نے
میرے معبود فقط تیرے لیے تیرے لیے
*احمد سلمان اشرف*
مالک ہمیں تنہا نہ چھوڑ
اوطاق پر رکھا نہ چھوڑ
مت سیل میں بہ جانے دے
ہک دک پسِ صحرا نہ چھوڑ
کھو جائیں گے پھر بھیڑ میں
یوں سامنے بچھڑا نہ چھوڑ
جیون لگاتار اک تھکن
اس بحر کو بپھرا نہ چھوڑ
اے مستعاں یوں تھام لے
کچھ خوف کچھ دھڑکا نہ چھوڑ
کشکول میں آکاش دے
سنسار میں رسوا نہ چھوڑ
کر خاک کے ذرے الگ
یہ بھید بھی لپٹا نہ چھوڑ
منزل دلا امید کو
چہرہ کوئی اترا نہ چھوڑ
*احمدسلمان اشرف*
رکی ہوئی ہے کہیں شب کی بات آنکھوں میں
سویر ہو گی تو دیکھے گی رات آنکھوں میں
وہ سیر چشم نہیں تھا مگر وجود اس کا
رُکا ہؤا ہے مــری کم بســاط آنکھـوں میں
چھپا رکھا تھا زمانے کی دھول نےجس کو
لیے ہوئے تھا زمانوں کی بات آنکھوں میں
کــہاں تـھی فـرصــتِ اظہار تـــا دمِ آخـــــر
کہ مر رہے تھے سبھی ممکنات آنکھوں میں
وہ بے ہنر سـا تھـا سجّـاد ! تم نے دیکھــا تھا
مگر یہ کیا کہ تھیں جملہ صفات آنکھوں میں
*سجاد خالد*

بشکریہ : امجد اسلام امجد ‘ احمد سلمان اشرف‘ سجاد خالد