مسلمان اورذات پات

مصنف : لیاقت علی ایڈووکیٹ

سلسلہ : سماجیات

شمارہ : جنوری 2022

(جی ایم سید کے پوتے کا قبروں سے غیر سیدوں کی لاشیں قبروں سے نکال کر باہر پھینک دینے کے تناظر میں۔ یہ آرٹیکل انٹرنیٹ سے لیا گیا ہے)
دارالعلوم دیوبند کے بانی قاسم نانوتوی کے قلم سے اس مدرسے کے قیام کی وجہ ملاحظہ کریں:
’اس زمانے میں اور خوبیاں تو کچھ نہ کچھ موجود ہیں مگر علم، خاص کر علم دین اٹھتا چلا جا رہا ہے، جس میں سادات اور شیوخ وغیرہم جو قدیم سے اس کمال میں اوروں سے ممتاز رہا کرتے تھے، آج کل اس سعادت سے بالکل بے بہرہ ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ افلاس پر افلاس جو اہل اسلام خصوصاً شرفاء میں برابر چلا آتا ہے، اس کا باعث بجز اس کے کیا ہے کہ اہل اسلام میں علم و ہنر نہ رہا۔ یہ جوہر اہل اسلام خصوصاً ان چار قوموں (سید، شیخ، مغل، پٹھان) کے حق میں فقط موجب امتیاز دین ہی نہ تھا بلکہ سرمایۂ دنیا بھی ان کے حق میں یہی تھا اور قوموں کے اگر اور پیشے تھے تو سادات و شیوخ وغیرہم کا پیشہ یہی علم تھا۔ الغرض جب یہ حال دیکھا تو چند خیر خواہان بے غرض نے بنام خدا اس قصبے دیوبند میں مدرسے کی بنیاد ڈالی۔‘
دارالعلوم دیوبند کے داخلہ فارم میں ذات یا قوم کا کالم تاحال موجود ہے اور وہاں ’رذیل‘ اقوام سے تعلق رکھنے والے طلباء کا داخلہ ہی کئی دہائیوں تک ممکن نہ تھا۔
مفتی محمد شفیع عثمانی لکھتے ہیں کہ دجال پر ایمان لانے والے اکثر جولاہے ہوں گے۔ مولانا اشرف تھانوی کی مشہور زمانہ کتاب بہشتی زیور میں ایک باب ’کون کون لوگ اپنے میل اور برابر کے ہیں اور کون نہیں‘ کے نام سے ہے اور انہوں نے ایک فتوے میں سید، شیخ، مغل اور پٹھانوں کو شریف، نجیب الطرفین اور دوسری برادریوں جیسے انصاری، جولاہا اور تیلی وغیرہ کو چھوٹی اور ذلیل اقوام کہا ہے۔ مولانا حسین احمد مدنی نے اپنی خود نوشت میں لکھا کہ ’شریف خاندانوں کا فرض اکمل یہ تھا کہ وہ میدان علم وعمل میں بہت زیادہ جدوجہد کریں تاکہ ان کا ذاتی جوہر زنگ کھا کر فنا نہ ہو جائے‘۔
تبلیغی جماعت کے اہم راہنما اور فضائل اعمال کے مصنف مولانا محمد زکریا ذات پات کے قائل تھے۔ جب تبلیغی جماعت کے امیر، مولانا محمد یوسف کے انتقال کے
 بعد مولانا رحمت اللہ کو امیر بنایا گیا تو ان کی ذات (روغن گر؍ تیلی) کے باعث انہیں جماعت کی طرف سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا اور مولانا زکریا کے ایک ’خواب‘ کی بدولت انہیں امامت کا عہدہ چھوڑنا پڑا۔
ذات پات کی مخالفت کرنے والے جماعت اسلامی کے ابوالاعلیٰ مودودی خود سید گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اور سنہ 1932ء میں انہوں نے لکھا کہ ’میرا تعلق ایسے خاندان سے ہے جو تیرہ سو سال سے راہنمائی، مذہبی اور صوفیانہ تعلیم کا فریضہ سرانجام دے رہا ہے۔‘
دیگر اقوام کے متعلق اس قدر تعصب برصغیر کے علاوہ تاریخ میں شاید صرف نازی جرمنی میں دیکھنے کو ملا تھا۔