زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھو

مصنف : محمد اشفاق

سلسلہ : فکر و نظر

شمارہ : جنوری 2022

میرے پڑوس میں ایک فیملی رہتی تھی، میرا ان سے تعارف فوڈ پانڈا پہ ہوا۔ کھانا منگوایا تو معلوم ہوا کہ وہ مجھ سے دو گلیاں پیچھے پائے جاتے ہیں۔ گھر کے بنے صاف ستھرے سالن اور دیسی آٹے کی روٹی۔ اندھا کیا چاہے دو آنکھیں، میری وہ اولین ترجیح بن گئے۔ جلد ہی وہ فوڈ پانڈا سے نکل گئے اور خود کام سنبھال لیا۔ پچھلے ماہ وہ بحریہ شفٹ ہوئے اور ہم ان کی خدمات سے محروم ہو گئے۔ آخری دنوں میں انکل نے مجھے بتایا تھا کہ ان کے مستقل گاہک ڈھائی سو کے قریب ہو چکے جن سے روزانہ انہیں ڈیڑھ سو کے قریب آرڈر مل جاتے تھے، جن میں سب سے چھوٹا آرڈر میرا ہوتا تھا۔ مجھے ایک سالن اور دو تین روٹیاں تین سو میں پڑتی تھیں۔ سب آرڈر ہی تین سو کے شمار کئے جائیں تو بھی ان کی روزانہ کی سیل پینتالیس ہزار تھی۔ کم سے کم آٹھ دس ہزار روزانہ کا منافع۔ 
اس کامیابی کے پیچھے فیصلہ کن کردار ورڈ آف ماؤتھ کا تھا۔ جہاں کہیں کھانے پہ بات ہوئی میں نے ان انکل آنٹی کا ذکر لازمی کیا، ایسا ہی یقیناً اور لوگ بھی کر رہے تھے۔ بغیر کسی ایڈورٹائزنگ اور مارکیٹنگ کے انہوں نے لاکھوں کا کاروبار گھر بیٹھے کامیابی سے چلا لیا۔ 
لیکن یہ ورڈ آف ماؤتھ کیا ہوتا ہے اور یہ کیسے کسی متعدی مرض کی طرح پھیلتا چلا جاتا ہے؟ 
آج کل مالکم گلیڈول کی The Tipping Point پڑھ رہا ہوں۔ اتفاق سے اس کا موضوع بھی یہی ہے۔ سینہ بہ سینہ معلومات اور خبر پھیلتے چلے جانے میں گلیڈول کے خیال میں تین طرح کے لوگ بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ 
پہلی قسم کو وہ کنیکٹرز connectors کا نام دیتا ہے۔ میرے فیسبک کے حلقے میں سلطان محمود بھائی اس کی بہترین مثال ہیں۔ کنسٹرکشن سے تعلق رکھنے والوں کا حلقہ احباب ویسے بھی زیادہ وسیع ہوتا ہے۔ روزانہ درجنوں اور ماہانہ سینکڑوں لوگوں سے رابطہ رکھنا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ جناب ایک ادبی تنظیم کے روح رواں بھی ہیں۔ اس کے علاوہ پنڈی اسلام آباد میں دساور سے جس فیسبکی دانشور کا نزول ہو، اسے استقبالیہ دینا اور مقامی دانشوروں سے ملوانا بھی ان کا بنیادی فریضہ ہے۔ تو سلطان محمود ایک کنیکٹر ہیں۔ کنیکٹرز کو ایک مصرعے میں یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ 
دوستوں کے درمیاں، وجہ دوستی ہے تو
لیکن یہاں یہ بھی لازمی ہے کہ کنیکشن اور نیٹ ورکنگ کا فرق واضح کر دیا جائے۔ کنیکشن کسی صلے کی تمنا کے بغیر بنائے جاتے ہیں۔ جیسا کہ سلطان بھائی کو فیسبکیوں کو پک اینڈ ڈراپ دینے میں کوئی فائدہ نہیں ہے۔ یہ ان کے مزاج اور فطرت کا تقاضا ہے کہ وہ لوگوں کے کام آتے ہیں۔ جبکہ نیٹ ورکنگ بڑی حد تک ایک کاروباری اصطلاح ہے۔ اس کا بنیادی فلسفہ یہ ہوتا ہے کہ اپنے ہم عصروں، شرکائے کار، حلیفوں، حریفوں اور اپنے شعبے کے نمایاں لوگوں سے تعلقات بہتر رکھے جائیں کہ یہ سب کہیں نہ کہیں آپ کے کام آ سکتے ہیں۔
مجھے یہ بہت خودغرضانہ سی سوچ لگتی ہے۔ آپ اسے "انگور کھٹے ہیں" بھی کہہ سکتے ہیں کیونکہ میں نیٹ ورکنگ میں دنیا کے ناکام ترین انسانوں میں سے ایک ہوں۔ میری کانٹیکٹ لسٹ میں سات آٹھ سو بندوں کے نام نمبر محفوظ ہیں اور ان میں سے نوے فیصد کا مجھے یاد نہیں کہ ایہہ کون لوک نیں تے کتھوں آئے نیں۔ بہرحال تعلقات بناتے اور بگاڑتے سمے کبھی نفع نقصان نہیں سوچا۔ خیر، تو کنیکٹرز کا چونکہ حلقہ احباب بہت وسیع ہوتا ہے تو ان کا "کاتا اور لے دوڑی" والا معاملہ ہوتا ہے۔ جو خبر ان تک پہنچے وہ جنگل کی آگ کی طرح پھیلتی چلی جاتی ہے۔ اور کنیکٹرز کو یہ خبریں فراہم کرنے والے میونز Mavens کہلاتے ہیں۔ 
فیسبک پہ تو خیر ہر بندہ ہی میون ہے۔ مگر اپنے ذاتی دوستوں کے حلقے میں یہ اعزاز فدوی کو حاصل ہے۔ ہر نئی خبر، نئی ایجاد، نئی فلاسفی، نئی فلم، نئی کتاب، نئی پراڈکٹ یا سروس پہلے مجھ تک پہنچتی ہے پھر مجھ سے دیگر دوستوں تک۔ کاروباری مسائل ہوں یا نجی معاملات، بچی کی شادی کا معاملہ ہو یا بچے کے کالج داخلے کا، غم روزگار ہو یا غم جاناں، اپنے دوستوں کیلئے آپ کا خادم مفت مشاورت کا سب سے پہلا اور سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ 
اگین، سوشل میڈیا انفلوئنسرز کے برعکس، میونز بھی یہ فری کنسلٹنسی سروس کسی مفاد، ترغیب یا لالچ کے زیر اثر نہیں چلا رہے ہوتے یہ ان کی فطرت اور مزاج کا حصہ ہوتی ہے۔ وہ کتابیں پڑھ کر، فلمیں دیکھ کر، نئے خیالات و نظریات سے متاثر ہو کر چپ سادھ کے نہیں بیٹھ جاتے۔ دوسروں کو اس سے آگاہی دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ تو ہوتا یوں ہے کہ آپ کی پراڈکٹ یا سروس کا کسی میون کو پتہ چلتا ہے۔ وہ اپنی عادت کے مطابق اپنے حلقے میں اس کا مثبت یا منفی الفاظ میں ذکر کرتا ہے۔ خبر کسی کنیکٹر تک پہنچتی ہے اور سینکڑوں یا ہزاروں لوگوں تک پہنچ جاتی ہے۔ لیکن اگر کنیکٹر کے حلقے میں سب نیلا لائیک ٹھوک کر پتلی گلی نکل جانے والے ہوں تو بھی بات نہیں بنتی۔ ورڈ آف ماؤتھ میں تیسرا اور اہم ترین کردار سیلز مین کا ہوتا ہے۔ سیلز مین سے یہاں گلیڈول کی اور میری مراد حقیقی سیلز مین نہیں، بلکہ وہ لوگ جو دوسروں کو قائل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ جو کسی پراڈکٹ، سروس یا ڈویلپمنٹ سے متاثر ہوتے ہیں تو دوسروں کو بھی اس سے متاثر کروا کر ہی چھوڑتے ہیں۔ کنیکٹرز اور میونز کی طرح یہ بھی کسی کمیشن کے لالچ میں ایسا نہیں کرتے  یہ ان کی فطرت ہے، یہ ان کا مزاج ہے۔
دنیا میں شاید اسی فیصد لوگ مٹی کے مادھو ہیں۔ لیکن خوش قسمتی سے بیس فیصد کنیکٹرز، میونز اور سیلز مین ہیں۔ میونز خبر کنیکٹرز تک پہنچاتے ہیں، کنیکٹرز انہیں اپنے حلقے میں پھیلا دیتے ہیں اور ان کے حلقے میں چند ایک سیلز مین ہوتے ہیں جو اس خبر پہ لوگوں کو ایکشن لینے پر مجبور کرتے ہیں۔ یوں ورڈ آف ماؤتھ پھیلتا چلا جاتا ہے اور تبدیلی آ جاتی ہے۔ 
اگر آپ کی اپنی کوئی پراڈکٹ یا سروس ہے  اور خصوصاً اگر وہ آن لائن ہے(ہر اچھی پراڈکٹ اور سروس کو جلد یا بدیر آن لائن ہونا ہی پڑتا ہے) تو کبھی بھی ورڈ آف ماؤتھ کو ہلکا مت لیں۔ زبان خلق تیس تیس برس سے قائم آمریتوں کو خس و خاشاک کی طرح بہا لے جاتی ہے۔ زبان خلق دس سالہ منصوبوں کو تین برس میں راکھ کے ڈھیر میں بدل دیتی ہے۔ زبان خلق اربوں روپے مالیت کے کاروبار کو آسمان سے زمین پر گرا دیتی ہے۔ اور زبان خلق چند ہزار سے شروع کئے گئے کام کو زمین سے آسمان تک لے جا سکتی ہے۔ 
مضمون بہت طویل ہو گیا ہے اور مجھے احساس ہے کہ آپ رسہ تڑوانے کے چکر میں ہیں مگر جاتے جاتے ورڈ آف ماؤتھ کی طاقت کی دو بڑی منفی اور مثبت مثالیں سنتے
 جائیں۔ 
کل ٹویٹر پہ کریم کی سروس کے بارے میں ایک تھریڈ پڑھ کر خیال آیا کہ ورڈ آف ماؤتھ بہت تیزی سے کریم ایپ کے خلاف ہوتا جا رہا ہے۔ کروڑوں کے تشہیری بجٹ، اربوں کی فنڈنگ کے باوجود وہ اس منفی تاثر کو روکنے میں ناکام ہیں جو کریم کے رائیڈرز اور کیپٹنز دونوں میں پایا جاتا ہے   ایک بہت نادر اور شاندار بزنس آئیڈیا اور اس کیلئے درکار سرمایہ کے حصول میں کامیابی کے باوجود کریم کو شاید اب ناکامی سے بچنے کیلئے کوئی معجزہ درکار ہے۔ 
دوسری جانب آپ کرپٹو کرنسی کی ٹریڈنگ دیکھ لیں۔ چند گنی چنی حکومتوں کے علاوہ کوئی ملک کرپٹو کرنسیز کو تسلیم نہیں کرتا۔ ٹریڈنگ سے باہر کی عملی دنیا میں اب تک اس کی کوئی افادیت سامنے نہیں آئی۔ نوے فیصد کرپٹو ٹریڈرز کو کرپٹو کی مبادیات تک کا علم نہیں۔ چین جیسے بڑے ملک نے اس کی مائننگ اور ایکسچینجز پر پابندی لگا دی۔ ایک بہت بڑی کرنسی کا ایک اربوں ڈالر کا سکینڈل سامنے آیا۔ اور دو دن پہلے کسی نے سکوئیڈ گیمز کی مقبولیت کیش کرتے ہوئے سکوئیڈ کے نام سے ایک نئی کرنسی بنائی، لوگوں سے ساڑھے تین ملین ڈالرز سمیٹے اور فرار ہو گیا۔ لیکن اس سب کے باجود کرپٹو ٹریڈنگ دن دگنی رات چوگنی ترقی کر رہی ہے۔ کیونکہ اس کے پیچھے ورڈ آف ماؤتھ کی طاقت ہے۔ 
چھوٹے اور نئے آن لائن کاروبار شروع کرنے والے یہ اپنی گرہ سے باندھ لیں کہ وہ لاکھوں روپے تشہیر پہ صرف کئے بغیر بھی کامیاب ہو سکتے ہیں اگر وہ ورڈ آف ماؤتھ کو اپنے حق میں کرنا سیکھ لیں۔