عورت اور معاشرتی آداب

مصنف : علامہ یوسف القرضاوی

سلسلہ : یسئلون

شمارہ : دسمبر 2021

جواب : قرآن کی جن آیات میں یا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جن احادیث میں سلام کرنے کی تاکید ہے ان پر غور کیجیے تو معلوم ہو گا کہ ان میں مرد اور عورت کے درمیان تفریق نہیں کی گئی ہے اور ان میں مخاطب مرد اور عورت دونوں ہی ہیں مثلاً قرآن کی آیت ملاحظہ کیجیے :وَاِذَا حُيِّيْتُمْ بِتَحِيَّۃٍ فَحَــيُّوْا بِاَحْسَنَ مِنْھَآ اَوْ رُدُّوْھَا     ۭ (النساء: 86)”اور جب تمھیں سلام کیا جائے تو اس کا بہتر سلام کے ذریعے جواب دویا پھر ویسے ہی سلام سے جواب دو۔

اس آیت میں مخاطب مرد وعورت دونوں ہی ہیں۔اسی طرح ایک حدیث ملاحظہ کیجیے۔

وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہِ لَنْ تَدْخُلُوا الجَنَّةَ حَتَّى تُؤْمِنُوا وَلا تُؤمِنوا حَتى تحَابُّوا، أَوَلا أدُلُّكُمْ عَلَى شَیٍ إِذَا فَعَلْتُمُوهُ تَحاَبَبْتُم أفْشُوا السَّلام بَيْنَكُم“(مسلم)

قسم اس کی جس کے قبضے میں میری جان ہے تم جنت میں نہیں جا سکتے جب تک ایمان نہ لاؤ۔ اور اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے جب تک آپس میں محبت نہ کرو۔ کیا میں ایسی بات نہ بتاؤں کہ اگر تم اسے کرو گے تو آپس میں محبت بڑھے گی اپنے درمیان سلام کو رواج دو۔

اس حدیث میں بھی مخاطب مرد اور عورت دونوں ہیں۔ آج تک کسی نے یہ نہیں کہا کہ اس کے مخاطب صرف مرد ہیں عورتیں نہیں ہیںاور نہ قرآن و حدیث میں ہی ایسی دلیل ملتی ہے کہ مرد عورتوں کو سلام نہیں کر سکتے یا عورتیں مردوں کے سلام کا جواب نہیں دے سکتیں بلکہ اس کے برعکس حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے عمل سے ثابت ہوتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مردوں نے عورتوں کو سلام کیا ہے اور عورتوں نے ان کے سلام کا جواب دیا ہے اس لیے یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ مردوں کا عورتوں کو سلام کرنا اور عورتوں کا جواب دینا اسلامی آداب میں شامل ہے۔

بخاری شریف میں ایک باب کا عنوان ہے"مردوں کا عورتوں کو سلام کرنا اور عورتوں کا مردوں کو سلام کرنا"اس عنوان کے ذریعے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ ان لوگوں کوجواب دینا چاہتے ہیں جو عورتوں کو سلام کرنا یا ان کا جواب دینا پسند نہیں کرتے ہیں۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی رائے کے حق میں دو حدیثیں پیش کی ہیں پہلی حدیث کی روایت حضرت سہل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کی ہے وہ فرماتے ہیں کہ ایک عورت کسی کھجور کے باغ میں ان کے لیے کھانا تیار کر کے رکھتی تھی اور نماز جمعہ کے بعد حضرت سہل رضی اللہ تعالیٰ عنہ چند صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے ساتھ ان کے پاس جاتے تھے اور انھیں سلام کرتے تھے اور وہ عورت ان کے سامنے کھانا پیش کرتی تھی۔

دوسری حدیث کی روایت حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ اے عائشہ یہ جبریل علیہ السلام آئے ہیں اور تمھیں سلام کہہ رہے ہیں چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ان کے سلام کا جواب دیا۔

ترمذی میں ایک حدیث ہے حضرت اسماء بنت یزید فرماتی ہیں کہ ہم عورتیں ایک جگہ بیٹھی تھیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  ہمارے پاس تشریف لائے اور ہمیں سلام کیا۔

روایتوں میں ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بعض عورتوں کے پاس تشریف لائے اور انھیں سلام کیا اور بتایا کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام لے کر تمھارے پاس آیا ہوں۔

امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مسند احمد میں ایک روایت کا تذکرہ کیا ہے کہ معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب یمن تشریف لے گئے ایک عورت ان کے پاس آئی اور انھیں سلام کیا۔

ان تمام روایات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین عورتوں کو سلام کیا کرتے تھے اور عورتیں بھی سلام کا جواب دیتی تھیں جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی روایت میں ہے۔اوپر میں نے صرف چند مثالیں پیش کی ہیں۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین عورتوں کو سلام کرنے میں کوئی قباحت نہیں محسوس کرتے تھے لیکن آج کے بعض علماء حضرات اس سے منع کرتے ہیں۔ انھیں عورتوںکے سلام کرنے میں فتنہ کا اندیشہ اور خوف محسوس ہوتا ہے۔ ان کے مطابق احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ نہ عورتوں کو سلام کیا جائے اور نہ یہ سلام کا جواب دیں۔ احناف کہتے ہیں کہ عورتیں صرف اپنے محرم مردوں کو سلام کر سکتی ہیں بعض علماء کرام کے نزدیک صرف بوڑھی عورتوں کو سلام کرنا یا ان کے سلام کا جواب دینا جائز ہے اور ان سب کی صرف ایک ہی دلیل ہے اور وہ ہے فتنہ کا اندیشہ پتہ نہیں اس طرح کے علماء کرام عورتوں کے معاملے میں اس قدر حساس اور محتاط کیوں واقع ہوئے ہیں کہ انھیں عورتوں کے ساتھ کسی بھی معاملے میں فتنہ کا اندیشہ ہوجاتا ہے حالانکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کا عمل ثابت کرتا ہے کہ لوگ عورتوں کے معاملے میں اس طرح کے حساس اور سخت گیر نہیں تھے اور نہ اس قدر احتیاط کے قائل تھے۔ ایک بھی ایسی روایت اور حدیث نہیں ہے جس میں اس بات کا بیان ہو کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  عورتوں کو سلام کرنے میں کوئی حرج محسوس کرتے تھے خاص کرجب کوئی ملاقات کی غرض سے ان کے پاس جاتا یا معلم اور معالج کی حیثیت سے ان کے پاس جاتا البتہ راہ چلتے کسی عورت کو سلام کرنا مناسب نہیں ہے الایہ کہ اس سے کسی قسم کی قریبی رشتہ داری ہو یا ایسا کوئی قریبی تعلق ہو جیسا کہ استاد اور شاگرد کے درمیان ہوتا ہے۔

آپ نے اپنے سوال میں اپنے ایک استاد کا طرز عمل تحریر کیا ہے کہ وہ عورتوں کو سلام کرنا درست نہیں تصور کرتے ہیں حالانکہ یہی استاد پڑھاتےوقت آپ سے باتیں کرتے ہیں‘ آپ کے سوالوں کا جواب دیتے ہیں اور آپ سے سوال کرتے ہیں تو محض سلام کرنے میں انھیں کون سی شرعی قباحت محسوس ہوتی ہے- جس فتنہ کے خوف سے یہ عورتوں کو سلام کرنا مناسب نہیں سمجھتے ہیں کلاس روم کے اندر اس قسم کے فتنہ کی کہاں گنجائش ہو سکتی ہے استاد اور شاگرد کا رشتہ تو باپ بیٹے یا تو باپ بیٹی کا رشتہ ہوتا ہے اور پھر کلاس روم کا ماحول انتہائی سنجیدہ اور پروقار ماحول ہوتا ہے۔ ایسے میں کسی قسم کے فتنہ کا کیوں کر خوف ہو سکتا ہے۔

رہی یہ بات کہ عورتوں کی آواز ستر ہے اور مردوں کے درمیان انھیں خاموش رہنا چاہیے تاکہ ان کی آواز مردوں کے کان نہ پڑے تو یہ ایک بے بنیاد بات ہے جس کی قرآن و حدیث میں کوئی دلیل نہیں ہے۔ بلکہ اس کے برعکس قرآن و حدیث میں اس بات کی دلیل موجود ہے کہ عورتیں غیر محرم مردوں سے بات کر سکتی ہیں لیکن ادب و احترام کے ساتھ جیسا کہ پچھلے جواب میں میں اس پر تفصیل سے روشنی ڈال چکا ہوں۔

اگر کوئی یہ کہے کہ جبریل علیہ السلام تو فرشتہ تھے۔ تو اس سلسلے میں واضح رہے کہ جبریل عام طور پر مرد کی صورت میں تشریف لاتے تھے۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

عورتوں اور مردوں کے باہمی اختلاط کے شرعی حدود

سوال : مخلوط طرز زندگی (عورتوں اور مردوں کا ایک ساتھ پڑھنا یاکام کرنا زندگی کے دوسرے کام انجام دینا)کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ مردوں عورتوں کے اس قسم کے اختلاط کو علماء حضرات بڑی ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتے ہیں اور اسے ناجائز قراردیتے ہیں۔ بعض اتنے سخت گیرہیں کہ عورتوں کے گھر سے نکلنے کو بھی ناپسند کرتے ہیں حتی کہ عورتوں کا مسجد جانا بھی ان کے نزدیک صحیح نہیں ہے۔ اس سلسلہ میں وہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا ایک قول نقل کرتے ہیں۔

لو علم رسول الله صلى الله عليه وسلم ما أحدث النساء بعده لمنعهن المساجد۔

اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو علم ہو جاتا کہ ان کی موت کے بعد عورتوں نے کیا رویہ اختیار کر لیا تو انھیں مسجد جانے سے منع کر دیتے۔

محترم! آپ سے یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ دور حاضر میں گونا گوں انسانی ضروریات کی بنا پر عورتیں گھر سے باہر قدم نکالنے پر مجبور ہیں کیوں کہ مردوں کی طرح انھیں بھی تعلیم حاصل کرنی ہے بسااوقات انھیں بھی نوکری کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔اور انھیں بھی حق حاصل ہے کہ دنیا کی مختلف خوشیوں اور نئی نئی ایجادات سے لطف اندوز ہوں اور یہ سب حاصل کرنے کے لیے تھوڑا یا زیادہ مردوں کے ساتھ اختلاط ضروری ہے۔ کیوں کہ تعلیم حاصل کرنے کے لیے اسکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں کا رخ کرنا ضروری ہے جہاں مخلوط تعلیم ہوتی ہے اور کلاس میں عام طور پر مرد اساتذہ پڑھاتے ہیں اگر نوکری کرنی ہے تو ایسی جگہ نوکری ملنا بہت زیادہ مشکل ہے جہاں صرف عورتیں ہوں۔ اس لیے مجبور اً ایسی جگہ نوکری کرنی پڑتی ہے جہاں ساتھ میں مرد حضرات بھی ہوتے ہیں اور اگر علاج کرانا ہے تو بسااوقات مرد ڈاکٹر سے علاج کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔

کیا اس طرح کااختلاط اسلام کی نظر میں جائز ہے؟ اس ترقی یافتہ دور میں اورزندگی کی بے شمار ضرورتوں کے پیش نظر عورتوں کے لیے کیسے ممکن ہے کہ مردوں سے علیحدہ ہو کر ان سے بے نیاز ہو کر زندگی گزاریں اور گھر کے اندر قید ہو کر رہ جائیں خواہ اس گھر کے اندر انھیں دنیا بھر کا آرام ہی کیوں نہ حاصل ہو۔

ایسا کیوں ہے کہ عورتوں کے لیے وہ سب کچھ جائز نہیں ہے جو مردوں کے لیے جائز ہے؟ مرد گھر سے باہر رہ کر کھلی اور تازہ ہوا کا مزہ لیتے ہیں اور عورت اس مزے سے محروم کر دی گئی ہے۔ مرد اپنے آپ کو آزاد محسوس کرتے ہیںجب کہ عورتوں پر بے شمار پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں۔آخر عورتوں کے سلسلے میں اس قدر خوف اور بد گمانیاں کیوں ہیں؟حالانکہ اللہ تعالیٰ نے مردوں کی طرح عورتوں کو بھی عقل اور سمجھ داری عطا کی ہے۔ اگر عورتیں غلطیاں کر سکتی ہیں تو مرد بھی غلطیاں کرتے ہیں پھر سارے مزے صرف  مرد کی جھولی میں کیوں ہیں؟

امید ہے کہ آپ قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب دیں گے۔

جواب : ہم مسلمانوں کی بڑی مصیبت یہ ہے کہ ہم بیشتر معاملات میں افراط و تفریط کا شکار ہیں۔اسلام نے ہمیں اعتدال کی راہ اختیار کرنے کی تلقین کی ہے اور اسی بنا پر ہمیں "امت وسط"(معتدل امت)کا خطاب دیا گیا ۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ شاذونادر ہی ہم اعتدال کی راہ اختیار کرتے ہیں ۔بیشتر مسائل میں افراط و تفریط کا شکار ہو چکے ہیں اور یہ افراط وتفریط کا معاملہ سب سے زیادہ عورتوں اور ان کے مسائل میں ہے عورتوں کے معاملے میں ہمارے یہاں عموماً دو قسم کی سوچ پائی جاتی ہے۔

پہلی قسم کی سوچ مغرب پرست لوگوں کی ہے مغربی تہذیب اور اس کی ہر ہر ادا سے مرعوب ہیں اور اسی لیے وہ اسے مکمل طور پر اختیار کر لینا چاہتے ہیں۔ مغربی تہذیب چونکہ عورتوں کی مکمل آزادی عریانیت بےلگام فیشن اور مردوں سے برابری کی علمبرداری ہے اس لیے یہ لوگ بھی اپنی عورتوں کو اسی رنگ میں دیکھنا پسند کرتے ہیں خواہ اس تہذیب میں اخلاقی دیوالیہ پن اپنے عروج پر ہو۔ یہ لوگ اس بات سے انجان ہیں کہ اس بے لگام آزادی اور جنسی بے راہ روی نے مغربی سماج کو کن خطرناک مسائل دوچار کر دیا ہے حتی کہ اب ان کے مفکر ین اور مصلحین اس  سے قید آزادی پر پابندی لگانے کی باتیں کرنے لگے ہیں۔

اس کے بالکل برعکس دوسری سوچ ان لوگوں کی ہے جو عورتوں اور ان کی نسوانیت کے معاملے میں بڑے حساس اور سخت گیر واقع ہوئے ہیں انھیں عورتوں کی طرف سے ہر وقت فتنوں کا خوف دامن گیر رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ عورتوں کی ذراسی بھی آزادی کو گوارا نہیں کرتے- انھوں نے عورتوں کو مختلف سماجی اور مذہبی پابندیوں میں جکڑ رکھا ہے حالانکہ دین اسلام کا ان پابندیوں سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ اسلام نے ان پابندیوں کی ہدایت کی ہے۔یہ دونوں قسم کے لوگ افراط و تفریط کا شکار اور عورت کے سلسلے میں اسلامی تعلیمات سے دور ہیں۔ آپ نے اپنے سوال میں جو باتیں پوچھی ہیں آج کے دور میں عورتوں کے یہ حقیقی مسائل ہیں اور ہر عورت کے ذہن میں کم و بیش اسی قسم کے سوالات اٹھتے ہیں اس لیے ضروری ہے کہ قرآن و حدیث کی روشنی میں ان کا تفصیلی جواب دیا جائے۔

جہاں تک اختلاط (عورتوں اور مردوں کا ساتھ مل کر کوئی کام انجام دینا) کا تعلق ہے اس سلسلے میں اسلام کا کوئی عمومی حکم نہیں ہے کہ ہر قسم کے حالات میں اس حکم کوچسپاں کیا جا سکے بلکہ مختلف حالات اور مختلف ماحول کے لحاظ سے اس کا حکم بھی مختلف  ہے اور اس حکم سے پہلے مختلف عوامل کی رعانیت بھی ناگزیر ہے مثلاً یہ کہ اس اختلاط کی کس حد تک ضرورت ہے۔ وہ کون سے مقاصد ہیں جن کی تکمیل کے لیے یہ اختلاط ضروری ہے۔ کیا ماحول اس اختلاط کا متحمل ہو سکتا ہے اور اس اختلاط کے منفی اور مثبت اثرات کس حد تک ہو سکتے ہیں؟

اس سلسلے میں سب سے عمدہ اور قابل تقلید نمونہ بلا شبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کا ہے ہمیں یہ دیکھنا چاہیے۔ کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  کے زمانے میں یہ اختلاط جائز تھا یا ناجائز اور اگر جائز تھا تو کس حد تک جائز تھا؟

عورتوں کو گھر کے اندر مقید رہنے اور  اختلاط سے دور رہنے کا جو تصور آج پایا جاتا ہے وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام  رضوان اللہ عنھم اجمعین کے دور میں نہیں تھا چنانچہ اس زمانے میں عورتیں نہ گھروں میں قید ہو کر اور نہ مردوں سے بالکل الگ اور علیحدہ ہو کر زندگی گزارتی تھیں۔ حقیقت یہ ہے کہ عورتوں پر بے جا پابندیوں کا سلسلہ اس وقت سے شروع ہو ا جب مسلم امت قرآن و حدیث کی صحیح تعلیمات سے دور ہونے لگی- تعلیم کے بجائے جہالت پھیلنے لگی اور ترقی کے بجائے پسماندگی غالب آنے لگی ، جہالت و پسماندگی کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔

عہد نبوی میں عورتوں کی زندگی ہر قسم کے افراط و تفریط سے پاک تھی۔سارے معاملے کی طرح اس معاملے میں بھی ان کے یہاں اعتدال تھا۔ نہ وہ گھروں میں اس طرح قید تھیں جس طرح بعض نادان قسم کے دین دار لوگ اپنی عورتوں کو رکھتے ہیں اور نہ مغرب کی عورتوں کی طرح سارا وقت گھر سے باہر رہ کر مکمل آزادی کے ساتھ گزارتی تھیں انھیں گھر سے باہر نکلنے کی آزادی تھی لیکن اخلاقی پابندیوں کے ساتھ چنانچہ عہد نبوی میں عورتیں مسجد جاکر مردوں کے ساتھ نماز باجماعت ادا کرتی تھیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم انھیں مسجد آنے کی ترغیب بھی دیتے تھے۔ ذرا ملاحظہ کیجیے کہ اس زمانے میں مرد پاجامہ نہیں پہنتے تھے بلکہ کھلی ہوئی چادر باندھتے تھے جس کی وجہ سے سجدے کی حالت میں ستر نظر آنے کا اندیشہ رہتا تھا ۔ اس کے باوجود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو مسجد آنے سے منع نہیں کیا بلکہ انھیں حکم دیا کہ تم مردوں سے الگ ہو کر صف بناؤ۔ حتی کہ مردوں اور عورتوں کے درمیان کوئی دیوار بھی نہیں کھڑی کی۔ شروع شروع میں مرد اور عورتیں ایک ہی دروازہ سے مسجد کے اندر جاتے تھے جس کی وجہ سے اکثر دروازے پر بھیڑ ہو جاتی تھی۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کے لیے علیحدہ دروازہ بنوایا۔ آج بھی اس دروازے کو باب النساء(عورتوں کا دروازہ) کہتے ہیں۔پنج وقتہ نمازوں کی طرح جمعہ کے دن بھی عورتیں خطبہ سننے کے لیے مسجد جایا کرتی تھیں عیدوبقر عید کے موقع پر بھی عورتیں مسجد جایا کرتی تھیں اور مردوں کے ساتھ عید کی خوشیوں سے لطف اندوز ہوتی تھیں بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم تھا کہ عید کے دن اپنی عورتوں اور جوان لڑکیوں کو گھروں سے باہر نکالوتاکہ وہ بھی کی خوشیوں میں شریک ہو سکیں۔ حدیث کے الفاظ کچھ یوں ہیں۔

عن أُمِّ عَطِيَّةَ أَمَرَنَا رسولُ اللَّه ﷺ  أَنْ نُخْرِجَهُنَّ فِي الْفِطْرِ والْأَضْحَى الْعَوَاتِقَ والْحُيَّضَ وَذَوَاتِ الْخُدُورِ فَأَمَّا الْحُيَّضُ فَيَعْتَزِلْنَ الصَّلَاةَ ويَشْهَدْنَ الْخَيْرَ ودَعْوَةَ الْمُسْلِمِينَ قُلْتُ  يا رسولَ اللَّهِ  إِحْدَانَا لا يكونُ لها جِلْبَابٌ قال لِتُلْبِسْهَا أُخْتُها مِنْ جِلْبَابِهَا۔ (مسلم)

اُم عطیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ ہم عورتوں کو عید الفطر اور عید الاضحیٰ میں گھروں سے باہر نکالیں۔نوجوان لڑکیوں کو، حیض والی عورتوں کو اور پردہ نشیں عورتوں کو(بھی )حیض والی عورتیں نماز سے دور رہیں گی۔لیکن خوشیوں اور دعاؤں میں شریک ہوں گی۔ میں نے کہا کہ اے حضور صلی اللہ علیہ وسلم  ! کسی عورت کے پاس چادر نہیں ہوتی وہ کیسے نکلے ؟آپ نے فرمایا کہ اس کی کوئی دینی بہن اسے اپنی چادر دے دے۔‘‘

افسوس کی بات ہے کہ آج کے دور میں چند سخت گیر قسم کے علماء نے اس سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو فراموش کر دیا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم گھر کی عورتوں کو گھر سے باہر نکال کر عید و بقر عید کی خوشیوں میں شامل کرنا چاہتے ہیں اور یہ علماء حضرات محض وہمی اندیشوں اور فتنوں کا عذر لنگ پیش کر کے عورتوں کو گھرکے اندر بیٹھنے پر مجبور کرتے ہیں ۔

اس طرح عہد نبوی میں عورتیں گھروں سے باہر نکل کر علم حاصل کرنے کے لیے درس و تدریس کی ان مجلسوں میں شریک ہوتی تھیں جہاں مرد حضرات بھی موجود ہوتے تھے۔ حدیہ ہے کہ اس مجلس میں عورتیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم  سے ایسے سوالات بھی پوچھتی تھیں۔ جنھیں بیان کرنے میں عورتیں عام طور پر شرماتی اور جھجکتی ہیں۔ مثلاً حیض جنابت اور احتلام کے متعلق سوالات اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے نہ کبھی ان عورتوں کو تدریسی مجلسوں میں آنے سے منع کیا اور نہ اس قسم کے سوالات ہی سے روکا۔ بلکہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   انصار کی عورتوں کی تعریف کرتے ہوئے فرماتی ہیں کہ شرم و حیانے انھیں کبھی علم حاصل کرنے سے نہیں باز رکھا۔

عہد نبوی میں گھر سے باہر عورتوں کی سر گرمیاں اور دوڑ بھاگ صرف مسجد اور تعلیم گاہ تک محدود نہیں تھی بلکہ جہاد اور جنگ کے موقع پر بھی انھوں نے مختلف ذمےداریاں نبھائیں مثلاً زخمیوں کو سنبھالنا نرس بن کران کی مرہم پٹی کرنا انھیں کھانا پانی پیش کرنا اور وقت پڑنے پر دشمنوں پروارکرنا۔ اُم عطیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   فرماتی ہیں۔

غَزَوْتُ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَبْعَ غَزَوَاتٍ أَخْلُفُهُمْ فِي رِحَالِهِمْ فَأَصْنَعُ لَهُمُ الطَّعَامَ وَأُدَاوِي الْجَرْحَى وَأَقُومُ عَلَى الْمَرْضَى (مسلم)

میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کی معیت میں سات جنگیں لڑی ہیں میں ان کے پیچھے ان کے سازو سامان کی حفاظت کرتی تھی میں ان کے لیے کھانا بناتی زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی تھی اور مریضوں کی دیکھ بھال کرتی تھی۔

مسلم شریف ہی کی روایت ہے کہ جنگ احد کے موقع پر حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   اور حضرت اُم سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا اپنی پیٹھ پر مشکیزہ اٹھائے مجاہدین کو پانی پلانے کاکام انجام دے رہی تھیں۔ احد کے موقع حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اپنی عمر کے لحاظ سے جوانی کے میدان میں قدم رکھ رہی تھیں۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ اس طرح کی سر گرمیوں میں صرف ادھیڑ اور بوڑھی عمر کی عورتیں ہیں نہیں شریک ہوتی تھیں بلکہ نوجوان لڑکیاں بھی پیش پیش رہتی تھیں جہاد میں عورتوں کی شرکت کے بارے میں متعدد صحیح روایات ہیں اور ان سب کا یہاں بیان ممکن نہیں ہے۔

عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں عورتوں نے صرف اپنے شہر یا شہر سے قریبی علاقے میں رہ کر جہاد میں شرکت نہیں کی بلکہ دور دراز علاقوں میں جاکر بھی جہاد میں شریک ہوئی ہیں۔ بخاری اور مسلم کی روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبادہ بن الصامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیوی اُم حرام رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے لیے دعا کی تھی کہ سمندر میں سفر کر کے جہاد میں جائیں ۔ چنانچہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے عہد خلافت میں اُم حرام رضی اللہ تعالیٰ عنہا  جہاد کی خاطر قبر ص تشریف لے گئیں وہاں جہاد میں شریک ہوئیں اور وہیں انھوں نے وفات پائی۔

اسی طرح عہد نبوی میں عورتیں سماجی کاموں میں بھی مردوں کے ساتھ مل کر اپنے فرائض انجام دیتی تھیں۔مثلاً سماج میں برائیوں کو روکنے اور بھلائیوں کو روکنے کو فروغ دینے کا فریضہ جسے اللہ نے مردوں اور عورتوں پر یکساں طور پر فرض کیا ہے۔ اللہ کاارشاد ہے:

وَالْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُہُمْ اَوْلِيَاۗءُ بَعْضٍ   ۘ يَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ۔(التوبۃ: 71)

مومن مرد اور مومن عورتیں یہ سب ایک دوسرے کے رفیق ہیں۔ یہ سب مل کر نیکی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں۔

خلفائے راشدین کے عہد میں عورتوں کی سر گرمیاں صرف گھر کی چار دیواری تک محدود نہیں تھیں اس سلسلے میں صرف ایک مثال دینا کافی ہو گا جس سے یہ سمجھنے میں مدد ملے گی کہ اسلام کے درخشاں دور میں عورتیں بھی مردوں کی طرح سماج میں ایک افعال کردار ادا کرتی تھیں۔حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اپنے دور خلافت میں حضرت شفاء بنت عبد اللہ کو بازار کا نگراں مقرر کیا۔

قرآن کریم میں جابجا مختلف انبیاء و رسل کے واقعات اور ان کی حیات طیبہ کا ذکر موجود ہے۔ ان میں بعض واقعات عورتوں کے حوالہ سے بھی ہیں۔ ان واقعات کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ ان انبیاء کے زمانے میں عورتوں اور مردوں کے درمیان وہ آہنی پردہ نہیں تھا جسے دور حاضر کے مسلم معاشرہ نے کھینچ رکھا ہے۔ حضرت زکریا علیہ السلام پوری آزادی کے ساتھ گوشہ تنہائی میں بیٹھی مریم علیہ السلام کے پاس تشریف لے جاتے تھے اور ان گفتگو فرماتے تھے۔یہ واقعہ سورہ آل عمران میں موجود ہے حضرت سلیمان علیہ السلام سبا کی رانی کو اپنے یہاں دعوت دیتے ہیں اسے اپنے محل کی سیر کراتے ہیں اس سے مختلف موضوعات پر گفتگو کرتے ہیں سبا کی رانی حضرت سلیمان علیہ السلام کی عمدہ ضیافت اچھے اخلاق اور سیاسی رعب و دبدبہ دیکھ کر اسلام قبول کر لیتی ہے۔ یہ واقعہ سورہ نمل میں موجود ہے۔

یہ سارے واقعات اللہ کے برگزیدہ نبیوں کے ہیں اور چونکہ کہیں پر بھی اللہ نے یا اس کے رسول حضرت محمداللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان کے اس عمل پر تنقید نہیں کیا ہے اس لیے ان نبیوں کا عمل ہمارے لیے بھی مشعل راہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ جیسا کہ اللہ فرماتا ہے۔:اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ ہَدَى اللہُ فَبِہُدٰىہُمُ اقْتَدِہْ      ۭ (الانعام:90)

یہ وہ لوگ تھے جنھیں اللہ نے ہدایت عطا کی تھی تو تم بھی ان کی راہ ہدایت کی اتباع کرو۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ عورتوں اور مردوں کے درمیان اختلاط کوئی ناجائز اور گناہ کاکام نہیں ہے۔اسلام کسی ایسے معاشرہ کا تصور نہیں پیش کرتا جس میں مرد کسی اور وادی میں ہوں اور عورتیں کسی اور وادی میں۔ عورتوں کا دائرہ کار صرف گھر تک محدود ہواور مردوں کا دائرہ کار صرف گھر سے باہر ہو۔

مرد اور عورتیں دونوں معاشرے کا حصہ ہیں اور ان دونوں کو مل کر معاشرے کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنا ہے اس لیے یہ اختلاط نہ صرف یہ کہ جائز ہے بلکہ بسااوقات یہ اختلاط ضروری ہو جاتا ہے جب کسی عظیم مقصد کا حصول مقصود ہو یا کسی بھلائی اور نیک کام کی انجام دہی میں دونوں کی مشترکہ جدو جہد اور باہمی تعاون کی ضرورت ہو۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس اختلاط کی وجہ سے ان دونوں کے درمیان کی حدوں کو ختم کردیا جائے اور تمام شرعی قواعد و ضوابط کو فراموش کر دیا جائے۔ جیسا کہ مغربی ممالک یا غیر مسلم معاشرہ میں ہوتا ہے۔ مسلم معاشرہ میں مردوں اور عورتوں کو چاہیے کہ شریعت کی حدوں میں رہتے ہوئے معاشرہ کی فلاح و بہبود اور اس کی ترقی و اصلاح کی خاطر مل جل کر کام کریں اور ایک دوسرے سے تعاون کریں ضرورت اس بات کی ہے کہ قرآن و حدیث کی روشنی میں ان شرعی حدود کی وضاحت کردی جائے:

(1) مرد اور عورت دونوں غض بصرسے کام لیں۔ ایک دوسرے کی طرف شہوت کی نگاہ سے نہ دیکھیں ۔ اللہ کا ارشاد ہے:قُلْ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ يَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِہِمْ وَيَحْفَظُوْا فُرُوْجَہُمْ  ۭ (النور: 30)

مومن مردوں سے کہو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔

وَقُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ يَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِہِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوْجَہُنَّ۔ (النور: 31)”مومن عورتوں سے کہو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں۔ اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔

(2)عورت کے لیے ضروری ہے کہ وہ ساتر لباس میں ہو چہرہ اور ہتھیلی کے علاوہ بدن کے سارے اعضا ڈھکے ہوئے ہوں،لباس نہ تنگ ہو کہ جسم کے نشیب و فراز کا حال معلوم ہواور نہ باریک اور شفاف ہو کہ بدن نظر آئے اور سینے پر دوپٹہ ہو۔ اللہ نے فرمایا ہے:

وَلَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَہُنَّ اِلَّا مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِہِنَّ عَلٰي جُيُوْبِہِنَّ      ۠ (النور: 31)

اور یہ عورتیں اپنی زینت و زیبائش کو ظاہر نہ ہونے دیں سوائے اس کے جوخود بہ خود ظاہر ہو جائے۔ اور انھیں چاہیے کہ اپنے سینوں پر دوپٹہ ڈال لیں۔

عورتوں کو ساتر اور شریفانہ لباس پہننے کی ہدایت اس لیے ہے تاکہ وہ اپنے لباس سے مہذب شریف اور پر وقار نظر آئیں اور اوباش قسم کے لوگ چھیڑ خانی کی جرأت نہ کرسکیں۔ اللہ کا فرمان ہے:

ذٰلِكَ اَدْنٰٓى اَنْ يُّعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ    ۭ (الاحزاب:59)

اس طریقہ سے یہ عورتیں پہچان لی جائیں گی(یعنی نظر آئے گا کہ یہ شریف عورتیں ہیں) اور تنگ نہیں کی جائیں گی۔

(3) مردوں کے ساتھ معاملہ کرتے وقت عورتوں کے لیے ضروری ہے کہ اسلامی آداب(Islamic Manners)کا خیال رکھیں۔

(الف) گفتگو کا انداز شریفانہ ہو اور گفتگو اخلاقی حدود کے اندررہ کر کی جائے ۔ گفتگو میں ادائیں دکھانے اور ناز ونخرے کرنے کا انداز نہ ہو۔ اللہ کا حکم ہے:اِنِ اتَّــقَيْتُنَّ فَلَا تَخْـضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِيْ فِيْ قَلْبِہٖ مَرَضٌ وَّقُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا   ۚ  (الاحزاب:32)

اگر تم اللہ سے ڈرتی ہوتو بات کرنے میں نرمی اور گدازنہ پیدا کرو کہ دل کی خرابی میں مبتلا شخص تمھارے سلسلے میں کوئی لالچ کر بیٹھے اور بھلے طریقے سے بات کرو۔

(ب)ان کی چال ڈھال میں حیا اور وقار ہو۔ پھوہڑپن اور بےباکی نہ ہو۔ اللہ فرماتا ہے:وَلَا يَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِہِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِيْنَ مِنْ زِيْنَتِہِنَّ   ۭ (النور: 31)

اور اپنے پاؤں زمین پر مارتی ہوئی نہ چلا کریں کہ اپنی جو زینت انھوں نے چھپا رکھی ہے اس کا لوگوں کو علم ہو جائے۔

(ج)ایسی حرکتیں نہ کریں جن میں ناز وادا اور لبھانے والا انداز ہو۔ ایسا کرنے والیوں کی حدیث میں"ممیلات و مائلات" کہہ کر ان کی سرزنش کی گئی ہے۔

(4) ہر اس چیز سے اجتناب کریں جن میں مردوں کے لیے کشش ہو مثلاً تیز خوشبو یا شوخ رنگ کے کپڑےیا زیب وزینت وغیرہ۔

(5) تنہائی میں کسی مرد کے ساتھ نہ بیٹھیں اس طرح کہ ان دونوں کے علاوہ کوئی تیسرا نہ ہو ۔

(6) کوشش اس بات کی ہونی چاہیے کہ بلا ضرورت مردوں سے اختلاط نہ ہو۔ مردوں کے ساتھ زیادہ گھلنے ملنے سے لوگ عورتوں کے سلسلے میں باتیں بنانے لگتے ہیں اور انگلیاں اٹھاتے ہیں عورتوں کو چاہیے کہ لوگوں کو اس بات کا موقع نہ دیں کہ وہ ان پر شک کر سکیں۔

(علامہ یوسف القرضاوی)