مولانا امین احسن اصلاحیؒ

مصنف : صاحبزادہ ڈاکٹر انوار احمد بُگوی

سلسلہ : مشاہیر اسلام

شمارہ : دسمبر 2021

مولیٰنا امین احسن اصلاحیؒ
"زیر نظر مضمون ملک کے ایک انتہائی قدیم ، تحریک اسلامی کے نقیب اور اسلامی آئین کے زبردست پر چارک رسالے ماہنامہ " چراغ راہ" کراچی میں جولائی 1950 ع کے شمارے میں شائع ہوا تھا ۔ یہ مضمون تب لکھا گیا جب مولانا اصلاحیؒ جماعت اسلامی کے ایک مقتدر اور مرکزی رہنما تھے   ہندوستان میں ان کے والد ابھی زندہ تھے خاندان کی زرعی جائیداد کی دیکھ بھال وہ خود اور ان کے پوتے کر رہے تھے۔
اس مضمون کو لکھنے والے"ابن انوار" کون تھے؟ بظاہر یہ ایک تحقیق طلب معمہ ہے۔

مولانا اصلاحیؒ کے والد کا نام حافظ محمد مرتضیٰ بن وزیر علی ہے۔ مولانا 1904 ع میں پیدا ہوئے۔ مولانا کی پہلی شادی 1923 ع میں دوران تعلیم ہوئی ۔ پہلی اہلیہ کا نام رابعہ خاتون تھا۔ ان کے بطن سے دو بیٹیاں فخرالنساء اور شمس النساء اور تین بیٹے ابو صالح ،ابو سعید اور ابو سعد پیدا ہوئے۔پہلے دو نوں بیٹے پاکستان میںساتھ آگئے تھے۔ اب ایک ابو سعید لاہور میں ریٹائرڈ زندگی گزار رہے ہیں۔ آخری بیٹے ابو سعد ہندوستان میں رہ گئے تھے۔پہلی بیوی کے انتقال کے بعد دوسری شادی جالندھر کے چودہری عبدالرحمن مرحوم کی صاحبزادی سے ہوئی۔ ان کے بطن سے صرف ایک بیٹی مریم پیدا ہوئی۔ دوسری اہلیہ کا نام انوار رحمت بھی لکھا ہے " مکاتیب زندان" میں مولانا اصلاحی نے اپنی اہلیہ کو انوار اختر کے نام سے یاد کیا ہے۔ مولانا کی اولاد میں سے ابو صالح مرحوم ہی علم و ادب کی طرف آئے۔ ان کو اپنی ماں سے محبت بھی تھی جیسا مولانا کے خطوط سے ظاہر ہوتا ہے۔ چنانچہ اس تفصیل سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ مضمون نگار ۔"ابن انوار" کے نام سےغالباً مرحوم ابوصالح اصلاحی ہیں۔
یہ مضمون جماعت اسلامی اور مجلس شہداء اسلام کے ذی علم عہدے دار جناب سمیع اللہ بٹ کی محنت اور تلاش کا نتیجہ ہے۔ "(انوار بگوی)
یوپی کے ایک متوسط زمیندار گھرانے کا تصور کیجئے۔ تعلیم و تعلم سے بے بہرہ زمین سے چمٹا ہوا ،کدال اور پھاڑو ا جس کا اثاث البیت۔ پٹواری ، تحصلیدار اور تھا نیدار جس کے خدا یان مجازی، مقدمہ بازی اور جعل سازی جیسی طبقاتی خصوصیات۔ مولانا اصلاحی ضلع اعظم گڑھ کے اسی طرح کے ایک دیہاتی زمیندار گھرانے میں پیدا ہوئے۔عزت اور شہرت کے لحاظ سے اپنے علاقے کا ایک نامور گھرانہ۔۔لیکن علم و فضل سے بیگانہ ۔صرف دینی تعلیم کا کچھ چرچا۔ لیکن وہ بھی برائے نام اور انتہائی بے روح۔ البتہ صوم و صلوۃ کی پابندی اور قرآن سے ایک غائبانہ عشق اس خاندان کی خصوصیت ہے۔ عورت اور مرد یکساں جاہل اور ان پڑھ تھے۔ زمیندار کا یہ لڑکا جب پیدا ہوا تو اس کے دادا نے اس کے مستقبل کے متعلق اپنی جس عظیم کا خواہش کا اظہار کیا تھا وہ یہ تھی کہ ضلع کچہری میں اس کو کوئی ملازمت مل جائے۔ لیکن بوڑھے دادا کی اس خواہش پر قدرت مسکرارہی تھی اور دل ہی دل میں ہنس رہی تھی کہ بوڑھے نے خواہش بھی کی تو اتنی معمولی۔ اور کیسے بے ذوق لوگ ہیںکہ جس کو مقام رشد و ہدایت پر فائزہونا ہے اس کو ضلع کچہر ی کے تیرہ و تاریک اور برطانوی نظام عدالت کی کرم خوردہ کرسی پر بٹھانا چاہتے ہیںجس پر بیٹھ کر ایک انسان اپنے ضمیر، انسانیت، شرافت اور غیرت کا سودا کرتا ہے اور ایک فاحشہ عورت کی طرح اپنے آپ کو بیچتا ہے- 
مولانا اصلاحی کا سن پیدائش غالباً1906 ع ہے۔ ان کے والد محترم جو ماشاءاللہ اب تک بقید حیات ہیں اور نہایت متقی اور پر ہیز گار بزرگ ہیںکا نام مرتضیٰ احمد ہے- جو حا فظ قرآن بھی ہیں اور حج بیت اللہ سے بھی مشرف ہو چکے ہیں۔ مولانا اعظم گڑھ سے چار میل کے فاصلے پر دریائے ٹونس کے کنارے ایک گائوں " بمہور" میں پیدا ہوئے۔
یہ گائوں غدر1857 ع میں تحریک آزادی کا مرکز بھی رہ چکا ہے۔ اعظم گڑھ کے نواح میں انگریزی استبداد کو قتل کرنے کی جو منظم تحریک چلی تھی یہ گائوں اس تحریک کا قائد تھا اور اس نے اپنی انگریز دشمنی کی روایات کو ہندوستان کی آزادی تک قائم رکھا۔ مولانا اصلاحی اس گائوں کے سب سے بڑے زمیندار گھرانے کے ایک رکن ہیں جو اب مادی اور تعلیمی لحاظ سے اپنے علاقہ کا سب سے با اثر گھراناہے۔مولانا کی والدہ ایک ا ن پڑھ خاتون تھی۔انہوں نے بڑے لاڈ پیار میں اپنے اس ہونہار بچے کی تربیت کی۔ اللہ ان کی قبر کو ٹھنڈا رکھے (درست1904 والد:محمد مرتضیٰ(بحوالہ ذکر فراہی)
 کہ ان کی کوکھ میں ایک ایسے بچے نے پرورش پائی جس سے اسلام کو بڑی توقعات وابستہ ہیں۔ مولانا کے دو بھائی اور تین بہنیں ہیں۔جو عمر میں ان سے چھوٹے ہیں۔ ان میں مشیر احسن اصلاحی قابل ذکر ہیں۔مولانا نے ابتدائی تعلیم گائوں کے مکتب میں حاصل کی ۔ابھی وہ گائوں کے اسکول میں زیر تعلیم ہی تھے کہ اعظم گڑھ کے ایک مشہور قصبہ سرائے میرمیں مدرستہ الاصلاح قائم ہوا جس کے صدر مدرس مولانا شبلی متکلم مقرر ہوئے جو مولانا کے ہم قریہ تھے۔ وہ مولانا کے والد سے بڑی محبت کرتے تھے۔ ایک دن انہوں نے مولانا اصلاحی کے والد سے اپنی خواہش کا
 ا ظہار کیاکہ امین احسن نہایت ذہین بچہ ہے۔ اس کو میرے پاس مدرستہ الاصلاح بھیج دیجئے۔ میں اس کی تعلیم و تربیت کا انتظام اپنی نگرانی میں کروں گا۔ حافظ صاحب نے مولانا کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے انہیں مدرستہ الاصلاح میں داخل کرا دیاجہاں انہوں نے عربی اور فارسی علوم کی تحصیل کی۔
مدرستہ الاصلاح:
مولانا اصلاحی اور مدرستہ الاصلاح ایک جسم کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ ان کی سوانح حیات پر اس وقت تک تبصرہ مکمل نہیں ہو سکتا ۔ جب تک کہ مدرستہ الاصلاح کے متعلق مختصر طورپر قارئین کو کچھ نہ بتایا جائے۔ مدرستہ الاصلاح کی بنیاد مولانا شبلی نعمانی مرحوم نے رکھی تھی۔ علامہ شبلی نعمانی مر حوم جب ندوۃالعلماء کے اصلاح احوال سے مایوس ہو گئے اور انہیں یقین ہو گیا کہ رجعت پسند مولوی ان کی روشن خیالی اور اصلاح نصاب کی تحریک کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ تو انہیں خیال ہوا کہ اب ایک ایسی درسگاہ قائم کرنا چاہیے جو ان کے تصورات کے عین مطابق ہو۔ چونکہ ان کو اپنے وطن سے بہت محبت تھی۔ اس لئے وہ اس درسگاہ کو ضلع اعظم گڑھ ہی میں قائم کرنا چاہتے تھے۔ چنانچہ اس درسگاہ کے لئے انہوں نے " سرائے میر" کو منتخب کیا۔ اور یہیں مدرستہ الاصلاح کی بنیاد رکھی گئی۔ مولانا شبلی نعمانی ا س مدرسہ کے اغراض و مقاصد کے متعلق اپنے ایک خط میں لکھتے ہیںکہ " میں اس کو ضلع کی تعلیمی اور معاشرتی اصلاح کے لئے ایک گروکل کی حیثیت دینا چاہتا ہوں۔ اور میرا مقصد ایسے مبلغین کی تیاری ہے جو مسلمانوں کو بتا سکیں کہ اسلام کیا ہے۔"
 مولانا شبلی کے فیض اور خلوص نے اثر کیا اور مدرستہ الاصلاح نے وہ ترقی کہ ندوۃالعلماء اور دیوبند کے چراغ گل ہونے لگے۔ یہاں سے جدید و قدیم علوم کے ایسے ایسے عالم دین پیدا ہوئے جنہوں نے اسلام اور مسلمانوں کی بڑی خدمت کی۔ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ مولانا شبلی کی تمام روحانی یاد گاروں میں مدرستہ الاصلاح ہی وہ واحد یاد گار ہے جس نے ان کے منشاء کے مطابق یوپی اور اعظم گڑھ کے عوام کی نہایت شاندار خدمات انجام دیں۔ہزاروں گھروں میں خدا کے کلام اور اسلام کی تعلیمات کا چرچاکر دیا۔مولانا اصلاحی نے اس مدرسے میں اسلامی علوم کی تحصیل کی اور یہیں ان کی صلاحیتوں کو نشوونما پانے کا موقع ملا۔ اس مدرسے کا ماحول نہایت علمی اور سنجیدہ تھا۔ وقت کے روشن خیال علما ء کا اجتماع تھا۔ زمین زرخیز تھی۔ صلاحتیں وافر تھیں۔ اسی ماحول میں مولانا اصلاحی نے اپنی زندگی کے چند قیمتی سال بسر کئے۔ یہیں انہوں نے تحریر و تقریر کی مشق کی۔ ابھی وہ طالب علم ہی تھے کہ اخبار مدینہ بجنورجو یوپی کا ایک نہایت بلند پایہ اخبار تھا اس کی ادارت انہیں پیش کی گئی۔ اس وقت مولانا کی عمر بیس سال سے کم تھی۔ لیکن ان کی تحریر اور ان کےاسلوب میں بڑی پختگی تھی۔ وہ وقت کے مقبول انداز تحریر لکھنے پر پوری طرح حاوی تھے جسے مولانا آزاد نے ایجاد کیا تھا اور جس میں خطابت کا رنگ غالب ہونا تھا۔ 
ایک فلاحی تنظیم اصلاح المسلمین کی بنیاد مولوی محمد شفیع خان مر حوم نے 1906 ع میں رکھی تھی۔ (حیات شبلی) وہ ایک جید عالم دین، مخلص داعی اور رہبر قوم بھی تھے۔ مولانا حمید الدین جب حیدر آباد سے رخصت ہو کر اعظم گڑھ آئے تو آپ نے 1910 ع میں مدرستہ الاصلاح کی نگرانی قبول کی۔ اس مدرسے کو شروع دن سے علامہ شبلی ، نعمانی کی سر پرستی حاصل تھی۔
 اصلاحی کی علمی اور ادبی صلاحیتوں کا یہ پہلا اعتراف تھا۔مولانا چار سال تک مدینہ کے ایڈیٹر رہے۔ لیکن کام کی زیادتی نے ان کی صحت کا ستیاناس کر دیا ۔ انہیں مجبوراً مدینہ کی ادارت سے استعفاء دینا پڑا اور وہ لکھنو چلے آئے۔ اور مشہور اخبار" الناظر" کے ادارہ تحریر میں شامل ہو گئے۔اس اخبار میں ملک کے دو صاحب طرز ادیب پہلے سے موجود تھے یعنی مولانا ظفر الملک علوی اور مولانا عبدالماجد دریابادی۔ ان دونوں بزرگوں کے ساتھ کام کرنے اور ان کے ساتھ رہنے کی وجہ سے مولانا کے فکر و قلم میں بڑی پختگی پیدا ہو گئی۔ تقریباً ایک سال کے بعد مولانا نے بعض وجوہ کی بناء پر " الناظر" کو بھی چھوڑ دیا اور گھر تشریف لائے۔
مولانا اصلاحی کے اساتذہ میں جن بزرگوں نے ان کی صلاحیتوں کو جلا دینے میں محنت کی ان میں مولانا عبدالرحمان صاحب نگرامی ایک مشہور اور فاضل بزرگ تھے جو اردو اور عربی کے ایک شگفتہ بیان ادیب اور مقرر تھے۔ مولانا اصلاحی فرمایا کرتے ہیں کہ لکھنے پڑھنے میںحقیقی فائدہ انہیں مولانا نگرامی مرحوم ہی سے پہنچا جو ایک شفیق اور محبت کرنے والے استاد تھے۔
" الناظر" کے بعد مولانا اصلاحی مشہور اہل حدیث عالم اور شارح ترمذی مولانا عبدالرحمان مبارک پوری سے حدیث کا درس لینے لگے ۔ مولانا عبدالرحمان مبارک  پوری کا علم حدیث میں بڑا اونچا مرتبہ تھا۔ اپنے وقت میں ان سے بڑا کوئی محدث ہندوستان میں موجود نہیںتھا۔ دور دور سے شائقین حدیث نبوی ان سے کسب فیض کے لئے آیا کرتے تھے اور مولانابے مزد ان کو رسول کا کلام پڑھاتے تھے۔ مولانا اصلاحی کے والد سے مولانا مبارک پوری کے بڑے گہرے تعلقات تھے۔ چنانچہ یہی تعلق مولانا اصلاحی کو مولانا کی خدمت میں لے گیا اور انہوں نے حدیث کی تدریس کی۔ مولانامبارک پوری سے حدیث کی تعلیم کے دوران میں انہیں اطلاع ملی کہ مشہور مفسر قرآن مولانا حمید الدین فراہی حیدرآباد کے مدرستہ العلوم ( حال عثمانیہ یونیورسٹی) کی پرنسپلی سے استعفادے کر اپنے وطن مالوف پھر یا واپس تشریف لے آ رہے ہیں۔ مولانا اصلاحی کو قرآن سے چونکہ عشق تھا اس لئے وہ حدیث کا درس مکمل کئے بغیر مولانا فراہی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کیسے حاضر ہوئے کہ مولانا کی وفات تک دن رات کے خادم رہے۔
مولانا فراہیؒ:
مولانا حمید الدین فراہی بر عظیم ہند کے اسلامی اور جدید علوم کے ایک نہایت حکیم اور فاضل بزرگ گزرے ہیں ۔ خاص کر قرآنی علوم میں پچھلے ڈیڑھ سو سال میں ان سے بڑا مفسر نہیں پیدا ہوا۔ وہ علی گڑھ کے گریجویٹ تھے۔ عربی، فارسی ، انگریزی اور لاطینی زبانوں کے لکھنے پڑھنے پر ماہرانہ قادر تھے۔ مولانا فراہی ،مولانا شبلی نعمانی کے پھوپھی زاد بھائی اور ان کے شاگرد بھی تھے۔ مولانا شبلی ان کی قابلیت اور لیاقت کے نہ صرف معترف بلکہ مداح تھے۔ مولانا فراہی کے اساتذہ میں مولانا  شبلی نعمانی ، شارح حماسہ مولانا فیض الحسن سہارنپوری، مولانا فاروق چریا کوٹی جیسے فاضل بزرگ اور عالم دین شامل تھے۔ مولانا فراہی علی گڑھ میں زیر تعلیم ہی تھے کہ سر سیّد کی نگاہ مروم شناس نے تاڑ لیا کہ یہ نہایت صاحب صلاحیت انسان ہیں۔ چنانچہ مرحوم سید نے مولا نا شبلی کی معرفت خواہش ظاہر کی کہ مولانا حمید الدین ان کی تفسیر کا عربی میں ترجمہ کر دیں۔ جب مولانا شبلی نے اس کا ذکر ان سے کیا تو مولانا فراہی نے فرمایا کہ ، "میں سر سید کی گمراہ کن تفسیر کا عربی میں ترجمہ کرنا تعاون علی الاثم سمجھتا ہوں ۔ سر سید کو مجھ سے ایسی توقع نہ رکھنی چاہیے۔ــ"
روایت ہے کہ سر سید کو اس جواب سے بہت صدمہ پہنچا اور مرتے دم تک انہوں نے مولانا حمید الدین کو معاف نہیں کیا۔
مولانا نے قرآن کے علوم و تفسیر پر متعدد کتابیں عربی میں تصنیف فرمائی ہیں۔ کچھ سورتوں کی تفسیریں بھی لکھی ہیں۔ زیادہ تریہ کتابیں قرآن فہمی کے بنیادی اصولوں پر مبنی ہیں۔ مولانا فراہی کوقدرت نے کلام الہی کے اسرارو رموز تک پہنچنے کا جو خاص ملکہ و دیعت فرمایا تھا اس کا اعتراف اس عہد کے تمام سنجیدہ بزرگ کرتے ہیں ۔ مولانا اصلاحی انہی مولانا فراہی کے خاص الخاص شاگرد ہیں۔مولانا اصلاحی نے مولانا فراہی کی بیشتر عربی تفسیروں کو اردومیں منتقل کیا اور ان کی عربی تصانیف کو ایڈٹ کیا ۔مولانا سید سیلمان نے مولانا فراہی کی وفات پر  ماہنامہ معارف میں جو اشارات لکھے ہیں ان میں فرماتے ہیں کہ مولانا حمید الدین نے علم و فضل اور قرآن حکیم کے جو رموز و اسرار چھوڑے ہیں ان کے حامل ان کے دو شاگرد مولانا امین احسن اصلاحی اور مولانا اختر احسن اصلاحی ہیں۔ـ"
مولانا فراہی کے انتقال کے بعد مولانا امین احسن اصلاحی مستقل طور پر مدرستہ الاصلاح میں قیام کرنے لگے اور محنتی طلبا کو قرآن حکیم کا درس دیتے رہے۔ اور بقیہ اوقات میں مولانا فراہی کے مسودات کی تبیض اور ان کو ایڈٹ کرتے۔ نیز ان کی شائع شدہ عربی مطبوعات کو اردو کا جامہ پہناتے۔ مولانا فراہی کی تصانیف حزم و احتیاط کے ساتھ مولانا اصلاحی اپنے رفیق کار مولانا اختراحسن کی امداد سے اردو میں منتقل کرتے۔ وہ مولانا فراہی کا شاندار تفسیری کارنامہ ہے اور واقعہ یہ ہے کہ ان کی کتابوں نے قرآن پر غور فکر کے طریقے بدل دیئے۔ اور ہزاروں تشنگان قرآن نے ان تفسیری کتابچوں کی مدد اور رہنمائی سے قرآن فہمی کے اصول اور راستے سیکھے۔
مدرستہ الاصلاح پہلا تعلیمی ادارہ تھاجو صرف عربی علوم کی تحصیل کے لئے نہیں قائم کیا گیا تھا۔اس کے پیش نظر یہ عظیم مقصد تھا کہ براعظم ہند میں ایک ایسا اسلامی انقلاب برپا ہو جو اس ملک کی حالت بدل دے ۔ چنانچہ عربی مدارس میں یہ پہلا مدرسہ تھا۔ جس میں قرآن کو زندگی کے لئے ایک پروگرام کی حیثیت سے پیش کیا گیا۔ اور دنیا کو بتایا کہ عربی علوم کی تحصیل کا مقصد مسجدوں کے لئے امام تیار نہیں کرنا ہے بلکہ ایسے افراد کو تشکیل کرنا ہے جو اسلامی انقلاب کی قیادت کر سکیں۔ اس عظیم مقصد کے پیش نظر مروجہ تعلیمی اور تدریسی نظام میں تبدیلیاں پیدا کی گئیں ‘جمود اور فرسودگی کو ختم کیا گیا جو کئی سو سالوں سے عربی مدارس کی خصوصیات میں داخل تھیں مدرستہ الاصلاح کے طلباء کے سامنے قرآن اس شکل میں پیش کیا گیا کہ وہ اپنی اجتماعی اور انفرادی زندگی کے لئے اس سے پروگرام حاصل کریں۔ انہیں معلوم ہو کہ قرآن انسانی زندگی کے لئے کن تبدیلیوں کا تقاضا کرتا ہے۔ وہ تمدن اور سیاست کی گاڑی کس طرح چلانے کا حکم دیتا ہے۔ مدرستہ الاصلاح کا پیغام تھا کہ مسلمانان ہند اپنی پوری زندگی پر نظر ثانی کریں اور اس انقلاب کو برپا کریں جو اس ملک کی اجتماعی زندگی میں اسلام کے نقوش کو اجاگر کر دے۔ مولانا حمید الدین فراہی مرحوم کی یہی خواہش تھی اور وہ اپنے اس مقدس آرزو کو لے کر اپنے خدا کے پاس پہنچ گئے۔ گو ان کی خواہش نے ان کے زمانے میں عملی صورت اختیار نہیں کی لیکن خدا کو اپنے اس نیک بندے کی خواہش منظور تھی ۔ چنانچہ 1941 ع میں تحریک اسلامی کا قیام مولانا سیّد ابو الاعلیٰ مودودی کی  لیڈر شپ میںعمل میں آیا۔ اور" اصلاحیوں" نے اس منظم اسلامی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اور آج خدا کے فضل سے پورا مدرستہ الاصلاح تحریک اسلامی ہند کے ڈسپوزل پر ہے- یہ واضح رہے کہ حضرت مولانا مودودیؒ بھی مولانا فراہیؒ کے شاگرد ہیں۔ انہوں نے حیدر آباد میں مولانا سے عربی کے اسباق پڑھے ہیں۔
مدرستہ الاصلاح مولانا اصلاحی کی رہنمائی میں ایک مدت تک قرآن اور اسلام کی خدمت کرتا رہا۔ یہاں تک مولانا 1945 ع میں تحریک اسلامی کے(نئے قائم کردہ) مرکز دار الاسلام پٹھان کوٹ منتقل ہو گئے۔ جب تحریک اسلامی تقسیم ملک کے بعد دو جدا گانہ حصوںمیں تقسیم ہو گئی تو مولانا پاکستان کے حصے میں آگئے اور آج تک پاکستان میں ہیں۔
مولانا فراہی کے تفسیری کتابچےo جمہرۃ البلاغہ( عربی)1905 عo اقسام القران(عربی)1906 عo مفردات القران(عربی) oدلائل النظام(عربی)o التکمیل فی اصول التاویل(عربی)o اسالیب القرآن(عربی)o فی ملکوت اللہ(عربی)ترجمہ قرآن(اردو)o عربی تفسیر سورہ الالہب ۔ قیامہ۔ الکافرونo التحریم۔ الشمس۔والعصر، عبسo الذاریات۔ التین۔ اخلاص۔کوثرo المرسلات۔ الفیل، فاتحہ۔ بسم اللہ، فاتحہ تفسیر، نظام القرآن(بحوالہ ذکرفراہی از ڈاکٹر شرف الدین اصلاحی)    ٭    بحوالہ ذکر فراہی از ڈاکٹر شرف الدین اصلاحی ص9 سے
مدرستہ الاصلاح المسلمین کا سنگ بنیاد دیو بند کے ممتاز استاد مولانا سیّد میاں اصغر حسین دیو بندی شاگرد شیخ الہند مولانا محمود حسن نے 1327 ھ میں رکھا۔( ذکر فراہی)
٭    بحوالہ ذکر فراہی: مولانا مودودی جب دارالعلوم حیدر آباد کی ابتدائی کلاسوں کے طالب علم تھے انہیں مولانا فراہی کے عربی ادب کے اسباق میںشرکت کا شرف حاصل ہوا۔
الاصلاح:
  مولانا اصلاحیؒ نے اسلامی افکار و نظریات اور مولانا فراہیؒ کی قرآنی تعلیمات کی اشاعت کے لئے 1939 ع میں " الاصلاح" نام کا ایک ما ہوار رسالہ دائرہ حمیدیہ  مدرستہ الاصلاح کی طرف سے نکالا جو کئی سالوں تک نکلتا رہا۔ یہ رسالہ اپنے وقت کے موقررسالوں میں تھا۔ اور اسلامی فکر کی اشاعت میں اس نے بہت نمایاں حصہ ادا کیا ہے۔ یہی دور تھا جب حیدرآباد سے مولانا مودودی ایداللہ بنصرہٖ اپنے رسالہ" ترجمان القرآن" کے ذریعہ برعظیم ہند سے اس تاریکی کو دور کرنے کی جدوجہد فرما رہے تھے جو مختلف سیاسی تحریکوں ، مذہبی گروہوں اور مغربی تہذیب و تمدن کے علمبرداروں نے مسلمانوں پر مسلط کر دی تھی ۔ مولانا مودودی بیک وقت ان تمام سیاسی، معاشی اور معاشرتی فتنوں سے نبرد آزما تھے جو مسلمانوں کی اجتماعی حیات کو کفر اور لادینی کے ذریعہ پارہ پارہ کرنا چاہتے تھے۔ یہ وقت بڑا نازک تھا۔ کانگریس کی متحدہ قومیت مسلمان نوجوانوں کو کفر کی طرف دھکیل رہی تھی۔ وطن کے نام پر اسلام کو قربان کیا جارہا تھا۔ بڑے بڑے علماء اسلام کی قربانی میں ہندو قوم پرستی کے ممدومعاون تھے۔ دوسری طرف عقلیت اور ریشنلزم کی نام نہاد تحریک مسلمانوں کوبے دین بنانے کی جدوجہد کر رہی تھی۔ اور مسلمانوں کو تعلیم دے رہی تھی کہ اسلام آج کی مہذب زندگی کا مذہب نہیں ہو سکتا، سائینس نے مذہب کے بطلان کو ثابت کر دیا ہے۔ تیسری طرف مسلم معاشرت میں تبدیلیوں کے خواہش مند(مغرب زدگان) عورتوں کو بتا رہے تھے کہ وہ پردہ اور حجاب کی" لعنت"ترک کر دیں اور یورپی عورتوں کی طرح آزادانہ زندگی بسر کریں۔ چوتھی طرف اسلام کے دشمن دین کی راہ سے مسلمانوں کو تعلیم دے رہے تھے کہ وہ حدیث کا نکار کر دیں کیونکہ رسول کی زندگی اور اس کے اقوال سند نہیں ہیں۔ حدیث کا موجودہ ذخیرہ من گھڑت ہے۔ مولانا مودودی بیک وقت ان تمام فتنوں کا مقابلہ کر رہے تھے اور ان مقاصد کے استیصال میں مولانا اصلاحی کا الاصلاح ان کا معاون تھا۔ ترجمان القرآن نے الحاد اور لادینیت کے سیلاب پر جس پا مردی اور اسلامی بصیرت سے بند باندھا ہے واقعہ یہ ہے کہ اس کی اتنی بڑی اسلامی خدمت ہے کہ پوری ملت اسلامی اس کی مشکور ہے۔ ہزارہا نوجونوں کو لادین ہونے سے بچانے کا سہرا ترجمان القرآن کے سر ہے۔ اسلامی ہند کی جب دینی تاریخ لکھی جائے گی تو ایک مستقل باب ترجمان القرآن کے لئے مخصوص ہو گا۔ اور آج " اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے'" کی جو آواز ہم کو گلی کوچے میں بلند ہوتی نظر آرہی ہے۔ یہ وہ آواز ہے جو 1933 ع میں مولانا مودودی نے لگائی تھی اور اس وقت گنتی کے چند انسان تھے جو اس آواز کے متفق تھے۔ مولانا اصلاحی انہیں چند لوگوں میں سے ہیں۔
مولانا اصلاحی اور مولانا مودودی کا اختلاف:
مولانا مودودوی اور مولانا اصلاحی کے مابین ایک زمانہ میں ایک جزوی مسئلہ پر اختلاف رائے ہو گیا تھا اور یہ اختلاف ایک غلط فہمی پر مبنی تھا۔ واقعہ یہ ہے کہ مولانا مودودی جب "سیاسی کشمکش اور مسلمانان ہند" لکھ رہے تھے اور جمعیتہ علمائے ہند اور کانگریس کے معاشی، سیاسی اور عمرانی نظریات پر سخت نکتہ چینی کر رہے تھے تو مولانا اصلاحی کو شبہ پیدا ہوا کہ مولانا مودودی وطنی نیشلزم اور متحدہ قومیت کے تو مخالف ہیں لیکن مسلم قوم پرستی کے حامی ہیں۔ اور وہ مسلمانوں کا کیس اصولی نکتہ نظر سے نہیں بلکہ قومی بالا دستی کے پیش نظر لڑ رہے ہیں۔ مولانا اصلاحی کا کہنا یہ تھا کہ جس طرح وطنی نیشلزم مردودہے بعینہ اسی طرح مسلم قوم پرستی بھی ایک غیر اسلامی نقطہ نظر ہے۔اس لئے ہمیں صرف اس اصولی قومیت کی حمایت کرنا چاہیے جس پر ہماری ملت کی شیرازہ بندی کا دارومدا ر ہے۔ مولانا اصلاحی کا خیال تھا کہ جس طرح ایک وطن کو ہم بت نہیں بنا سکتے اس طرح اس قومیت کو بھی بت نہیں بنا سکتےکہ ہر مسلمان گھر میں پیدا ہونے والامسلمان ہے چاہے اس کے سیاسی ، معاشی اور عمرانی عقائد اعلانیہ اسلام کے مخالف ہوں ۔ مولانا مودودی فرما رہے تھے کہ میں ایک ترتیب سے چل رہا ہوں اور یکے بعد دیگرے حسب مراتب تمام جاہلیتوں کو زیر بحث لائوں گا۔ چنانچہ مولانا مودودی  نے اسی ترتیب سے " مسلمان اورسیاسی کشمکش"  کے تینوں حصے لکھے۔ پہلے حصے میں جمیعت علما ء پر، دوسرے حصے میں کانگریس پر اور تیسرے حصے میں مسلم لیگ پر تنقید کی گئی۔ جب مولانا اصلاحی صاحب کو یقین ہو گیا کہ مولانا مودودی صاحب مسلم قوم پرستی کے حامی نہیں ہیں تو ان کے مابین اختلافات ختم ہو گئے اور ایک وقت آیا کہ جب مولانا مودودی نے تحریک اسلامی کے لئے اپنے دوستوں کو پکارا تو مو لانا اصلاحی السابقوں الاولون میں تھے اور آج تک اس تحریک کے ساتھ ہیں۔
مولانا کے نظریات:
مولانا اصلاحی تحریک اسلامی  کے قیام سے پہلے بھی اسلام ہی کے ذریعہ مسلمانوں کی سر بلندی چاہتے تھے اور وہ انگریز کے اخراج کے لئے ہندو مسلم تعاون کے قائل تھے۔ لیکن اس مقصد کے لئے خود اسلام کی قربانی دینا انہیں کبھی گوارا نہیں تھا۔ انہیں ہندوستان کے سیاسی پارٹیوں کے افکار و نظریات سے ہمیشہ اختلاف رہا۔ وہ متحدہ قومیت کے تو کبھی حامی نہیںرہے اور نہ انہیں مسلم قوم پرستی نے کبھی اپیل کیا۔ وہ مسلمانوں کو صرف اس معنیٰ میںایک قوم کہتے تھے کہ جو شخص اسلام کو بحیثیت نظریہ زندگی تسلیم کرتا ہے اور اس کے مطابق اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کی منصوبہ بندی کرتا ہے وہ ملت اسلامیہ کا ایک رکن ہے۔ وہ اسلامی اصولوں میں کسی قسم کی رواداری اور مداہنت کے قائل نہیں تھے۔ چنانچہ مجھے یادہے کہ صوبہ بہار کے ایک مشہور معروف قصبہ میں حضور نبی کریم ﷺ کی سیرت کا ایک جلسہ تھا اور جس کی صدارت بھارت کے موجودہ صدر ڈاکٹر راجندر پرشاد  فرمارہے تھے۔ اس جلسے میں تقریر کرنے والوں میں ہندو اور مسلمان دونوں قوموں کے بڑے بڑے لیڈر تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنے خطبہ صدارت میں کانگریس کے نظریہ متحدہ قومیت کی تبلیغ شروع کر دی اور قرآن سے ثابت کرنے لگے کہ اسلام پر ایمان لانا ضروری نہیں ہے  ہر مذہب سچا ہے کسی ایک نبی پر ایمان لانا کافی ہے ۔ مولانا اصلاحی نے اس بھرے مجمع میں ڈاکٹر صاحب کی تردید کر دی اور نہایت سخت الفاظ میں فرمایا کہ اسلام کے نزدیک وہ کافر اور مشرک ہیں جو اسلام پر اور خدا کے آخری نبی حضرت محمد رسول اللہ پر ایمان نہیں لاتے  اور ان کو ہم ایک جدا گانہ قوم سمجھتے ہیں جو عقائد اور نظریات میں اسلامی اصولوں کو نہیں تسلیم کرتے۔
موجودہ وقت میں تمام مذاہب کی سچائی کا فتنہ در حقیقت مولانا ابوالکلام آزاد کا پیدا کردہ ہے جنہوںنے ہندوئوں اور مسلمانوں کے باہمی اشتراک کی خاطر قرآن کے ایک بنیادی اصول میں تحریف کی۔ ہم مولاناآزاد کی علمی اور ذہنی برتری کا انتہائی احترام کرنے کے باوجود اس (وحدت ادیان) کو ایک کھلی گمراہی تصور کرتے ہیں۔ اور ان کی جسارت کو تحریف دین گردانتے ہیں۔
 اس طرح کا ایک دوسرا واقعہ ہے کہ جس زمانے میں بھارت کے سابق گورنر راج گوپال اچاریہ کانگریس کے جنرل سیکرٹری تھے ،انہوں نے اپنے ایک بیان میں کہہ دیا کہ جو لوگ گاندھی جی کے مابعد الطبیعاتی سیاسی اور معاشرتی نظریات کو تسلیم نہیں کرتے وہ نہ سچے کانگریسی ہیں اور نہ ان کے لئے کانگریس میں کوئی جگہ ہے۔ اس بیان کے خلاف سب سے پہلی آواز مولانا اصلاحی نے بلند کی۔ مولانا نے ان تمام مسلمانوں کو دعوت فکر دی جو کانگریس میں اس لئے شامل تھے کہ انگریزی استبداد کو ہندوستان سے نکال باہر کریں ۔ انہوں نے علماء کو للکارا کہ جنرل سیکرٹری کے اس بیان کے بعد ان کی پوزیشن کیا ہے۔ چنانچہ اس کا اثریہ ہوا کہ راج گوپال اچاریہ کو اپنا بیان واپس لینا پڑا اور کانگر یس پارٹی کی ہائی کمان نے مسلمانوں کو یقین دلایا کہ ان کا گاندھی جی پر ایمان لانا ضروری نہیں ہے۔
مولانا اصلاحی کا فکر ہمیشہ سے سلجھا ہوا تھا اور صحت فکر کی یہ نعمت انہیں مولانا فراہی سے حاصل ہوئی۔ مولانا فراہی ان علمائے دین میں تھے جو مسلمانوں کی اجتماعی تنظیم اسلامی اصولوںکے مطابق دیکھنا چاہتے تھے۔ چنانچہ اس مقصد کے لئے انہوں نے مولانا محمد علی جوہر ، مولانا ابوالکلام آزاد اور حکیم اجمل خاں مرحوم یہ تینوں مولانا حمید الدین کے بڑے مداح اور معتقد تھے،کو متعدد مرتبہ دعوت دی کہ یہ لوگ مسلمانوں کوخالص اسلامی اصولوں پر منظم کریں لیکن روایت ہے کہ تینوں لیڈروں نے راہ کی مشکلات کا رونا رو کر مولانا فراہی کی بات ٹال دی اور حسب دستور مسلمانوں کو وطنی اور قومی تحریکوں میں گھسیٹے رکھا۔ مولانا محمد علی جوہر اپنے آخری ایام میں اس بات پر آمادہ ہو گئے تھے لیکن موت نے ان کے رشتہ حیات کا خاتمہ کر دیااور وہ بھی یہ خواہش لے کر جوار رحمت میں پہنچ گئے۔
مطالعہ اور طرز تحریر:
مولانا اصلاحی جدید و قدیم علوم کے مجمع البحرین ہیں ۔ ان کا مطالعہ اور ان کی تحقیقات نہایت ٹھوس ہیں ۔ مولانا اردو کے ایک انشاء پرواز اور شگفتہ بیان ادیب اور مقرر ہیں۔ ان کی تحریر میں رس، زندگی، بانکپن، اور تشبیہات کا بڑا اچھوتا امتزاج ملتا ہے ۔ ان کے ابتدائی دور کی تحریروں میں خطابت کا رنگ غالب ہے۔ وہ بائبل کے انداز میں بھی خوب لکھتے ہیں۔ مولانا اصلاحی نے18 برس کی عمر سے باقاعدہ لکھنا شروع کر دیا ۔ راقم الحروف نے ان کے بچپن کی بعض تحریریں دیکھی ہیں۔ جن میں ادب اور انشاء کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ عمر کے ساتھ ساتھ ادب پر بھی بڑھا پا طاری ہو جاتا ہے میں اس کو تسلیم نہیں کرتا۔ ہاں البتہ اتنا ضرور مانتا ہوں کہ پختگی ادب، عمر کی پختگی کا ردعمل ہے لیکن انشاء اور شادابی ہر دور میں ادیب کے ساتھ ہوتی ہے۔ مولانا اصلاحی گو تحریک کے تقاضوں کے مطابق لکھتے ہیں اور ان کے ادب کا مزاج پہلے جیسا نہیں رہا لیکن پھر بھی ان کی تحریر کی جو خصوصیت پہلے دن تھی وہ آج بھی باقی ہے۔ یعنی پختگی اور شادابی ۔ انشاء اور ادب لطیف کا امتزاج ۔ چونکہ اس وقت میرے سامنے وہ تحریریں نہیں ہیں اس لئے میں انہیں نقل نہیں کر سکتا۔ انشاء اللہ پھر کبھی انہیں پیش کیا جائے گا۔
مولانا زندگی کے ہر معاملہ میں جس طرح انتہائی ستھرے انسان ہیں اس طرح مطالعہ میں بھی وہ اول درجے سے نیچے نہیں اترتے۔ وہ مطالعہ کے بہت شوقین ہیں لیکن منتخب کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں ۔ان کے پسندیدہ مصنفین میں علامہ ابن تیمیہ، حافظ ابن قیم ، حضرت شاہ ولی اللہ، مولانا حمید الدین فراہی اور حضرت شاہ اسمعیل شہید قابل ذکرہیں۔ یوں تو تاریخ اسلام کے اکثر و بیشتر فلاسفہ، متکلمین، مورخین اور ادیبوں کو مولانا نے اچھی طرح کھنگالا ہے۔ لیکن مذکورہ ،متکلمین اسلام سے ان کی دلچسپی اس لئے زیادہ ہے کہ انہوں نے اسلام کو دنیا کے سامنے بحیثیت ایک نظام حیات کے پیش کیا اور یونانی اور ایرانی افکار سے آزاد ہو کر اسلام پر سوچا۔ مغربی مفکرین میں انہیں ایچ جی ویلز، جوڈ، بر ٹنڈ رسل، ٹالسٹالی، بلنچلی ، ہیگل اور روسو بہت پسند ہیں۔
مولانا کے تراجم اور تصانیف:
مولاناکی سب سے پہلی کتاب ایک عربی ناول کا ترجمہ " ہندوستانی جاسوس" ہے جس میں ایک ہندوستانی جاسوس کی سرگذشت بیان کی گئی ہے جو مصطفے کمال پاشا کو قتل کرنے کی غرض سے ترکیہ گیا تھا۔ اس ناول کا ترجمہ نہایت سلیس اور زبان نہایت شگفتہ ہے۔ اخبار مدینہ بجنور کے مکتبہ سے اب تک یہ کتاب شائع ہو رہی ہے۔ اس کے علاوہ مشہورمورخ محی الدین الخیاط کی " تاریخ اسلام " کا عربی سے اردو ترجمہ کیا ہے جو تین جلدوں پر مشتمل ہے یہ کتاب بھی مکتبہ مدینہ بجنور سے شائع ہو رہی ہے۔ مولانا اصلاحی نے مولانا فراہی کی اکثر عربی تفاسیر کا اردو میں ترجمہ کیا ہے جو تعداد میں دس بارہ ہیں ۔مولانا نے علمی اور تحقیقی مضامین بہت کثرت سے لکھے ہیں لیکن ابھی تک وہ شائع نہیں ہو سکے ہیں۔
ان کی اوریجنل تصانیف میں حقیقت شرک، حقیقت تقویٰ ، نماز کی حقیقت اور اسلامی ریاست ہیں۔ اس کے علاوہ حقیقت تبلیغ پر ایک ضحیم کتاب لکھی ہے جو ابھی تک شائع نہیں ہو سکی ہے٭۔
حقیقت شرک:
حقیقت شرک مولانا کی پہلی تصنیف ہے ۔ جس میں شرک کا فلسفہ ، اس کے اقسام، تمدن پر اس کے اثرات، شرک کی تباہ کاریاں، شرک خفی و جلی، جدید نظریات زندگی میں شرک کا ظہور۔ غرضیکہ شرک کے موضوع پر یہ ایک جامع کتاب ہے۔ مولانا نے بتایا ہے کہ شرک صرف ایک اعتقادی فساد کا نام نہیں ہے اور نہ صرف بت پرستی شرک ہے ، بلکہ ہر وہ نظام زندگی مشرکانہ ہے جس میں خدا کی حاکمیت، رسول کی رسالت اور عقیدہ آخرت کے اصول تسلیم نہ کئے گئے ہوں۔ تمدن میں ،سیاست میں ، معیشت میں اور معاشرت میں آج بگاڑ اور فساد کی جو قوتیں ظہور کر رہی ہیں ان کاسر چشمہ در حقیقت یہ عقیدہ ہے کہ تمدنی نظام میں انسان کو خود ضابطے اور قانون بنانے کا حق ہے۔ مولانا نے بتایا ہے کہ جو لوگ مسلمانوں کو غیر الہٰی نظام سیاست و تمدن کی اطاعت پر راضی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں وہ انہیں اس عقیدے کے باوجود شرک میں دھکیل رہے ہیںکہ خدا ہی ہمارا معبود حاکم اور قانون ساز ہے ۔مولانا نے اس کتاب میں ان صوفیانہ گمراہیوں کو بھی شرک قرار دیا ہے جو وحدۃ الوجود، اشراقیّت، رواقیّت اور تصور شیخ کے مختلف ناموں سے مسلمانوں کے ہاں پائے جاتے ہیں۔
حقیقت توحید:
مولانا کی دوسری تصنیف توحید ہے جس میں الہی نظام تمدن کے اصول بتائے گئے ہیں جو خدا کی حاکمیت پر قائم ہوتا ہے۔ مولانا نے بتایا ہے کہ عقیدہ توحید مجروعقیدہ نہیں ہے بلکہ اس کا اثر پورے نظام تمدن پر پڑتا ہے ۔ افراد کو ایک خدا کا تصور اس دنیا میں جواب  دہی اور پابندی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ اس کے اندر یہ خوف پیدا کرتا ہے کہ اسے اپنے اعمال کا بدلہ خدا کے یہاں سخت عذاب کی صورت میں ملے گا۔ اور بھلے افعال پروہ انعام کا مستحق ٹہرایا جائے گا، اسی  طرح ایک سوسائٹی میں خدا پرستی کا جذبہ ہی اسے انصاف اور عدل کے مطابق زندگی بسر کرنے پر آمادہ کرتا ہے۔ تمدن میں عقیدہ توحید ہی جفا کاری، بد دیانتی، فساد انگیزی، ظلم و جور اور چیرہ دستی کو ختم کر کے تعاون ، نیکی ، خدمت، خدا پرستی، نیک چلنی ، انصاف کے داعیات پیدا کرتا ہے اور انسانی سوسائٹی انسانوں کی حاکمیت سے نجات پاکر خدا کی حاکمیت اور صالح بندوں کی قیادت میں اطمینان و سکون کی زندگی بسر کرتی ہے۔ یہ کتاب اپنے موضوع پر خوب ہے۔
حقیقت تقویٰ:
 تقویٰ کا مفہوم کیا ہے؟ لمبی لمبی نمازیں ، متعدد قسم کے اورادووظائف اور اس کے ساتھ ساتھ طاغوت اور کفر کی خدمت؟ مولانا نے بتایا ہے کہ تقویٰ یہ ہے کہ ایک انسان اور سوسائٹی زندگی کے ہر معاملہ میں خدا کے حکم اور رسول کے اسوہ حسنہ پر چلے۔ ہر وہ انسان متقی ہے جو زندگی کے ہر شعبے میں خدا کی اطاعت کا پابند ہو ۔ یہ تقویٰ نہیں ہے کہ لمبی لمبی نمازوں کے ساتھ سودی کاروبار بھی جاری ہے۔ وظائف کے ساتھ انگریز کی نوکری بھی کی جارہی ہے ۔ مولانا فرماتے ہیں لمبی لمبی نمازیں اور اللہ ہو کے ورد کرنے والا متقی نہیں ہے بلکہ متقی وہ ہے جس کی پوری زندگی خدا کی اطاعت کی مظہر ہو۔
آج مولانا کی مطبوعہ تصانیف درج ذیل ہیں:o اصول فہم قرآنoمبادی تدبر قرآنoمبادی تدبر حدیثoتفسیر تدبر قرآن(کامل)1oاجلاس۔مجموعہ تفاسیر فراہی( ترجمہ)oتدبر حدیث بخاری 2 جلدیںoتدبر حدیث موطاoتزکیہ نفسoحقیقت شرک و توحیدoدعوت دین اور اس کا طریق کارoاسلامی ریاستo اسلامی قانون کی تدوینoاسلامی ریاست میں فقہی اختلافات کا حلo تفہیم دینo قرآن میں پردے کے احکامoاسلامی معاشرےمیں عورت کا مقامoفلسفہ کے بنیادی مسائل قرآن حکیم کی روشنی میںoمقالات اصلاحی 2 جلدیں۔(اب)
اسلامی ریاست:
اسلامی ریاست کیا ہے ؟ اس کے اصول و مبادی، اس کے اندر شہریوں کے حقوق و فرائض ، اس کے چلانے والوں کے اوصاف اس میں ذمیوں کا مقام، عورتوں کے حقوق، غرضیکہ ایک ریاست کے تمام اجتماعی مسائل پر بحث کی گئی ہے۔ اس کتاب کے بارہ ابواب ہیں ۔ جن میں سے تین اب تک شائع ہوئے ہیں۔ یہ کتاب نہایت مدلل اور تحقیقی ہے جس میں اسلامی فکر کے رسوخ اورتاریخ اسلام کے استفادہ کا نچوڑ موجود ہے۔ مولانا کی یہ کتاب اسلامی نظام سیاست پر اب تک شائع شدہ سارے مواد پر بھاری ہے۔ اس کتاب کی مکمل اشاعت کے بعد ہمیں یقین ہے کہ پاکستان اور عالم اسلام کا ذہین عنصر اسلامی ریاست کے ایک منظم اور مکمل نظام سیاست و تمدن ہونے کی حیثیت میں پوری طرح مطئمن ہو جائے گا۔ یہ کتاب موجودہ حالات میں ایک چارٹر کی حیثیت رکھتی ہے اور آئندہ پاکستان جب صحیح اسلامی ریاست بنے گا تو یہ کتاب اس کی رہنمائی کرے گی بلکہ اس کا اساسی دستور ثابت ہو گی۔
اوصاف و عادات:
مولانا اصلاحی کے قدموں میں راقم الحروف کو کچھ دن رہنے کا اتفاق ہوا ہے۔ میرے سامنے ان کے اندر اور باہر کی پوری زندگی ہے۔ ان کے تقویٰ اور پرہیز گاری کے متعلق کچھ لکھنا غیر ضروری ہے کیونکہ اس کے اشتہار کو وہ بھی نا پسند کریں گے۔ اور مجھے خود یہ بات پسند نہیں ہے اور یوں بھی اس کا تعلق عوام سے نہیں بلکہ خدا سے ہے  لیکن ان کی بعض خوبیاں ایسی ہیں جن کا ذکر اس لئے ضروری ہے کہ ان کے اوصاف پر بہرحال مجھے کچھ لکھنا ہے۔ مولانا فطرتاً ایک قناعت پسند انسان ہیں۔ ان کے استغنیٰ کا یہ عالم ہے کہ دنیا ان کے پیچھے پھرتی ہے لیکن وہ کبھی اس کے پیچھے نہیں پھرے اور دنیا انہیں کبھی باطل کے ساتھ مصالحت پر راضی نہیںکر سکی۔ ان کی زندگی میں شدید عسرت آئی لیکن یہ عسرت انہیں سیم و زر کا بندہ نہیں بنا سکی۔ وہ بھی چاہتے تو طاغوت کی خدمت کر سکتے تھے اور اس سے آخرت میں آگ اور دنیا میں آرام فراہم کر سکتے تھے۔لیکن ان کی پوری زندگی میں ہمیں کوئی ایک واقعہ بھی اس قسم کا نہیں ملتا کہ انہوں نے باطل کی خدمت کر کے اپنے لئے روٹی کا ایک نوالہ بھی حاصل کیا ہو۔ میرے خیال میں ایک انسان کی خدا پرستی کا اصلی امتحان اس وقت ہوتا ہے جب وہ مصیبتوں میں خدا کی اطاعت پر قائم رہے۔ مولانا اصلاحی کی تاریخ اس معاملہ میں بے داغ ہے۔ 
ان کی دوسری خصوصیت حق گوئی ہے۔ وہ سچی بات کہنے میں مشہور ہیں اور لپیٹ کر بات کرنی انہیں نہیں آتی۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ بعض کم فہم لوگ انہیں غیر ڈپلومیٹ کہتے ہیں ۔ حالانکہ ایک سچے مسلمان کی خوبی یہ ہے کہ وہ جوبات کہے وہ سچی ہو۔ مولانا اس معاملہ میں کسی کی پروا نہیں کرتے  انہیں ان لوگوں سے سخت نفرت ہے جو گھما پھرا کر بات کہنے کے عادی ہیں۔
 مولانا ایک محبت کرنے والے انسان ہیں گو وہ فطرتاً کم آمیز ہیں ۔ لیکن جب کسی کو دوست بناتے ہیں تو آخری دم تک نباہتے ہیں۔ وہ اپنے دوستوں کے لئے انتہائی مفید اور اپنے دشمنوں کے لئے کم مضر ہیں۔ وہ اپنے سے اختلاف رکھنے والوں کی قدر کرتے ہیں ۔ مجھے یاد ہے کہ مولانا مودودی سے جب ان کے اختلافات چل رہے تھے تو اس وقت بھی وہ انکی بے حد عزت کرتے تھے اور لوگوں کو تلقین کرتے تھے کہ ان کی تصانیف کا مطالعہ کرو کیونکہ اسلام پر ان سے بہتر لٹریچر ابھی تک کسی نے نہیں لکھا ہے۔ راقم الحروف سے انہوں نے خود ایک مرتبہ ارشاد فرمایا تھا کہ اگر اسلام کو سمجھنا چا ہتے ہو تو مودودی صاحب کی کتابوں کا مطالعہ کرو۔ اگر دین ومذہب کی کچھ قلمی خدمت کرنا چاہتے ہو تو ان کے داعیانہ طرز تحریر کو اپنائو۔
احباب کے انتخاب میں مولانا نہایت محتاط انسان ہیں ۔ ان کے دوستوں کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے ۔ احباب کے انتخاب میں وہ دو باتوں کو خاص طور پر ملحوظ رکھتے ہیں ۔ ایک تو یہ کہ وہ صاحب علم اور صاحب ذوق ہو ۔ دوسرے زندگی کے مسائل میں ان کا ہم مسلک اور ہم نظریہ ہو۔ اس کا ایک واضح ثبوت یہ ہے کہ تحریک اسلامی میں شرکت کرنے سے پہلے وہ شبلی اسکول سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ مولانا سید سیلمان ندوی اور مولانا عبدالماجد دریا بادی کے عزیز ترین دوستوںمیں تھے۔ یہ دونوں بزرگ بھی انہیں بالکل اپنے عزیزوں کی طرح چاہتے تھے۔ لیکن جماعت اسلامی کے تعلق کے بعد جب ان دونوں بزرگوں نے تحریک کے ساتھ معاندانہ رویہ اختیار کیا تو مولانا اصلاحی نے ان تمام تعلقات کو یک لخت ختم کردیا جو برسہابرس سے ان دونوں بزرگوں کے ساتھ قائم تھے۔ کیونکہ فرض کا تقاضا تھا کہ ان تمام جذباتی رشتوں کو ختم کر دیا جائے جو بعض اوقات انسان کو صحیح راستہ پر چلنے میں رکاوٹ ثابت ہوتے ہیں۔ مولانا اصلاحی زندگی کوایک آرٹ سمجھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ سلیقہ، شائستگی اور نفاست سے زندگی میںحسن پیدا کیا جا سکتا ہے ۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ ان کی پوری زندگی نفاست سے بھرپور ہے ۔ وہ عمدہ غذا کے شائق ہیں ۔ وہ صاف ستھرا لباس استعمال کرتے ہیں۔ اچھے قلم سے لکھتے ہیں ۔ عمدہ اور منتخب کتابیں پڑھتے ہیں۔ وہ اپنے استعمال کی چیزوں میں شرکت گوارہ نہیں کرتے ۔ گھر میں ان کی ایک جدا گانہ مملکت ہوتی ہے جس میں بیوی بچوں کو پرمارنے کی بھی مجال نہیں ہے۔ مشترک استعمال کی چیزوں میں بھی وہ توحید کے اصولوں کے قائل ہیں ۔ بچوں اور امور خانہ داری سے سخت گھبراتے ہیں۔ حالانکہ ماشائاللہ پانچ بچوں کے باپ ہیں۔ اس کی ایک وجہ تویہ ہے کہ وہ ہمیشہ ایسے مقامات پر رہے جہاں بد قسمتی سے وہ بیوی بچوں کو ساتھ نہیں رکھ سکے۔ دوسری وجہ ان کی کم آمیزی ہے ۔ وہ زیادہ ملنا جلنا پسند نہیں کرتے۔ طبیعت ذرا تیز واقع ہوئی ہے۔ بعض اوقات نا گوار باتوں پر سختی سے جھڑک بھی دیتے ہیں۔ گندے اور بد سلیقہ آدمی سے انہیں ابدی نفرت ہے۔