میں کیوں مسلمان ہوئی؟

مصنف : لیڈی بارنس

سلسلہ : من الظلمٰت الی النور

شمارہ : اکتوبر 2021

اس واقعے کی روایت …علامہؒ اقبال نے کی ہے ۔ یہ بصیرت افروز داستان علامہ مرحوم کی فرمائش پر لکھی جانے والی کتاب ’’اسلام زندہ باد ‘‘ میں چھپی تھی اور وہیں سے نقل کی جارہی ہے ۔       

حکیم الامت علامہ اقبال نے بیان فرمایا ۔ 

مسٹر دائود آپس کی طرح لیڈی بارنس کا قبول اسلام بھی اپنے اندر عجب کے کئی پہلو رکھتا ہے ‘ آپ ایک نو مسلم فوجی انگریز کی بیوی تھیں ۔ چند سال کا ذکر ہے ۔ یہ دونوں میاں بیوی ایک مقدمے میں ملوث ہو کر میرے پاس آئے چونکہ الزامات سراسر جھوٹے تھے اس لیے عدالت نے انہیں با عزت بری کر دیا ۔ چونکہ وکالت کے فرائض میں نے انجام دیئے تھے اس لیے چند روز بعد لیڈی بارنس میرا شکریہ ادا کرنے کے لیے لاہور تشریف لائیں اس وقت میں نے سوال کیا ‘ لیڈی صاحبہ ! آپ کے مشرف بہ اسلام ہونے کے اسباب کیا ہیں ؟

’’مسلمانوں کے ایمان کی پختگی ‘ ڈاکٹر صاحب‘‘ لیڈی موصوف نے جواب دیا اور وضاحت میں ایک واقعہ سنایا ۔

’’ ڈاکٹر صاحب میں نے دیکھا ہے کہ دنیا بھر میں کوئی بھی قوم ایسی نہیں ہے جس کا مسلمانوں کی طرح ایمان پختہ ہو ۔ بس اسی چیز نے مجھے حلقہ بگوش مسلمان بنا دیا ۔‘‘ لیڈی بارنس نے تھوڑا سا تامل فرمایا اور کہا ’’ڈاکٹر صاحب ! میں ایک ہوٹل کی مالکہ تھی میرے ہوٹل میں ایک ستر سالہ بڈھا مسلمان ملازم تھا ۔ اس بڈھے کا فرزند نہایت ہی خوبصورت نوجوان تھا ۔ ایک وبائی بیماری میں یہ لڑکا چل بسا تو مجھے بے حد صدمہ ہوا ۔ میں بڈھے کے پاس تعزیت کے لیے گئی ‘ اسے تسلی دی اور دلی رنج وغم کا اظہار کیا ۔ بڈھا نہایت غیر متاثر حالت میں میری باتیں سنتا رہا اور جب میں خاموش ہو گئی تو اس نے نہایت شاکرانہ انداز میں آسمان کی طرف انگلی اٹھائی اور کہا !’’میم صاحبہ! یہ خداکی تقدیر ہے خداکی امانت تھی‘ خدا لے گیا ‘ ا س میں غمزدہ ہونے کی کیا بات ہے ہمیں تو ہر حالت میں خدائے غفور کا شکریہ ادا کرنا واجب ہے ۔ ‘‘

ڈاکٹر صاحب ! بڈھے کا آسمان کی طرف انگلی اٹھانا ہمیشہ کے لیے میرے دل میں پیوست ہو گیا ۔ میں بار بار اس کے الفاظ پر غور کرتی تھی اور حیران تھی کہ الٰہی ! اس دنیا میں اس قسم کے صابر‘ شاکر او رمطمئن دل بھی موجود ہیں ۔ جستجو ہوئی کہ بڈھے نے ایسا پُر استقامت دل کیسے پایا ؟ اسی غرض سے میں نے پوچھا کہ مرحوم کے اہل و عیال بھی ہیں ۔ وہ کہنے لگا ’’ایک بیوی ہے اور ایک چھوٹا بچہ ‘‘ بڈھے کے اس جواب نے میر ی حیرت کو کم کر دیا ۔ میں نے اس کے اطمینان قلب کی یہ تاویل کی کہ چونکہ پوتا موجود ہے اس واسطے وہ اس کی زندگی اور محبت کا سہارا بنے گا ۔

اس واقعہ کو زیادہ مدت نہیں گزری تھی کہ یتیم بچے کی ماں بھی چل بسی ۔ اس سے میرے دل کو بہت تکلیف ہوئی ۔ بڈھے کی بہو کا غم میری عقل پر چھا گیا ۔ تعزیت کے لیے میں اس کے گائوں روانہ ہوئی اس وقت جذبات و تخیلات کی ایک دنیا میرے ہمرکاب تھی ۔ سوچتی تھی کہ اس تازہ مصیبت نے بڈھے کی کمر توڑ دی ہو گی ۔ وہ ہوش و حواس کھو چکا ہو گا ۔ یتیم بچے کی کم سنی اسے نڈھال کر رہی ہو گی ۔ میں انہیں خیالات میں غلطاں بڈھے کے گھر پہنچی تو وہ سر جھکائے لوگوں کےہجوم میں بیٹھا تھا ۔ میں نے اس کی تازہ مصیبت پر افسوس کا اظہار کیا اور اسے اپنی ہمدردی کا یقین دلایا ۔ بڈھا میر ی ہمدردانہ باتیں بڑے سکون سے سنتا رہا ‘ لیکن اس کے جواب کی نوبت آئی تو اس نے پھر انگلی آسمان کی طرف اٹھا دی اور کہا ’’میم صاحب! خدا کی رضا میں کوئی بشر دم نہیں مار سکتا ۔ اسی کی شے تھی وہی لے گیا ہے ہمیں ہر حال میں اس کا شکر ہی ادا کرنا چاہیئے۔ ‘‘

’’ڈاکٹر صاحب‘‘ لیڈی بارنس نے حددرجہ حیرت کے انداز میں کہا ’’ میں جب تک بڈھے کے پاس بیٹھی رہی نہ اس کے سینے سے آہ نکلی ‘ نہ آنکھ سے آنسو گرا اور وہ اس طرح اطمینان کی باتیں کرتا تھا گویا اس نے اپنے اکلوتے بیٹے او ربہو کو زمین میں دفن نہیں کیا بلکہ کوئی فرض ادا کیا ہے ۔ تھوڑی دیر کے بعد میں واپس لوٹ آئی مگر سارے راستے بڈھے کے ایمان کی پختگی پر غور کرتی رہی ۔ یہ خیال مجھے تنگ کرتا تھا اور حیر ت زدہ بھی کہ اس درجہ مصیبت میں کسی انسان کو یہ استقامت او رصبروشکر کی نعمت کیسے نصیب ہو سکتی ہے ۔

شومئی قسمت کہ چند روز بعد بڈھے کا معصوم پوتا بھی وفات پا گیا ۔ اس اطلاع کے بعد میں نے اپنی اندازہ شناسی کی تمام قابلیتوں کو نئے سرے سے جمع کیا اور بے قراری کے عالم میں اس کے پاس گائوں پہنچی ۔ مجھے یقین تھا کہ اب لاوارث بڈھا صبرو قرار کھو چکا ہو گا ‘ اس کا دل و دماغ معطل ہو چکا ہو گا او رنا امیدی اس کی امید کے تمام رشتے منقطع کر چکی ہو گی مگر یہ سب دیکھ کر خود میرے حواس جواب دینے لگے کہ بڈھا اسی سکون کی حالت میں ہے جس کا تجربہ میں دو مرتبہ کر چکی تھی ۔میں نے نہایت دل سوز ی کے ساتھ اس کے مصائب پر اپنے غم کا اظہار کیا ۔ وہ سر جھکائے میر ی باتیں سنتا رہا ۔ کبھی کبھی اس کے سینے سے آہوں کی صدا بھی آتی ۔ وہ سخت غمگین بھی تھا ‘ مگر میرے خاموش ہونے پر اس نے کما ل صبرو تحمل سے جواب دیا ’’ میم صاحب یہ سب خدا کی حکمت کے کھیل ہیں اس نے جو کچھ دیا تھا خود ہی واپس لے لیا ہے ۔ اس میں ہماراتھا ہی کیا ۔ پھر ہم اپنے دل کو برا کیوں کریں ‘ بندے کو ہر حال میں خدا کا شکر ہی اد ا کر نا چاہیے ۔ ہم مسلمانوں کو یہی حکم ہے کہ اللہ کی رضا پر صبر کریں ۔‘‘

لیڈی بارنس دردو دل کی کیفیتوں سے لبریز تھی ۔اس نے اپنا داہنا ہاتھ اٹھایااور رندھی ہو ئی آواز میں کہا ’’ڈاکٹر صاحب ! بڈھے کا یہ جواب میرے لیے قتل کا پیغام تھا اس کی انگلی آسمان کی طرف اٹھی ہوئی تھی مگر نشتر بن کر میرے دل میں اتر گئی تھی ۔ میں نے اس مرد ضعیف کے ایمان کی پختگی کے سامنے ہمیشہ کے لیے سر جھکا دیا ۔ مجھے یقین حاصل ہو گیا کہ بڈھے کا یہ اطمینان قلب مصنوعی نہیں حقیقی ہے ۔ اب وہ گائوں میں اکیلا تھا ۔ میں نے اسے اپنے ساتھ چلنے کی دعوت دی ‘ اس نے شکریہ ادا کیا او ربے تکلف میرے ساتھ ہوٹل میں چلا آیا ۔ یہاں وہ دن بھر ہوٹل کی خدمت کرتا اور رات کو خدا کی یاد میں مصروف ہو جا تا  تھا۔

کچھ عرصے کے بعد ایک روز بڈھے نے قبرستان جانے کا ارادہ کیا ۔ تجّسس کا جذبہ مجھے بھی اس کے ساتھ قبرستان لے گیا ۔ میں دیکھنا چاہتی تھی کہ اب اس کے جذبات کیا صورت اختیار کرتے ہیں ۔ قبرستان میں پہنچ کر وہ شکستہ قبروں کو درست کرنے لگا ۔ وہ مٹی کھود کھود کر لاتا اور قبروں پر ڈالتا ۔ پھر وہ پانی لے آیا اور قبروں پر چھڑ کاؤکرنے لگا ۔ اس کے بعد اس نے وضو کیا ‘ ہاتھ اٹھائے اورراہل قبرستان کے حق میں دعاکر کے واپس چل دیا میں نے اس تمام عرصے میں نہایت احتیاط کے ساتھ اس کی حرکات و سکنات کا جائزہ لیا اور محسوس کیا کہ اس کے ہر کام میں اطمینان کا نور اور ایمان کی پختگی جلوہ گر ہے میرے دل میں وہ چنگاری جو ایک مدت سے آہستہ آہستہ سلگ رہی تھی ‘ یکایک بھڑ ک اٹھی ۔ مجھے یقین ہو گیا کہ یہ بڈھے کی خوبی نہیں بلکہ اس دینِ حق کا کمال ہے جس کا یہ بڈھا پیرو ہے ۔ میں نے اسی وقت مسلمان ہونے کا حتمی فیصلہ کر لیا اور ہوٹل میں پہنچ کر اس سے کہا کہ وہ کوئی ایسی مسلمان عورت بلا لائے جو مجھے اسلامی تعلیم دے ۔ بڈھا فی الفور اٹھا اور اپنے ملا کی لڑکی کو بلا لایا ۔ اس نے مجھے خدااور رسول ﷺ پر ایمان لانے کی ترغیب دی اور لا الہ الااللہ محمد الرسول اللہ کا سبق سکھایا۔

’’ڈاکٹر صاحب‘‘ لیڈی بارنس نے روح پرور لہجے میں کہا ’’ اب میں اللہ تعالی کے فضل وکرم سے مسلمان ہوں اور وہی عظیم الشان قوت ِ ایمان جس سے بڈھے کا دل سرشار تھا اپنے سینے میں موجود پاتی ہوں۔‘‘

 کتاب : ہم کیوں مسلمان ہوئے؟

مصنف: عبدالغنی فاروق