اردگان کے دیس میں

مصنف : ڈاکٹر محمد خالد عاربی

سلسلہ : سفرنامہ

شمارہ : ستمبر 2018

سفر نامہ قسط۔ششم
اردگان کے دیس میں
ڈاکٹر خالد عاربی

                                                                                                                          چوتھادِن ، اتوار،۲۴ستمبر۲۰۱۷ء 
قونیہ اور درگاہ رومیؒ 
ترمذی مسجد میں نمازِ صبح باجماعت ادا ہوئی۔ نماز کے بعد،ہالینڈ سے آئے ہوئے ایک مہمان سے ملاقات ہوئی۔ وہ وہاں کی ایک مسجد کے امام تھے اور یہاں علاج کے لیے آئے ہوئے تھے۔ ہم پاکستانی چونکہ داڑھی کے معاملے میں خاصے حساس ہیں،اس لیے جب بھی کسی امام مسجد کا ذکر آتا ہے ،یا کسی کو نماز پڑھاتے ہوئے دیکھتے ہیں تو پہلی چیز اُس کی داڑھی دیکھتے ہیں،اور چونکہ میرا پہلا تجربہ تھا،مسلسل بن داڑھی آئمہ کے پیچھے نماز پڑھنے کا،اور چونکہ میں خوداس بات کا حامی ہوں کہ دین میں داڑھی کا وہ مقام ہرگز نہیں ہے جو برصغیر کے علماء کرام نے دے رکھا ہے ، اس لیے ترکی کے آئمہ اور علما کرام کی چہرے پر داڑھی نہ ہونا ،نوٹ بھی ہو جاتا تھا اور اُس کا ذکر بھی جا بجا ہو رہا ہے۔توہالینڈ کے یہ مذکورہ امام بھی بغیر داڑھی کے تھے۔اُن سے کافی دیر تبادلہ خیال ہوتا رہا۔چونکہ آج انطالیہ میں ہمارا آخری دِن تھا اور مجھے جلدی بھی تھی اس لیے اُن سے جلد ہی اجازت لینی پڑی،وگرنہ کافی دلچسپ گفتگو جاری تھی مسجد سے ہوٹل میں واپس آیااورہوٹل کے باغیچے میں صبح کی سیر کے لیے گیا۔رات کومجھے پتا چلا تھا کہ اس باغ سے عین سمندر کے پانی تک ،زیر زمین کوئی راستہ جاتا ہے،پہلے دو دِن تو مجھے اُس کا پتہ نہیں چلا تھا آج دوران سیراُس راستے کو ڈھونڈھ نکالا ایک لفٹ کے ذریعے نیچے اُتر تے ہیں،پھر ساحل سمندر تک قریباً دو سو میٹر لمبی سرنگ جاتی ہے ۔اُس پر چلا ۔یہ غار نما راستہ کافی کشادہ،ہوادار اور روشنیوں سے مزین تھا۔ سرنگ کے اختتام پر آپ ساحل سمندر پر آجاتے ہیں۔کیا دلکش اور دلفریب منظر تھا وسیع و عریض سمندر،پس منظر میں سرسبز و شاداب پہاڑ،صبح کا وقت ،طلوع ہوتے سورج کی نرم اور ملائم روشنی اوراس قدرتی منظر پر سونے پر سہاگہ،وہ ترقیاتی کام تھا جو ہوٹل والوں نے اس ساحل کو حسین تر بنانے کے لیے کیا تھا۔چونکہ یہ۵سٹار ہوٹل یعنی مرمرہ ہوٹل انطالیہ کا اپنا بیچ تھا اس لیے اُن لوگوں نے اسے نہایت عمدگی سے سجایا ہوا تھا۔گویا یہ ساحلوں کا ۵سٹار ساحل تھا۔ پرسوں جب ہم بیچ پر گئے تھے تو بوجوہ میں سمندر میں نہیں اُترا تھا لیکن اب تو حالات سازگار تھے،اب سمندر میں تیراکی کا لطف نہ لینا کفرانِ نعمت شمار ہوتا ،سو ہم نے اس موقع کا خوب فائدہ اُٹھایا اور سمندر کے پانی سے غسل لینے کا لطف حاصل کر لیا۔
الوداع اے انطالیہ الوداع!
دورے کے تیسرے روز، اتوار کی صبح، ہمیں انطالیہ سے قونیہ کی طرف روانہ ہونا تھا۔ انطالیہ میں ہم تین دِن رہے تھے اور حقیقت ہے کہ ہم نے اس مختصر سے قیام کو خوب enjoy کیا تھا۔نہایت پرسکون ،انتہائی صاف ستھرااورخوبصورت شہر ہے۔آج ہم نے یہاں سے کوچ کرنا تھا،یہاں بڑے یادگار دِن گزرے تھے اور آج ہم’’ الوداع انطالیہ الوداع ‘‘کہتے ہوئے،یہاں سے رخصت ہو رہے تھے۔تقریباً۱۰بجے ہم ہوٹل سے الوداع ہوئے۔باہر ایک نوجوان ڈرائیور مرسڈیز وین لے کرہمیں لینے آیاہوا تھا ۔ آج وین بھی نئی تھی اور ڈرائیور بھی نیا تھا۔آج وہ صنف لطیف یعنی ہماری گائیڈ بھی تشریف نہیں لائی تھیں جو پچھلے تین دِن ہمارے ساتھ رہی تھی ۔اب جب کہ ہم سب اس کی پیشہ ورانہ افادیت کے قائل ہو چکے تھے اور اس نئے علاقے کی طرف جاتے ہوئے ہمیں اُس کی رہنمائی کی اب اشدضرورت بھی تھی،تو وہ نہیں آئی ۔جب ٹورسٹ کمپنی کے نمائندے سے ، اس بابت استفسار کیاتو ہمیں بتایا گیا کہ جب ہم قونیہ پہنچ جائیں گے تو وہاں ایک نیاگائیڈ ہم سے آملے گا ۔قریباًدِن کے ساڑھے دس بجے ہم روانہ ہوئے اور اڑھائی بجے تک حضرت رومی علیہ الرحمۃکے وطن میں ہماری پہنچ تھی۔ میں نے ایک کھڑکی کے ساتھ کی نشست سنبھالی ہوئی تھی،جس سے مجھے باہر کے لینڈ سکیپ کو دیکھنے کا بخوبی موقع مل رہاتھا گاڑی نہایت آرام دہ تھی اور ڈرائیور بھی مشاق معلوم ہورہا تھا۔انطالیہ شہر آنکھوں کے سامنے گزر رہاتھا۔ یہاں زندگی پوری آب و تاب سے رواں دواں تھی۔انطالیہ شہر کے مناظر اب ہم سے رخصت ہو نے کو تھے ، ایک پرسکون شہر،بھر پور زندگی،عمدہ موسم اورسرسبز وشاداب شہر۔ہم اب اس سے باہر نکل آئے تھے ۔ہماری خواہش تھی کہ شہری علاقوں کے علاوہ ترکی کی دیہی زندگی سے بھی آشنائی حاصل ہو ،چنانچہ اب وہ موقع مل رہا تھا اور ہم اس سفر کے دوران میں گزرتے دیہی علاقوں کا مشاہدہ کر رہے تھے ۔یہ دوسری بار تھا کہ ہم انطالیہ سے باہر مضافات کی طرف نکلے تھے۔ ہم نے جانا کہ دیہی علاقے بھی شہری آبادی کی طرح ترقی یافتہ، متمدن اور صاف ستھرے ہیں۔ وقفے وقفے سے جوچھوٹی بڑی آبادیاں نظر آرہی تھیں،یوں لگتا تھا کہ یہ سب آبادیاں تازہ بہ تازہ تعمیر شدہ ہیں ۔ دیہی علاقے کو سڑک بجلی پانی اور دیگر بنیادی ضروریات زندگی فراہم کر دی گئیں تھیں۔ چھتوں پر شہروں کی طرح سولر پینل اور سولرواٹر ہیٹر دور سے نظر آرہے تھے جیسا کہ انطالیہ شہر میں نظر آتے تھے۔سارا علاقہ سرسبز و شاداب تھا۔ ترقی اور امارت صاف دکھائی دے رہی تھی۔ جب کہ ہمارے ہاں،لاہور اسلام آباد کو چھوڑ کر،باقی ملک میں، خصوصاً جنوبی پنجاب،سندھ،بلوچستان،کے پی کے کی سڑکوں پر چلتے ہوئے پسماندگی اور غربت آپ کو صاف دِکھائی دیتی ہے اور کراچی کی سڑکوں پر چلتے کچرا،بدبو اور گندگی آپ کے ساتھی ہوتی ہے۔ہم جس سڑک پہ محو سفر تھے وہ بہت ہی عمدہ تھی ، دو رویہ سڑک پر چمکتی دمکتی گا ڑیاں رواں دواں تھیں ۔ اندازہ نہیں ہوا کہ پبلک ٹرانسپورٹ کی بڑی بسیں کون سی ہیں اور پرائیویٹ گا ڑیاں کون سی ہیں۔ ایک سے بڑھ کے ایک شاندار گاڑی تھی۔سڑک پر رش تو تھا مگر ہمارے ہاں کی طرح بے ہنگم ٹریفک نہ تھی ، سبھی ایک نظم اور ترتیب کے ساتھ رواں دواں تھے۔ سڑک کے دونوں اطراف سبزہ ہی سبزہ تھا ۔ باغات بھی تھے اور سایہ دار درخت بھی تھے ۔ ہرے بھرے کھیت بھی تھے اورسرسبز گھنے جنگل بھی ۔ شہر سے نکلے تو پہلے تو دور دور تک کم بلندی والے پہاڑنظرآتے تھے اور جوں جوں ہم آگے بڑھ رہے تھے یہ پہاڑ ہمارے قریب آتے جا رہے تھے اور پھر جلد ہی ہم اس سلسلہ کوہ کے اندر دا خل ہو گئے۔ سڑک بھی تنگ ہوگئی اورگاڑی کی رفتار بھی قدرے کم ہو گئی کیونکہ اب مسلسل چڑھائی اور پیچ در پیچ موڑتھے ۔
مری اور سوات 
ترکی کازیادہ رقبہ براعظم ایشیا میں ہے۔اس کوایشیائے کوچک کہتے ہیں۔انطالیہ بھی اور اب قونیہ بھی ایشیا میں ہے۔لیکن ترکی نے حالیہ چند سالوں میں بے پناہ ترقی کی ہے جس کے باعث اب یہ ملک تمدنی اعتبار سے یورپ کے ہم پلہ ہو چکا ہے۔ہم جب انطالیہ میں تھے یا انطالیہ سے باہرپاموکلے گئے تھے یا اب قونیہ کی طرف جا رہے تھے،تو زندگی کو دیکھ کر ہم یہی سمجھتے تھے کہ ہم ایشیا کے کسی پسماندہ ملک کی بجائے یورپ کے ترقی یافتہ شہروں میں گھوم رہے ہیں۔ اب جب سے ہم اس سلسلہ کوہ میں داخل ہوئے تو زمینی منظر کو دیکھ کر میں نے اپنے دوستوں سے کہاکہ بھائیواب تک تو ہم یورپ میں تھے مگر اب اپنے مری سوات والا لینڈ سکیپ نظر آرہا تھا جس سے ہم سب مانوس ہیں۔ میرے ساتھیوں نے میرے اس تائثر کی تائید کی۔بعینہٖ وہی بلند و بالا درخت ،اوپر جاتی بل کھاتی سڑک ، جس کی ایک طرف کھائیاں تھیں تو دوسری طرف پہاڑ جیسے آپ مری کی سڑک پر ہوں۔ پہاڑوں پر سبزہ، چیڑکے درخت، غرض یہ اپنا دیکھا بھالا منظر لگتا تھا۔البتہ اس فرق کے ساتھ کہ اُدھر ہم کھٹارہ ویگنوں ، شور مچاتی پرانی بسوں ،بد شکل ٹرکوں اور پرانے ماڈل کی کاروں سے ’’برسر پیکار‘‘ ہوتے ہیں، جب کہ یہاں اُن کی بجائے نئی شاندار گاڑیاں تھیں اورخوبصورت ٹرک تھے۔ تا ہم میں نے محسوس کیا کہ ہمارے مری سوات اور وادی کا غان اور وادی نیلم میں سفر کرتے ہوئے جس طرح وقفے وقفے سے خوبصورت جھرنے ،پانی کے ذخیرے ، دلفریب ندی نالے اوردلکش آبشاریں کثرت سے دکھائی دیتی ہیں،حیرت ہے کہ یہاں وہ مفقود تھیں۔راستے میں چند ایک پھل بیچنے والے ٹھیلے بھی دیکھے۔شہد فروخت کرنے والے بھی موجود تھے اور اُسی طرح دل کو خوش کر رہے تھے جیسا کہ اپنے ہاں ہوتا ہے ۔ اس سفر کے دوران کوئی جنگلی جانور از قسم لنگور ،بندروغیرہ نظر نہیں آئے حتیٰ کہ چہچہاتے پرندے بھی کہیں نظر نہ آئے ،ہوں گے تو ضرور،ممکن ہے ہماری نظر نہ پڑی ہو ۔ 
حادثہ ہوتے ہوتے رہ گیا
اس پہاڑی سفر کے دوران میں کوئی بڑا شہر تو راستہ میں نہیں آیا البتہ ہم نے اِکا دُکا پہاڑی گاؤں ضروردیکھے ۔ پھر وہ پہاڑی سلسلہ ختم ہو گیا،میدانی علاقہ آگیا،سنگل روڈ ختم ہو گئی اوردورویہ کشادہ سڑک آگئی ،جس کے باعث اب گاڑی کی رفتاربھی بڑھ گئی ۔ ہم ایک بڑے قصبے کے درمیان سے گزر رہے تھے کہ یکدم ہمارے ڈرائیور نے گاڑی کو ایک طرف لہرایا،ہمیں جھٹکا لگا اور چوک کراس کرتے ہی اُس نے گاڑی روک دی ۔ اب نہ تو ہم اُس کی زبان سمجھتے تھے اور نہ وہ ہماری زبان جانتا تھا کہ ہم اُس سے پوچھتے کہ کیا ہوا۔ وہ پھرتی سے نیچے اترا اور فون نکال کے کسی کو کال کرنے لگا ساتھ ہی گاڑی کا بونٹ کھول کر اس کا جائزہ لینے لگا ۔ ہم نے دیکھا کہ یہ ایک چوک تھا ، سامنے سرخ بتی جل رہی تھی ہمارے آگے والی کار نے سرخ بتی کی وجہ سے اپنی گاڑی روک لی تھی۔اب اُسی کے پیچھے اِس نے جا کر رکنا تھا،لیکن رکنے کی بجائے اِس نے یکدم کٹ مارا،اُس کو بچایا،اور قسمت اچھی تھی کہ ساتھ ہی سبز بتی روشن ہوگئی اور یہ اُسی ہی رفتار میں چوک کراس کر گیااور قدرے دور جاکر گاڑی روکنے میں کامیاب ہوگیا۔ اگرچہ ہم زیادہ نہیں جانتے تھے کہ کیا معاملہ پیش آیاتاہم اُس کے انداز اور چہرے کی پریشانی سے ہم نے اندازہ لگایا کہ شاید گاڑی کی بریک میں اچانک کو ئی مسئلہ پیدا ہوگیا تھا جس کی وجہ سے اُسے یہ کٹ مارنا پڑ گیا تھا۔ہم سب اللہ کریم کا شکر ادا کرتے، نیچے اُتر آئے،ہم کیا کر سکتے تھے،بس اس بہانے،ہم نے اپنی ٹانگیں ہی سیدھی کر لیں،ایک دو انگڑائیاں لیں اور فریش ہو گئے۔یہ محض اللہ تعالیٰ کا خصوصی فضل وکرم ہی تھا کہ دیارِ غیر میں ایک خوفناک حادثے سے بچ گئے تھے۔اتنے میں اُس نے ہمیں دوبارہ سے سوار کر لیا اور آہستگی سے گاڑی کو لے چلا ۔ اُس کی بدن بولی سے ہم نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اب وہ کسی مکینک کی تلاش میں ہے ۔ جہاں یہ حادثہ پیش آیاتھا وہاں اچھی خاصی آبادی تھی،کوئی بڑا قصبہ لگتا تھا۔وہ محتاط ہوکر،آہستگی سے چلتا رہا۔ شہری علاقہ تھا اس لیے زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ ہمیں ایک ورکشاپ نظر آگئی ۔ اتوارکا دِن تھا ،بیشتر دکانیں بند تھیں۔یہ ورکشاپ کیا تھی، ایک وسیع رقبے پر پھیلا ورکشاپ کمپلیکس تھا۔بہت وسیع اورکشادہ کمپلیکس بے شمار دکانیں ،لیکن اتوار کی چھٹی کے باعث سب بند تھیں۔ہماری خوش قسمتی کہ ایک آدھ دکان کھلی تھی اور اُ س میں مطلوبہ مکینک بھی مل گیا۔ ڈرائیور گاڑی کی بریک ٹھیک کرانے میں مصروف ہو گیا،ہم سب ساتھیوں نے مشورہ کیا کہ کیوں نہ ،ظہر کی نماز ادا کر لی جائے ۔اس پر اتفاق ہو گیا چنانچہ اب ہم مسجد کی تلاش میں نکل پڑے۔چونکہ ورکشاپ بند تھی اس لیے وہاں کوئی بندہ نہ بشر،نہ دکاندار نہ گاہک،ہر طرف ہو کا عالم،سنسانی اور ویرانی ہی ویرانی بہر حال ہمیں ایک مسجد نظر آگئی،قدرے دور تھی ہم اس کی طرف چل پڑے۔دِن کا ڈیڑھ بج چکا تھا ،اگرچہ سورج چمک رہا تھا لیکن دھوپ میں تمازت نہ تھی۔موسم اچھا تھا گرمی نہ تھی۔ہم بند ورکشاپ کو دیکھتے جارہے تھے اور اس کی بناوٹ، کشادگی، دکانوں کی حسن ترتیب ، دکانوں کی کثرت اور صفائی سے،ہم سب حیرت زدہ تھے۔ مجھے نہیں معلوم کہ اپنے ہاں اسلام آباد،یا لاہور کراچی میں اس طرح کا وسیع ورکشاپ کمپلکس ہوگا اور یہ تو ہمارے ہاں تصور ہی نہیں ہے کہ کوئی ورکشاپ بھی صاف ستھری اور دلکش ہو سکتی ہے۔ہمارے ہاں ورکشاپ کیا ہوتی ہے ، گویا ایک کباڑ خانہ۔ ہر طرف گریس اور موبائل آئل کے داغ ہی داغ،ٹوٹے ہو ئے پرزے،تاروں کے ٹکڑے،نٹ بولٹ،کیل کانٹے اورچاروں طرف کچرا بکھرا ہوا۔لیکن یہاں کی ورکشاپ ،کیا کہنے اُس کی کشادگی اور وسعت اور صفائی ستھرائی کی۔سچ ہے ان کے موجودہ صدر کا قول کہ’’ صفائی میں ہے انسان کی بھلائی۔‘‘ 
مسجد میں پہنچے،ڈر تھا کہ کہیں مسجد بھی بند نہ ہو،کیونکہ نماز ظہر کی جماعت کا وقت گزرے گھنٹہ ہو چکا تھا۔لیکن اللہ کا شکر کہ مسجد کھلی مل گئی۔وضو کرکے یہاں ہم نے جمع بین الصلوٰتین کرتے ہوئے، ظہر اورعصر اکٹھے ادا کی۔ اس پورے سفر میں،صرف یہاں اس جگہ ،ہم نے مسجد کی ٹائیلٹ میں گندگی دیکھی ، جو کہ اپنے ہاں عموماً ہوتی ہے ،بڑی حیرانی ہوئی ،ابھی ابھی ان کی صفائی کی جو تعریف کی ہے،وہ ساری یہاں آکر غارت ہو رہی۔اس گندگی کی یہی وجہ سمجھ آئی کہ آج کی تعطیل کے باعث ،شاید ایسا ہے۔قریباً ایک گھنٹے میں گاڑی ٹھیک ہو گئی اور ہم پھر سے قونیہ کی طرف روانہ ہو گئے۔ہم ایک سیدھی اور سپاٹ سڑک پر اچھی رفتار سے سفر کرتے ہو ئے غروب آفتاب سے کافی پہلے ہی قونیہ پہنچ گئے۔
قونیہ
قونیہ ترکی کا ساتواں بڑا شہر ہے جس کی آبادی بائیس لاکھ کے قریب بتائی جاتی ہے۔یہ ترکی کے مرکزی ریجن اناطولیہ میں واقع ہے۔یہ اسی ہی نام کے صوبہ کا صوبائی دارلحکومت بھی ہے ۔تاریخ دان بیان کرتے ہیں کہ یہ شہر صدیوں تک سلجوق سلاطین کی عظیم ریاست کا پایہ تخت رہا ہے ۔ لیکن ہم اس شہر کو جلال الدین رومی ؒ کی نسبت سے جانتے ہیں اور اس شہر میں رکنے کا مقصد ہی یہی تھا کہ اُن کے مزار پرا نوار پر حاضری دی جا ئے ۔ میرا خیال تو یہ تھا کہ قونیہ ایک چھوٹاسا قصبہ ہو گا تاہم جب ہم اس شہر میں داخل ہوئے تو اسے ایک پر رونق اور گنجان آبادی والا ایک بڑا شہر پایا ۔ جدید ترقی یافتہ اور ہر حوالے سے منظم ومرتب ۔ البتہ شہر میں داخل ہو تے ہی ا نطالیہ اور قونیہ میں جو ایک بڑا فرق ہمارے مشاہدے میں آیاوہ خواتین کا لباس تھا ، یہاں کی خواتین نے پوری طرح ساتر لباس پہن رکھا تھا اور انطالیہ طرز کی عریانی کا دور دور تک کوئی نام و نشان نہ تھا ۔ہم ایک طرف سے شہر میں داخل ہوئے۔سڑکیں نہایت کشادہ اور صاف ستھری۔انطالیہ کے مقابلے میں یہ قدرے قدیم شہر نظر آیااگرچہ جدید تمدنی زندگی کا ہر روپ بھی موجودتھا،ہاں البتہ ایک فرق ،جو ہم سب ساتھیوں نے محسوس کیا وہ خواتین کا لباس تھامختلف شاہراہوں سے گزرتے،چوکوں اور چوراہوں اور بڑی بڑی عمارتوں کے درمیان سے گزرتے، جس بھی خاتون پر نظر پڑی ،جوان ہو یا بوڑھی، اُس کالباس شائستہ،باوقار اور ساتر تھا۔اگرچہ چہرے کا پردہ نہیں تھالیکن وہ بے حجابی،جو ہم نے انطالیہ میں دیکھی تھی ،یہاں نہ تھی۔ 
حاضری
ہم اپنے مقررہ شیڈول سے بہت لیٹ ہو چکے تھے پروگرام کے مطابق ہمیں دوپہر کو قونیہ پہنچنا تھا مگر اب شام ہو نے والی تھی جب ہم قونیہ پہنچے ۔ تھکاوٹ اور کسلمندی کے اثرات تمام ساتھیوں کے چہروں پہ ثبت تھے ۔یہیں ہمارے گائیڈ نے ہم سے ملنا تھا اور وہ آ گیا ہماری توقع کے بر عکس وہ ایک جوان سا لڑکا تھا جو ہمارے پاس آیا اور بطور گائیڈ اپنا تعارف کرایا ۔ہم جتنے لیٹ تھے گائیڈ کو اتنی ہی جلدی تھی ،جلد ہی اُس نے ہمیں دربار رومی کے سامنے لا کھڑا کیا اُس نے تو ہمیں سنبھلنے کا موقع ہی نہ دیا اور نہ ہی اُس کی توجہ ہماری خاطر مدارت کی طرف مبذول ہو ئی کہ مسافر ہیں تھکے ہوئے ہوں گے شاید بھوکے بھی ہوں ۔ تاہم پھر بھی شاید یہ مولانا رومی کا روحانی فیض تھا کہ ہم اسی حالت میں دربار کی زیارت کو چل دئیے۔ وہ گائیڈ تو کسی بگولے کی طرح ہمیں بھگائے لیے جا رہا تھا۔ مولانا رومی کے دربار کو وہ میوزیم کہہ رہا تھا جس سے ہمیں کوفت ہو رہی تھی ، وہ ہم سے کہہ رہا تھا کہ میوزیم کے بند ہونے کا وقت قریب ہی ہے ،اس لیے جلدی کر لیں اُس اللہ کے بندے نے ،ہمیں نہ تو کمر سیدھی کرنے دی اور نہ ہی اطمینان کا ذرا ساسانس ہی لینے دیا،حتیٰ کہ ہم وضو بھی نہ کر سکے، بس وہ ہمیں بھگائے پھرا ۔ وہ ہمیں ساتھ لیے ہو ئے مختلف قبروں سے ہوتا ہوا ، مختلف تاریخی آثار پر کھڑے کھڑے مختصر لیکچر دیتا ہوا تیزی سے ایک دروازے سے دوسرے دروازے تک بھاگتا رہا اور ہمیں بھی بھگاتا رہا حتیٰ کہ تھوڑی ہی دیر بعد ہم حضرت رومی کے مزار سے باہر آکھڑے ہوئے تھے اور اس بات پہ پریشان سے تھے کہ ہم تو رومی رحمۃاللہ علیہ کی قبر پر ٹھیک سے فاتحہ بھی نہیں پڑھ سکے۔ہم اُن تاریخی نوادرات کی محض ایک جھلک ہی دیکھ سکے جو اس میوزیم یا دربار میں شیشے کے بڑے بڑے شو کیسوں میں سجے تھے اور مبینہ طور پر پیر رومی سے کوئی نسبت رکھتے تھے ۔پیر رومی کے استعمال شدہ کپڑے ،کچھ لکھنے پڑھنے کا سامان اور ہاتھوں سے لکھے قرآن مجید اور مثنوی شریف کے نسخے بھی موجود تھے ،جن کو ہم نے بس ایک طائرانہ سی نظر سے ہی دیکھا اور آگے بھگا لیے گئے۔ حضرت جلال الدین رومی ؒ کے دربار کے اندر بہت سی قبریں تھیں جن کے بارے میں ہمیں بتایا گیا کہ یہ مولانا رومی کے شاگردوں ،اُن کے مریدوں اوران کے خلیفوں اور خدمت گزاروں کی قبریں ہیں ان میں سے ایک قبر مولانا کے والد گرامی کی بھی ہے جو خود ایک بڑے عالم دین اور مولانا کے استاد تھے۔اگرچہ ہر قبرپر کتبہ موجود تھا جس پر مرنے والے کی تاریخ پیدائش اور تاریخ وفات اور دیگر ضروری معلومات درج کی گئی تھیں مگر اس قدر کم وقت میں ان سب کو پڑھنا اور گہری معلومات حاصل کرنا ممکن نہ تھا ۔ اس بھاگ دوڑ میں جب ہم، دربار کے اسی احاطے میں موجود ،شاعر مشرق علامہ ڈاکٹر محمد اقبالؒ کی علامتی قبر پر پہنچے تو ایک خوشگوار حیرت نے ہمارا احاطہ کر لیا ۔ بیان کیا گیا ہے کہ یہ قبر علامہ ڈاکٹر محمد اقبال ؒ کی مولانا رومی سے بے پناہ عقیدت و محبت کا علامتی اظہار ہے۔اور یہ حقیقت ہے کہ حضرت علامہ اقبال کو پیر رومیؒ سے جو خصوصی نسبت تھی اور جس کا اظہار علامہ اقبالؒ کی شاعری میں ہمیں جابجا نظر آتا ہے ،اس عقیدت کو یوں خراج عقیدت پیش کرنا واقعی ایک انوکھی بات تھی۔میں یہ چیز پہلی بار ملاحظہ کر رہا تھا کہ کسی صاحب کی علامتی قبر بنائی جائے۔ایک تعلق کو یوں symbolizeکرنا،سچی بات ہے ایک عجیب تخیل ہے،بہر حال مجھے اس چیز کو وہاں دیکھ کر خوشی ہوئی کہ ہمارے قومی شاعر کی یہاں اتنی پذیرائی ہے۔اب ہم پیر رومی کے مزار کے باہر کھڑے تھے اور ہمارے گائیڈ نے ہم کو بتایا کہ اب وہ ہمیں ایک خاص جگہ لے جارہا ہے جہاں سرامک کا بہت عمدہ کام کیا جاتا ہے۔یا د رہے کہ سرامک کا یہ کام قونیہ کی خصوصیت ہے اور گائیڈ کے مطابق جو سیاح قونیہ آئے اور سرامک کا کام دیکھے بغیر لوٹ جائے تو وہ ایسا ہی ہے جیسے کہ وہ قونیہ آیا ہی نہ ہو یا قونیہ سے خالی ہاتھ چلا گیا ہو ۔چنانچہ وہ ہمیں ایک ایسے کمپلیکس میں لے گیا جہاں بہت سی دوکانیں تھیں اور اُن میں موجود چیزیں واقعی اپنی نفاست اور اعلیٰ معیار کی وجہ سے منفرد نظر آتی تھیں۔مگر ہم نے اُن مصنوعات کو اپنے ملک کی مصنوعات سے زیادہ برتر نہ پایا۔ ہمارے وطن میں بھی سرامک کا عمدہ کام کیا جاتا ہے اور وہ کسی درجے میں بھی ترکی کی ان مصنوعات سے کم درجے کا نہیں ہے ۔ اس شاپنگ مال سے کچھ دوستوں نے حسب خواہش اشیا خریدیں لیکن میرا دِل بجھا رہا کہ جس مقصد کے لیے اتنا لمبا سفر کیا وہ حسبِ خواہش پورا نہ ہوا۔خاص طور پر دو چیزوں کا قلق تھا، ایک تو قبرِ رومی پر میں کچھ دیر ٹھیرنا چاہتا تھا،وہ نہ ہو سکا اور دوسرے وہ مخصوص گردشی رقص جو رومی سلسلے کا امتیازی نشان ہے کی live ایک جھلک دیکھنا چاہتا تھا۔وہ بھی نہ ہو سکا۔ہم کسی کو کیا بتائیں گے کہ ہم قونیہ گئے تھے اور رومی درویشوں کا رقص نہیں دیکھا۔کم و بیش یہی کیفیت ہمارے دوست ڈاکٹروقاص کی تھی۔ ازاں بعد ہم بس سٹاپ پر آگئے اورہماری گاڑی آ گئی۔ہم صبح کے بھوکے تھے۔لنچ کا وقت گیاسفر میں ،اب تو ڈنر کا وقت ہو چلا تھا۔مغرب ہونے کو تھی اور ہمارے ڈرائیورصاحب حضرت گوگل کے چکروں میں آئے ہوئے تھے اور وہ اُس ریستوران کو ڈھونڈھنے میں ، مختلف شاہراہوں کے چکر پہ چکر کاٹ رہا تھا ،جہاں پر آج ہمار دوپہر کا کھانا طے تھا جو ہم مغرب کے وقت کھانے جا رہے تھے آخر کواُسے وہ مطلوبہ ہوٹل مل گیااور ہمیں قدرے اطمینان حاصل ہوا۔یہ ہوٹل قونیہ کی ایک فوڈ سٹریٹ میں تھا۔ہم سے بیان کیا گیا کہ یہ فوڈ اسٹریٹ بالکل نئی ہے اور اسے حال ہی میں تعمیر کیا گیا ہے ۔ ہمارے لیے جس ہو ٹل کا انتخاب کیاگیا تھاوہ ایک قدیمی رہائشی مکان تھا جسے ہوٹل میں تبدیل کیا گیا تھا۔ یہ ایک نہایت خوبصورت جگہ تھی جسے بڑی خوبی سے آراستہ کیا گیا تھا ۔ماحول نہایت پر سکون تھا اور کھانا بھی ،اگرچہ روایتی ترکی ڈشوں پر مشتمل تھا ،لیکن لذیذ تھا، چنانچہ کھانا کھانے کا خوب مز ہ آیا ۔ہوٹل کے اندر میں ماحول کی دلکشی تھی ہی،لیکن باہر کا ماحول اُس سے بھی زیادہ دِلکش تھا۔چائے پینے کے لیے ،جب ہم لوگ باہر والی کرسیوں پر آبیٹھے تو اس کا لطف ہی الگ تھا۔ ڈاکٹر وقاص صاحب تو اس مقام کی دلفریبی کے سحر میں مبتلا ہو گئے تھے اُن کے بقول انھیں یہاں ایک قسم کا روحانی سکون محسوس ہو رہا تھا وہ تو اس جگہ کو چھوڑنے پر آمادہ نہ تھے،لیکن ابھی ہمیں دوگھنٹے کا مزید سفر کرنا تھا اور ہماری اگلی منزل کپاڈوشیا تھی ۔رات ہو چکی تھی اگرچہ قونیہ میں اور بہت کچھ تھا جو دیکھنے کے لائق تھا مگر ہم اپنے شیڈول کے پابند تھے اس لیے ہمیں بہرحال اگلے سفر پہ نکلنا تھا ۔ سوصحبت رومی میں یہ چند لمحے گزار کر ،تشنہ تشنہ اوربادل نخواستہ ہم گاڑی میں سوار ہو گئے کہ ہماری اگلی منزل کپاڈوشیا تھی۔رات کا سفر تھا اس لیے کھڑکیوں کے باہر کا نظارہ مفقود تھا۔دو گھنٹے بعد ہم کپا ڈوسیا میں تھے اور گروم نامی گاؤں ہماری آج کی منزل تھی ، سو گاؤں میں داخل ہونے کے چند لمحوں بعد ہم ایک ہوٹل کے باہر کھڑے تھے جس سے برآمد ہوتی دھیمی دھیمی روشنی ہم پہ پڑ رہی تھی دیگر بہت سی عمارتیں بھی روشن تھیں۔ یوں لگ رہا تھا جیسے ہم ایک غار کے دھانے پر کھڑے ہیں اور جب ہم ہوٹل میں داخل ہو ئے تو ہم نے جانا کہ یا تو یہ کوئی غار ہی ہے جسے ہوٹل میں تبدیل کیا گیا ہے یا پھر اُس کے نقشہ نویس نے اُسے اس انداز سے منقش اور تعمیر کیا تھا کہ اُس سے گزرتے ہو ئے یوں محسوس ہوتا تھا جیسے ہم ایک غار سے گزر رہے ہو ں ۔رات کا کھانا ہم نے اسی ہوٹل کی طعام گاہ میں تناول کیا۔اگر چہ ہم ان کے طے شدہ وقت سے کافی دیر سے پہنچے تھے،اصولی طور پر بوفے بند ہونا چاہیے تھا لیکن پھر بھی ہو ٹل والوں نے نہایت خوش دِلی سے اورعمدگی سے ہمیں کھاناپیش کیا۔رات کافی ہوچکی تھی اور صبح بہت جلدیعنی قبل از نماز فجر ہوائی غبارے کی سواری کے لیے جانا تھا،اس لیے جلد ہی سوگیا۔
پانچواں دِ ن ،سوموار،۲۴۔ستمبر۲۰۱۷ء 
پریوں کے دیس میں ہوائی غبارے کی سواری ہم کپاڈوشیا یا کپاڈوکا(صحیح تلفظ کیا ہے ،نہیں معلوم )، میں ایک طویل سفر کے بعد رات دیر سے پہنچ گئے تھے۔یہ علاقہ سیاحوں کی دلکشی اور دلچسپی کا بہت بڑا مرکز ہے۔ اپنی مخصوص جغرافیائی ہیئت کی وجہ سے یہ علاقہ پریوں کا دیس کہلاتا ہے۔ ہمارے لیے یہاں جو مخصوص تفریحی عمل تجویزکیا گیا تھا وہ گرم ہوائی غبارے کی سواری تھی۔ہم سب اس کے لیے بڑے پر جوش تھے ۔ اس کے لئے صبح سویرے پانچ بجے کا وقت مقرر کیا گیا تھا کہ ہم لوگ اس وقت ہوٹل لابی میں ہوں اور گاڑی آئے گی اور غبارے والی جگہ پر لے جائے گی۔ہم سب لوگ عین وقت پر ہی ہوٹل گیٹ پر پہنچ گئے۔نماز وہیں ہوٹل کے ہال میں ادا کی اورگاڑی پر سوار ہوکراس مقام پر روانہ ہو گئے جہاں سے ہوائی غبارے نے پرواز کرنا تھی۔ باہر ابھی اندھیرا چھایا تھا،کوئی منظر واضح نہ تھا پتہ نہیں چل رہاتھا کہ کہاں جارہے ہیں اور کہاں سے گزر رہے ہیں۔قریباً۲۰ منٹ بعد’’ ایئرپورٹ ‘‘ پہنچ گئے۔یہ کوئی عمارت یا کوئی رن وے نہیں تھا بلکہ کھلی جگہ اورکچی زمین تھی جیسے کھیتوں میں کھڑے ہوئے ہوں۔ ہمارے علاوہ اور بھی سیاح حضرات وہاں موجود تھے اورکچھ ابھی لائے جا رہے تھے۔ ماحول میں ابھی اندھیرا تھا اور اس غبارہ سواری کی نوعیت کے بارے میں بھی ہم اندھیرے میں تھے۔اس لیے عجیب سنسنی سی تھی۔ ہمارے ایک دو دوست تو کافی خوف زدہ تھے اور ہماری اپنی حالت بھی کچھ اچھی نہ تھی،لیکن اپنے آپ کو سنبھالا ہواتھا اور جوکچھ قرآن میں سے زبانی آتا تھا، پڑھے جا رہا تھا۔انتظامیہ نے کچھ کاغذات پر ہمارے نام پتہ لکھے اوردستخط لئے جس سے جسم میں،یہ سوچ کر، خوف کی لہر دوڑ گئی کہ لو جی اب تو consentبھی سائن کر دی۔پھراِن لوگوں نے چائے اور بسکٹس وغیرہ سے ہماری خاطر تواضع کی جس سے تسلی ہوئی کہ کم ازکم ’’این پی او ‘‘ تو ٹوٹا۔ جلد ہی موٹروں کی گھرڑ گھرڑ کی آوازیں آنا شروع ہوئیں ۔ ابھی اندھیرا ہی تھا،موبائل کی روشنی سے منظر سے آگاہی ہو رہی تھی۔دیکھا کہ ان شور کرتی موٹروں کے ذریعے غباروں میں ہوابھری جا رہی ہے۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے چاروں طرف دیو ہیکل غبارے کھڑے ہو گئے۔تصویروں میں جو غبارے نظر آتے ہیں اُن سے اُن کے حجم کا قطعاًاندازہ نہیں ہوتا اور پھر جب لفظ غبارہ بولتے ہیں تو بھی اُس کے سائز کا تصور نہیں ابھرتا،خیال آتا ہے کہ آخر ایک غبارہ کتنا کچھ بڑا ہوسکتا ہے۔یہ غبارہ تو ہمارے تصور سے بہت بڑا تھا۔غبارے کے ساتھ ایک ایک ٹوکرہ بندھا ہوا ہے۔ہمیں بھی ایک ٹوکرے میں سوار ہونے کا حکم دیا گیا۔اس ٹوکرے میں کوئی صوفہ یا کوئی کرسی ہماری منتظرنہ تھی ، بلکہ کھڑے کھڑے اس غبارہ سواری کا مزہ لیناتھا۔نہ کوئی سیٹ بیلٹ تھی اور نہ کوئی ہیلمٹ،اور نہ کوئی اور حفاظتی تدبیر۔ہم دعائیں پڑھتے ٹوکرے میں سوار ہو گئے۔ہم اس غبارے میں پندرہ سولہ بندے سوار تھے،دو عملے کے آدمی اور باقی سیاح۔چار گیس سلنڈر اور چار ہی گیس سے چلنے والے چولہے،بس یہی مشینری تھی۔ ٹانگے کے گھوڑے کی لگاموں کی طرح کی دو رسیاں تھیں ڈرائیورصاحب کے ہاتھ میں،باقی،نہ کوئی اسٹیئرنگ تھا اور نہ کوئی بریک ،اور نہ کوئی کلچ تھا اور نہ ہی کوئی ریس پیڈل۔جب سب لوگ سوار ہوگئے تو انتظامیہ کی طرف سے، ہم سب کا ایک گروپ فوٹو لیاگیا،اس سے ایک بار پھرہمارے اندر نامعلوم سی سنسنی دوڑ گئی۔ 
بہرحال غبارہ زمین سے اُٹھنا شروع ہوا، چولہا جل رہا تھا اور اس کا شعلہ غبارے کے اندر بھری ہوا کو گرم کر رہا تھا اورچونکہ یہ قانون قدرت ہے کہ گرم ہوا اُوپر اُٹھتی ہے تو غبارے کو بھی اُوپر اُٹھا لے جاتی ہے۔ یہی اس کی راکٹ سائنس ہے۔اور پھر بڑے سکون اور بغیر کسی دھکے کے،غبارہ اوپر اُٹھ گیا۔اتنی smooth اُٹھان تھی کہ ہم سب حیران رہ گئے ۔آہستہ آہستہ غبارہ اوپر اُ ٹھ رہا تھا ،ہماری زبانوں پر ذکر اذکا ر جاری تھے لیکن اب خوف جاتا رہا تھا۔اب صبح کی نرم روشنی چارسو پھیل رہی تھی اور منظر واضح ہو رہے تھے۔ صبح کا یہ منظر ناقابل فراموش ہے۔ہلکی ہلکی ہوا چل رہی تھی۔ موسم میں قدرے ٹھنڈک تھی لیکن ہمارے پاس جو چولہے جل رہے تھے اُن کی گرمی نے ماحول کو آسودہ بنایا ہوا تھا۔اس وقت کپاڈوکیا کی فضاؤں میں ستر کے لگ بھگ غبارے اُڑ رہے تھے اور آسماں پربڑا خوشنما منظر پیش کر رہے تھے۔
کپا ڈوکیاکا لینڈ اسکیپ: 
ہم ہوامیں اڑرہے تھے،بڑی دھیمی ،نرم اور میٹھی میٹھی پرواز تھی۔بڑا لطف آرہاتھا۔ اب جو ارد گرد اور نیچے زمین پر نظر دوڑائی تووہاں حیرت کا ایک جہاں تھا جو ہمارے لیے منہ کھولے کھڑا تھا۔کپادوشیا کاسحر انگیز لینڈ سکیپ اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ ہمیں دعوت نظارہ دے رہا تھا۔یہ علاقہ قدرت کا عجوبہ تھا،کوہ قاف کی پریوں کا دیس۔یہ سارا علاقہ سطح مرتفع ہے۔کٹی پھٹی چٹانیں ہیں کھائیاں ، ندیاں اورچھوٹی چھوٹی پہاڑیاں ہیں۔اگرچہ دور دور بڑے بڑے اور اُونچے اُونچے پہاڑوں نے بھی علاقے کو گھیرا ہوا ہے۔ایک چیز جو اس علاقے کا طرۂ امتیاز ہے وہ عمودی چٹانیں ہیں جو ہر طرف سر اُٹھائے کھڑی ہیں۔مخروطی 
ترا شیدہ یہ چٹانیں مختلف رنگ اور مختلف شکلوں میں سر اُٹھائے کھڑی ہیں۔یہ چٹانیں نیچے سے چوڑی اور اوپر کو تنگ ہوتی جاتی ہیں۔ ہمارے نیچے ایک ایسی جادوئی سرزمین تھی جس کو ہم صحیح طور پرواضح نہیں کر سکتے۔نیچے ہمیں سرسبزوادیاں بھی نظر آرہی تھیں،چٹیل میدان بھی تھے،سرسبز کھیت بھی تھے،کھائیاں بھی تھیں اور عمودی تراشیدہ چٹانیں بھی تھیں۔لگتا تھا کہ ان چٹانوں پر جیسے کسی نے مٹیالا رنگ پینٹ کر دیا ہو اور ابھرتے سورج کی کرنوں میں یہ رنگ ایسی چمک رکھتا تھا کہ اُسے بیان نہیں کیا جا سکتا۔ سب سے بڑھ کر جو عجیب چیز ہم نے دیکھی وہ ان چٹانوں کے اندر تراشیدہ دروازے ،روشندان اور کھڑکیاں تھیں ، نہ جانے یہ کب تراشی گئیں اور نہ جانے کبھی انسانوں کا یہ مسکن رہیں بھی تھیںیا نہیں۔بظاہر تو یہی معلوم ہوتا تھا کہ یہ انسانی ہاتھوں کی صناعی ہے اور یہاں کبھی کوئی انسان رہتے ہوں گے ۔واللہ اعلم۔
دور دور تک ان چٹانوں کے درمیاں جدید انسانی بستیاں بھی نظر آرہی تھیں۔اُن میں سے بعض بستیوں کے نام بھی ہمیں غبارے کے کپتان صاحب نے بتائے تھے۔دور کسی چرچ کی عمارت کی طرف اشارہ کر کے اس نے اس کا بھی نام بتایا تھااور ایک وادی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ وادی عشق کی وادی ہے اس کا نام ’’پیار وادی‘‘ ہے ،نہ جانے کس لیلیٰ مجنوں کی داستان اپنے دامن میں سمیٹے یہ وادی زیب نظر تھی۔دوران پرواز،وائرلیس کے ذریعے اس کا اپنے اسٹیشن کمانڈر سے مسلسل رابطہ تھا۔غبارے کو اُوپر اُٹھانا ،حسب ضرورت نیچے لانا،موڑ کاٹنا،عمودی چٹانوں کے ٹکراؤ سے بچانا،اوردیگرافعالِ پرواز،وہ نہایت مہارت سے انجام دے رہا تھا۔ اس کی زبان تو ترکی ہی تھی ہمارے ساتھ وہ ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں بات چیت کرتا رہا اور ہمیں مختلف معلومات بھی دیتا رہا۔غبارے پر سوار،ہم لوگ بھی آپس میں گپ شپ لگا رہے تھے۔فوٹوز اور ویڈیوز بھی بنا رہے تھے۔ہمارے گروپ کے علاوہ ایک پاکستانی جوڑا بھی ہمارے ساتھ سوار تھا ۔ ان سے بھی ہمارے نجمی صاحب کی گفتگو چل نکلی اور حسب توقع ،تھوڑی ہی دیر بعدوہ جوڑا، نجمی صاحب سے اپنے نفسیاتی امراض کا نسخہ لکھوا رہا تھا۔ابھی تو چیمہ صاحب سے بھی، وہ لڑکی جلد کے بارے میں مشورہ طلب نگاہوں سے دیکھ ہی رہی تھی کہ ہمارے کپتان صاحب نے landing کا اعلان کر دیا اور اس کے لیے ہمیں ہدایات دینے لگ گیا۔پرواز کرتے ہوئے ایک گھنٹہ ہو چکا تھا۔اُترنے کا وقت آگیا تھا۔ہمارا یہ گمان تھا کہ جہاں سے ہم نے اُڑان بھری تھی وہیں جا کر ہم اُتریں گے ،لیکن ہم وہاں سے دور آ چکے تھے ۔کپتان صاحب کی اپنے گراؤنڈعملے سے جو بات چیت ہو رہی تھی اس سے ہم نے اندازہ لگا لیا کہ وہ آغازِ سفر والی جگہ سے دور آچکا ہے اور وہ یہیں کہیں اُترے گا اور اپنے اُترنے کی ممکنہ جگہ کا ان کو بتا کر اُن کو یہاں بلا رہا تھا۔یہ بات میں نے اُس کی ،بدن بولی ،گفتگوکے لہجے اور ہاتھ کے اشاروں سے اخذ کی اور واقعی ایسا ہی ہوا۔جہاں ہم پرواز کر رہے تھے اس کی طرف گاڑیوں کو آتے دیکھاجس میں ہمارے والی وین بھی تھی۔ہمیں یہ مرحلہ سب سے مشکل نظر آرہاتھا۔نہ جانے ہماری تشویش کو،کپتان نے کیسے پڑھ لیا،کہنے لگا،پریشان نہ ہوں،میں ایک ماہر ہواباز ہوں ،بلکہ ان سب غبارہ کپتانوں کا استاد ہوں،فکر نہ کریں انشاء اللہ ہم بہ آسانی اُتر جائیں گے اور واقعی ایسے ہی ہوا،اس نے اور اُ س کے گراؤنڈ عملے نے،انتہائی مہارت اور سلامتی کے ساتھ غبارے کو نیچے اتارلیا۔سب سے پہلے ہمارا ٹوکرا اُس گاڑی کے پلیٹ فارم پر اُترا جس پر اس تہہ شدہ غبارے کو پیک کرنا تھا۔اس ٹوکرے کاٹھیک اُس گاڑی کے پلیٹ فارم پر اُترنا گراؤنڈ عملے کی مدد سے ممکن ہوا۔اس ٹوکرے کو گاڑی میں اتار کر زنجیروں سے باندھ دیا گیا۔جب تک غبارے سے ہوا نہیں نکالتے ہمیں ٹوکرے کے اندر کھڑا رہنے کا حکم تھا۔اگلا مرحلہ غبارے کے اندر سے ہوا کا نکالنا تھا۔غبارے کے اُوپر ایسا نظام تھا کہ وہ اُوپر سے کھل گیااور ہوا اوپر سے نکلنا شروع ہو گئی۔جب کا فی ہوا نکل گئی،تووہ نیچے گر پڑا، پھر ہمیں ٹوکرے سے باہر نکلنے کی اجازت دی گئی۔نیچے آکر سب لوگوں نے آپس میں اور عملے کے لوگوں نے ہمیں مبارکباد دی۔
وادی کبوتراں:
دوران پرواز ہمارے کپتان صاحب نے ،کچھ چمنیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ سامنے کبوتر گھر ہیں اور یہ وادی ،وادی کبوتراں کہلاتی ہے۔ہم نے جب ادھر نظر دوڑائی تو عجیب و غریب منظر دیکھا۔ ان مخروطی چٹانوں میں سینکڑوں کے حساب سے چھ انچ مربع کے سوراخ بنائے گئے تھے۔چونکہ چٹانیں بھی بے شمار تھیں اور ان کے اندر یہ سوراخ بھی لا تعداد تھے،اس لیے اندازہ نہیں لگایا جا سکتا تھاکہ ان کے اندر کتنے کبوتر رہتے ہوں گے۔معلوم ہوا کہ یہاں کے رہائشی صدیوں پہلے ان کھیتوں میں انگوروں کی ایک مخصوص قسم اُگایا کرتے تھے،جس سے وہ شراب بنا کر بیچتے تھے۔اُن انگور کے کھیتوں میں کبوتروں کی بیٹ کو بطور کھاد استعمال کرتے تھے اور اس بیٹ کے حصول کے لئے انھوں نے ان عمودی چٹانوں میں کبوتر گھر بنا رکھے تھے اور کبوتروں کو یہاں پالتے تھے۔اب نہ وہ لوگ رہے ،نہ وہ کبوتر اور نہ ہی وہ انگوری شراب کے کارخانے۔ہاں البتہ یہ کبوتر گھر جوں کے توں موجود تھے اور نیچے کھیتوں میں انگور کے پودے بھی تھے۔ہمارا یہ ’’ہوائی جہاز‘‘جس سرزمین پر لینڈ ہوا،اُس کے آس پاس انگور ہی کے پودے لگے تھے۔ہم تو سنتے تھے کہ انگور کی بیلیں ہوتی ہیں،لیکن یہ تو چھوٹے چھوٹے خوبصورت پودے تھے جن پر رنگ برنگے انگور بھی لگے ہوئے تھے۔ہمارے کچھ لوگ ان کی طرف بڑھے اور انگور توڑ توڑ کر کھانے لگے ۔ان کی دیکھا دیکھی ہم نے بھی ایک آدھ انگور توڑا اور چکھا اور بڑا ہی لذیذ پا یا۔یہ پہلا موقع تھا کہ ہم یوں تازہ تازہ انگورlive کھانے لگے تھے کہ ’’ہمارا تقویٰ‘‘جاگ اُٹھا اوراُس نے ہمیں اس کھیت سے واپس بلا لیا۔ جب ہم وہاں سے رخصت ہونے لگے تو غبارے کی انتظامیہ نے ہمیں میڈل پہنائے جیسے ہم نے کوئی بڑاکارنامہ سر انجام دیا ہو اور انھی انگوروں سے اور دیگر پھلوں اور چائے بسکٹ وغیرہ سے ہماری مہمان نوازی اور خاطر داری کی۔اس refreshmint کے آخر میں ایک مشروب بھی پیش کیا گیا۔(جاری ہے)






دس خوبیاں
کوئی کیسا ہی کند ذہن کیوں نہ ہو یہ دس خوبیاں ایسی ہیں جس کے لیے زیرو ٹیلنٹ درکار ہے، مطلب؟مطلب یہ کہ صرف نیت اور ارادہ کافی ہے۔
۱۔ وقت کی پابندی
۲۔ مقدور بھر کوشش کرنا
۳۔ کام کی اخلاقیات اپنانا
۴۔باڈی لینگویج
۵۔توانائی جمع رکھنا
۶۔ درست رویہ اپنانا
۷۔ جذبہ اور شوق
۸۔سیکھنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہنا
۹۔ذمہ داری سے بڑھ کر کام کرنا
۱۰۔ہر وقت ایکٹو رہنا
یہ دس خوبیاں جس میں بھی ہوں وہ چاہے کسی اور خوبی کا مالک نہ بھی ہو تب بھی اسے کامیابی سے کوئی نہیں روک سکتا۔.