دروز ، ، عقائد اور حقائق

مصنف : ستونت کور

سلسلہ : تاریخ

شمارہ : اگست 2021

دُرُوزDuruz مشرق وسطیٰ میں قائم ایک منفرد عقائد و نظریات کا حامل مذہبی فرقہ ہے جو کہ 10ویں صدی میں وجود میں آیا۔ اس فرقے کے بعض عقائد اسلام بعض ہندو مت جبکہ اکثریت اسماعیلی شیعہ فرقہ سے اخذ ہوئے ہیں۔
جغرافیائی حدود:
دروز مذہب کے ماننے والے ان ممالک میں اور اس تعداد میں آباد ہیں۔
سوریا  = تقریباً 10 لاکھ۔
لبنان = تقریبا ً250000
اسرائیل اور مقبوضہ جولان = تقریباً 145000
وینزویلا = تقریبا ً60000
امریکہ = تقریباً 50000
کینیڈا ، اردن ، آسٹریلیا ، و جرمنی = تقریباً 75000
دروز شام کی آبادی کا 3% لبنان کی آبادی کا 5.5% جبکہ اسرائیل کی آبادی کا 1.6% حصہ ہیں۔ 
تاریخ:
دروز نامی فرقہ 10ویں صدی میں فاطمی سلطنت کے دارالحکومت قاہرہ (مصر) میں وجود پایا۔
'' الحاکم بامر اللہ'' فاطمی سلطنت کا 16واں خلیفہ تھا۔ اس کے کچھ مصاحبین اور اس کے قریبی حلقہ کے کئی لوگوں نے اپنے گمان میں الحاکم بامر اللہ کو انسان کے بجائے خدا کا اوتار سمجھنا شروع کردیا جبکہ اس اعتقاد کو باقاعدہ مذہب کا درجہ '' حمزہ بن علی بن احمد'' نے دیا جوکہ الحاکم کا قریبی مصاحب تھا۔
آنے والے سالوں میں جہاں عامتہ الناس نے اس نئے مذہب کی شدید مخالف کی اور اسکے خلاف مزاحمت کی وہیں الحاکم کے قریبی حلقہ میں دروزی مذہب کی مقبولیت میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہوتا گیا۔
1021 میں حمزہ کا قتل ہوگیا اور غالب امکان یہی ہے کہ اسے الحاکم کے حکم پہ قتل کیا گیا تھا۔جبکہ 12 فروری 1021 کی رات اچانک سے الحاکم بامر اللہ خود بھی لاپتہ ہوگیا اور آج تک اس کا کوئی سراغ نہ مل پایا۔ان دونوں کی موت اور گمشدگی کے بعد دروز کی کمان '' بہاء الدین المقتنیٰ'' کے ہاتھ آگئی اور 1043 میں اس نے اعلان کیا کہ: ''اب سے مزید کوئی بھی شخص دروز میں داخل نہیں ہو سکتا''.
تب سے لے کر اب تک یہود کی طرح دروز میں بھی کوئی دوسرے مذہب کا شخص نہیں داخل ہونے کا اہل نہیں۔اس کے بعد طویل عرصے تک دروز کی تاریخ خاموش رہی۔
صلیبی جنگوں کے دوران دروزی فوج  نے صلیبی افواج کے خلاف پہلے ایوبی سلطنت اور پھر مملوک سلطنت کا ساتھ دیا.1305 میں، اسلام کی سلفی برانچ کے امام، ابن تیمیہ نے اپنے فتویٰ میں دروز کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دے دیا۔
16ویں اور 17ویں صدی میں دروز سلطنت عثمانیہ کے خلاف ان گنت مسلح بغاوتیں شروع کیں جنہیں عثمانیوں نے کچل ڈالا۔1860 میں شام میں دروز اور عیسائی گروپوں کے درمیان طویل جھڑپوں میں 12000 افراد مارے گئے۔1910 میں لبنان و سوریا میں دروز جنگجووں نے ترک حکومت کے خلاف شدید نوعیت کی بغاوت چھیڑ دی جسے ترک افواج نے کچلتے ہوئے 2 ہزار باغیوں کو مار ڈالا اور ہزاروں کو زخمی و گرفتار کرلیا۔عرب-اسرائیل جنگوں میں دروز واحد عرب گروہ تھا جو اسرائیلی فوج کے ساتھ مل کر عربوں اور فلسطین کے خلاف لڑے۔
موجودہ دور میں مجموعی طور پر دروز کو غیرمسلم تسلیم کیا جاتا ہے اور دروز بھی خود کو غیر مسلم گردانتے ہیں تاہم مصر کی جامعہ الازھر یونیورسٹی نے اپنے فتویٰ میں دروز کو مسلم قرار دیا ہے۔
شام میں دروز شامی حکومت جبکہ اسرائیل میں دروز اسرائیلی حکومت کو سپورٹ کرتے ہیں تاہم دروز نے اسرائیل کو یہودی ریاست ڈکلیئر کرنے کی حالیہ کوششوں کی مخالفت کی ہے۔2014 میں شام میں داعش کے ٹیک اوور کے ساتھ دیگر مذہبی اقلیتوں کے ساتھ ساتھ دروز کو بھی داعش کے ہاتھوں بھاری جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔
عقائد:
دروز اپنے آپ کو ''موحدین'' کہتے ہیں اور ایک خدا یعنی اللہ پر یقین رکھتے ہیں۔ تاہم یہ ''وحدت الوجود'' کے ماننے والے ہیں۔
الحاکم بامر اللہ کو دروز مہدی قرار دیتے ہیں۔
دروز کی مقدس کتاب ''  رَسَائِل الْحِکْمَۃ'' ہے جس کا مصنف حمزہ بن علی بن احمد تھا اور یہ کتاب 111 رسائل پر مشتمل ہے۔
دروز کی عبادت گاہ کو ''خلوہ'' کہا جاتا ہے۔ مرکزی خلوہ ''البیاضہ، شام'' میں واقع ہے۔کوئی شخص دروز مذہب میں داخل نہیں ہوسکتا نہ ہی کوئی دروز، غیر دروز میں شادی کر سکتا ہے۔دروز عقیدہ کے مطابق دروز کمیونٹی میں دو درجہ کے لوگ شامل ہیں ایک سینیئر دروز انہیں ''عقال'' کہا جاتا ہے اور دوسرے جونئیر دروز جنہیں ''جہال'' کہا جاتا ہے۔ مقدس کتاب رسائل الحکمہ تک صرف عقال کی ہی رسائی ممکن ہے۔
دروز قرآن پڑھ سکتے ہیں۔دروز ''باطنیت'' کو مانتے ہیں یعنی ہر چیز ہر لفظ اور ہر عبارت کے دو معنی ہوتے ہیں ایک ظاہر جو ہر کوئی سمجھ سکتا ہے اور ایک باطنی جسے صرف ''عقال'' ہی سمجھ سکتے ہیں۔دروز، تناسخ یعنی آواگون پر یقین رکھتے ہیں۔ ان کے مطابق جب کوئی دروز مرتا ہے تو اس کا دوسرا جنم ہوتا ہے اور اگلے جنم میں بھی وہ دروز ہی ہوتا ہے اسطرح یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔
تقیہ: اثناء عشری طریقہ کار پر دروز تقیہ یعنی مصلحتاً جھوٹ کو مانتے ہیں۔
نبوت: 
دروز میں نبوت کا عقیدہ انتہائی پیچیدہ ہے۔ بنیادی طور پر دروز جنابِ محمد (PBUH) کو تو نبی تسلیم کرتے ہیں لیکن ساتھ میں حضرت علی کو بھی نبی ہی مانتے ہیں۔ اسی طرح دروزی عقیدہ میں فیثاغورث، ارسطو، سقراط، عیسی (PBUH), یوحنا، سینٹ مارک، سینٹ لیوک، سینٹ میتھیو، حمزہ بن علی بن احمد، محمد بن وہب ، بہاء الدین المقتنی یہ سب ہی پیغمبر تھے۔
مہدی: دروزی عقیدہ کے مقابل 16واں فاطمی خلیفہ الحاکم بامر اللہ مہدی ہے جوکہ اب غیبہ میں ہے اور وقت کے آخر میں چین سے نمودار ہوگا۔دورز کے ہاں بدھ کا دن مقدس ہے۔دروز سور، شراب اور سگریٹ کو حرام گردانتے ہیں۔
مقدس مقامات: 
دروز اپنے بزرگوں اور اس کے علاوہ انبیاء کے مدفنوں کو ''مقام'' کہتے ہیں اور ان کے حج کو ''زیارہ'' کہا جاتا ہے۔ سب سے مقدس مقام اسرائیل میں پیغمبر جنابِ شعیب کا مراز مانا جاتا ہے جس کا حج 25 تا 28 اپریل کو کیا جاتا ہے۔ دیگر دروزی مقدس مقامات لبنان، سوریا اور اسرائیل میں واقعہ ہیں۔
عورت کا مقام:
دروزی عقائد میں عورت کو امتیازی حیثیت حاصل ہے کوئی بھی دروزی عورت تعلیم حاصل کرسکتی ہے، جائیداد خرید یارکھ سکتی ہے کاروبار کرسکتی ہے۔ ہر دروز لڑکی کو 21 سال کی عمر تک شادی کرنا لازم ہے۔ شادی سے قبل کسی قسم کے جنسی تعلقات کی سخت ترین ممانعت ہے۔ 
تہوار:
دروز صرف عید الاضحیٰ کا تہوار مناتے ہیں جوکہ دروز کی زیارہ کے بعد اپریل-مئی میں۔ اس میں قربانی شامل نہیں۔
دروز رمضان یا اس سے ہٹ کر روزہ نہیں رکھتے۔بہت سے فقہی مسائل میں دروز ابو حنیفہ کی تعلیمات کو فالو کرتے ہیں۔
موجودہ سٹیٹس:
موجودہ جمہوری دور میں وہ سب ممالک کہ جہاں دروز کمیونٹیز وجود ہیں وہاں دروز کو اقلیتی سٹیٹس اور تمام تر اقلیتی حقوق حاصل ہیں۔ اسرائیل میں دروز اہم سول اور عسکری عہدوں پر تعینات ہیں۔