ہمارے علم کی حد تک ایسی کوئی بات نصوص شرعیہ سے ثابت نہیں ہے۔ فتویٰ کمیٹی سعودی عرب سے اس مسئلے کے بارے پوچھا گیا،تو اس نے جواب دیتے ہوئے کہا: ’’ہمارے علم میں کسی جنازہ کے ہلکا یا بھاری ہونے کے اسباب محض حسی اسباب ہیں۔مثلاً میت کانحیف ہونا یا بھاری جسم کا ہونا۔ اور جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ اگر جنازہ ہلکا ہو تو یہ میت کی کرامت ہے ۔ اور اگر بھاری ہو تو یہ اس کے فسق وفجور کی  علامت ہے۔تو اس کی کوئی اصل شریعت مطہرہ میں موجود نہیں ہے۔ جہاں تک جنازہ کے حرکت کا معاملہ ہے تو یہ جنازہ کے زندہ ہونے پر دلالت کرتا ہے اور اس پر کہ اس کی وفات ابھی تک نہیں ہوئی۔ پس جنازہ کو غور سے دیکھنا چاہیے اور اس بارے کسی سپیشلسٹ ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے یہاں تک کہ وہ اس کی موت کی تصدیق کر دے۔ اور جب تک اس کی موت کا یقین نہ ہو، اس وقت تک اسے دفن نہیں کرنا چاہیے۔ 

(آن لائن فتاوی (محدث فورم اور محدث فتوی))

جی ہاں خریدی جاسکتی ہے۔ کفارو مشرکین کے ساتھ بیع وشراء کرنا حرام نہیں ہے بلکہ جائز ومباح  امرہے۔اسکی واضح ترین دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی درع ایک یہودی کے ہاں گروی رکھ کر اپنے اہل بیت کے لیے کچھ راشن اس سے خریدا تھا۔یہ روایت صحیح بخاری سمیت متعدد کتب حدیث میں موجود ہے۔

(آن لائن فتاوی (محدث فورم اور محدث فتوی))

جواب: جب کوئی شخص صدق دل سے معافی طلب کرے یا معذرت کرے تو اسے معاف کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:وَلْیَعْفُوا وَلْیَصْفَحُوا أَلَا تُحِبُّونَ أَن یَغْفِرَ اللَّہُ لَکُمْ وَاللَّہُ غَفُورٌ رَّحِیمٌ۔اور انہیں چاہیے کہ وہ بھی معاف کریں اور درگزر کریں۔ کیا تم یہ پسند نہیں کرتے کہ اللہ تعالی تمہیں معاف کرے اور اللہ تعالی معاف فرمانے والا اور رحم کرنے والا ہے۔

آیت کا پس منظر یہ ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگانے والوں میں بعض حضرت ابو صدیق رضی اللہ عنہ کے ایسے رشتہ دار بھی تھے کہ جن کی وہ مالی امداد کرتے تھے۔ اس سبب سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان کی مالی امداد روک دی اور انہیں معاف نہ کیا۔ جس پر آیت مبارک نازل ہوئی کہ اگر ایک مسلمان دوسرے مسلمان بھائی کو معاف نہیں کرتا تو وہ اللہ سے معافی کی امید کیسے لگائے بیٹھا ہے؟ یعنی اللہ کو تو یہ پسند ہے کہ اس کے بندوں کو معاف کیا جائے تو جو اس کے بندوں کو معاف نہیں کرتا تو معافی میں ایسے بخیل کی اللہ سے یہ کیے توقع ہے کہ وہ اسے معاف کر دے گا۔پس ان بھائی کے لیے آپ کو معاف کرنا لازم ہے اور اگر وہ ایسا نہیں کرتے ہیں تو آپ نے اپنا فرض ادا کر دیا ہے اور امید ہے کہ اللہ کے ہاں اس میں آپ کی پکڑ نہیں ہو گی۔

(آن لائن فتاوی (محدث فورم اور محدث فتوی))

جواب :ما شاء اللہ تو اللہ کی قدرت کاملہ پر دلالت کرنے والے الفاظ ہیں یعنی جو اللہ نے چاہا یا جیسا چاہا، ویسا بنا دیا یا کر دیا۔ پس کفار بھی اللہ ہی کی مخلوق ہیں اور ان کے پاس موجود نعمتیں یا صلاحیتیں بھی اللہ ہی کی طرف سے عطا کردہ ہیں لہذا ان کے ہاں کچھ ایسا دیکھنے پر یہ کلمات کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ یہ اللہ تعالی کی ذات کے لیے تعریفی کلمات ہیں۔

(آن لائن فتاوی (محدث فورم اور محدث فتوی))

جواب:کلمہ طیبہ لاإلہ الا اللہ محمد رسول اللہ  کے بعینہ الفاظ یکجا احادیث میں کہیں درج نہیں۔ اصل میں یہ اشھد أن لا إلہ إلا اللہ وأشھدأن محمد عبدہ و رسولہ کا مخفف ہے کہ جس میں اللہ کے ایک ہونے او رمحمدﷺ کے رسول ہونے کا پورا ذکر ہے۔

احادیث میں لا إلہ کے الفاظ وارد ہیں جیساکہ حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا:'' أمرت أن أقاتل حتی یقولوا لا إلا إلا اللہ فإذا قالوا لا إلہ إلا اللہ فقد عصموا من اموالھم و انفسھم'' 

’’میں حکم دیا گیا ہوں کہ اس وقت تک لڑائی کرتا رہوں جب تک لوگ لا إلہ إلا اللہ نہ کہہ دیں جب وہ لا إلہ إلا اللہ کہہ دیں تو انہوں نے مجھ سے اپنی جانوں او رمالوں کو محفوظ کرلیا۔‘‘

نبیﷺ اس حدیث میں بھی انہیں کلمہ کے توحید والے حصے کے اقرار کی بات کررہے ہیں اور ان کے الفاظ لا إلہ الا اللہ کے ہیں۔ اس طرح اگر کوئی اشھد أن لا إلہ کی جگہ پر لا إلہ إلا اللہ محمد رسول اللہ استعمال کرتا ہے تو اس میں کلمہ کا پورا مقصود او ر معانی بیان ہوجاتا ہے او راس کے جواز کی درج ذیل وجوہ ہیں:

1۔ کسی بھی زبان میں جمع کی ادائیگی کے وقت کچھ الفاظ مستور اور محذوف کئے جاتے ہیں اور عربی میں بھی اس کی لاتعداد مثالیں موجود ہیں جیسے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کا ترجمہ ’’میں شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے‘‘ جبکہ اس عربی عبارت میں ’’میں شروع کرتا ہوں‘‘ کی کوئی عربی نہیں لہٰذا لامحالہ شروع میں ابتدا یا اشرع کے الفاظ محذوف نکالنے پڑتے ہیں۔

اسی طرح لا إلہ إلااللہ محمد رسول اللہ میں (أشھد أن) لا إلہ إلا اللہ (وأشھد أن) محمد رسول اللہ۔

خط کشیدہ الفاظ محذوف کردیئے جاتے ہیں جو قاری اور متکلم کے ذہن میں موجود ہوتے ہیں۔ لہٰذا اس کا استعمال خود قرآن نے کیا اور احادیث میں جیسا کہ اوپر حدیث گزر چکی ہے اس میں بھی محذوف حکم موجود ہے جو لفظوں میں موجود نہیں۔اس لیے صرف لا إلہ إلا اللہ محمد رسول اللہ کے الفاظ ادا کئے جاسکتے ہیں۔ ہاں نماز میں التحیات میں یہ الفاظ بعینہ پڑھنا ضروری ہیں کیونکہ نماز میں ادا کئے گئے الفاظ مقررہ ہیں ان میں کہیں زیادتی یا کمی نہیں کی جاسکتی۔

2۔لا إلہ إلا اللہ کے مخفف ہونے اور اس کے کلمہ کی جگہ پر استعمال پر اہل علم کا اجماع ہے اہل علم کا اس پر اجماع ہے کسی سے کوئی نکیر ثابت نہیں لہٰذا اس کا استعمال مشروع ہے۔

(آن لائن فتاوی (محدث فورم اور محدث فتوی))

جواب:تحفے میں دی گئی چیز آگے کسی اور کو تحفے میں دے دینا جائز ہے،اس میں کوئی شرعی ممانعت نہیں ہے،کیونکہ تحفہ اس آدمی کی ملکیت بن جاتا ہے جسے دیا گیا ہے، اب وہ اس میں کسی بھی قسم کے تصرف کا اختیار رکھتا ہے،خواہ اسے اپنے پاس رکھے یا کسی اور کو دے دے۔صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں متعدد ایسے واقعات ملتے ہیں کہ وہ تحفہ میں ملی چیز کو آگے تحفے میں دے دیتے تھے۔مثلاً ایک روایت میں آتا ہے کہ صحابی رضی اللہ عنہ نے بکرے کی ایک سری کسی کو تحفہ میں دی،انہوں نے کسی اور کو دے دی، اور پھر وہ سری گھومتی گھماتی پہلے صحابی رضی اللہ عنہ کے پاس واپس آگئی، جس نے پہلی دفعہ دی تھی۔

(آن لائن فتاوی (محدث فورم اور محدث فتوی))

جواب:گھر میں کچھوا رکھنا شرعاً جائز ہے بشرطیکہ اس کی خوراک اور ماحول کا خیال رکھا جائے۔کچھوے سمیت کسی بھی چیز میں نحوست نہیں ہے۔ اسلام میں نحوست اور بدشگونی کا کوئی تصور نہیں، اس لئے کسی چیز ، کام یا دن کو منحوس سمجھنا غلط ہے۔ یہ محض توہم پرستی ہے۔ حدیث شریف میں بدشگونی کے عقیدہ کی تردید فرمائی گئی ہے۔ سب سے بڑی نحوست انسان کی اپنی بدعملیاں اور فسق و فجور ہے، جو آج مختلف طریقوں سے گھر گھر میں ہو رہا ہے ··· اِلَّا ما شاء اللہ! یہ بدعملیاں اور نافرمانیاں خدا کے قہر اور لعنت کی موجب ہیں، ان سے بچنا چاہئے۔

(آن لائن فتاوی (محدث فورم اور محدث فتوی))

جواب:بیٹی کا خاوند بیٹی کی ماں کے لیے محرم ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ محرمات کے بیان میں فرماتے ہیں: وَأُمَّہَاتُ نِسَائِکُم...النساء

’’اور تمہاری بیویوں کی مائیں (بھی تم پر حرام ہیں)۔‘‘

اور اس بات پر اہل علم کا اجماع ہے۔ گویا بیوی کی ماں اور دادیاں خواہ وہ باپ کی طرف سے ہوں یا ماں کی طرف سے، مذکورہ بالا آیت کی رو سے، سب کی سب عورت کے خاوند کے لیے حرام ہیں۔

(آن لائن فتاوی (محدث فورم اور محدث فتوی))

 جواب:قرآن کی ہر سورت اور ہر آیت روحانی بیماریوں کی شفا، مومنوں کے لیے ہدایت اور رحمت کا باعث ہے، جو شخص بھی ان سے رہنمائی حاصل کرے گا اور ان پر عمل کرے گاوہ کفر، گمراہی اور عذاب الہٰی سے نجات پاجائے گا۔ رسول اللہﷺ نے دم کر نا قولاً، عملًا اور تقریر اً جائز قرار دیا ہے۔ لیکن نبیﷺ سے یہ ثابت نہیں کہ آپ نے مذکورہ بالا آٹھ سورتوں کو منجیات کا نام دیا ہو۔ البتہ یہ ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سورۃ اخلاص، سورۃ الفلق اور سورۃ الناس سوتے وقت تین تین بار پڑھ کر ہاتھوں پر پھونک مارتے، پھر ہاتھ چہرے پر اور باقی جسم پر جہاں تک ہو سکتا پھیر لیتے تھے۔ اس کے علاوہ جب ابوسعدﷺ نے ایک غیر مسلم قبلہ کے سردار پر سورت الفاتحہ پڑھ کر دم کیا تو اسے بچھو کے کاٹنے سے ہونے والی تکلیف ختم ہوگئی۔ اور نبی ﷺ نے اس دم کو جائز قرار دیا۔ اسی طرح سوتے وقت آیت الکرسی پڑھنے کی اجازت دی اور بتایا کہ جو شخص یہ آیت پڑھے گا، رات بھر شیطان اس کے قریب نہیں آئے گا۔ لہٰذا جو شخص سوال میں مذکورہ سورتوں ہی کو نجات دینے والی، کہتا ہے وہ جاہل بھی ہے اور بدعتی بھی اور جس نے انہیں باقی قرآن سے الگ کر کے نجات کے لیے یا حفاظت یا برکت کی نیت سے جمع کیا اس نے غلط کیا ہے کیونکہ یہ سیدنا عثمانﷺ کے مصحف کی ترتیب کے خلاف ہے جس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اجماع ہے اور اس لیے بھی کہ اس نے قرآن کے اکثر حصے کوچھوڑدیا اور بعض قرآن کو اس عمل کے ساتھ خاص کرلیا جس کے ساتھ رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے خاص نہیں کیا۔ لہٰذا اسے اس کام سے منع کرنا چاہیے اور غلط کام کی تردید اور ازالہ کے لیے جو نسخے اس طرح کے چھپ چکے ہیں، انہیں عوام میں نہیں پھیلانا چاہے۔

(آن لائن فتاوی (محدث فورم اور محدث فتوی))

جواب:اس آیت کریمہ میں ہارون سے مراد وہ ہارون بھی ہوسکتے ہیں جو موسیٰ علیہ السلام کے بھائی اور اللہ کے نبی تھے۔اس صورت میں ہارون کی بہن کا مطلب حقیقی بہن نہیں بلکہ ان کادینی بہن ہے۔کیوں کہ بالفعل ہارون علیہ السلام اور مریم علیہ السلام  کے درمیان سینکڑوں سال کا فاصلہ ہے اور وہ دونوں حقیقی بھائی بہن ہوہی نہیں سکتے۔ لوگوں نے جو انھیں ہارون علیہ السلام کی بہن کہہ کر پکارا تو ان کا مقصد یہ تھا کہ اے وہ عورت جو اس نبی صالح  علیہ السلام  کی ذریت میں سے ہے  اور جسے ہیکل سلیمانی کی دیکھ بھال اور عبادت الٰہی کی بنا پر اس نبی صالح سے ایک خاص نسبت ہے تو آخر وہ کس طرح اس بدکاری کی مرتکب ہوسکتی ہے؟یہ بات تو سبھی کو معلوم ہے کہ ہیکل سلیمانی کی دیکھ بھال کا شرف ہارون علیہ السلام کی اولاد کو حاصل تھا اور مریم علیہ السلام نے بھی اپنی زندگی ہیکل سلیمانی کی دیکھ بھال کے لیے وقف کررکھی تھی۔اسی نسبت سے کہنے والوں نے انہیں ھارون کی بہن کہہ دیا۔ہارون سے مراد مریم علیہ السلام کا ہم عصر کوئی دوسرا عابدوزاہدشخص بھی ہوسکتاہے۔گویا کہ زھدوعبادت کی نسبت کے پیش نظر لوگوں نے انہیں ہارون کی بہن کہہ کر پکارا ہو۔

مسند احمد،صحیح مسلم اور ترمذی وغیرہ میں  مغیرہ بن شعبہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اہل نجران کی طرف بھیجا اور وہ سب عیسائی تھے۔ان عیسائیوں نے مغیرہ بن شعبہ سے’’یا اُخت ھارون‘‘پراعتراض کیا کہ وہ ہارون کی بہن کیسے ہوسکتی ہیں حالاں کہ ان کے درمیان سینکڑوں سال کا فاصلہ ہے۔مغیرہ بن شعبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائے اوران لوگوں کا اعتراض آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تم نے انہیں یہ بات نہیں بتائی کہ اس زمانہ میں لوگ اپنے بچوں کا نام انبیاعلیہ السلام وصالحین کے نام پر رکھتے تھے؟اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ ھارون سے مراد موسیٰ علیہ السلام  کے بھائی نہیں ہیں جیسا کہ اہل نجران نے سمجھا بلکہ ہارون سے مراد مریم علیہ السلام  کا ہی ہم عصر کوئی نیک اور عابد وزاہد شخص ہے جس کانام ہارون تھا۔

(آن لائن فتاوی (محدث فورم اور محدث فتوی))

لجنہ دائمہ کے مطابق لازم نہیں ہے بلکہ افضل عمل ہے کہ سلام کا جواب بھی دے اور اس کے بعد دوبارہ تلاوت شروع کر لے۔مثلا اگر مسجد میں بیٹھ کر قرآن پڑھ رہے ہوں تو کوئی فرد آکر سب کو سلام کہے تو باقی افراد اس کا جواب دے دیں پھر قرآن پڑھنے والے کو بھی جواب دینا چاہیئے یا نہیں؟لازم نہیں ہے، افضل ہے۔

(آن لائن فتاوی (محدث فورم اور محدث فتوی))

جواب:اگر تو کوئی شخص بطور ثواب اور غور وفکرو تدبر کی نیت سے سنتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔کیونکہ عورت کی آواز میں بذات خود پردہ نہیں ہے۔اس کی دلیل وہ آیات حجاب ہیں جن میں اللہ تعالی فرماتے ہیں۔:یٰنِسائَ النَّبِیِّ لَستُنَّ کَأَحَدٍ مِنَ النِّسائِ  إِنِ اتَّقَیتُنَّ فَلا تَخضَعنَ بِالقَولِ فَیَطمَعَ الَّذی فی قَلبِہِ مَرَضٌ وَقُلنَ قَولًا مَعروفًا (سورۃ الاحزاب)

’’اے نبی کی بیویو! تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو، اگر تم پرہیز گاری اختیار کرو تو تم نرم لہجے میں بات نہ کرو، کہ جس کے دل میں روگ ہے وہ کوئی برا خیال کرنے لگے، اور ہاں قاعدے کے مطابق اچھا کلام کرو ‘‘

اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر عورتوں کی گفتگو میں نرمی، اور لوچ نہ ہو تو وہ گفتگو بذاتہ جائز ہے،نیز نبی کریم کا طریقہ کار بھی ہمارے لئے نمونہ ہے،آپ عورتوں کے ساتھ گفتگو کرلیا کرتے تھے اور ان کو وعظ ونصیحت بھی فرمایا کرتے تھے۔اسی طرح امہات المومنین وعظ وارشاد فرمایا کرتی تھیں۔اور اگر کوئی شخص بطور لذت یا شہوت کسی خاتون کی آواز سنتا ہے تو یہ حرام عمل ہے،اس کی کسی حالت میں بھی اجازت نہیں ہے۔

(آن لائن فتاوی (محدث فورم اور محدث فتوی))

جواب:دوسروں کے بارے میں خیرخواہی کے پاکیزہ جذبات کا نام محبت ہے۔ جن لوگوں سے اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ محبت کی جائے، ان سے اللہ تعالیٰ کو خوش کرنے کے لیے محبت کی جانی چاہئے۔ البتہ جن لوگوں سے نفرت کرنے کو اللہ تعالیٰ پسند کرتے ہیں ان سے نفرت کرنا ضروری ہے۔ یہ الحب للہ والبغض فی اللہ کا اصول احادیث میں بیان ہوا ہے۔ مسلمان بھائی سے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے محبت کرنا حلاوت ایمان کا سبب ہے۔ انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’تین خصلتیں ایسی ہیں، جن میں وہ ہوں گی وہ ایمان کی لذت اور مٹھاس محسوس کرے گا: (1) یہ کہ اللہ اور اس کے رسول اسے ان کے ماسوا ہر چیز (پوری کائنات) سے زیادہ محبوب ہوں۔ (2) اور یہ کہ وہ کسی آدمی سے صرف اللہ کے لیے محبت رکھے۔ (3) اور یہ کہ وہ دوبارہ کفر میں لوٹنے کو اسی طرح برا سمجھے، جیسے آگ میں ڈالے جانے کو برا سمجھتا ہے۔‘‘

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ایک آدمی کسی دوسری بستی کی طرف اپنے کسی بھائی کی زیارت کے لیے نکلا تو اللہ نے اس کے راستے میں اس کی حفاظت کے لیے ایک فرشتہ بٹھا دیا، جو اُس کا انتظار کرتا رہا، جب وہ شخص اس کے پاس سے گزرا تو فرشتے نے پوچھا: تم کہاں جا رہے ہو؟ اس نے جواب دیا: اس بستی میں میرا بھائی رہتا ہے اس کے پاس جا رہا ہوں۔ فرشتے نے پوچھا: کیا اس کا تم پر کوئی احسان ہے جس کی وجہ سے تم یہ تکلیف اٹھا رہے ہو اور اس کا بدلہ اتارنے جا رہے ہو؟ اس نے کہا: نہیں۔ صرف اس لیے جا رہا ہوں کہ’’میں اس سے اللہ کے لیے محبت کرتا ہوں۔ فرشتے نے کہا: میں تیری طرف اللہ کا فرستادہ ہوں۔ اللہ بھی تجھ سے محبت کرتا ہوں جیسے تو اس سے صرف اللہ کے لیے محبت کرتا ہے۔‘‘

اللہ کے لیے اپنے مسلمان بھائیوں سے محبت کرنے والے قیامت کی مشکلات سے بھی محفوظ رہیں گے، ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ اپنے عرش کا سایہ نصیب کریں گے۔

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک اور حدیث میں ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اللہ قیامت والے دن فرمائے گا: میری عظمت و جلالت کے لیے باہم محبت کرنے والے کہاں ہیں؟ آج میں انہیں اپنے سائے میں جگہ دوں گا، جس دن میرے سائے کے علاوہ کوئی سایہ نہیں ہو گا۔‘‘

مسلمان اگر اپنے مسلمان بھائی سے اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر محبت کرتا ہو تو وہ اپنے بھائی کو بتلا دے کہ وہ اس سے محبت کرتا ہے۔ تاکہ دوسرا شخص بھی آگاہ ہو جائے اور وہ بھی محبت و تعاون کا ہاتھ بڑھائے، اس طرح محبت دو طرفہ ہو جائے گی۔ ابو کریمہ مقداد بن معدیکرب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جب آدمی اپنے بھائی سے محبت کرے تو اسے چاہئے کہ اسے بتلا دے کہ وہ اس سے محبت کرتا ہے۔‘‘

دوسری حدیث میں ہے، انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ایک اور آدمی وہاں سے گزرا، آپ کے پاس بیٹھے ہوئے شخص نے کہا: اللہ کے رسول! میں یقینا اس گزرنے والے شخص سے محبت کرتا ہوں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا: کیا تو نے اسے بتایا ہے؟ اس نے کہا: نہیں، آپ نے فرمایا: اسے بتا دو، چنانچہ وہ شخص (تیزی سے) اس کے پاس گیا اور اس سے کہا:’’میں تجھ سے اللہ کے لیے محبت کرتا ہوں۔ اس نے جواب میں کہا: اللہ تجھ سے محبت کرے جس کے لیے تو نے مجھ سے محبت کی۔‘‘

ابو ادریس خولانی رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں: میں دمشق کی مسجد میں گیا (تو دیکھا) کہ ایک جوان آدمی، جس کے اگلے دانت خوب چمکیلے ہیں، کے پاس لوگ بیٹھے ہوئے ہیں۔ جب وہ آپس میں کسی چیز کی بابت اختلاف کرتے ہیں تو اس کے (حل کے) لیے اس سے سوال کرتے ہیں اور اپنی رائے سے رجوع کر کے اس کی رائے کو قبول کرتے ہیں، چنانچہ میں نے اس جوان کی بابت پوچھا (کہ یہ کون ہے؟) تو مجھے بتلایا گیا کہ یہ (صحابی) معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ ہیں۔ جب اگلا دن ہوا تو میں صبح سویرے ہی مسجد میں آ گیا، لیکن میں نے دیکھا کہ جلدی آنے میں بھی وہ مجھ سے سبقت لے گئے ہیں اور میں نے انہیں (وہاں) نماز پڑھتے ہوئے پایا۔ پس میں ان کا انتظار کرتا رہا، یہاں تک کہ وہ اپنی نماز سے فارغ ہو گئے۔ میں ان کے سامنے کی طرف سے ان کے پاس آیا، انہیں سلام عرض کیا اور پھر کہا:’’اللہ کی قسم! میں آپ سے اللہ کے لیے محبت کرتا ہوں، انہوں نے کہا: کیا واقعی؟ میں نے کہا: ہاں اللہ کی قسم! انہوں نے کہا: کیا واقعی؟ میں نے کہا: واقعی اللہ کی قسم! پس انہوں نے مجھے میری چادر کی گوٹ (کنارے) سے پکڑا اور مجھے اپنی طرف کھینچا اور فرمایا: خوش ہو جاؤ، کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ تباارک و تعالیٰ فرماتا ہے: میری محبت واجب ہو گئی ہے ان کے لیے جو میرے لیے آپس میں محبت کرتے ہیں اور میرے لیے ایک دوسرے کی ہم نشینی کرتے ہیں اور میرے لیے ایک دوسرے سے ملاقاتیں کرتے ہیں اور میرے لیے ایک دوسرے پر خرچ کرتے ہیں۔‘‘

(آن لائن فتاوی (محدث فورم اور محدث فتوی))