الفت کے راستے پر ؍ قسط 19

مصنف : ڈاکٹر محمد خالد عاربی

سلسلہ : سفرنامہ

شمارہ : جولائی 2021

مسجد قبلتین:
 کوہ سلع سے ہم روانہ ہوئے تو راستے میں ایک پاکستانی ہوٹل میں شفیق بھائی نے ہمیں ایک اعلیٰ قسم کا ظہرانہ کروایا اور پھر مختلف سڑکوں اور شاہراہوں سے گزارکرایک اور مسجد کے سامنے لا کھڑا کیااور بتایا کہ یہ مسجد قبلتین ہے۔یہ بھی ایک تاریخی مسجد ہے۔ ہم اس کے حسن و قبح یا اس کی تعمیری تکنیک کا مشاہدہ کرنے نہیں آئے تھے بلکہ ہماری اصل دلچسپی سیدی محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پاک کے مختلف گوشوں کی زیارت اورآپ کے نقوش پاکی دھول چاٹنے کی سعادت حاصل کرنا ہے ۔مدینے کی گلیوں میں ہم اپنے سوہنڑے محبوب کی خوشبوکی تلاش میں تھے۔یہاں کی ہر گلی تاریخ،ہر پتھر تاریخ اور ہر مسجد تاریخ و سیر کا ایک باب ہے۔ انھی ابواب میں سے ایک باب مسجد قبلتین کے ساتھ بھی جڑا ہے۔اس کی تعمیر میں تازگی تھی۔خوبصورت اور دیدہ زیب مسجد ہے ۔اس کے ظاہر کو دیکھ کر اندازہ ہو رہا تھا کہ یہاں نماز پنجگانہ کا باقاعدہ اہتما م ہوتا ہے ممکن ہے جمعہ بھی ہوتا ہو۔نہایت قیمتی اور دلکش قالین بچھے تھے اور چندزائرین نوافل ادا کر رہے تھے۔ 
روایات میں آیا ہے کہ پیارے آقا علیہ السلام جب مدینہ تشریف لائے تو بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھا کرتے تھے اور آپ کی یہ خواہش تھی کہ خانہ کعبہ کو قبلہ قرار دینا چاہیے۔۱۸ ماہ تک تو بیت المقدس کی طرف ہی قبلہ رہا جو کہ مدینہ سے شمال کی سمت میں تھا۔اس کے بعد قبلہ کی تبدیلی کا حکم نازل ہوا جو سورہ بقرہ میں نقل ہوا ہے۔یہ مسجد اب تو مدینہ شہر کے اندر ہے اورنہ جانے بلدیاتی تقسیم کے حوالے سے کس محلے اور کس زون میں ہے لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں یہ جگہ مدینہ شہر سے باہرایک بستی میں تھی جس میں قبیلہ بنو سلمہ آباد تھا۔انھوں نے یہاں ایک مسجد بھی بنا رکھی تھی جہاں کبھی کبھار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی نماز پڑھا کرتے تھے۔ایک دِن آپ سرکارصلی اللہ علیہ وسلم اس بستی میں تشریف لائے ہوئے تھے اور مقصد تشریف آوری سیدہ ام بشیر رضی اللہ تعالیٰ عنہاکی عیادت تھا۔آپ حضرت بِشر بن البراء بن معرور رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی والدہ تھیں۔ان لوگوں نے کھانے کا انتظام بھی کر لیا۔سوال و جواب کی محفل بھی سج گئی،اس طرح کرتے کرتے نماز ظہر کا وقت ہو گیا اور حضور صلی اللہ علیہ سلم نے یہیں پر ان کی مسجدمیں نمازپڑھنے کا فیصلہ فرما دیا۔آپ ﷺ ظہر کی امامت فرما رہے تھے اور حسب معمول شمال کی جانب رخ انور تھا کہ تیسری رکعت میں قبلے کی تبدیلی کا حکم آ گیا۔آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے اندر ہی اپنا رخ انورمکہ شریف کی طرف کر لیااورآپ کی اقتدا میں صحابہ کرام نے بھی اپنا رخ بدل لیا اور یوں باقی دو رکعتیں خانہ کعبہ کی طرف جو کہ جنوب کی جانب تھا،منہ کرکے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھائیں۔تاریخ اسلام کا یہ،اپنی نوعیت کا واحد اوراکیلا واقعہ ہے۔یہی وہ مسجد تھی جہاں ایک ہی نماز میں دو قبلے اختیار کیئے گئے اس لیے اس مسجد کو تاریخ مسجد قبلتین کے نام سے جانتی ہے۔ 
تحویل قبلے کا یہ حکم محض نماز کے لیے چہروں کا رُخ بدلنے کا حکم نہیں تھا بلکہ اصلاًیہ امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت کا اعلان تھا۔یہ محض ایک سَمت سے دوسری سَمت کی طرف پھرنا نہیں تھا بلکہ دراصل بیت المقدس سے کعبے کی طرف سَمت قبلہ کا پھرنایہ معنی رکھتا ہے کہ اللہ عز وجل نے بنی اسرائیل کو دنیا کی پیشوائی کے منصب سے باضابطہ معزول کر دیا اور اب قیامت تک امت محمدیہ کو اس منصب جلیلہ پر فائز کر دیاہے۔ ا س میں جہاں ہماری فضیلت و سرفرازی ہے وہاں ذمہ داری کا ایک بہت بڑا بار بھی ہے۔گویا یہ مقام جہاں پر اب یہ مسجد قبلتین رونق افروز ہے ہماری منصب امامت پرتقررو تعیناتی کا مقام ہے۔یہیں پر امت محمدیہ کو سرفرازی اور سربلندی کا پروانہ عطا ہوا تھا۔یہ حکم رجب یا شعبان ۲ ہجری کو نازل ہوا تھا۔
 ۶۔اگست ۲۰۱۹ء بروز منگل
 نم دیدہ نم دیدہ واپسی 
 الوداع حرم نبوی الوداع:
اب ہم اپنے پروگرام کے آخر میں آ چکے تھے۔جوں جوں ہماری واپسی کے لمحات قریب آرہے تھے دِل میں حرم نبوی سے جدائی کی ہوک اُٹھنے لگی۔اپنے آپ کے اندرحرم نبوی کو الوداع کہنے کی ہمت پیدا کر رہا تھا۔سوچتا رہتاکیااب ہم یہاں سے چلے جائیں گے۔دِل کا جانا ٹھیر چکا تھا۔
ہائے !مدینہ طیبہ کی رونقوں سے دور کہیں دور چلے جائیں گے۔ہم جو ٹھیرے اجنبی،کاغذات کے اسیر،ویزہ و پاسپورٹ کے اسیر،محبوب کے شہر میں ہم قانوناًاجنبی تھے۔ہم یہاں مہمان تھے اورمہمانوں کو،جلد یا بدیر جانا ہی پڑتا ہے سو ہم بھی اپنا بوریہ بستر سمیٹ رہے تھے۔
ہمارے سفر حج کایہ پروگرام کچھ یوں طے ہوا تھا کہ ہم ۱۴۔جولائی کوجدہ ائیر پورٹ پر اُترے تھے،مکہ شریف حاضری دی،عمرہ کیااور ۲۸۔جولائی کو مدینہ منورہ حاضر ہو گئے تھے۔اب آج ہمیں واپس مکہ لے جایا جارہاتھا اور اُس کے آگے ،اب حج کے ایام آرہے تھے اورحج کے بعد،۲۰۔اگست کو ہمیں جدہ ائیرپورٹ سے ہی وطن واپس لوٹ جانا تھا۔ہمارے پاس کل آٹھ دِن تھے، سرکار ؐکے دیس ہجرت میں قیام کے ، اور وہ اب پورے ہو رہے تھے۔ ابھی تو ہم نے جی بھرکے مدینہ دیکھا ہی نہیں تھاکہ وقت جدائی آگیا۔زائرین کرام کا رش اتنا زیادہ ہے کہ جی بھر کے ریاض الجنت میں نوافل ادا ہی نہیں ہو سکے تھے۔ اگرچہ ہم جانتے ہیں کہ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تو سب کے نبی ہیں ،ریاض الجنت تو سب کی سانجھی ہے ،پھر بھی اِس جنت میں جی بھر کر رہ ہی نہ سکے۔ہم یہاں بہر حال اجنبی تھے، ہمیں جانا تھا،اپنی مرضی سے یہاں رک تو نہیں سکتے تھے۔بس ،محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کے دیس میں رہنے کاجتنا موقع مل سکا ،غنیمت ہے۔بلاشبہ مدینہ طیبہ میں لی گئی ایک ایک سانس خوشبووں بھری سانس ہے۔یہاں پرگزرا،ایک ایک لمحہ انمول لمحہ ہے ۔یہ خوشبو لیے اور محبوب کے دیس کی یادیں لیے،اے دِل واپس لوٹ چل۔محبوب کا دستر خوان کھلا تھا جتنا مقدر میں تھا وہ لے لیا،اب گھر لوٹ چل۔
ان یادوں کو دِل میں بسائے ہم ،بوجھل دِل کے ساتھ واپس آنے کی تیاریاں کرنے لگے۔
 نم دیدہ نم دیدہ:
آج ہمارا یہاں آخری دِن تھا۔حسب معمول ،نماز فجرمیں حاضری نصیب ہوگئی ۔ اُس سے قبل حضور انور ﷺ کے روضہ پاک کی جالیوں کی زیارت اور درودوسلام پیش کر آیا تھا۔خواہش تھی کہ جنت البقیع میں بھی حاضری ہو جاتی لیکن وقت تنگ تھا،ابھی تھوڑی بہت پیکنگ رہتی تھی ،اِس لیے ہم کمرہ ساتھیوں کے ساتھ ہوٹل واپس آگیا۔ حاجی صاحب نے اور شکیل بھائی نے ،کمال مہربانی سے،میرے اسباب کی خوب سنبھال کی اور بڑے عمدہ طریقے سے اِس کی پیکنگ کی۔اللہ کریم اِن احباب کو بہترین جزا دے ،انھوں نے مجھے اِس فکر سے آزاد کر دیا تھا ۔ ہمارے حاجی اکرم صاحب تو ہیں ہی درویش اور متوکل الی اللہ ، اِن کو نہ شاپنگ کے بکھیڑے کرنے پڑے اور نہ ہی سامان کو باندھنے کے جھنجھٹ میں پڑنا پڑا،اگرچہ وہ ایک ورکر آدمی ہیں ،اپنی طبیعت اور مزاج کے باعث،یہ سب کچھ ، اِن کے لیے کوئی بار نہ تھا ، جیسے میرے لیے تھا،کیونکہ اِن کی شاپنگ اور پیکنگ عابد صاحب اور عرفان صاحب ،کئی دِن قبل ہی کر گئے تھے۔اب رہے ہمارے پانچویں ساتھی،قاری صاحب ،وہ بڑے خود کفیل قسم کی ہستی ہیں۔یہ سارا عرصہ ہم سے جدا ہی رہے،اور اپنے پروگرام الگ ہی کرتے رہے۔ہم صرف رات کو سونے کے وقت اُن کی زیارت سے مستفید ہوتے۔انھوں نے عبادات بھی خوب کیں اور شاپنگ بھی خوب کی۔ہم میں سے ، سب سے زیادہ سامان انھوں نے اکٹھا کیا اور ہم سب سے پہلے اپنی پیکنگ بھی مکمل کر لی تھی۔بڑے ہنس مکھ اور دِل آویز شخصیت ہیں۔کمپنی والوں نے ہمیں ،روانگی کے لیے آج دس بجے دِن کا وقت دیا تھا اور یہ درخواست کی تھی کہ دس بجے سے پہلے پہلے ،آپ لوگ،اپنے اپنے سامان سمیت،ہوٹل لابی میں موجود ہوں۔ہم لوگ جلد ہی تیار ہوگئے۔ناشتہ کرنے کے بعد،حاجی اکرم صاحب کہنے لگے ،کہ،‘‘ ابھی گاڑی آنے میں بڑا وقت ہے، آئیے ،کیوں نہ ایک بار پھر حضور اقدس ﷺ کے روضہ انور پر درود و سلام پیش کر آئیں۔’’شکیل صاحب فوراً تیار ہوگئے،لیکن اِس عاجز پر نہ جانے کیا کیفیت طاری ہوئی کہ عرض کی ،‘‘بھائی!میں تو نہیں جارہا، آپ ہو آئیں ،میری تو اب جرأت نہیں ہوتی کہ مواجہ شریف میں حاضر ہو سکوں،کس منہ سے وہاں حاضر ہوں۔’’
اصل بات یہ تھی کہ پرسوں سے ،جب سے میں ریاض الجنہ سے واپس آیا تھا،میری اندرونی کیفیت کچھ ٹھیک نہیں تھی۔میں ذہنی صدمہ میں مبتلا تھا۔دربار اقدس میں ،جس بے ادبی ،گستاخی اور شور وغل کو ملاحظہ کیا تھا اور جس کا میں بھی حصہ بنا تھا ،اُس سے میں کافی رنجیدہ خاطر تھا اور سوچتا تھا کہ کہیں ہم سب، حضور اقدس ﷺ کی روح منور کی رنجیدگی اور کبیدہ خاطری کا سبب تو نہیں بن رہے۔بس یہی چیز مجھے بار بار رُلاتی تھی اور اب کسی ایسے مجمع کا حصہ بننے سے روکتی تھی۔وہ دونوں بھائی تو چلے گئے اور میں ہوٹل لابی میں بیٹھا رہ گیالیکن مجھے سکون وہاں بھی نہ آیا۔میرے اندر بھی بے تابی تھی۔محبوب ﷺ کے دیس میں آخری لمحات ہونے کی بے تابی!۔میں ہوٹل سے نکل آیا ،اِس نیت سے کہ مدینہ پاک کی گلیوں (streets) میں ہی گھوم پھر أؤں۔میں ہوٹل کے قریب بنے پارک میں جا پہنچا جو قبل ازیں نہیں دیکھا تھا۔صبح کے اِس وقت سے ہی تیز دھوپ نکلی ہوئی تھی۔ٹہلتے ٹہلتے اور پھرتے پھراتے،میں ایک بار پھر مسجد نبوی کے بیرونی جنوبی صحن میں آگیا،میرے سامنے سبز گنبد ضو فشاں تھا اور یہ سوچ کر کہ،نہ جانے کب یہ گنبد خضریٰ دوبارہ دیکھنا نصیب ہو،میری آنکھیں برس پڑیں۔ میں نیچے فرش پر ہی بیٹھ گیا اور دعا کے لیے ہاتھ اُٹھا دیئے۔
لرزیدہ لرزیدہ ہم یہاں حاضر ہوئے تھے اور اب نم دیدہ نم دیدہ رخصت ہو رہے ہیں۔اب نہ جانے کب قسمت یاوری کرتی ہے اور کب ہمیں حرمین میں حاضری نصیب ہوتی ہے ۔اِدھر روز بروز یہاں رش بڑھتا جا رہا ہے اور اُدھر ہماری عمر بھی بڑھتی جا رہی ہے ،صحت گر رہی ہے ،قویٰ مضمحل ہو رہے ہیں اورجسمانی طاقت ختم ہو رہی ہے۔ ریاض الجنہ میں نوافل اور سنہری جالیوں کے سامنے حاضری،تو اس بار بھی خاصی مشکل سے حاصل ہوئی، اگلی بار نہ جانے کب آنا ہو ،اور یہاں کیا حالات ہوں گے،بس ،اس طرح کی سوچیں تھیں جو چیخیں نکال رہی تھیں۔ رم جھم کرتی اور برستی آنکھوں میں،ہم دربار نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے رخصت ہو آئے۔ 
مسجدذوالحلیفہ میں:
میں جب ہوٹل میں واپس آیاتو دیکھا کہ بنگالیوں کی بسیں آچکی تھیں لیکن ابھی تک ہماری بس نہیں آئی تھی۔حاجی محمدیونس صاحب باہر ہی مل گئے۔ اب کی بار بھی ،کمپنی والے ،واپسی کے لیے ،اپنی بس کی حد تک ،اُن پرانتظامی ذمہ داریاں ڈال چکے تھے اور وہ جھنڈا پکڑے ،ایک طرف بس کا اور دوسری طرف ‘‘اپنی سواریوں ’’کا بے چینی سے انتظار کر رہے تھے۔مجھے دیکھتے ہی،قدرے جوش بلکہ غصے سے بولے ،‘‘کدھر نکل گئے تھے،میں اِدھر ہوں ،اپنے سب ساتھیوں کو نکال لاؤ اور سامان بھی چیک کرو ،سب سامان نیچے آگیا یا نہیں،لو ،وہ دیکھو ،ہماری بس بھی آگئی ، جلدی کرو،تم لوگ آؤ اور میں اتنی دیر میں سیٹیں قابو کروں۔’’ایک ہی سانس میں وہ یہ سب کچھ کہہ گئے۔ میں نے عرض کی ، ‘‘سیٹیں میں قابو کر لیتا ہوں،آپ باقی کام کریں،اور دیگر ساتھی بھی اِدھر ہی ہیں ،وہ دیکھیں ،سامنے ہیں،اُن کی فکر نہ کریں۔’’
میں بس میں آکر،چار سیٹیں قابو کر کے بیٹھ گیا۔ہمارا سامان لوڈ کیا جانے لگا۔آہستہ آہستہ کر کے ،ہماری بس کی سواریاں بھی آنا شروع ہوگئیں اور حاجی صاحب کی پھرتیاں اور تجربہ اپنا کام کرنے لگا۔ ہمارے شکیل بھائی تو جلد آ گئے لیکن حاجی اکرم صاحب حسب معمول لیٹ آئے۔وہ کمرہ کو اچھی طرح سنبھال کر اور ہماری بچی کچھی چیزیں اُٹھا کر لے آئے تھے۔سواریاں مکمل ہو گئیں تو دِن کے گیارہ بج کر چالیس منٹ پر ہوٹل سے بس روانہ ہوئی اورپون گھنٹہ ، مدینہ طیبہ کی مختلف سڑکوں کی سیر کرواتے ہوئے،سوابارہ بجے مسجد ذوالحلیفہ پر لے آئی۔ 
مسجد ذوالحلیفہ بھی ایک تاریخی مسجد ہے۔یہ اہل مدینہ کے لیے میقات ہے ،حضور انور ﷺ نے خود ہی اِس مقام کو اہل مدینہ کے لیے میقات کا درجہ دیا تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی اور آپ کے ہم رکاب صحابہ نے بھی، حجۃ الوداع پر جاتے ہوئے ،اور اِس سے قبل عمرہ قضا اور عمرہ حدیبیہ پر جاتے ہوئے یہیں سے احرام باندھا تھا۔ میقات کا مطلب ہوتاہے ایسا مقام جہاں سے ہر زائرکو، حرم میں حاضری کی نیت سے احرام باندھنا ہوتا ہے۔حج و عمرہ پر آنے والا ہر مسلمان ،جو مدینہ طیبہ آتا ہے اوراگر اُسے واپس، مکہ شریف جانا ہو تواُسے یہاں سے احرام باندھنا ہوتا ہے۔(بعض زائرین کرام حج کے بعد یہاں آتے ہیں اور یہاں سے ہی اپنے اپنے وطن کو واپس جاتے ہیں۔) مسجد ذوالحلیفہ کا دوسرا نام یا جدید نام مسجد ابیا رعلی ہے۔یہ مسجد ،شاہراہ مکہ پر،مدینہ طیبہ سے پندرہ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ 
یہ عمارتوں کا بڑا شاندارکمپلیکش ہے۔ دور سے ایک قلعہ دکھائی دیتی ہے۔ایک وسیع پارکنگ ایریا ہے جس میں اِس وقت بھی زائریں کی لا تعداد بسیں اور لاریاں موجود تھیں۔یہاں سے ہم نے ،عمرہ کے لیے احرام باندھنا تھا اور دورکعت ادا کرکے عمرہ کی نیت کرنی تھی۔اُترنے سے پہلے ،حاجی صاحب نے ،ہم سب کو،جلدی کرنے اور واپسی کے لیے اپنی بس کو پہچاننے میں غلطی نہ کرنے کے لیے اسپیشل ہدایات دیں اورپھر ہم بس سے نیچے اُتر آئے۔باہرنکلتے ہی سخت دھوپ اور شدت کی گرمی نے ہمارا استقبا ل کیا۔رش کے باعث کسی قسم کی بد مزگی سے بچنے کے لیے ، ہم نے ،حاجی یونس صاحب کی ہدایت پر،ہوٹل میں ہی احرام باندھ لیا تھا۔البتہ ہماری بس کے کئی دیگر مسافروں نے ابھی احرام باندھنا تھالہٰذا ہمارا گروپ تو سیدھا مسجد میں چلا گیا اور دیگر لوگ غسل خانوں کی طرف چلے گئے۔ بڑے ہی وسیع عریض اور اعلیٰ انتظامات ہیں۔بیک وقت سینکڑوں زائرین کے لیے احرام باندھنے کی سہولیات موجود ہیں۔بہت بڑی سی مسجد ہے۔ قالینی صفوں سے آراستہ،ا یئر کنڈیشنڈ ، صاف ستھرا ماحول،نہایت دیدہ زیب باغیچہ،بالکل علاحدہ طرز کے مینار،ایک نہایت خوبصورت گنبد ،روشیں،برآمدے ، وضو گاہیں اورغسل خانے،لمبے لمبے کھجور کے دیدہ زیب درخت اور دیگر آرائشی پودے،غرض ایک نہایت سرور انگیز اور سہانا ماحول تھا۔ شاپنگ سینٹر بھی موجود تھااور ایمرجینسی میڈیکل سروسز بھی مہیا تھیں۔
ہم تو دوگانہ احرام پڑھ کر ،نیت کرکے ،تلبیہ پڑھتے ہوئے ،جلد ہی باہر نکل آئے اور بغیر کسی بھول چوک کے، شکیل بھائی کی رہنمائی میں،سب سے پہلے ،اپنی بس میں آکر بیٹھ گئے۔دیگر لوگوں نے بھی کمال مستعدی سے یہ سارے امور سر انجام دیئے اور ایک ایک کرکے اپنی بس میں تشریف لے آئے ہماری بس کا ڈرائیور غالباً مصر ی تھا،اُ س کی اپنی سواریوں کی پہچان کمال کی تھی۔میں حیران رہ گیا ،وہ ہمارے ساتھیوں کو جو غلطی سے کسی اور بس کی طرف جا رہے ہوتے ، اُن کو پکڑ کر اپنی بس میں لاکر بٹھا رہا تھا ۔ حاجی صاحب بھی اپنی ڈیوٹی کر رہے تھے ، دونوں ایک دوسرے کے ممدو معاون تھے ۔ آخر میں ،ایک دو بندے لیٹ ہو رہے تھے،وہ ڈرائیور خود مسجد کی طرف گیا اور اُن کو ڈھونڈ کے لے آیا۔کمال پہچان تھی اُس کی۔مسجد کے ارد گرد بے شمار بسیں کھڑی تھی۔سفید کفن پہنے اہل اسلام پھر رہے تھے۔مسجد کے آس پاس خاصی چہل پہل اور رونق تھی۔اِن احرام پہنے اہل اسلام میں سے ہر ملک کے مسلمان نظر آرہے تھے۔
 چشم تصور میں ،یہ خاکسار دیکھ سکتا تھا کہ چودہ صدیاں قبل ،یہاں پرکیسی رونق اور کیسا روح پرور نظارہ ہوگا جب ،میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے کم و بیش ساٹھ ستر ہزار صحابہ کرام کے ساتھ ،یہاں احرام باندھا تھا، لبیک کی صدائیں بلند کی تھیں،نمازیں پڑھی تھیں ،صحابہ کرام کو مناسک حج و عمرہ سکھلائے تھے۔میں سوچ رہا تھا کہ میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا خیمہ مبارک یہاں پرکہاں گاڑا گیا ہوگا۔ہماری سواری تو یہاں پارکنگ میں کھڑی تھی، حضور ﷺ کے قافلے کی سواریاں کہاں ہوں گی۔میرے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم ،اِس سفر میں اپنی اونٹنی قصویٰ پر سوار تھے ، وہ پیاری اُونٹنی بھی تو یہی کہیں بیٹھ رہی ہوگی۔مولانا مبارک پوری اپنی شہرہ آفاق کتاب، ‘‘الرحیق المختوم’’ ،جو اِس وقت میرے ہاتھوں میں ہے ،میں لکھتے ہیں، ‘‘پھر سنیچر کے دِن،جبکہ ذی قعدہ میں چار دِن باقی تھے رسول اللہ ﷺ نے کوچ کی تیاری فرمائی۔بالوں میں کنگھی کی،تیل لگایا،تہبندپہنا،چادر اوڑھی،قربانی کے جانوروں کو قَلاوَہ پہنایا اور ظہر کے بعد کوچ فرما دیااور عصر سے پہلے ذُو الحُلیفہ پہنچ گئے۔وہاں عصر کی نماز دو رکعت پڑھی اور رات بھر خیمہ زن رہے۔صبح ہوئی تو صحابہ کرام ؓ سے فرمایا ،‘‘رات میرے پروردگار کی طرف سے ایک آنے والے نے آکر کہا،اِس مبارک وادی میں نماز پڑھو اور کہو حج میں عمرہ ہے۔’’پھر ظہر کی نماز سے پہلے آپ نے اِحرام کے لیے غسل فرمایا۔ اِس کے بعد حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے آپؐ کے جسم اطہر اور سر مبارک میں اپنے ہاتھ سے ذَرِیرَہ اور مُشک آمیزخوشبولگائی۔خوشبو کی چمک آپ کی مانگ اور داڑھی میں دِکھائی پڑتی تھی مگر آپ نے یہ خوشبو دھوئی نہیں بلکہ برقرار رکھی۔پھر آپ ؐ نے اپنا تہبند پہنا،چادر اوڑھی،دورکعت ظہر کی نماز پڑھی،اِس کے بعد مصلیٰ پر ہی حج اور عمرہ دونوں کا ایک ساتھ اِحرام باندھتے ہوئے صدائے لبیک بلند کی،پھر باہر تشریف لائے،قصویٰ اُونٹنی پر سوار ہوئے اور دوبارہ صدائے لبیک بلند کی۔اِس کے بعد اُونٹنی پر سوارکھلے میدان میں تشریف لے گئے تو وہاں بھی لبیک پکارا۔’’ ‘‘الرحیق المختوم:صفحہ نمبر۶۱۵’’ 
کہا جاتا ہے کہ یہ حج حضور انور ﷺ کا ،مدینہ طیبہ تشریف لانے کے بعد،پہلا حج تھا اورچونکہ اگلے سال ربیع الاوّل کے مہینے میں آپ اِس جہان فانی سے کوچ کر گئے تو یوں یہ آپ کاآ ٓخری حج بھی کہلاتا ہے۔ 
ہماری بس کی سواریاں مکمل ہوئیں،سب دوستوں نے با ٓواز بلند تلبیہ پڑھا اور ہمارا سفر شروع ہوگیا۔بارہ بج کرچالیس پر ،ہم میقات یعنی مسجد ذُوالحُلیفہ سے روانہ ہوئے۔اب ہمارا رُخ مکہ شریف کی جانب تھا۔ہم احرام میں تھے۔تلبیہ پڑھ رہے تھے۔ شاندار موٹر وے تھی۔باہر خوب گرمی تھی ،اگست کی تپتی دوپہرتھی لیکن ہم توایئر کنڈیشنڈ بس میں مزے سے بیٹھے تھے۔ مکہ مکرمہ ،یہاں سے یعنی میقات سے قریباً ۴۱۰ کلومیٹر ہے۔تھوڑی ہی دُور گئے ہوں گے کہ ڈرائیور نے ایک ہوٹل پر گاڑی روک دی اور یہ کہا کہ نماز ظہر ادا کر لیں۔زائرین کی کافی گاڑیاں رکی ہوئی تھیں۔ہوٹل تو اتنا اچھا نہیں تھا اور نہ ہی ہمیں خورونوش کی کوئی خاص طلب تھی لہٰذا ہم ہوٹل کی طرف تو نہ ہوئے البتہ مسجد میں جا کر نماز ظہر ادا کرکے جلد ہی بس میں لوٹ آئے۔یہاں سے نکلے تو وہی لینڈ اسکیپ سامنے تھا جس کا قبل ازیں تذکرہ کر چکا ہوں،یعنی پتھروں اور کھیت اور ریت کے میدان اور دُور دُور کالے سیاہ پہاڑ۔مکمل طور پر بے آب و گیاہ وادی،نہ کوئی سبزہ ہی کوئی گل بوٹا۔ریت کا اِک وسیع و عریض صحرا۔
گاہے گاہے ،سیدی محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حجۃ الوداع کا قافلہ بھی میرے ساتھ ساتھ چلتا نظر آتارہا۔گھوڑے ،خچر اور اونٹوں پر سواراور پیدل چلتے ہوئے قدسیوں کی جماعت ! کیسا سماں ہوتا ہوگا جب دسیوں ہزار لوگ،سفید کفن میں ملبوس ،مکہ کی طرف جارہے تھے۔اُن کے لیے تو احرام کی پابندیوں کا وقت کئی دنوں پر مشتمل تھا اورہم تو چند گھنٹوں بعد اِن پابندیوں سے فارغ ہو جائیں گے۔راستے تو بلاشبہ یہی تھے ،لینڈ اسکیپ یہی تھا لیکن سفر کی صعوبتیں تو بے پناہ ہوں گی جن کا اُن قدسیوں کو سامنا تھا۔ریت اور بجری اور پتھروں کا سمندر، پاؤں میں ہلکے جوتے یا اکثریت ننگے پاؤں ہی ہوگی شاید!موسم کی شدت ،مارچ کا مہینہ ،عرب میں گرم مہینہ ہی ہوتا ہے ،،جھلسا دینے والی دھوپ ،بدن کو چیر دینے والی صحرائی گرم تپتی ہوائیں ،کیسا عالم ہوگا ،اُس قافلے والوں کا ! صحابہ کرام کی زندگیاں قدم قدم پر ہمارے لیے اُسوہ پیغمبر سے اخذ کردہ رہنمائی فراہم کرتی ہیں،
سیدنا عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تلبیہ سیکھا ہے۔وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضور ﷺ کو ننگے سر ،بالوں کو (گوند یا مہندی سے)جمائے ہوئے دیکھا،(اِس حال میں)آپ کو اس طرح تلبیہ کہتے ہوئے سنا، لبیک ،اللھم لبیک ، لبیک لا شریک لک لبیک ان الحمد والنعمۃ لک والملک ، لا شریک لک
ائے اللہ ! میں حاضر ہوں ،میں حاضر ہوں ،تیرا کوئی شریک نہیں ،میں حاضر ہوں، بے شک تمام تر تعریف اور شکرانے تجھے ہی سزاوار ہیں،ساری نعمتیں اور بادشاہت تجھے ہی سجتی ہے اوراِس میں تیرا کوئی شریک نہیں! بیان ہوا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر اِس تلبیہ پریہ اضافہ فرمایا کرتے تھے،
لبیک لبیک و سعد یک ، والخیر بیدیک ،لبیک والرغبآ ءُ الیک والعملُ
میں حاضر ہوں ،میں حاضر ہوں ،تیری اطاعت کے لیے موجود ہوں،تمام بھلائیاں تیرے قبضہ میں ہیں،میں حاضر ہوں (اِس حال میں کہ) تمام تر رغبت اور عمل تیری طرف ہے۔
میرے پیارے حضور ﷺ اُس وقت یقیناً مرکز ِدِل و نگاہ ہوں گے۔روایات میں آتا ہے کہ اِس سفر کے دوران میں ،ہر آدمی کی یہ خواہش ہوتی کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب قریب ہو کر چلے اور آپ کی زیارت و صحبت سے بھی مشرف ہو اور آپؐ سے مسئلہ مسائل بھی سیکھے ۔یہ سفر محض سفر نہ تھا بلکہ ایک چلتی پھرتی خانقاہ تھی تزکیہ نفس کی ،ایک رواں دواں تربیت گاہ تھی ہمسفروں کے لیے اور یہ ایک یونیورسٹی تھی علم کے پیاسوں کے لیے۔
 شمع علم و عرفاں روشن تھی اور پروانے ارد گرد جمع تھے۔بقول ارشاد ربانی ،آپ سراجاً منیراًہیں،علم و ہدایت کا روشن آفتاب ،مینارہ نور صلی اللہ علیہ وسلم
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے نبی ﷺ نے ایک ایسی سواری پر حج کیا جس کی زین پرانی تھی،اور آپ کے جسم پر ایسی چادر تھی جو چار درہم یا اِس سے بھی کم قیمت کی تھی۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے سنا ،(اِس عالم غربت میں بھی) آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرما رہے تھے کہ میں ایسا حج کر رہا ہوں کہ جس میں نہ رِیا اور دِکھلاوہ ہے اور نہ کسی شہرت کی طلب مقصود ہے۔ 
موقف کدائی میں:
ہم بھی حج و عمرہ کے سفر پر نکلے ہیں اور اِس وقت عمرہ کبیر کے لیے احرام میں ہیں۔گاڑی میں کسی نہ کسی نشست سے وقتاً فوقتاً لبیک اللھم لبیک کی صدا اُٹھتی ہے اور تھوڑا بہت ارتعاش پیدا کر کے رہ جاتی ہے ۔مالک! تیری رضا اور خوشنودی کے طالب ہیں ،ہم رِیا اور دِکھلاوے سے پناہ مانگتے ہیں ،صرف اور صرف تیری چاہت کی طلب ہے ،شہرت اور مشہوری کی خواہش نہیں۔تو قبول فرما۔آمین۔ 
شاہراہ پر لگے سائن بورڈوں پر میری نظر ہے۔مکہ کی طرف کم ہوتے فاصلے دِل میں اُمنگ جگا رہے ہیں۔
راستہ میں ایک جگہ پر،دِن کے ساڑھے تین بجے نماز عصر بھی ادا کی تھی،اُس کے بعد مسلسل چل رہے تھے اور اب مکہ مکرمہ ۲۸ کلومیٹر رہ گیا ہے اور گاڑی ایک چیک پوسٹ پر رکی ہے اور شام کے ساڑھے چھ بج چکے ہیں۔یہاں سے چلے تو مکہ شہر کی رونقیں ،روشنیاں اور شاہراہیں زیب نظر ہیں۔ تقریباً ۸۔ بجے رات ،ہم مکہ کے ایک محلے موقف کدائی میں ایک بلڈنگ میں پہنچ گئے۔
الحمد للہ کثیراًعلیٰ ذالک 
کمپنی کے منتظمین حضرات نے یہ پروگرام بتایا کہ اپنے اپنے کمروں میں سامان رکھیں ،مدینہ پاک جاتے ہوئے جو سامان کمپنی کے حوالے کیا تھا وہ ہوٹل لابی میں موجود ہے ،وہ بھی لے لیں۔کمرے میں فریش اَپ ہوں، ہوٹل کی طعام گاہ میں کھانا لگا ہوا ہے ،وہ تناول فرمائیں اور دس بجے یہاں سے حرم کے لیے گاڑیاں چلیں گی اور وہ آپ کو عمرہ کروا کر واپس لے آئیں گی۔یہ ساری تفصیلات حوصلہ افزا اور مسحور کن تھیں۔(جاری ہے)