رسول اللہ کی چچی

مصنف : طیب علی شاہ

سلسلہ : سیرت صحابیاتؓ

شمارہ : جولائی 2021

 بچپن میں والدین کا سایہ سر سے اٹھ گیا تو دادا کے بعد سب سے زیادہ محبت چچا ابو طالب کی طرف سے ملی اور ان سے بھی زیادہ ان کی اہلیہ سیدہ فاطمہؓبنت اسد نے اس کا حق ادا کیا۔ چچی ہوتے ہوئے انہوں نے آپﷺ کی مامتا کے خلا کو پُر کیا جو غیر معمولی کارنامہ ہے۔ فاطمہ آپﷺ کی چچی تھیں لیکن آپﷺ کے دادا عبدالمطلب کی بھتیجی اور آپﷺ کے والد جناب عبداللہ کی چچا زاد بہن تھیں۔ یوں وہ آپ کی پھوپھی بھی لگتی تھیں۔
اس عظیم خاتون کو اللہ نے بڑی خوبیوں سے نوازا تھا، یہ بہت خوش نصیب تھیں کہ انہوں نے آپﷺ کے ساتھ شفقت کرنے کے ساتھ ساتھ ایمان کی دولت پا کر درجہ صحابیت بھی حاصل کر لیا تھا۔ ان کے چاروں بیٹے اپنی اپنی خوبیوں کی بدولت سارے عرب میں معروف تھے اور ہمیشہ کے لیے تاریخ میں زندہ ہیں۔ طالبؓ، عقیلؓ، جعفرؓاور علیؓ، سبھی جید صحابہ کرام ہیں۔ ان کی بیٹیوں میں سب سے زیادہ معرو ف ام ہانیؓ ہیں جن کا اصل نام ہند بنت ابی طالب تھا۔یہ سب سے زیادہ معروف ہیں اور آنحضورﷺان کو انتہائی محبوب رکھتے تھے۔ وہ آنحضورﷺ سے حقیقی بہنوں کی طرح محبت کرتی تھیں اور آنحضورﷺبھی انہیں حقیقی بہن کی طرح عزیز رکھتے تھے۔ آپﷺ کی 'مجازی ماں’ فاطمہؓ بنت اسد کس اخلاق و کردار کی مالک تھیں اس کی گواہی آنحضورﷺنے ان کی زندگی میں کئی بار دی اور پھر ان کی وفات کے موقع پر بھی اسے دہرایا جس نے ان کو قابل رشک رتبہ عالی سے نواز دیا۔حضرت علیؓ کفر کے خلاف لڑی جانے والی جنگوں میں رجزیہ اشعار پڑھتے تو اس میں اپنی والدہ کا تذکرہ بھی فرماتے۔ مثلاً آپؓ نے خندق اور خیبر کے معرکوں میں جو اشعار کہے ان میں یہ شعر بھی تھے:
انا الذی سمتنی امی حیدرۃ
کاللیث غابات شدید القسورۃ
اکلیکم بالصاع کیل السندرۃ
میں وہ ہوں کہ میری ماں نے مجھے حیدر کا نام دیا ہے۔ جنگل کے شیروں میں سے شیرِببر جیسا بہادر! تم ناپ تول کر دوگے تو میں ناپے تولے بغیر بے حساب لوٹاؤں گا۔
سیدہ فاطمہؓ بنت اسد نے شعبِ ابی طالب میں ازحد مشکل دور میں آپﷺ کا بھر پور ساتھ دیا۔ پھر آنحضورﷺ اور دیگر صحابہ کرامؓ کے ساتھ ہجرت کا اعزاز بھی حاصل کیا اور مکہ چھوڑ کر مدینہ منورہ میں مقیم ہو گئیں۔ یہیں انہوں نے 5 ھ میں وفات پائی تھی۔ اپنی زندگی میں جن مواقع پر آنحضورﷺ کی آنکھوں سے فرطِ غم سے سیلِ اشک رواں ہوا، ان میں ایک یہ موقع بھی تھا۔ آپﷺ نے اس روز سوگوار خاندان کے گھر میں موجود خواتین کے سامنے فرمایا‘‘ یہ میری والدہ کے بعد میرے لیے ماں بن گئی تھیں۔ حقیقی ماں کی طرح میری پرورش کی۔ خود بھوکی رہتی تھیں مگر مجھے کبھی بھوکا نہیں رہنے دیا۔خود موٹا جھوٹا پہن لیتی تھیں مگر مجھے اچھی پوشاک فراہم کرتی تھیں’’۔ پھر کہا ‘اے میری ماں!آپ کے مجھ پر بہت احسانات ہیں۔ اللہ آپ پر اپنی رحمتیں نازل کرے’’۔
ابو طالب کے گھر میں آنحضورﷺنے جو خوش گوار وقت گزارا ،اس میں ابوطالب کے ساتھ ساتھ ان کی اہلیہ کا حصہ بھی نمایاں نظر آتاہے۔ اپنے بچوں پر کسی یتیم رشتے دار کو ترجیح دینا معمولی بات نہیں مگر اس عظیم خاتون نے اس معاملے میں اعلیٰ ترین مثال قائم کر دکھائی۔ ان کے قبول اسلام سے آنحضورﷺکو جس قدر مسرت ہوئی تھی شاید ہی کبھی ہوئی ہو۔ جب آپﷺ کی یہ مجازی ماں فوت ہوئیں تو آپﷺ نے جنت البقیع میں قبر کھودنے کی ذمہ داری اپنے میزبان حضرت ابو ایو ب انصاریؓاور دیگر صحابہ کرام کو سونپی۔ جب عمودی حصہ کھودا جا چکا تو لحد کا بغلی حصہ کھودنے کا کام نبی رحمتﷺ نے اپنے ہاتھ سے خود انجام دیا۔ آپﷺ اپنی محسنہ کا بدلہ اتارنے کی قابلِ تقلید مثال امت کے سامنے پیش فرما رہے تھے۔ لحد تیار ہو چکی تو آپﷺ خود اس میں لیٹ گئے اور بعض روایات کے مطابق وہیں لیٹے لیٹے آپﷺ نے خدا سے دعا مانگی:اللھم اغفرلامی وارحمھا واجعل قبرھا روضۃ من ریاض الجنۃ (اے اللہ! میری (مجازی)ماں کی مغفرت فرما، ان پر رحم فرما اور ان کی قبر کو جنت کے باغات میں سے ایک باغ بنا دے)
اس منظر نے تمام صحابہ کرامؓپر ایک رقت آمیز کیفیت طاری کر دی تھی اور 58 سال قبل شروع ہونے و الے سفر کے بیتے ہوئے لمحات ان کی آنکھوں کے سامنے تازہ ہو گئے تھے جب ابو طالب کے گھر میں ختمی مرتبتﷺ کا بچپن اور لڑکپن پورے ناز و نعمت سے بیت رہا تھا، ماں باپ اگرچہ نہیں تھے مگر مشفق چچا اور رحیم چچی نے ان کی کمی کا احساس نہ ہونے دیا تھا۔ آپﷺ نے اپنی محبوب ترین بیٹی فاطمہؓ بنت محمدﷺ حضرت علیؓکے عقد میں دینے کا جو فیصلہ کیا تھا اس میں خود حضرت علیؓ کا اپنا مقام و مرتبہ بھی وقیع اور قابل لحاظ تھا لیکن اس کے ساتھ ان کی والدہ فاطمہؓبنت اسد کا حسن سلوک بھی نمایاں عامل کی حیثیت رکھتا ہے۔
دونوں ساس بہو میں بھی مثالی محبت و احترام تھا۔ آپﷺ ان کو فطوم (جمع فاطمہ) کہا کرتے تھے۔ مدینہ میں فقر و فاقہ کے دور میں ان دونوں عالی مرتبت صحابیات ؓنے صبروقناعت اور راضی برضا رہنے کی اعلیٰ مثال قائم کی۔روایات میں یہ بھی آتا ہے کہ آنحضورﷺنے حضرت فاطمہؓ بنت اسد کی وفات پر اپنا کرتا اتار کر انہیں پہنانے کے لیے دے دیا تھا۔ اس موقع پر آنحضورﷺکے اس قدر اظہارِ غم اور مرحومہ کے اکرام کے اہتمام پر صحابہ کرامؓ کچھ متعجب ہوئے تو آپﷺ نے ان کے مناقب بیان کرتے ہوئے فرمایا ''یہ وہ خاتون ہیں کہ میرے چچا ابو طالب کے بعد ان سے زیادہ میرے بچپن اور شباب میں میرے ساتھ شفقت، رحمدلی اور تعاون کسی اور نے نہیں کیا۔ مجھے امید ہے کہ میری والدہ کو قبر کی سختیوں میں اللہ کی طرف سے آسائش اور آرام فراہم کیا جائے گا’’۔