’’ضمیر‘‘ کی تجارت

مصنف : محمد صدیق بخاری

سلسلہ : آواز دوست

شمارہ : ستمبر 2018

’’ضمیر‘‘ کی تجارت
اس نے پنجاب کے دور دراز دیہات میں جب آنکھ کھولی تو ہر طرف غربت کے سائے پھیلے ہوئے تھے ۔اس پہ ستم یہ ہوا کہ بچپن ہی میں والد کا انتقال ہو گیا۔یوں یتیمی اور افلاس کے داغ لیے یہ بچہ تھوڑا بڑا ہوا تو اسے معلوم ہوا کہ ایک طرف تو گاؤں میں تعلیم کا کوئی رواج نہیں اور دوسر ی طرف چودھریوں کی چودھراہٹ نے پنجے گاڑ رکھے ہیں جن کا خیال تھا کہ ان کے علاوہ باقی سب لوگ کمی کمین ہیں ۔ان حالات میں بظاہر تو اس بات کاکوئی امکان نہ تھا کہ وہ تعلیم حاصل کرپاتا لیکن مقد ر اچھے تھے اور اس کی ماں کی انتھک محنت بھی تھی کہ کسی نہ کسی طرح کھینچ تان کر اس نے میٹر ک کے بعد مکینیکل میں ڈپلومہ کرہی لیا۔بس اس کے ساتھ ہی اس کی زندگی کا نیا دور شروع ہوگیا ۔ اس نے گاؤں چھوڑ دیا اور شہر آکر ایک فیکڑی میں ملازمت کرنے لگا۔چار پیسے ملنے لگے تو کچھ ہوش آیا اور اس نے ادھر ادھر کوششیں شروع کر دیں کہ کسی بہتر کمپنی میں جاب مل جائے۔ یہاں بھی مقد ر نے یاوری کی اور اسے ایک غیر ملکی کمپنی کے مکینیکل ڈیپارٹمنٹ میں ملازمت مل گئی۔ با ضمیر آدمی تھا اس لیے شہر آ کر بھی وہ یہ نہ بھول سکا کہ اس کی ماں نے کتنا زیور بیچا تھا۔ و ہ ماں کا بے حد فرمانبردار اورخدمت گزار تھا ۔ماں کی دعا پھر رنگ لائی اور وہی کمپنی اسے دبئی لے گئی۔ اب دولت کی فراوانی کا دور شروع ہو ا تو اس نے فیصلہ کیا کہ وہ بھی طاقت حاصل کر ے گا کیونکہ بچپن ہی سے وہ ’’جس کی لاٹھی اس کی بھینس ‘‘کا اصول دیکھتے چلا آر ہا تھا اور اس کے لا شعور میں یہ بات اچھی طرح بیٹھ چکی تھی کہ اس ملک میں زندہ رہنا ہے تو اسے بھی ’’چودھری ‘‘ بننا ہو گا لیکن یہ ہو گا کیسے؟ بس اس کے لیے اس نے ایک لمبا پلان تیار کیا۔ پہلے تو اس نے گاؤں میں زرعی زمین حاصل کرنے کی کوشش کی کیونکہ گاؤں میں جس کی اپنی زمینیں نہ ہوں وہ کمی کمین ہی رہتا ہے ۔ اس کی یہ کوشش کامیاب رہی اور اب اس کا شمار گاؤں کے دوسرے نمبر کے معززین میں ہونے لگا۔ کچھ عرصہ بعد اس نے ایک مارکیٹ بھی خرید لی اور اس کے اوپر اپنے نام کا بڑا سا بورڈ لگادیا۔ اس کے لیے اس نے اپنے نام کے ساتھ ملک کا سابقہ لگایا کیونکہ وہ یہ بات بھی اچھی طرح جان گیا تھا کہ اس کا جس ماحول سے واسطہ ہے وہاں ناموں کے ساتھ سابقے اور لاحقے بھی بہت کام کیا کرتے ہیں۔
جاب کے سلسلے میں وہ دنیا کے مختلف ملکوں میں گھوم آیا تھا اس سیر و سیاحت اور مرور ایام سے اس نے یہ بھی سیکھ لیا تھا کہ ترقی پذیر اور جاہل معاشروں میں طاقت حاصل کرنے کا ایک بہت بڑا ذریعہ سیاست بھی ہے ۔ چنانچہ اس نے سیاست میں آنے کا فیصلہ بھی کر لیا اور اس کے لیے حکمت عملی بھی طے کر لی ۔ اس نے اپنے علاقے کے سکہ بند سیاست دانوں کے ڈیر وں پہ آنا جانا شروع کیا ، ان سے دعا سلام بڑھائی ۔ وہ اپنی جیب سے پیسے خرچ کر کے ایم این اے اور ایم پی ایز کے چھوٹے موٹے کام کرنے لگا اس طرح اس کا نام ان حلقوں میں جانا پہچانا ہوگیا۔ پھر اس نے سوچا کہ طاقت کا ایک ذریعہ اربابِ صحافت کو خریدنا بھی ہے چنانچہ اس نے ان پر بھی خرچ کرنا شروع کر دیا۔ عوام کے دلوں میں جگہ بنانے کے لیے اس نے رفاہی کاموں کی طرف توجہ کی اور اپنے علاقے میں واٹر ٹریٹمنٹ کا ایک بڑا پلانٹ لگا یا اور اسے عوام کے لیے وقف کر دیا لیکن اس بات کا اس نے خاص اہتمام کیا کہ اس کا افتتا ح علاقے کا ایم این اے کرے اور اس کی تصویریں بھی اخبارات میں چھپ جائیں۔اب وہ علاقے میں ملک صاحب کے نام سے معروف ہو گیا ۔ جب بھی وہ غیر ملک سے چھٹی پر آتا تو لوگ اس کے استقبال کے لیے گاؤں کے باہرموجود ہوتے۔ سابقہ الیکشن میں بھی وہ کافی متحرک تھا لیکن ۲۰۱۸ کے الیکشن میں تو اس نے سیاسی لوگوں پر اچھا خاصا خرچ کیا۔اور حال ہی میں میری جب اس سے ملاقات ہوئی تووہ بہت خوش تھا ۔ اس نے بتایا کہ اب اس گاؤں کے چودھری بھی اسے کھڑے ہو کر ملتے ہیں اور عوامی بیٹھکوں میں تو پہلے ہی اس کا نام گونجنا شروع ہو گیا ہے ۔ میں نے اسے پوچھا کہ تم کب ایم این اے کا الیکشن لڑ رہے ہو اس نے کہا ابھی نہیں ۔ ابھی مزید گراؤنڈ ورک کی ضرورت ہے ۔اس کا خیال ہے کہ ۲۰۲۳ کا نہیں تو ۲۰۲۸ کا الیکشن تو وہ جیت ہی لے گا۔ اور ساتھ ہی اس نے میرے ہاتھ پر ہاتھ مار کر کہا کہ شاہ جی پھردیکھنا میری انویسمنٹ کیسے رنگ لاتی ہے ۔ 
وہ مجھے یہ کہہ کر خوش ہو رہا تھا اور میں سوچ رہا تھا کہ یہ کیسا اتفاق ہے کہ ضمیر کی اس تجارت کرنے والے کا اصل نام بھی ضمیر حسین ہے ۔جبکہ میرا دوسرا دوست مجھے حیراں دیکھ کر یہ کہہ رہا تھا کہ شاہ جی ضمیر حسین کی تجارت تو کچھ بھی نہیں ،یہ تو اصل میں اس بڑی پینٹنگ کی منی ایچر ہے جو پینٹنگ اس ملک کے دونوں ایوانوں میں پس پردہ آویزاں ہے۔ اور اس نے کہا کہ شاہ جی چونکہ قبائلی ، زرعی اور ناخواندہ معاشروں میں عزت کا معیار پیسہ اور طاقت ہوتا ہے ا س لیے آپ کیا جانیں کہ ہر برس وطن عزیز میں کتنے ہی با ضمیر ، بے ضمیر اور کتنے ہی ضمیر حسین، ملک ضمیر حسین بن جاتے ہیں۔ اور نہ جانے یہ سلسلہ کتنا عرصہ اور اس ملک میں جاری رہے گا۔ میر ا یہ سنجیدہ دوست واپس جانے کے لیے مڑا تو کہنے لگا کہ شاہ جی ، یقین جانیے تبدیلی کے خوش نما نعروں کے باوجود ہر چھوٹے بڑ ے ضمیر کی تجارت اس ملک میں اُس وقت تک جاری رہے گی جب تک کہ قوم کی سوچ اور فکر کا رخ تبدیل نہیں ہو جاتا۔کرنے کا اصل کام یہ ہے کہ قوم کو یہ سمجھایا جائے کہ سیاست تجارت نہیں، خدمت ہوتی ہے اور اصل طاقت پیسے لاٹھی ، بندوق اور گولی میں نہیں بلکہ علم ، شرافت اور کردار میں ہوتی ہے۔اگر ایسا نہ ہوا، تو یقین جانیے ہر الیکشن میں گردنیں تو وہی رہیں گے البتہ زنجیر تبدیل ہوتی رہے گی۔