چراغِ راہ

مصنف : محمد صدیق بخاری

سلسلہ : آواز دوست

شمارہ : ستمبر 2007

          ڈوبتے سورج نے تاریک ہوتی دنیا سے پوچھا کہ ،ہے کوئی جو میری جگہ لے۔ سورج کے اس چیلنج کے جواب میں مکمل سناٹا چھا گیا ۔ اسی اثنا میں ساحل سمند ر پر واقع ایک جھونپڑ ے میں جلتے چراغ نے کچھ دیر کو سوچا اور پھراپنی نحیف سی آواز میں بولا‘‘ میں کوشش کروں گا’’ ۔ سورج نے یہ جواب سنا تو مسکراتا ہوا ڈوب گیا۔ سورج کا خیال تھا کہ بھلا سورج کے سامنے بھی چراغ جلا کرتے ہیں اور یہ بات ٹھیک بھی تھی ۔مگر رات نے دیکھاکہ چراغ کا دعوی بھی غلط نہ تھا سورج کی عدم موجودگی میں چراغ سورج کا ہی کام کر رہاتھا۔اس کو جہاں رکھا گیا تھا وہاں وہ اپنی سکت اور حیثیت کے مطابق روشنی پھیلاتا رہا۔

          اسی طرح صحافت کی دنیا میں الہلال ، زمیندار ، انقلاب، صدق جدید جیسے جرائد نے رخصت ہوئے پوچھا، ہے کوئی جو ہماری جگہ لے ، ہے کوئی جو ہماری طرح علم وآگہی اور اصلاح و دعوت کی روشنی پھیلائے!۔ ان کے جواب میں ایک سناٹا تھااور ایک خاموشی تھی جو بہت عرصہ چھائی رہی یہاں تک کہ ‘‘سوئے حرم ’’ کا ظہور ہوا۔ اور‘‘سوئے حرم’’ نے اپنے ظہورکے ساتھ ہی اپنی نحیف سی آواز میں کہا‘‘میں کوشش کروں گا’’او ر پھرعلم و آگہی اور اصلاح و دعوت کی رات نے دیکھا کہ سوئے حرم کادعوی بھی غلط نہ تھا۔

          تین برس پہلے فرقہ واریت سے بھری ، برداشت سے عاری، امن و محبت کو ترسی ،علم و ادب سے تہی اور رواداری سے خالی سرزمین پہ ہم نے یہ عہد کیاتھا کہ ہم امن و محبت ، رواداری ، اتحاد واتفاق کی روشنی پھیلائیں گے جب کہ ہمیں یہ بھی معلوم تھا کہ نہ ہم ابوالکلام ہیں نہ ظفر علی خان ، نہ ہم شبلی ہیں اور نہ عبدالماجد دریا بادی لیکن سوچا کہ ان سورجوں کے بالمقابل ایک چراغ تو بہر حال ہیں ۔ ہمیں کم از کم چراغ کا کا م توکرتے ہی رہنا چاہیے ۔سیانے کہتے ہیں کہ رات میں چراغ کی بھی اپنی ایک اہمیت ہوتی ہے اور آج چوتھے برس کا سورج اس بات پر گواہ ہے کہ سوئے حرم ایک چراغ کا کام کر رہا ہے اور ا ن شاء اللہ کرتا رہے گا۔اگرچہ ان تین برسوں میں تعصب ، تنگ نظری ، منافقت ، حسد ،کینے اور بغض کے تھپیڑوں نے بھر پور کوشش کی کہ کسی طرح یہ چراغ بجھ کر رہ جائے مگر وہ جو مالک الملک کے سہارے جلاکرتے ہیں وہ ‘‘پھونکوں’’سے بھلا کب بجھا کرتے ہیں۔

          چوتھے برس کے آغاز میں سوئے حرم ایک بار پھر یہ عہد کرتا ہے کہ وہ ہر اندھیرے میں نہ صرف چراغ کا کام کرتا رہے گا بلکہ چراغ سے چراغ جلانے کی کوشش بھی کرتا رہے گا۔ سوئے حرم کو یہ بھی آرزو نہیں کہ وہ میدان میں بس تنہا ہی ہو۔بلکہ اس کی آرزو ہے کہ بہت سے اور چراغ بھی ہوں جو سب مل کر جلیں اورجلتے رہیں ۔ اندھیرے، لاٹھی ، ڈنڈے ، گولی اور بندوق سے دور نہیں ہوا کرتے بلکہ اندھیروں کا علاج روشنی ہے صرف روشنی ۔اورروشنی کے لیے سورج کی اہمیت اپنی جگہ مگر چراغ کی بھی کم نہیں ہوتی۔

          پیارے قارئین ! آئیے ،سب مل کر چراغ سے چراغ جلاتے رہیں۔ہمیں اپنی حیثیت کے مطابق اپنا فرض ادا کرتے رہنا ہے باقی کا م اس مالک کا ہے جس نے یہ دنیا بنائی ہے ۔ہمارے لیے اس مالک کے بعد اس دنیا میں مجازاً سہارا آپ ہی ہیں۔ ہمارے ساتھ چلتے رہیے اورجلتے رہیے البتہ آپ سے ہمیشہ کی طرح یہ درخواست اس بار بھی ہے کہ جہاں آپ کوسوئے حرم کی لو ٹمٹماتی محسوس ہو ہمیں ضرور آگاہ کیجیے گا۔ ہم اس ‘‘چراغ’’ میں تیل کی مقدار پوری کرنے کی بھر پور کوشش کریں گے ۔ آپ بھی دعاؤں کی صورت میں اس چراغ کو تیل فراہم کرسکتے ہیں او ر امید ہے وہ آپ کر ہی رہے ہوں گے اگر اس میں کوئی کمی ہے تو موجودہ شمارہ یہ کمی پوری کر سکتی ہے ۔دعا نمبر کو شوق سے پڑھیے اور ہمارے لیے دعا کیجیے اور کرتے رہیے ۔