‘‘تاریک دور’’ کے وزرائے اعظم کا روشن تذکرہ

مصنف : ڈاکٹر ساجد علی

سلسلہ : پاکستانیات

شمارہ : مئی 2021

بہت سے لوگ شکوہ کناں رہتے ہیں کہ اس ملک میں سکولوں کے نصاب میں غلط تاریخ پڑھائی جاتی ہے اور یہ شکوہ بہت حد تک بجا ہے۔ میں دوسری جماعت کا طالب علم تھا جب ملک میں فوجی حکومت قائم ہوئی۔ اسی حکومت کے زمانے میں نئی نصابی کتابیں مرتب ہوئیں۔ ان کتابوں میں پاکستان کے اولین جمہوری دور کے سیاست دانوں کو نااہل، بد دیانت اور خائن قرار دیا گیا۔ ایوب خان کو ایک مسیحا اور نجات دہندہ کے طور پر پیش کیا گیا جو اس قوم کی ڈولتی نیا کو طوفانوں سے نکال کر بحفاظت ساحل مراد پر لے آیا تھا۔ بچپن میں پڑھی ہوئی کتابوں کے ذہن پر اثرات بہت گہرے ہوتے ہیں۔ ان کتابوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ میری نسل اور اس کے بعد آنے والے افراد کا اس بیانیہ پر یقین پختہ ہو گیا کہ اگر یہ نجات دہندہ نہ ہوتا تو پاکستان سیاست دانوں کے ہاتھوں تباہی اور بربادی کا شکا رہو چکا ہوتا۔
میں 1967 میں گورنمنٹ کالج لاہور میں سال اول میں داخل ہوا تو مجھے یہ جان کر بہت افسوس ہوتا تھا کہ بہت کم طالب علم ایسے تھے جنھیں یہ علم ہو کہ ایوب خان سے پہلے ہمارے حکمران کون تھے۔ بس ایک لیاقت علی خان کا نام معلوم ہوتا تھا اور اس کے بعد دور ظلمت کا آغاز ہو جاتا تھا۔ آج تک ہمارے اخبارات اور اس عہد کے متعلق لکھی گئی کتابوں میں بھی ایوبی عہد کے بیانیے کے واضح اثرات نظر آتے ہیں۔ کبھی کبھار کوئی شخص کسی وزیر اعظم کے بارے میں کوئی کلمہ تحسین لکھ دیتا ہے۔
چند روز قبل ایک عزیز کی عنایت سے ایک کتاب ہاتھ لگی جس کا عنوان ہے: ایوان وزیر اعظم (پاکستان کے پہلے گیارہ سال)۔ اس کتاب کو خواجہ محمد فاروق اور ظہور احمد قریشی نے تحریر کیا ہے اور یہ دسمبر، 1999 کو شائع ہوئی۔ یہ دونوں اصحاب سرکاری ملازم تھے اور اس عرصے میں وزیر اعظم ہاؤ س میں تعینات رہے تھے۔ انھوں نے پیشہ ور لکھاری نہ ہونے کے باوجود تصنیف کتاب کا یہ مقصد بیان کیا ہے:
ہم نے وزرائے اعظم کو جیسا پایا ویسا ہی اپنی یاد داشتوں کی بنا پر تحریر کر دیا ہے۔ اس نیت سے کہ لوگوں کو معلوم ہو سکے کہ ہمارے شروع کے رہنما کتنے نیک دل اور پاکستان سے محبت کرنے والے تھے۔ انھیں اپنی بھلائی سے زیادہ ملک و قوم کی بھلائی عزیز تھی۔ وہ عام طور پر سادہ زندگی بسر کرتے تھے اور وہ ملکی قاعدہ و قانون کے پابند تھے۔ یہ اس لیے ضروری ہے کہ قوم مابعد اور موجودہ حکمرانوں کا ان سے از خود موازنہ کر سکے۔(8)میں نے ضروری سمجھا کہ اس کتاب میں بیان کیے گئے چند واقعات کو قارئین کے افادہ کے لیے درج کیا جائے تاکہ وہ تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں اور یہ جان سکیں کہ غیر جمہوری حکومتوں کے دور میں جمہوری حکمرانوں کی کس طرح کردار کشی کی گئی۔فوجی حکومت سے قبل''سادگی، سرکاری معاملات میں اصول کی پاسداری، قانون و ضابطہ کی پابندی، بڑے اور چھوٹے کی مساوات، انسانی عزت و شرف کا احترام، دردمندی اور خدمت کا جذبہ'' سیاسی قیادت کا شعار تھا۔جب وزیر اعظم ہاؤس کا قیام عمل میں آیا تو وزیر اعظم کے ذاتی استعمال کے لیے ایک کار دی گئی تھی اور اس کے لیے 70 گیلن پٹرول فی ماہ کی منظوری تھی۔ اگر کسی ماہ مقرر کی گئی مقدار سے زیادہ پٹرول استعمال ہوتا تو وہ اضافی خرچ وزیر اعظم ذاتی حیثیت میں برداشت کرتا۔ (35)نواب صاحب (لیاقت علی خان) سرکاری کاموں میں اس قدر مصروف رہتے تھے کہ کپڑوں اور جوتوں کے بدلنے تک کا ہوش نہ تھا۔دفتر میں صبح آٹھ بجے تشریف لے آتے تھے اور تقریباً دو بجے تک دفتر میں مصروف رہتے تھے اور پھر دوپہر کا کھانا تناول فرماتے تھے۔ (46)ہماری صحافت نے خواجہ صاحب (خواجہ ناظم الدین) کی خوش خوراکی کو بہت بدنام کیا اور انہیں قائد قلت کا لقب بھی عطا کیا گیا لیکن اس کتاب کے مصنفین کا مشاہدہ ہے کہ ''خواجہ صاحب کھانے کے شوقین ضرور تھے مگر کھاتے زیادہ نہیں تھے ۔ ''(62)ایک دن مغرب کی نماز کے بعد خواجہ صاحب کے مرغی خانہ کے انچارج نے ان سے شکایت کی کہ ہمیں کھانے کے لیے ایسا آٹا مل رہا ہے جسے آپ کی مرغیاں بھی کھانا پسند نہ کریں۔ انھوں نے اسی وقت وزیر خوراک، کراچی کے چیف کمشنر اور ڈائریکٹر فوڈ کو طلب کرکے ان سے بات کی۔ جس کے نتیجے میں ''دوسرے ہی دن آٹا کراچی شہر میں بہتر ملنے لگا''۔ (52)
خواجہ صاحب نے گھریلو قسم کی ایک آئس کریم پارٹی دی جس میں اہل خانہ کے علاوہ دفتر کے افسران بھی شریک ہوئے۔ پارٹی کے دوران خواجہ صاحب نے بیرے کو کہا کہ ڈیوٹی بابو کو بلا کر لاؤ۔ ظہور اس وقت نائٹ ڈیوٹی پر تھا۔ بیرا آ کر اسے بلا لے گیا۔ خواجہ صاحب نے اسے اپنے ہاتھ سے کپ بھر کر دیا۔ ختم ہونے پر پھر اسے بھرنے لگے تو ایک افسر نے کہا یہ مناسب نہیں ہے، وہ خود اور لے لے گا۔خواجہ صاحب نے جواب دیا آپ ایسا کر سکتے ہیں ، وہ ایسا نہیں کرے گا۔ اس کے متعلق دیکھنا میرا کام ہے اور پھر کپ بھر کر اسے دے دیا۔ (55)خواجہ صاحب کے داماد کرنل وسیع الدین نے اپنی ترقی کے لیے کہا تو انھوں نے کابینہ میں اس کا ذکر کیا مگر کابینہ میں کچھ وزرا نے اس کی مخالفت کی تو انھوں نے اپنے داماد کو آگاہ کیا کہ کابینہ نہیں مانی۔ حالانکہ خواجہ صاحب خود ہی وزیر دفاع تھے مگر وہ قاعدے قانون کے از حد پابند تھے۔ (61)دستور یہ تھا کہ خواجہ صاحب جب دوپہر کا کھانا تناول فرماتے تو ان کے پی آر او جمیل الدین صاحب اخبارات سے ان کے متعلق خبریں سناتے جاتے۔ ایک دن خواجہ صاحب نے انھیں ٹوکا، جمیل الدین صاحب کیا میرے خلاف کچھ بھی نہیں لکھا جاتا۔ میں وہ سننا چاہتا ہوں، مجھے وہ سنائیے ۔ اس کے بعد جمیل الدین صاحب نے ان کی مرضی کے مطابق ان کے خلاف لکھی جانے والی خبریں سنانا شروع کر دیں ۔ (61)جب خواجہ صاحب کو معزول کیا گیا تو ان کے کمپٹرولر نسیم احمد انصاری نے انھیں بتایا کہ ان کا گھریلو خرچ (Sumptuory Allowance) سے حسب دستور زاید ہے، وہ حساب چیک کروا لیں۔ انھوں نے جواب دیا انصاری صاحب پہلے کبھی نہیں چیک کروایا تو اب کیا چیک کرواؤں۔ آپ رقم بتائیں میں ادا کر دیتا ہوں۔ انصاری صاحب نے رقم بتائی اور خواجہ صاحب نے اس رقم کا بنک چیک ادا کر دیا۔ اس الاؤنس کا طریقہ یہ تھا کہ اگر سال میں رقم کم خرچ ہوتی تو باقی کی رقم پرائم منسٹر کو مل جاتی تھی لیکن اگر رقم زیادہ خرچ ہوتی تو باقی پیسے پرائم منسٹر خود ادا کرتا۔ خواجہ صاحب کے ہاں مہمان داری بہت ہوتی تھی اس لیے ان کا خرچ ہر سال بڑھ جاتا جو وہ خود ادا کرتے۔(68)محمد علی بوگرہ کے دور کا یہ واقعہ بہت اہم ہے کہ اس دور میں سرکاری ملازمین قاعدہ قانون کی پاسداری کس جرأت و ہمت سے کرتے تھے۔''پاکستان کے پہلے وزرائے عظم کے پاس ذاتی استعمال کے لیے ایک گاڑی ہوتی تھی۔ جب محمد علی بوگرہ وزیر اعظم بنے تو انھوں نے لکھ بھیجا کہ ان کے لیے دوسری گاڑی خریدی جائے۔ کیس کابینہ ڈویژن کو بھیجا گیا۔ وہاں ذوالفقار علی خان بقائی، اسسٹنٹ سیکریٹری (یہ عہدہ سیکشن افسر کے برابر تھا) نے اس پر بہت سخت نوٹ لکھا کہ وزیر اعظم کو اس گاڑی کی ضرورت ہی نہیں وہ فائل وزیر اعظم کو پیش کی گئی تو انھوں نے بقائی صاحب کو ذاتی طور پر بلا بھیجا۔ وہ حاضر ہوئے۔ وزیر اعظم اس پر خوب گرجے برسے لیکن بقائی صاحب اڑے رہے اور بالآخر اس بات پر راضی ہوئے کہ دوسری گاڑی خرید لی جائے لیکن وہ گیراج میں بند رہے گی۔ اسی صورت میں استعمال میں لائی جائے گی جب وزیر اعظم کسی غیر ملکی سربراہ مملکت کو لینے جائیں یا ان کی معیت میں سفر کریں۔ چنانچہ ایک کیڈلک گاڑی خریدی گئی اور اسی طرح استعمال ہوئی۔ عام حالات میں پرانی گاڑی ہی زیر استعمال رہی۔’’ (74)''چوہدری صاحب (چوہدری محمد علی) بہت کفایت شعار تھے۔ ان کے دورحکومت میں وزیر اعظم ہاؤس کی بتیاں رات نو بجے گل کر دی جاتیں اور تمام عملہ گھروں کو چلا جاتا تھا۔ اس معاملے میں وہ اتنے سخت تھے کہ ان کی بیٹی کی شادی کے موقع پر پی ڈبلیو ڈی نے گھر پر چراغاں کی غرض سے بتیاں لگائیں۔ جب چوہدری صاحب نے دیکھا تو ناراض ہوئے اور تمام بتیاں اتروا دیں اور کہا کہ قوم کا پیسہ ضائع کرنے کا مجھے کوئی اختیار نہیں۔ ''(109)
''شاہ سعود کے دورہ پاکستان کے موقع پر سعودی شاہ نے بیگم چوہدری محمد علی کو کچھ تحائف دیے جن میں ایک قیمتی ہار بھی شامل تھا۔ بیگم صاحبہ نے توشہ خانہ سے رجسٹر وزیر اعظم ہاؤس میں منگوا کر اس میں تحائف کا اندراج مع ہار خود اپنے ہاتھوں سے کیا تاکہ کوئی گڑبڑ نہ ہو سکے۔'' (111) چوہدری صاحب کی بیٹی کی شادی اس وقت ہوئی جب وہ وزیر اعظم تھے، لیکن شادی کی تقریب بہت سادگی سے منعقد ہوئی ۔ شادی کے دعوت ناموں پر یہ چھپا
 ہو ا تھا کسی قسم کے تحائف قبول نہیں کیے جائیں گے۔'' نائٹ ڈیوٹی کلرک ظہور نے بیان کیا اعلیٰ افسر جی احمد کچھ تحفہ لے کر آئے لیکن آپ نے سختی سے منع کر دیا اور وہ تحفہ واپس کر دیا۔(112)اس پر مجھے اپنے لڑکپن کا سنا ہوا ایک واقعہ یاد آ گیا۔ ہمارے گاؤں میں چودھری عزیز بخش نمبر دار تھے۔ تقسیم سے قبل ان کا تعلق چوہدری محمد علی کے گاؤں سے تھا جہاں وہ ذیلدار ہوتے تھے۔ چوہدری محمد علی نے انھیں اپنے تمام بچوں کی شادی پر مدعو کیا تھا۔ چودھری عزیز بخش یہ بیان کیا کرتے تھے شادی کے دعوت نامے پر اگرچہ یہ چھپا ہوا تھا کوئی مہمان تحفہ لے کر نہیں آئے گا لیکن وہ کراچی جاتے ہوئے دیسی گھی کا ایک ٹین لے گئے۔ وہ وزیر اعظم کی رہائش گاہ پر پہنچے تو چوہدری محمد علی باہر گیٹ پر کھڑے مہمانوں کا استقبال کر رہے تھے۔ جب ان کی نظر گھی کے ٹین پر پڑی تو کہا چودھری صاحب میں نے تحفہ لانے سے منع کیا تھا۔ چودھری عزیز بخش نے جواب دیا میں ایک غریب آدمی ہوں، میں نے کیا تحفہ لا نا ہے۔ گھر کی بھینسوں کے گھی کا ایک کنستر لے آیا ہوں۔ چوہدری محمد علی نے کہا یہ کنستر گھر کے اندر نہیں جا سکتا۔ پھر انھوں نے اپنے ملازم کو بلا کر کہا گھی کا یہ ٹین بازار لے جاؤ اور اسے فروخت کرکے ملنے والی رقم ذیلدار صاحب کے حوالے کر دو۔ یہ اس ٹین کو کہاں اٹھائے پھریں گے۔آخر میں ایک واقعہ الطاف گوہر صاحب کے حوالے سے درج کرنا چاہتا ہوں۔ موصوف اگرچہ ایوب خان کے نفس ناطقہ تھے اور اپنی کتاب میں صدر ایوب کے دور حکومت کی مدلل مدح خوانی کا حق ادا کیا ہے ، لیکن کبھی کبھار ان کے قلم سے سیاست دانوں کے بارے میں کوئی صحیح بات بھی سر زد ہو جاتی تھی۔حسین شہید سہروردی کا تذکرہ کرتے ہوئے ایک واقعہ درج کیا ہے کہ ایوب خان کا مارشل لا لگے کوئی دو مہینے ہوئے تھے، سہروردی صاحب لاہور ایئرپورٹ کے وی آئی پی روم میں ایک کرسی پر دراز تھے۔ وہاں کچھ فوجی جرنیل صاحبان بھی موجود تھے۔ سہروردی صاحب کی الطاف گوہر پر نظر پڑی تو بڑی زور دار آواز میں پوچھا ''ہماری فوج اتنے کم عرصے میں اتنی کرپٹ کیسے ہو گئی۔'' (لکھتے رہے جنوں کی حکایت، ص115)
ان دو ماہ میں اگر یہ کچھ ہو گیا تھا تو آج
 ساٹھ سال بعد بھی ڈھلوان پر لڑھکنے کا یہ عمل پوری رفتار سے جاری ہے۔ اس پر مشفق خواجہ کا یہ شعر یاد آ رہا ہے:
ہم ابھی اور پریشاں ہوں گے
ہم نے آخر ابھی دیکھا کیا ہے