سوال، جواب

مصنف : دارلاافتاء بنوری ٹاون

سلسلہ : یسئلون

شمارہ : مئی 2021

جواب:صورتِ مسؤلہ میں اگر آپ کو اور آپ کی بیوی کو یہ علم تھا کہ یہ نکاح کی تقریب ہے یا نکاح کے مقصد کے لیے آپ سے دستخط لیے جا رہے ہیں اور آپ نے اس وجہ سے اس پر دستخط کیے، جیسا کہ اتنا علم اور سمجھ ہر سمجھ دار کو ہوتی ہے، اگرچہ آپ کو گوا ہوں کے بارے میں علم نہیں تھا کہ وہ کون ہیں، نیز یہ بھی یاد نہیں کہ خطبہ ہوا تھا یا نہیں،تو بھی اس صورت میں یہ نکاح منعقد ہو گیا تھا۔بظاہر جن قوموں میں یہ عرف ہے کہ لڑکے اور لڑکی کے والدین یا سرپرست ان کی طرف سے ایجاب و قبول کرتے ہیں تو وہ فارم پر دستخط کے علاوہ اجمالی طور پر بتاکر وکالت حاصل کرلیتے ہیں، اور پھر مجلسِ نکاح میں سرپرست ایجاب و قبول کرتے ہیں اور خطبہ بھی ہوتاہے، البتہ لڑکے لڑکی کو اس کا علم نہیں ہوتا، اور بسا اوقات ایجاب اور قبول کے الفاظ یعنی آپ کو نکاح قبول ہے، اس قسم کے الفاظ کی ادائیگی بھی کرائی جاتی ہے، لہذا اگر یہ شرائط موجود تھیں تو پھر آپ کا نکاح مجلسِ نکاح سے ہی منعقد ہوگیا۔البتہ اگر صرف فارم پر دستخط کیے ہوں اور آپ کو یہ معلوم نہ ہو کہ یہ فارم کس چیز کا ہے اور نہ ہی آپ سے ایجاب اور قبول کے الفاظ کہلوائے گئے تھے یعنی کہ یہ لڑکی آپ کو نکاح میں قبول ہے یا نہیں، پوچھا گیا تھا اور نہ ہی آپ نے یہ کہا تھا کہ یہ لڑکی مجھے نکاح میں قبول ہے تو آپ کے سرپرستوں کے ایجاب و قبول سے نکاح منعقد نہیں ہوا تھا، البتہ یہ فضولی کا کرایا گیا نکاح تھا، اس کے بعد آپ میاں بیوی نے عملًا اسے قبول کرلیا (مہر کی ادائیگی یا زن و شو کے تعلق کے ذریعے) تو یہ نکاح نافذ ہوگیا۔بہرحال اب تجدیدِ نکاح کی حاجت نہیں ہے۔ تاہم اولیاء کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کا اس طرح نکاح نہ کیا کریں، بلکہ لڑکے اور لڑکی کو بتاکر ان کی دلی رضامندی جان کر باقاعدہ شرعی احکام (سنن و آداب) کی رعایت کے ساتھ نکاح کروائیں ۔

(دارلاافتاء بنوری ٹاون)

جواب:کسی بھی شخص کے لیے کسی کی جاسوسی کرنے اور اس کی باتوں کو اس کی اجازت کے بغیر ریکارڈ کرنے کی شرعاً اور اخلاقاً اجازت نہیں ہے، البتہ اگر کوئی شخص دورانِ گفتگو کسی شخص کے مالی یا جانی نقصان یا آبرو ریزی کے حوالے سے گفتگو کرے، جس کو کرنے کے بعد وہ اپنی باتوں سے بھی انکار کردیتا ہے توایسی صورت میں ضرورت کی حد تک متعلقہ فرد کی گفتگو ریکارڈ کرکے اپنے دفاع کے لیے اور متعلقہ شخص کو اپنے فعل سے باز رکھنے کے لیے استعمال کی جاسکتی ہے، تاہم اس میں بھی دو باتیں ملحوظ رکھنا ضروری ہے:
(1) صرف ان ہی لوگوں کو سنائے جنہیں سنانا ضروری ہو، عام تشہیر نہ کرے۔
(2) جس کی بات ریکارڈ ہو، اس کی پردہ دری یا تذلیل مقصود نہ ہو۔ 

 

(دارلاافتاء بنوری ٹاون)

جواب:بصورتِ مسؤلہ اگر واقعتًا والدہ کی ناراضی کی وجہ صرف وہی ہے جو سوال میں مذکور ہے، اس کے علاوہ انکے ناراض ہونے کی کوئی شرعی وجہ نہیں ہے اور آپ اپنے تئیں ان کے حقوق کی ادائیگی اور حسنِ سلوک کا پورا خیال رکھ رہے ہیں تو ان کی ناراضی عقوق الوالدین (والدین کی نافرمانی) کے زمرے میں نہیں آتی، تاہم وہ اس ناراضی کے باوجود بھی قابلِ احترام ہیں، آپ اپنی طرف سے ان کی خدمت، اطاعت اور دیگر شرعی حقوق میں بالکل کوتاہی نہ کریں، ان کے سامنے غصے یا بلند آواز سے بھی بات نہ کریں، ان کا دل جیتنے کی کوشش کرتے رہیں، اور ان کے لیے مستقل یہ دعا کرتے رہیں: قُلْ رَّبِّ ارْحَمْہُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًا(بنی اسرائیل:۲۴) تو عنداللہ آپ ماخوذ نہیں ہوں گے۔

(دارلاافتاء بنوری ٹاون)

جواب:لڑکی کے عقیقہ میں ایک چھوٹا جانور (خواہ وہ بکرا ہو یا بکری، دنبہ ہو یا دنبی، نر بھیڑ ہو یا مادہ بھیڑ) ، یا بڑے جانور میں ایک حصہ کرنا کافی ہے، لڑکی کے عقیقہ میں بکری کر نا ضروری نہیں۔
 

(دارالعلوم بنوری ٹاؤن)


جواب: صورتِ مسؤلہ میں اگر یہ شخص ان نئی جیسی جیکٹوں کو نئی جیکٹوں کے ساتھ ملا کر رکھے جس سے مشتری یہ سمجھے کہ یہ بالکل نئی ہے،لیکن حقیقت میں وہ استعمال شدہ ہوں ،یہ صورت دھوکا ہے، لہذا اس سے اجتناب کرناچاہیے اور بالکل غیر استعمال شدہ جیکٹ ہو کو علیحدہ اوران جیکٹوں کو جو اگرچہ کوالٹی میں بہتر ہوں، لیکن استعمال شدہ ہوں،ان کو علیحدہ رکھ کر بیچنا چاہیے، یا وضاحت کردینی چاہیے۔
 

(دارلاافتاء بنوری ٹاون)


جواب:اصولی طور پر کاروبار میں نفع کی حد مقرر نہیں، دھوکا دیے بغیر نفع کی کوئی حد وصول کرسکتا ہے، البتہ بازاری قیمت سے غیر معمولی زیادہ قیمت وصول کرنا مناسب نہیں۔واضح رہے کہ غذائی بحران کی صورت میں حکومت کی طرف سے غذائی اجناس کی قیمت یا نفع کی شرح مقرر کرنے کی گنجائش ہے، غذا کے علاوہ دیگر چیزوں کی قیمت، نیز جب غذائی بحران نہ ہو تو غذا سے متعلقہ اشیاء کی قیمت بائع اور مشتری کی باہمی رضامندی سے جو بھی طے ہوجائے جائز ہے، اس کی کوئی حد مقرر نہیں ہے۔ البتہ جہاں کسی چیز کی شدید ضرورت ہو، اور بازار میں اس چیز کے نہ ہونے سے انسانی زندگی متاثر ہوتی ہو اور بیچنے والا اس کی متعارف قیمت سے بہت زیادہ وصول کرے یا اس چیز کی قیمتِ خرید کے نصف کے برابر یا اس سے زیادہ نفع رکھے تو فقہاءِ کرام نے بعض صورتوں میں اسے غبنِ فاحش کے تحت داخل کرکے ممنوع قرار دیا ہے۔ فتاوی رشیدیہ میں ہے:‘‘سوال: نفع لینا شرع میں کہاں تک جائز ہے؟جواب: نفع جہاں تک چاہے لے، لیکن کسی کو دھوکا نہ دے’’۔

(دارلاافتاء بنوری ٹاون)


جواب: حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب مؤمن کی روح قبض کی جاتی ہے تو اللہ کے مرحوم بندے اس طرح آگے بڑھ کر اس سے ملتے ہیں جیسے دنیا میں کسی خوش خبری لانے والے سے ملا کرتے ہیں، پھر (ان میں سے بعض) کہتے ہیں کہ ذرا اس کو مہلت دو کہ دم لے لے؛ کیوں کہ (دنیا میں) یہ بڑے کرب میں تھا، اس کے بعد اس سے پوچھنا شروع کرتے ہیں کہ فلاں شخص کا کیا حال ہے؟ اور فلاں عورت کا کیا حال ہے کہ کیا اس نے نکاح کر لیا ہے؟ پھر اگر کسی ایسے شخص کا حال پوچھ لیں جو اس شخص سے پہلے مر چکا ہے اور اس نے کہہ دیا کہ وہ تو مجھ سے پہلے مر چکا ہے تو ''انا للہ'' پڑھ کر کہتے ہیں کہ بس اس کو اس کے ٹھکانے یعنی دوزخ کی طرف لے جایا گیا، اور وہ جانے کی بری جگہ ہے اور رہنے کی بھی بری جگہ ہے، اور ارشاد فرمایا کہ تمہارے اعمال تمہارے رشتہ دار اور خاندان والوں کے سامنے پیش کیے جاتے ہیں، جو کہ آخرت میں ہیں، اگر عمل نیک ہوا تو خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اے اللہ یہ آپ کا فضل اور رحمت ہے، اپنی یہ نعمت اس پر پوری کیجیے اور اسی پر اس کو موت دیجیے اور ان پر گناہ گار کا عمل بھی پیش ہوتا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ اے اللہ اس کے دل میں نیکی ڈال جو تیری رضا اور قرب کا سبب ہو جائے۔اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ عالمِ برزخ میں نیک مسلمان مرحومین کو اپنے رشتہ داروں کے انتقال کی نہ صرف یہ کہ خبر ملتی ہے، بلکہ ان سے ملاقات بھی ہوتی ہے۔ 
 

(دارلاافتاء بنوری ٹاون)


جواب:جن عبادات کے لیے جنابت سے پاک ہونا شرط ہے (مثلاً نماز، طواف، قرآنِ مجید کو چھونا، یا تلاوت کرنا اور مسجد میں داخل ہونا وغیرہ) تو ان عبادات کو حالتِ جنابت میں بجالانا جائز نہیں ہے، اور جن عبادات کے لیے پاک ہونا شرط نہیں ہے، وہ حالتِ جنابت میں بھی انجام دی جاسکتی ہیں اور وہ اعمال عنداللہ قبول بھی ہوں گے، لہٰذا جنابت کی حالت میں صدقہ و خیرات دینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
 

(دارلاافتاء بنوری ٹاون)


جواب:نفلی روزہ تنہا رکھنا ضروری نہیں ہے، نہ ہی تنہا رکھنا منع ہے، اگر چاہے تو ایک دن روزہ رکھے اور ایک دن افطار کرے یا پے در پے کئی دن روزے رکھے دونوں صورتیں جائز ہیں، البتہ دس محرم الحرام (عاشورائکے دن) کا تنہا روزہ رکھنا مکروہ ہے، اس کے ساتھ نو محرم یا گیارہ محرم کا روزہ ملایا جائے۔
اسی طرح جمعے کے دن کو خاص کرکے موجبِ فضیلت سمجھ کر روزہ رکھنا یا اس کا التزام کرنا مکروہ ہے، لیکن جمعے کا تنہا روزہ مطلقًا ممنوع نہیں ہے۔

(دارلاافتاء بنوری ٹاون)


جواب:مسجد کے احاطہ میں لگے ہوئے پھل دار درخت اگر واقف یا درخت لگانے والے نے عا م لوگوں کے استعمال کے لیے لگائے ہیں تو لوگ ان درختوں کے پھلوں کو کھاسکتے ہیں، لیکن اگر یہ مسجد کی آمدنی کے لیے لگائے ہیں یا اس کی نیت معلوم نہیں ہے تو اس کو فروخت کرکے اس کی قیمت مسجد کے مصارف میں صرف کرنا ضروری ہے، مسجد میں اس کی قیمت ادا کیے بغیر اس کا استعمال جائز نہیں ہوگا۔
 

(دارلاافتاء بنوری ٹاون)


جواب:جس شخص کی امام کے ساتھ شامل ہونے سے پہلے کچھ (ایک یا زائد)رکعات رہ جائیں وہ شرعاً ‘‘مسبوق’’ کہلاتا ہے، مسبوق جب تک امام کے ساتھ ہو اس وقت تک اس کاحکم مقتدی کا ہے، اور امام کے سلام سے پہلے تک مقتدی سے جو سہو ہو اس پر سجدہ سہو لازم نہیں ہوتا، لیکن جب مسبوق، امام کے نماز سے فارغ ہونے کے بعد اپنی نماز پوری کرنے کے لیے کھڑا ہوگا تو اس کاحکم منفرد کا ہے، اس وقت اگر کوئی ایسی غلطی کرے جس سے سجدہ سہو لازم ہوتا ہو تو اس پر سجدہ سہو واجب ہوگا۔
 

(دارلاافتاء بنوری ٹاون)

 
جواب: یہ ایک مقامی رسم ہے نکاح کے منعقد ہونے میں اس کی کوئی اہمیت نہیں ۔ شادی کے موقع پر شرعی حدود میں رہتے ہوئے لڑکی کو مہندی لگانے اور زیب و زینت کرانے میں کوئی قباحت نہیں ہے، بلکہ یہ ایک امر مستحسن ہے، اسی طرح لڑکی کے گھر والوں کے لیے بھی اس خوشی کے موقع پر مہندی لگانے میں مضائقہ نہیں ہے، لیکن اس کے لیے تقریبات منعقد کرنا اور جوان لڑکوں اور لڑکیوں کا شوخ رنگ کے لباس پہن کر ایک دُوسرے کے سامنے جانا بے شرمی و بے حیائی ہے۔ مہندی کی رسم جن لوازمات کے ساتھ ادا کی جاتی ہے، یہ بھی جاہلیت کی اور ہندو قوم کی رسم ہے۔ نیز ان رسموں میں مال کا خرچ اسراف و تبذیر کے زمرے میں آتا ہے ارشادِ خداوندی ہے: وَلاَ تُبَذِّرْ تَبْذِیْرًا اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ کَانُوْا اِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِ وَکَانَ الشَّیْطٰنُ لِرَبِّہ کَفُوْرًابنی إسرائیل: ۲۶-۲۷ترجمہ: ''اور(اپنے مال کو فضول اور بے موقع) مت اُڑاؤ، یقیناً بے جا اُڑانے والے شیطانوں کے بھائی ہیں، اور شیطان اپنے رب کا ناشکرا ہے ''۔

 

(دارلاافتاء بنوری ٹاون)


جواب:نماز کی ہر رکعت میں دو سجدے فرض ہیں، اگر ایک سجدہ کسی رکعت میں چھوٹ گیا اور نماز مکمل کرلی تو نماز کا اعادہ کرنا لازم ہے، اگر نماز کے دوران چھوٹا ہوا سجدہ یاد آئے تو اسے کرلے اور آخر میں سجدہ سہو کرلے۔صورتِ مسؤلہ میں مذکورہ شخص نے چوں کہ تیسری رکعت میں جو سجدہ رہ گیا تھا،چوتھی رکعت میں وہ سجدہ ادا کر لیا تھا تو اب اس پر لازم تھا کہ آخر میں سجدہ سہو کرتا، لیکن اس نے نہیں کیا تو وقت کے اندر تو اس نماز کا اعادہ لازم تھا، لیکن وقت کے بعد اعادہ واجب نہیں ہے۔
 

(دارلاافتاء بنوری ٹاون)


جواب : اسلام میں برتھ ڈے منانے کا شرعاً کوئی ثبوت نہیں ہے، بلکہ یہ ایک رسم ہے،جو غیر قوموں کی دیکھا دیکھی شروع ہو گئی ہے ۔برتھ ڈے میں اگر کوئی خرافات نہ ہوں اور نہ ہی کفار کی مشابہت ہو، بلکہ گھر والے اس مقصد کے لیے اس دن کو یاد رکھیں کہ رب کے حضور اس بات کا شکرادا ہو کہ اللہ تعالیٰ نے عافیت وصحت اور عبادات کی توفیق کے ساتھ زندگی کا ایک سال مکمل فرمایا ہے اور اس کے لیے اگر منکرات سے خالی کوئی تقریب رکھ لیں یا گھر میں بچے کی خوشی کے لیے کیک یا کچھ اور بنالیں یا باہر سے لے آئیں تو اس کی گنجائش ہے۔
باقی کیک کے اجزاء اگر حلال ہوں تو وہ فی نفسہ حلال ہے، سال گرہ کا کیک ہونے کی وجہ سے وہ حرام نہیں ہوگا۔

 

(دارلاافتاء بنوری ٹاون)

تین طلاق کے بعد حلالہ
سوال:زید نے اپنی بیوی کو نومبر 2019 میں 3 طلاقیں زبانی بھی دیں اور دو گواہوں کے دستخط شدہ اسٹامپ پیپر پہ لکھ کے بھی دیں، درمیان میں اتنا عرصہ گزر گیا۔ زید کے چار بچے ہیں، اس نے اپنے لیے سات آٹھ جگہ رشتے دیکھ لیے، لیکن کامیابی نہیں ملی۔ اب سب اپنے پرائے دوست وغیرہ اس کو مشورہ دے رہے ہیں کہ پہلی بیوی واپس لاؤ۔ اب دونوں کو بہت پچھتاوا ہورہا ہے اور دونوں چاہتے ہیں کہ پھر سے ہم ایک ہوجائیں، اس کے لیے شریعت کا جو بھی حکم ہے وہ ماننے کے لیے تیار ہیں۔ ان کو میں نے ساری شرائط بھی بتا دی ہیں کہ اب واپسی دوسرے بندے سے نکاح و دخول کے بغیر ممکن نہیں، وہ دونوں اس کام کے لیے بھی راضی ہیں، وہ اس طرح چاہتے ہیں کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو اور خاندان میں بھی کسی کو پتا نہیں کہ ان کی تین طلاقیں ہوئی ہیں۔ وہ چاہتی ہے کہ میرا نکاح دو تین گھنٹے کے لیے ہو جائے تو شوہر ثانی اگر دخول کے بعد طلاق دے تو کیا یہ گناہ کا عمل ہوگا؟ اور پھر مطلقہ خاتون عدت گزارنے کے بعد زوج اول کے نکاح میں آسکتی ہے؟ شوہر اول کے ساتھ دوبارہ نکاح کے لیے کیا شرائط ہوں گی؟ وہ مجھے کہتے ہیں کہ آپ ہی ہمارا کام سیدھا کریں، یعنی گھر کی بات گھر میں رہے ۔ مجھے کوئی آسان طریقہ بتائیں۔


جواب: شوہر اگر اپنی بیوی کو تین طلاق دے دے تو عورت اپنے شوہر پر حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوجاتی ہے اور اس کے بعد شوہر کے لیے رجوع یا تجدیِد نکاح کرنا جائز نہیں ہوتا، ہاں اگر عورت عدت گزارنے کے بعد دوسرے شخص سے نکاح کرے، اور اس نکاح کرانے میں پہلے شوہر کا کردار نہ ہو، اور دوسرا شوہر اس سے ہم بستری کرنے کے بعد از خود طلاق دے دے یا مرجائے تو پھر یہ عورت اس دوسرے شوہر کی عدت گزار کر پہلے شوہر سے نکاح کرسکتی ہے۔
لیکن اس شرط کے ساتھ نکاح کرنا کہ دوسرا شخص ہم بستری کے بعد طلاق دے گا؛ تاکہ وہ پہلے شوہر کے لیے حلال ہوجائے حدیث شریف کی رو سے سخت گناہ، لعنت کا سبب اور مکروہِ تحریمی ہے۔ اسی طرح دو تین گھنٹے یا محدود مدت کے لیے نکاح کی شرط لگائی جائے تو یہ نکاح کے مقاصد کے خلاف اور شرعًا ناجائز ہے، البتہ اگر نکاح میں کوئی شرط نہ ہو اور دوسرا شخص نکاح کرتے ہوئے دل میں یہ بات چھپائے اور عقد میں اس کی تصریح نہ ہو اور نہ کوئی اجرت وغیرہ کا معاملہ طے ہو اور پہلا شوہر اس نکاح کرانے میں کردار ادا نہ کرے تو اس کی گنجائش ہوگی، اور یہ صورت حدیث میں وارد ہونے والی وعید کا مصداق نہیں ہوگی۔
ایلا

 

(دارلاافتاء بنوری ٹاون)


جواب:ایلاء قسم کھانے کو کہتے ہیں اور شریعت میں ایلاء کامطلب یہ ہے کہ شوہراپنی بیوی سے چار ماہ یااس سے زیادہ مدت کے لیے (یا مطلقًا) صحبت نہ کرنے کی قسم کھائے۔ایلاء کی صورت میں اگر شوہرچار ماہ کے اندربیوی سے تعلقات قائم کرلیتا ہے توقسم کے ٹوٹ جانے کی وجہ سے کفارہ لازم ہوگا،اور کوئی طلاق واقع نہ ہوگی،البتہ اگرچارماہ گزرگئے اورشوہرنے رجوع نہ کیاتوایک طلاق بائن واقع ہو جائے گی۔لیکن اگر شوہر بیوی سے چار ماہ یا اس سے زیادہ دور رہنے کی قسم نہیں کھاتا، بلکہ قسم کھائے بغیر علیحدہ رہتا ہے تو شرعاًیہ ''ایلاء'' شمار نہیں ہوگا، تاہم شوہر کا بیوی سے دور رہنا ، اچھا سلوک نہ کرنا، تعلق قائم نہ کرنا، نفقہ نہ دینا اور نہ ہی طلاق دینا، یہ شرعاً جائز نہیں ہے۔ مذکورہ شخص کو چاہیے کہ وہ اگر اپنی بیوی کو نکاح میں رکھنا چاہتا ہے تو اس کے تمام حقوق ادا کرے، ورنہ ایک طلاق دے کر اپنے نکاح سے علیحدہ کر دے اور اگر شوہر حقوق کی ادائیگی پر راضی نہیں ہوتا تو مذکورہ خاتون کے لیے اس سے طلاق یا باہمی رضامندی سے خلع لینے کی اجازت ہے، اس سلسلے میں خاندان کے معززین اور علاقہ کے باثر لوگوں کے تعاون سے مسئلہ حل کیا جاسکتا ہے۔
 

(دارلاافتاء بنوری ٹاون)


جواب: تراویح میں ہر چار رکعت کے بعد کوئی خاص تسبیح یا دعا احادیث سے ثابت نہیں ہے۔تسبیحِ تراویح کے نام سے جو تسبیح ہمارے ہاں معروف ہے وہ بعض فقہا نے مختلف روایات کے الفاظ کو جمع کرکے عوام الناس کی سہولت کے لیے مرتب کردی ہے؛ لہٰذا اس کو لازم نہیں سمجھنا چاہیے، بلکہ مطلقاً کوئی بھی دعا یا تسبیح پڑھی جا سکتی ہے اور جس طرح ہر چار رکعت کے بعد کوئی دعا پڑھ لینی چاہیے، اسی طرح 20 رکعت کے بعد اور وتر سے پہلے بھی پڑھ لینی چاہیے۔ لیکن تکلفات اور التزامات کے بغیر تسبیح کے مذکورہ کلمات (-ABسُبْحَانَ ذِی الْمُلْکِ وَالْمَلَکُوتِ، سُبْحَانَ ذِی الْعِزَّۃِ وَالْعَظَمَۃِ وَالْقُدْرَۃِ وَالْکِبْرِیَاءِ وَالْجَبَرُوتِ، سُبْحَانَ الْمَلِکِ الْحَیِّ الَّذِی لَا یَمُوتُ، سُبُّوحٌ قُدُّوسٌ رَبُّ الْمَلَائِکَۃِ وَالرُّوحِ، لَا إلَہَ إلَّا اللَّہُ نَسْتَغْفِرُ اللَّہَ، نَسْأَلُک الْجَنَّۃَ وَنَعُوذُ بِک مِنْ النَّارِ-BB )پڑھنے میں حرج نہیں ہے، فقہاءِ کرام نے جب اس دعا کا ذکر کیا ہے تو بغیر التزام اور غلو کے اسے کبھی پڑھ لینا چاہیے، نیز اکابر نے بھی اس کے التزام اور غلو (مثلاً بآوازِ بلند اجتماعی طور پر پڑھنے، یا اسی کو لازم سمجھنے، اس سے کم یا زیادہ نہ پڑھنے) سے منع کیا ہے، نہ کہ مطلقاً اسے پڑھنے سے۔ 
 

(دارلاافتاء بنوری ٹاون)