تفسیر تدبر قرآن میں دعوتی پہلو؍ قسط نمبر ۴

مصنف : محمد صدیق بخاری

سلسلہ : قرآنیات

شمارہ : اپریل 2021

توحید میں آفاق ، انفس او ر تاریخ کی شہادت
    شَھِدَ اللّٰہُ اَنَّہٗ لَآاِلٰہَ اِلَّاھُو وَالْمَلٰٓئِکَۃُ وَ اُولُوا الْعِلْمِ قَآئِمًام بِالْقِسْطِ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَا لْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ(آل ،عمران۱۸)
درج بالاآیت کے تحت مولانا کے قلم کی جولانی عروج پر ہے اور وہ قاری پر توحید کو مختلف پہلوؤں سے اس طرح واضح کرتے ہیں کہ توحید کے بارے میں اس کے تمام شکوک و شبہات دور ہو جاتے ہیں اور وہ کامل یقین کی منزل حاصل کر لیتا ہے ۔اس کے بعد ہم تفہیم کے تقابل سے یہ بات واضح کریں گے کہ مولانا کی تفسیر میں کس طرح دعوت کا عنصر ممیزہے ۔

 پہلے تدبر کا بیان ملاحظہ فرمائیے:
آفاق کی شہادت:
‘‘ ایک تو آفاق کی شہادت ہے۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ اس کائنات کے خالق نے اس کو جس طرح بنایا ہے اور جس طرح اس کے نظام کو چلا رہا ہے اس سے اس بات کی صاف شہادت مل رہی ہے کہ وہ ایک ہی ہے، کوئی اس کا ساجھی نہیں ہے۔۔۔۔یہ کائنات اپنے وجود سے اس بات کی گواہی دے رہی ہے کہ اس کا خالق عدل و قسط کو پسند کرنے والا ہے اور اس کے سورج اور چاند، شجر و حجر ، آسمان و زمین اپنی زبانِ حال سے ہر وقت یہ سبق دے رہے ہیں کہ جس طرح وہ خدا کے مقرر کردہ پیمانے سے سرموتجاوز نہیں کرتے، ان کی ہر حرکت اس پیمانے سے نپی تلی ہوئی ہے اسی طرح انسان بھی اپنی زندگی کے تمام گوشوں میں خدا کی میزان میں نپی تلی روش اختیار کرے اس کے ٹھہرائے ہوئے حدود سے ذرا بھی تجاوز نہ کرے۔’’ ( اصلاحی، امین احسن، - ‘‘تدبر قرآن’’،ج ۲ ، ص۴۷ ،فاران فاؤنڈیشن ،لاہور)
تاریخ کی شہادت:
‘‘ آفاقی شہادت کے ذیل میں قوموں کی تاریخ بھی آتی ہے۔ قرآن نے قوموں کی تاریخ بھی پیش کرکے یہ ثابت کیا ہے کہ یہ دنیا کوئی اندھیر نگری نہیں ہے بلکہ اس کا خالق و مالک اس کو ایک نظام عدل و قسط کے تحت چلا رہا ہے۔ اس کے اسٹیج پر یکے بعد دیگرے وہ مختلف قوموں کو بھیجتا ہے اور ان کا امتحان کرتا ہے کہ وہ خدا کے قانون عدل و قسط کے اندر اپنے اختیار اور اپنی قوتوں کو استعمال کرتی ہیں یا اس سے بغاوت اور سرکشی کی راہ اختیار کرتی ہیں۔ جب تک کوئی قوم خدا کے حدود کے اندر رہ کر اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرتی ہے، وہ اس کو برومند کرتا اورپروان چڑھاتا ہے، جب وہ اس راہ سے ہٹ کر سرکشی کی راہ اختیار کر لیتی ہے تو ایک خاص حد تک مہلت دے چکنے کے بعد وہ اس کو فنا کر دیتا ہے اور دوسری قوم کو اس کی وارث بناتا ہے۔ قرآن نے اس سنت کو بڑی وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔’’ (اصلاحی، امین احسن، - ‘‘تدبر قرآن’’،ج ۲ ، ص۴۸ ،فاران فاؤنڈیشن ،لاہور) 
انفس کی شہادت:
 ‘‘دوسری شہادت انفس کی شہادت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت ایسی بنائی ہے کہ وہ خود توحید کی اور اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کے قائم بالقسط ہونے کی شہادت دے رہی ہے۔ انسانی فطرت کی یہی توحید پسندی ہے جس کے سبب سے قرآن نے توحید کو دین فطرت قرار دیا ہے۔ فِطْرَۃَ اللّٰہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْھَا (اللہ کی بنائی ہوئی فطرت جس پر اس نے لوگوں کو پیداکیا) اور یہی عدل پسندی ہے جس کی بنا پر جزا و سزا کے منکرین سے قرآن یہ سوال کرتا ہے۔ اَفَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِیْنَ کَالْمُجْرِمِیْنَo مَا لَکُمْ کَیْفَ تَحْکُمُوْنَ (۳۴-۳۵: قلم) کیا ہم فرمانبرداروں کو مجرموں کی طرح کر دیں گے، تمھیں کیا ہو گیا ہے، تم کیسا فیصلہ کرتے ہو؟)’’(اصلاحی، امین احسن، - ‘‘تدبر قرآن’’،ج ۲ ، ص۴۸ ،فاران فاؤنڈیشن ،لاہور) 
وحی کی شہادت:
‘‘ تیسری شہادت وحی کی شہادت ہے۔اللہ تعالیٰ نے اپنی پسند و نا پسند اور اپنے اوامر و نواہی سے بندوں کو آگاہ کرنے کے لیے اپنے بے شمار نبی اور رسول بھیجے۔ ان نبیوں اور رسولوں نے یہ شہادت اپنی اپنی امتوں کو پہنچائی۔ اس شہادت کے آثار و نشانات آج بھی ان امتوں کی روایات اور ان کے صحیفوں کی تعلیمات میں موجود ہیں لیکن انھوں نے ان آثار و روایات کو نظر انداز کرکے اپنے آپ کو ایسے نظریات و عقاید میں مبتلا کر لیا جو توحید کے بھی منافی ہیں اور خدا کے قائم بالقسط ہونے کے بھی لیکن ان امتوں کی اس غلط روش کی وجہ سے وہ اپنی ان اعلیٰ صفات سے دستبردارنہیں ہو گیا ہے بلکہ وہ بدستور ان سے متصف ہے اور ہمیشہ متصف رہے گا۔اس تفصیل سے یہ بات واضح ہوئی کہ خدا کی وحدانیت اور اس قائم بالقسط ہونے کی شہادت کسی ایک ہی پہلو سے نہیں مل رہی ہے بلکہ تین مختلف پہلوؤں سے مل رہی ہے ۔ اس کی بنائی ہوئی کائنات کا نظام اور اس کی تاریخ اس کی شہادت دے رہی ہے، اس کی پیدا کی ہوئی فطرت اس پر گواہ ہے اور اس کے پیغمبروں نے ہمیشہ اس حقیقت کی منادی کی ہے۔ اس آیت میں یہ بات نہایت اجمال کے ساتھ بیان ہوئی ہے لیکن قرآن کے تیس پاروں میں اس اجمال کی تفصیلات پھیلی ہوئی ہیں۔’’(اصلاحی، امین احسن، - ‘‘تدبر قرآن’’،ج ۲ ، ص۴۸ ،فاران فاؤنڈیشن ،لاہور) 
تفہیم القرآن کابیان
     انفس ، آفاق اور تاریخ کی شہادت کے ضمن میں مولانا اصلاحی کی تفسیر کا مولانا مودودیؒ کی تفسیر سے تقابل کیجیے صاف عیا ں ہے کہ مولانا کا اسلوب کس قدر دعوتی انداز لیے ہوئے ہے اور مولانا کی کس قدر کوشش ہے کہ توحید کا تصو ر ہر ہر پہلو سے قاری کے ذہن نشین ہو جائے اور کسی قسم کا ابہام نہ رہے ۔ مولانا مودودی لکھتے ہیں: 
‘‘یعنی اللہ جو کائنات کی تمام حقیقتوں کا براہِ راست علم رکھتا ہے، جو تمام موجودات کو بے حجاب دیکھ رہا ہے، جس کی نگاہ سے زمین و آسمان کی کوئی چیز پوشیدہ نہیں ، یہ اْس کی شہادت ہے۔۔۔ اور اس سے بڑھ کر معتبر عینی شہادت اور کس کی ہوگی۔۔۔۔ کہ پورے عالمِ وجود میں اس کی اپنی ذات کے سوا کوئی ایسی ہستی نہیں ہے ، جو خدائی کی صفات سے متصف ہو، خدائی کے اقتدار کی مالک ہو، اور خدائی کے حقوق کی مستحق ہو۔اللہ کے بعد سب سے زیادہ معتبر شہادت فرشتوں کی ہے، کیونکہ وہ سلطنتِ کائنات کے انتظامی اہلِ کار ہیں اور وہ براہِ راست اپنے ذاتی عِلم کی بنا پر شہادت دے رہے ہیں کہ اس سلطنت میں اللہ کے سوا کسی کا حکم نہیں چلتا اور اس کے سوا کوئی ہستی ایسی نہیں ہے ، جس کی طرف زمین وآسمان کے انتظامی معاملات میں وہ رْجوع کرتے ہوں۔ اس کے بعد مخلوقات میں سے جن لوگوں کو بھی حقائق کا تھوڑا یا بہت علم حاصل ہوا ہے ، ان سب کی ابتدا ئے آفرینش سے آج تک یہ متفقہ شہادت رہی ہے کہ ایک ہی خدا اس پوری کائنات کا مالک و مْدبّر ہے۔’’ ( ابوالاعلی مودودی ،تفہیم القرآن ، ج ا ، ص۲۳۹،ادارہ ترجمان القرآن لاہور)
توحید کی دلیل اضداد میں توافق کے پہلو سے 
    انسان جس کائنات میں کھڑا ہے وہ بالکل متضاد اور متنوع عناصر کا مرکب ہے۔مگر مشاہدہ ہے کہ زمین و آسمان، خشکی وپانی، ہوا اور آگ جیسے متضاد عناصر ملتے ہیں اور بقائے زندگی کا وہ سامان فراہم کرتے ہیں جو ایک خالق کے بغیر ممکن نہیں۔ اگر ان کے خالق الگ الگ ہوتے تو اپنی مرضی سے ان متضاد عناصر کو کنٹرول کرتے اور یوں زمین میں فساد برپا ہوجاتا۔ مگر یہ دھرتی فساد سے نہیں بلکہ زندگی کے حسن سے عبارت ہے۔ یہ ایک خالق کے وجود کا جیتا جاگتا ثبوت ہے جو تنہا ہماری عبادت کا مستحق ہے۔اسی اضداد میں توافق کو مولانا اصلاحی کس قدر دعوتی انداز میں بیان کرتے ہیں ملاحظہ فرمائیں:
ان فی خلق السموات والارض واختلاف اللیل۔۔۔۔
‘‘اس آیت پر اگر تدبر کی نگاہ ڈالئے تو یہ حقیقت واضح ہو گی کہ اس میں شروع سے لے کر آخر تک اس کائنات کے متقابل بلکہ متضاد اجزا وعناصر کا حوالہ دیا گیا ہے اور ساتھ ہی ان کے اس حیرت انگیز اتحاد وتوافق اور ان کی اس بے مثال بہم آمیزی وسازگاری کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، جو ان کے اندر اس کائنات کی مجموعی خدمت کے لئے پائی جاتی ہے۔ آسمان کے ساتھ زمین، رات کے ساتھ دن، کشتی کے ساتھ دریا۔ بظاہر دیکھئے تو معلوم ہو گا کہ اگر یہ ایک طرف ضدین کی نسبت رکھتے ہیں تو دوسری طرف اس کائنات کی خانہ آبادی کے نقطہ نظر سے آپس میں زوجین کا سا ربط واتصال بھی رکھتے ہیں۔ یہ آسمان اور اس کے چمکتے ہوئے سورج اور چاند نہ ہوں تو ہماری زمین کی ساری رونقیں اور بہاریں ختم ہو جائیں بلکہ اس کی ہستی ہی نابود ہو جائے۔ اسی طرح پہ زمین نہ ہو تو کون بتا سکتا ہے کہ اس فضائے لامتناہی کے بے شمار ستاروں اور سیاروں میں سے کس کس کا گھر اجڑ کے رہ جائے۔ علی ہذا القیاس، ہماری اور ہماری طرح اس دنیا کے تمام جانداروں کی زندگی جس طرح دن کی حرارت، تمازت، روشنی اور نشاط انگیزی کی محتاج ہے، اسی طرح شب کی خنکی، لطافت، سکون بخشی اور خواب آوری کی بھی محتاج ہے۔ یہ دونوں مل کر اس گھر کو آباد کئے ہوئے ہیں۔ اسی طرح سمندر کو دیکھئے۔ اس کا پھیلاؤ کتنا ہوشربا اور ناپید اکنار ہے اور اس کی موجیں کتنی مہیب اور ہولناک ہیں، لیکن دیکھئے اس سرکشی و طغیانی کے باوجود کس طرح اس نے عین اپنے سینہ پر سے ہماری کشتیوں اور ہمارے جہازوں کے لئے نہایت ہموار اور مصفا سڑکیں نکال رکھی ہیں جن پر ہمارے جہاز دن رات دوڑ رہے ہیں اور تجارت ومعیشت، تمدن و معاشرت اور علوم و فنون ہر چیز میں مشرق اور مغرب کے ڈانڈے ملائے ہوئے ہیں۔ آگے آسمان سے بارش اور اس بارش سے زمین کے از سر نو باغ وبہار اور معموروآباد ہوجانے کا ذکر ہے۔ غور کیجئے کہاں زمین ہے اور کہاں آسمان۔ لیکن اس دوری کے باوجود دونوں میں کس درجہ گہرا ربط واتصال ہے۔ زمین اپنے اندر روئیدگی اور زندگی کے خزانے چھپائے ہوئے ہے لیکن یہ سارے خزانے اس وقت تک مدفون ہی رہتے ہیں جب تک آسمان سے بارش نازل ہو کر ان کو ابھار نہیں دیتی۔ اسی طرح کا رشتہ بادلوں اور ہواؤں کے درمیان ہے۔ بادلوں کے جہاز لدے پھندے اپنے بادبان کھولے کھڑے ہیں لیکن یہ اپنی جگہ سے ایک انچ سرک نہیں سکتے جب تک ہوائیں ان کو دھکے دے کر ان کی جگہ سے نہ ہلائیں اور ان کی مقرر کی ہوئی سمتوں میں آگے نہ بڑھائیں یہ ہوائیں ہی ہیں جو ان کو مشرق ومغرب اور شمال وجنوب میں ہنکائے پھرتی ہیں اور جب چاہتی ہیں ان کو غائِب کر دیتی ہیں اور جب چاہتی ہیں ان کو افق پر نمودار کر دیتی ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ غور وتدبر کی نگاہ اس دنیا کے بارے میں کیا فیصلہ کرتی ہے۔ کیا یہ اضداد اور متناقضات کی ایک رزم گاہ ہے جس میں مختلف ارادوں اور قوتوں کی کشمکش برپا ہے یا ایک ہی حکیم ومدبر ارادہ ان سب پر حاکم وفرمانروا ہے جو ان تمام عناصر مختلفہ کو اپنی حکمت کے تحت ایک خاص نظام اور ایک مجموعی مقصد کے لئے استعمال کر رہا ہے؟ ظاہر ہے کہ اس کائنات کے مشاہدہ سے یہ دوسری ہی بات ثابت ہوتی ہے۔ پھر مزید غور کیجئے تو یہیں سے ایک اور بات بھی نکلتی ہے وہ یہ کہ دنیا آپ سے آپ وجود میں نہیں آئی ہے اور نہ اس کے اندر جو ارتقاء ہوا ہے وہ آپ سے آپ ہوا ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو اس کے عناصر مختلفہ میں ایک بالاتر مقصد کے لئے وہ سازگاری کہاں سے پیدا ہوتی جو اس کائنات کے ہر گوشہ میں موجود ہے۔ غور کیجئے تو یہ ایک ہی حقیقت ایک طرف شرک کے تمام امکانات کا سدباب کر رہی ہے اور دوسری طرف یہ ڈارونزم کے بھی تمام وساوس کی جڑ کاٹ رہی ہے۔’’ ( اصلاحی، امین احسن، ‘‘تدبر قرآن’’، ج ا ، ص ا۴۰،فاران فاؤنڈیشن ،لاہور ) 
اسی آیت کے ضمن میں مولانا مودودیؒ کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں۔یہ تقابل صاف بتا دے گا کہ کس تفسیر میں دعوتی انداز غالب اور کامل ہے ۔مولانا لکھتے ہیں:
‘‘یعنی اگر انسان کائنات کے اس کارخانے کو، جو شب و روز اس کی آنکھوں کے سامنے چل رہا ہے ، محض جانوروں کی طرح نہ دیکھے بلکہ عقل سے کام لے کر اس نظام پر غور کرے، اور ضد یا تعصّب سے آزاد ہو کر سوچے، تو یہ آثار جو اس کے مشاہدے میں آرہے ہیں اس نتیجے پر پہنچانے کے لیے بالکل کافی ہیں کہ یہ عظیم الشان نظام ایک ہی قادرِ مطلق حکیم کے زیرِ فرمان ہے، تمام اختیار و اقتدار بالکل اْسی ایک کے ہاتھ میں ہے، کسی دْوسرے کی خود مختارانہ مداخلت یا مشارکت کے لیے اس نظا م میں ذرہ برابر کوئی گنجائش نہیں، لہٰذا فی الحقیقت وہی ایک خدا تمام موجوداتِ عالم کا خدا ہے، اس کے سوا کوئی ہستی کسی قسم کے اختیارات رکھتی ہی نہیں کہ خدائی اور اْلوہیّت میں اس کا کوئی حصّہ ہو۔’’( ابوالاعلی مودودی ،تفہیم القرآن ، ج ا ، ص۳۰ا،ادارہ ترجمان القرآن لاہور) 
کائنات میں توحید کے شواہد
    ‘‘اِنَّ اللّٰہَ فَالِقُ الْحَبِّ وَالنَّوٰی ط یُخْرِجُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَمُخْرِجُ الْمَیِّتِ مِنَ الْحَیِّ ط ذٰلِکُمُ اللّٰہُ فَاَنّٰی تُؤْفَکُوْنَ ہ فَالِقُ الْاِصْبَاحِ ج وَجَعَلَ الَّیْلَ سَکَنًا وَّالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْبَانًاط ذٰلِکَ تَقْدِیْرُ الْعَزِیْزِ الْعَلِیْمِ ہ وَھُوَ الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ النُّجُوْمَ لِتَھْتَدُوْا بِھَا فِیْ ظُلُمٰتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِط قَدْ فَصَّلْنَا الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ (95-97)
سورہ الانعام کی درج بالا آیات کے ضمن میں مولانا اصلاحی نے توحید کے دلائل بیان کرتے ہوئے انتہائی خوبصورت انداز میں توحید کے تصور کو قاری کے دل میں اتارنے کی کوشش کی ہے ۔ اسلو ب نگارش شاہد ہے کہ لکھنے والے کے ذہن میں دعوت کا رنگ غالب ہے ۔تدبر قرآن سے کچھ اقتباسات ملاحظہ کیجیے ۔
ایک ایک ذرّہ توحید کا شاہد ہے: 
‘‘اِنَّ اللّٰہَ فَالِقُ الْحَبِّ وَالنَّوٰی’ ‘حَبَّ’
ا ور ‘نوٰی’ دانے اور گٹھلی کو کہتے ہیں۔ فرمایا کہ ایک چھوٹے سے دانے اور چھوٹی سی گٹھلی پر بھی خدا کے سوا کسی اور کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ ان کو پھاڑ کر ان کے اندر سے انکھوے نکالے، پھر ان کو پودے اور درخت بنادے۔ یہ خدا ہی کی قدرت اور اس کی حکمت ہے کہ وہ ایک ایک بیج اور ایک ایک گٹھلی کے اندر صلاحیتیں ودیعت فرماتا ہے، پھر ان صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے لیے زمین، آسمان، ابر، ہوا، گرمی اور سردی، خزاں اور بہار سب کو امر فرماتا ہے کہ سب مل کر اس کی پرورش میں اپنا اپنا حصہ ادا کریں۔ گویا اس زمین میں نشوونما پانے والا ایک ایک دانہ اپنے وجود سے اس بات کی شہادت دے رہا ہے کہ اسی کے تصرف سے وہ وجود میں آیا ہے جس کے تصرف میں یہ پوری کائنات ہے۔ اگر اس کائنات کی خدائی مختلف خداؤں اور دیوتاؤں میں بٹی ہوئی ہوتی اور وہ سب اپنے اپنے دائروں اور علاقوں میں خودمختار ہوتے تو اس دنیا کا نظام چلنا تو الگ رہا رائی کا ایک دانہ بھی اپنی صلاحتیں اجاگر نہیں کر سکتا تھا۔’’ (اصلاحی، امین احسن، ‘‘تدبر قرآن’’، ج ۳ ، ص ۶اا،فاران فاؤنڈیشن ،لاہور)
خدا کے قانون سے کوئی باہر نہیں: 
‘‘یہ بے جان چیزوں سے زندگی کے اظہار اور پھر زندگی کے اوپر موت اور فنا کے طاری ہونے کی ایک جامع تعبیر ہے جس کا مشاہدہ ہم اس کائنات کے ہر گوشے میں برابر کر رہے ہیں۔ آم کی بے جان گٹھلی اور گیہوں کے بے جان دانہ سے ہرا بھرا درخت اور لہلہاتا ہوا پودا پیدا ہو جاتا ہے اور پھر اسی سبز و شاداب درخت اور لہلہاتے ہوئے پودے پر زردی، خشکی اور مردنی طاری ہونی شروع ہوتی ہے یہاں تک کہ ایک دن وہ ختم ہو جاتا ہے یہی مشاہدہ ہم انسانوں اور حیوانوں میں کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ قوموں اور ملتوں کے اندر بھی موت اور زندگی، عروج اور زوال کی یہی داستان برابر دہرائی جارہی ہے۔ ایک قوم پردۂ عدم سے نکلتی ہے ساری دنیا پر چھا جاتی ہے اور پھر وہی قوم ایک دن آتا ہے کہ پردۂ عدم میں جا چھپتی ہے۔ موت اور زندگی کے اس قانون سے کسی کے لیے مفر نہیں۔ اگر خدا کے سوا کسی اور کا بھی اس کائنات میں مالکانہ و خودمختارانہ تصرف ہے تو کسی ایک ہی گوشہ میں وہ اس قانون کو باطل کیوں نہیں کر دیتا اور اگر خدا سرے سے ہے ہی نہیں بلکہ یہ سب مجرد مادے یا کسی اندھی بہری طاقت کا بروز ہے تو اس کا تقاضا تو یہ تھا کہ یہ بروز قائم و دائم رہے، نہ اس میں کبھی انقطاع ہو، نہ اس کے رخ میں کوئی تبدیلی واقع ہو، نہ اس پر کوئی تغیر طاری ہو’’۔ (اصلاحی، امین احسن، ‘‘تدبر قرآن’’، ج ۳ ، ص ۶اا،فاران فاؤنڈیشن ،لاہور) 
حیرت انگیز پلاننگ
 ‘‘یہ دنیا کسی کباڑیے کی دکان یا کوئی مال گودام نہیں ہے جس میں کسی چیز کا بھی کوئی قرینہ نہ ہو بلکہ اس میں نہایت حیرت انگیز پلاننگ ہے، ہر چیز کے لیے اس کی متعین جگہ ہے، ہر حرکت اور گردش کے لیے معین محور و مدار ہیں، ہر عمل کے لیے لگے بندھے ضابطے قاعدے ہیں، ہرآزادی اور ہر پابندی کے لیے معلوم و معروف حدود و قیود ہیں۔ اس سے صاف یہ اشارہ نکلتا ہے کہ اس جہان کے خالق کی مرضی انسانوں کے لیے بھی یہی ہے کہ وہ شتر بے مہار کی زندگی نہ گزاریں بلکہ اس کی ہدایات اور اس کے احکام کے تحت زندگی بسر کریں تاکہ ان کی زندگی اس پورے کارخانہ سے ہم آہنگ ہو۔’’(اصلاحی، امین احسن، ‘‘تدبر قرآن’’، ج ۳ ، ص ۶اا،فاران فاؤنڈیشن ،لاہور)
    وَھُوَ الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ النُّجُوْمَ لِتَھْتَدُوْا بِھَا فِیْ ظُلُمٰتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِط قَدْ فَصَّلْنَا الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ 
ستاروں کی خدمت گزاری: 
‘‘سورج اور چاند کے بعد ستاروں کی طرف متوجہ کیا کہ دیکھ لو، یہ خود اپنی خدمت گزاری سے شہادت دے رہے ہیں کہ خالق نے ان کو تمھاری خدمت پر مقرر کیا ہے۔ جب تم خشکی اور تری کا سفر کرتے ہو تو سمندروں اور بیابانوں میں یہ روشنی کے میناروں اور برجیوں کی طرح تمھاری کشتیوں اور تمھارے قافلوں کو سمتیں اور راستے بتاتے ہیں۔ اب یہ کیسی بے وقوفی کی بات ہے کہ وہ خود تو اپنے عمل سے بتا رہے ہیں کہ تمھارے خالق نے ان کو تمھاری خدمت میں لگا رکھا ہے اور تم ان کو خدا کی خدائی میں شریک مان کر ان کے بت کھڑے کر کے ان کی پرستش شروع کردو۔ پھر یہ دیکھو کہ یہ ہیں تو آسمان میں لیکن شمع برداری کی خدمت وہ تم زمین والوں کی انجام دے رہے ہیں۔ سوچو کہ زمین کا خدا الگ ہوتا اور آسمانوں کے دیوتا الگ ہوتے تو آسمان کے ستاروں کو کیا پڑی تھی کہ وہ زمین والوں کو رستہ بتانے کے لیے ساری رات دید بانوں میں کھڑے کھڑے اپنی نیندیں خراب کرتے؟ یہ صورت حال تو صاف شہادت دے رہی ہے کہ زمین و آسمان سب پر ایک ہی خدا کی حکمرانی ہے اور اسی نے ان ستاروں کو تمھاری خدمت کے لیے مسخر کیا ہے تاکہ تم اپنے رب کے شکرگزار بنو اور اسی کی عبادت کرو۔’’(اصلاحی، امین احسن، ‘‘تدبر قرآن’’، ج ۳ ، ص ۶اا،فاران فاؤنڈیشن ،لاہور)