سکولوں میں عربی اور ترجمہ قرآن کا کیا حشر ہونے والا ہے

مصنف : ڈاکٹر طفیل ہاشمی

سلسلہ : فکر و نظر

شمارہ : مارچ 2021

پاکستان میں اسلامی سربراہی کانفرنس کے نتیجے میں عربی کا چلن بڑھنے لگا۔عرب ممالک نے عربی ٹریننگ کورسز کے لیے پاکستان سے کالجز /یونیورسٹی اساتذہ کو اور عرب کی اسلامی جامعات نے یہاں سے ایک مکتب فکر کے فضلاء کو وظائف دینے کا آغاز کیا۔اوپن یونیورسٹی نے اپنے تعلیمی پروگرام کا آغاز اللسان العربی سے کیا۔ اسلام آباد میں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کی بنیاد رکھی گئی۔جنرل ضیاء الحق نے اپنے اقتدار کو طول دینے اور مستحکم کرنے کے لیے عربی زبان کی تعلیم کو لازمی قرار دیا۔نوٹیفکیشن کے مطابق عربی چھٹی سے بارہویں تک لازمی ہو گئی لیکن اس پر عمل درآمد نہ ہوسکا۔صرف آٹھویں تک کچھ عرصہ لازمی رہی۔اس کے ساتھ ہی ترجمہ قرآن کوبھی لازمی کرنے کا ڈول ڈالا گیا۔کریکلم ونگ ان پراجیکٹس پر کام کر رہا تھا۔اتفاق سے ڈاکٹر ایس ایم زمان اور ڈاکٹر محمود غازی اور نیازمند اس کمیٹی کے ممبر تھے۔ہم نے یہ فیصلہ کیا کہ قرآنی عربی کا سلیبس اس طرح ڈیزائن کر دیا جائے کہ ہر طالب علم میں چار سال میں فہم قرآن کی بنیادی صلاحیت پیدا ہو جائے۔کریکلم ونگ ہماری اس تجویز سے متفق نہیں تھا۔ مجھے چونکہ نصاب سازی، تعلیم اللغۃ العربیہ لغیر الناطقین سے شغف ہونے کے ساتھ اوپن یونیورسٹی سے وابستہ ہونے کے باعث ضروری وسائل بھی میسر تھے اس لیے میں نے ابتدائی خاکہ تیار کروا لیا کہ قرآن حکیم میں کل مفردات لگ بھگ سولہ سترہ سو ہیں اور باقی ان کے تغیرات یعنی صیغے ہیں۔ ان بنیادی مفردات میں پچاس فیصد سے زائد الفاظ اردو میں استعمال ہوتے ہیں۔ اور اوپن یونیورسٹی اس حیثیت میں ہے کہ سارے ملک کے لئے قرآنی عربی کا نصاب تیار کروا دے جبکہ اس سے پہلے ہم دینی مدارس کے فضلاء کو ہزاروں کی تعداد میں تدریب المعلمین کا تربیتی کورس کروا کر سکولوں میں تعیناتی کے لیے سرٹیفکیشن کر چکے تھے۔اسی پرجوش تیاری کے دوران کریکلم ونگ نے دوبارہ میٹنگ بلائی جس میں حیرت انگیز طور پر ملک بھر سے کچھ شدت پسندعلما کو بھی بلایا گیا۔اسلامک یونیورسٹی فیصل مسجد میں اجتماع ہوا۔ہم نے اپنی رائے، اس کے حق میں دلائل اور اس کی تیاری کی مکمل رپورٹ پیش کی۔
جن بزرگوں کو کریکلم ونگ کے ارباب اختیار لائے تھے وہ صرف مجوزہ کورسز پڑھانے کا تجربہ رکھتے تھے اور ان کے پاس کہنے کو کچھ نہیں تھاالبتہ انہوں نے یہ کہا کہ قرآنی عربی پڑھانے کے بجائے سورہ انفال اور سورہ توبہ کا ترجمہ پڑھایا جائے۔ ہم نے لاکھ سمجھایا کہ دو سورتوں کا ترجمہ رٹ کر امتحان دینے والے طلبہ امتحان سے فارغ ہوتے ہی اسے بھلا دیں گے جبکہ ہماری تجویز کے مطابق انہیں قرآن کا سادہ ترجمہ زبان دانی کی بنیاد پر ہمیشہ کے لیے آ جائے گا لیکن ان کا اصرار تھا، جس کی وجہ بعد میں معلوم ہوئی۔آخر کریکلم ونگ کے صاحب اختیار صاحب نے آخری جملہ کہا کہ آپ کی جو بھی رائے ہو پاکستان کا آئین مجھے اختیار دیتا ہے کہ جو میں چاہوں گا، قوم کے بچے وہی پڑھیں گے اور ہم سورہ انفال اور سورہ توبہ کا ترجمہ پڑھائیں گے۔چونکہ یہ دونوں سورتیں قتال سے متعلق تھیں بلکہ سورہ توبہ کی کچھ آیات کی خود ساختہ تفسیر نے بعد میں مسلمانوں کو دنیا بھر میں دہشت گرد کے طور پر متعارف کروایا لیکن اس وقت امریکی جہاد میں شرکت کے لئے نوجوان خون کی ضرورت تھی اس لیے قرآن کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی حرکت سے بھی باز نہیں آئے۔
جب امریکی جہاد نے رخ بدلا اور ہمیں اسلام کے سافٹ امیج کی ضرورت پڑی تو جنرل پرویز مشرف کے دور میں پھر کریکلم ونگ نے ایک میٹنگ بلائی اور ایجنڈا یہ تھا کہ سورہ انفال اور توبہ کی جگہ سورہ یوسف پڑھائی جائے۔میں نے کہا کہ کچی عمر کے بچے بچیوں کو سورہ یوسف پڑھا کر آپ کیا نتائج حاصل کرنا چاہتے ہیں۔مولانا تھانوی نے لکھا ہے کہ نوجوان طلبہ کو ترجمہ قرآن پڑھاتے ہوئے سورہ یوسف سے نہ شروع کیا جائے لیکن مجھے معلوم تھا کہ یہ بدبخت طبقہ عالمی اور مقامی سامراج کے مذموم مقاصد پورے کرنے میں اس حد تک حیا سے عاری ہے کہ قرآن کو بھی استعمال
 کرنے سے نہیں چوکتے. میں یہ کہہ کر اٹھ کر آ گیا کہ آئندہ مجھے میٹنگ میں نہیں بلائیے گا۔
غازی صاحب وفات پا گئے ہیں، ڈاکٹر زمان لکھتے نہیں ہیں، شاید اس واقعہ کا واحد عینی گواہ میں ہی زندہ ہوں اس لیے میں نے یہ ساری کہانی بطور ریکارڈ لکھ دی ہے البتہ کچھ کٹھ پتلیاں ابھی تک کہیں ہوں گی۔
یہ ساری کہانی مجھے اس خبر پر یاد آئی کہ پاکستان میں ایک بار پھر عربی /ترجمہ قرآن کو لازمی قرار دے دیا گیا ہے۔مجھے نہیں معلوم کہ اس دفعہ کیا مقاصد ہیں تاہم جس ملک میں تعلیمی پالیسی انگلش میڈیم سکولوں کے ہاتھ میں ہے وہاں ایسی کوئی سکیم کامیاب نہیں ہو سکتی۔ہاں اگر کامیاب ہو جائے تو پاکستان اپنا مقصد وجود حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے۔