سوال، جواب

مصنف : مولانا امین احسن اصلاحی

سلسلہ : یسئلون

شمارہ : مارچ 2021

جواب: غلاف کعبہ سے متعلق سب سے پہلی بات تو یہ یاد رکھنے کی ہے کہ یہ شعائر اللہ میں داخل نہیں ہے۔ جس کسی کو بھی یہ مغالطہ ہوا ہے کہ یہ شعائر اللہ میں سے کوئی شعیرہ ہے، اس کو یہ مغالطہ اگر دیدہ و دانستہ نہیں لاحق ہوا ہے تو یہ ماننا پڑے گا کہ یہ محض دین اور شعائر دین سے بے خبری کا نتیجہ ہے۔ اسلام میں کسی چیز کو شعیرہ قرار دینے کا حق ہر ایرے غیرے کو نہیں ہے، بلکہ صرف اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ہے۔ اللہ اور اس کے رسول نے جن چیزوں کو شعائر کی حیثیت دی ہے، ان کا ذکر قرآن میں بھی ہے اور حدیث میں بھی۔ مجھے کہیں ان کی فہرست میں غلاف کعبہ کا ذکر نہیں ملا۔ صحابہ رضی اللہ عنہم اور بعد کے علما میں سے بھی کسی کے متعلق مجھے معلوم نہیں ہو سکا ہے کہ انھوں نے اس کو شعائر میں سے شمار کیا ہو۔
اس کی تاریخ آغاز سے متعلق جو مواد موجود ہے، اس سے قابل اعتماد بات جو معلوم ہوتی ہے، وہ یہی ہے کہ بیت اللہ کو غلاف پہنانے کا رواج زمانہ جاہلیت میں عربوں کے ہاتھوں ہوا۔ حضرت ابراہیم یا حضرت اسمٰعیل علیہم السلام کی طرف اس کی نسبت محض ایک بے تحقیق بات ہے۔ اس کی کوئی قابل ذکر سند موجود نہیں ہے۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے جو بات منقول ہے، اس سے بھی یہی واضح ہے کہ غلاف کعبہ کو آپ نے حضرت ابراہیم یا حضرت اسمٰعیل علیہم السلام کی سنت کی حیثیت سے اختیار نہیں فرمایا، بلکہ زمانہ قبل از اسلام کی ایک ایسی یادگار کی حیثیت سے باقی رکھنا پسند فرمایا جس میں کسی دینی ضرر کا کوئی پہلو نہ تھا۔ غلاف پہنانے سے اصل مقصود کعبہ کا احترام تھا، نہ کہ غلاف کا۔ غلاف کے احترام کے معاملہ میں تو صحابہ رضی اللہ عنہم کے دور تک صورت حال یہ رہی کہ پرانے غلاف جو اتارے جاتے عام لوگوں میں ان کے ٹکڑے بیع یا تقسیم کر دیے جاتے اور لوگ بلا کسی خاص امتیاز کے عورتیں، مرد اور بچے عام کپڑوں ہی کی طرح ان کو استعمال کرتے۔اس وجہ سے یہ خیال بالکل ہی بے بنیاد ہے کہ غلاف کعبہ شعائر اللہ میں سے ہے اور اس کی تعظیم بحیثیت ایک شعیرہ کے ضروری ہے۔ بس زیادہ سے زیادہ جو بات کہی جا سکتی ہے، وہ یہ ہے کہ عربوں نے بیت اللہ کے احترام کے پیش نظر یہ رسم اختیار کی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسی پہلو سے اس کو باقی رکھنا پسند فرمایا۔ اس کے اختیار کرنے میں احترام خانہ کعبہ مدنظر تھا، نہ کہ احترام غلاف۔
شعائر اللہ سے متعلق یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ ان کی دین میں بڑی اہمیت و عظمت ہے، اس وجہ سے ہر چیز کا یہ درجہ نہیں ہوا کرتا کہ اس کو ایک شعیرہ کا مقام دے دیا جائے۔ شعیرہ اس چیز کو کہتے ہیں جو دین کی کسی اہم معنوی حقیقت کا مظہر اور نشان (symbol) ہو۔ اس طرح کے نشانات مقرر کرنے کا حق ہما شما کو نہیں، بلکہ صرف اللہ اور اس کے رسول کو ہے۔ ان کی تعظیم کے طریقے بھی اللہ اور رسول ہی نے بتائے ہیں۔ کسی دوسرے کو یہ حق نہیں ہے کہ اپنے جی سے ان کی تعظیم کے طریقے ایجاد کرے، ورنہ اس سے دین میں بڑے فتنے پیدا ہو سکتے ہیں۔ تفسیر ''تدبر قرآن'' میں 'اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَآئِرِ اللّٰہِ' کے تحت ہم نے جو کچھ عرض کیا ہے، قارئین اس پر ایک نظر ڈال لیں۔ اس سے ان کی اہمیت کا بھی اندازہ ہو سکے گا اور یہ حقیقت بھی واضح ہو گی کہ اگر ہر شخص من مانے طور پر جس چیز کو چاہے شعائر اللہ کا درجہ دے کر لوگوں سے اس کی تعظیم کرانے لگے تو اس سے شرک و بدعت کے کیسے وسیع دروازے کھل سکتے ہیں۔ اس وجہ سے ہماری رائے تو اس باب میں یہ ہے کہ غلاف کعبہ کی زیارت اور اس کے مظاہرہ و جلوس کی باتیں تو الگ رہیں، اس کو شعائر دین میں داخل کرنا ہی بجائے خود ایک بدعت ہے۔ اس بات کو یاد رکھیے کہ دین میں غلو بھی بدعت کا ایک دروازہ ہے۔ اگر ایک چیز کا وزن دین میں چھٹانک ہے تو بس اسی حد پر اس کو رہنے دیجیے۔ اگر آپ نے اس چھٹانک کو سیر بھر کر دینے کی کوشش کی تو آپ بدعت کا دروازہ کھول دیں گے۔ ادیان کی تاریخ سے واقفیت رکھنے والا کون شخص اس بات سے انکار کر سکتا ہے کہ اس قسم کے غلو نے شرک و بدعت کے جو دروازے کھولے ہیں ، شاید ہی کسی دوسری چیز نے کھولے ہوں۔
بہرحال، میرے اپنے علم کی حد تک تو غلاف کعبہ شعائر اللہ میں سے نہیں ہے، اس وجہ سے میں بجائے خود اسی بات کو دین میں ایک اضافہ یا بدعت سمجھتا ہوں کہ اس کو شعائر اللہ میں داخل کر دیا جائے۔ لیکن چلیے چھوڑیے اس قصہ کو، میں نے تھوڑی دیر کے لیے یہ مان لیا کہ یہ شعائر اللہ میں داخل ہے، اور بہ حکم 'مَنْ یُّعَظِّمْ شَعَآئِرَ اللّٰہِ فَاِنَّہَا مِنْ تَقْوَی الْقُلُوْبِ'* اس کی تعظیم ہر مسلمان پر واجب ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ شعائر اللہ کی تعظیم کے لیے اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے کچھ حدود و قیود مقرر ہیں یا اس باب میں ہمیں پوری چھوٹ حاصل ہے کہ ہم ان کی تعظیم اور ان کے احترام کے نام پر جو کچھ چاہیں، کر گزریں۔ جہاں تک میں نے قرآن و حدیث سے سمجھا ہے، وہ تو یہ ہے کہ جس طرح شعائر اللہ، اللہ اور رسول کے مقرر کردہ ہیں، اسی طرح ان کی تعظیم اور ان کے احترام کے آداب و شرائط بھی اللہ اور رسول ہی کے مقرر کردہ ہیں۔ اور ہمارے لیے، اگر ہم حدود دین کے اندر رہنا چاہتے ہیں، کسی حال میں بھی یہ جائز نہیں ہے کہ ہم ان آداب و شرائط سے متجاوز ہو کر ان کی تعظیم اور ان کے احترام کی نت نئی شکلیں ایجاد کریں اور ان کو شرعی حیثیت دے کر نہ صرف یہ کہ خود ان پر عمل پیرا ہوں، بلکہ دوسروں کے لیے بھی ان کو موجب سعادت دارین قرار دیں۔
میں اس حقیقت کی وضاحت ایک مثال سے کرتا ہوں۔ غلاف کعبہ کو توآج شعائر الٰہی میں داخل کیا گیا ہے، میں ایک ایسے شعیرہ کو لیتا ہوں جو حضرت ابراہیم و حضرت اسمٰعیل علیہم السلام کے وقت سے اہم ترین شعائر دین میں داخل ہے، جس کے شعائر دین میں سے ہونے پر کتاب و سنت، دونوں ناطق ہیں اور جس کے بارے میں پوری امت کا اجماع ثابت ہے۔ میرا اشارہ ہَدی و نیاز کے ان جانوروں کی طرف ہے جو خدا کے گھر کے لیے لے جائے جائیں۔ فرض کیجیے کہ آپ کے شہر سے کچھ جانور اس مقصد سے مکہ روانہ کیے جاتے ہیں۔ کیا ان کے احترام کے نام پر ہمارے لیے یہ بات جائز ہو گی کہ پہلے ہم حضوری باغ میں سارے شہر کے مردوں اور عورتوں کے لیے ان کی زیارت کا اہتمام کریں، پھر شاہی مسجد سے علما، قاریوں، نعت خوانوں، موٹروں اور گاڑیوں کے جلو میں ان کا جلوس نکالیں، عوام کو ہدایت کریں کہ لوگ باوضو کلمہ پڑھتے ہوئے اور نعرہ تکبیر لگاتے ہوئے اس جلوس کے ساتھ ساتھ چلیں، دکان داروں کو تلقین کریں کہ وہ اس جلوس پر گلاب پاشی اور عطر پاشی کریں۔ حکومت کو آمادہ کریں کہ وہ اپنے دفاتر و مدارس بند کر کے لوگوں کے لیے اس جلوس سعادت میں شریک ہونے کا موقع بہم پہنچائے اور ہوائی جہازوں سے ان جانوروں پر گل پاشی کرے، ریلوے کے محکمہ سے مطالبہ کریں کہ وہ مخصوص ڈبے تیار کرکے کراچی سے پشاور اور پشاور سے ڈھاکہ تک شہر شہر میں ان مقدس شعائر کی عوام کو زیارت کرائے؟
ممکن ہے دنیا کے کسی دین میں یہ باتیں جائز ہوں، لیکن جہاں تک اسلام کا تعلق ہے، اس میں تو احترام شعائر الٰہی کی ان شکلوں کے جواز کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اس وجہ سے میں تو اپنے آپ کو یہ کہنے پر مجبور پاتا ہوں کہ جس طرح غلاف کعبہ کا شعائر اللہ میں داخل کرنا بدعت ہے، اسی طرح اس کے احترام و تعظیم کی وہ شکلیں بھی تمام تر بدعت ہیں جو یہاں اختیار کی گئیں۔
تعظیم شعائر الٰہی کے ان نئے علم برداروں نے اپنے پمفلٹ میں شرک و توحید کا یہ نیا فلسفہ جو پیش کیا ہے کہ جو خانہ کعبہ سے باہر شرک ہے، وہ اس کے اندر جا کر توحید بن جاتا ہے، میرے نزدیک یہ بھی دین میں ایک بہت بڑا فتنہ ہے۔ اگر فی الواقع بات یہی ہوتی تو ان تین سو ساٹھ بتوں کو خانہ کعبہ سے بیک بینی و دوگوش باہر نہ نکالناپڑتا جن کو عرب جاہلیت نے خانہ کعبہ کے اندر لا گھسایا تھا، بلکہ وہ بھی اس فلسفہ کی اکسیر سے اجزائے توحید و ایمان بن گئے ہوتے لیکن ہوا یہ کہ اسلام نے اپنی 'جَآءَ الْحَقُّ وَزَہَقَ الْبَاطِلُ' کی خارا شگاف گرز سے ان کو اس طرح پاش پاش کر دیا کہ ان کا نام و نشان بھی باقی نہ رہا۔ میرے نزدیک یہ فلسفہ ان کے ''حکمت عملی'' کے فلسفہ سے بھی زیادہ گمراہ کن ہے، لیکن میں اس وقت اس پر کوئی بحث کرنا نہیں چاہتا، اس لیے کہ یہاں جوکچھ ہوا وہ تو اندر کا معاملہ نہیں، بلکہ باہر کا معاملہ ہے۔ میں حیران ہوں کہ باہر کا یہ شرک اندر پہنچنے سے پہلے ہی کس طرح توحید بن گیا۔
اوپر میں نے جن باتوں کا ذکر کیا ہے، ان کی ذمہ داری تو براہ راست ان حضرات ہی پر عائد ہونی چاہیے جنھوں نے اسلام میں اس نئی تعزیہ داری کے لیے یہ کچھ اہتمام کیا اور اس کو باضابطہ اپنے اقامت دین کے پروگرام میں شامل کر کے پاکستان کے ہر حصہ میں اس کی سربراہی کی۔ رہی وہ باتیں جو عوام نے کیں تو ان کے لیے عوام کو قصور وار ٹھہرانا ہمارے نزدیک ان حضرات کی بڑی زیادتی ہے۔ ہم تو عربی کی اس مشہور ضرب المثل کے قائل ہیں کہ ''جب صاحب خانہ طبلہ بجانا شروع کر دے تو گھر کے بچوں کو ناچنے اور گانے پر ملامت نہ کرو''۔ جب دین میں اتنی بدعتیں دین کے علم برداروں نے داخل کر دیں تو آخر عوام اس میں حصہ لینے کی سعادت سے کیوں محروم رہتے، انھوں نے بھی جو کچھ سمجھ میں آیا کیا۔ جو قوم مزارات اور قبروں کے آگے سجدے کرتی، منتیں مانگتی، دعائیں اور فریادیں کرتی ہے، اگر آپ نے اس دھوم دھام، اس تزک و احتشام اور اس تقدیس و احترام کے ساتھ اس کو غلاف کعبہ کی زیارت کرائی تو اس کی محرومی و بدبختی ہی تھی اگر وہ یہ کچھ نہ کرتی جو اس نے کیا۔ ہمیں تو اس بات پر ذرا بھی حیرانی نہیں ہے کہ لوگوں نے غلاف کعبہ کی گاڑی کو بوسے دیے اور اس کو سجدے کیے، اس پر پھینکے ہوئے پھولوں کی پنکھڑیوں کو تبرک اور ذریعہ شفا سمجھ کر حرزجاں بنایا، اس سے عورتوں نے اپنے برقعے اور مردوں نے اپنی چادریں چھو کر برکت اور صحت حاصل کی، اس سے بیماروں نے تندرستی، بے اولادوں نے اولاد اور ضرورت مندوں نے اپنی ضرورت مانگی، بلکہ ہمیں تو اس بات پر بھی ذرا تعجب نہیں ہوا کہ لاہور میں غلاف کعبہ کو داتا دربار میں پیش کر کے اس کی تقدیس کو دوچند کیا گیا، اور بعض شہروں میں
 اس کا باقاعدہ طواف ہوا۔ اسی طرح ہمیں نذرانے پیش کرنے پر بھی کوئی حیرانی نہیں۔ البتہ حیرانی ہے تو اس بات پر ہے کہ نذرانے کی رقم صرف پانچ ہزار ہی تک کیوں پہنچی۔ جو دریا دل قوم لاکھوں روپے مزاروں اور قبروں کے مجاوروں کے قدموں میں ڈال دیتی ہے، آخر وہ غلاف کعبہ کے مجاوروں کا حق ادا کرنے میں اپنی دریادلی کیوں بھول گئی۔
غرض ان باتوں میں سے ہمیں کسی بات پر کوئی حیرانی نہیں ہے۔ یہ جو کچھ ہوا ہر عقل مند آدمی کو معلوم تھا کہ اس پردہ کے پیچھے یہی کچھ ہو سکتا ہے اور یہی کچھ ہوگا، صرف ابلہ یا خود غرض ہی اس سے کچھ الگ اندازہ کر سکتے تھے، البتہ ایک بات پر ہمیں حیرانی ضرور ہے کہ ان حضرات نے پہلے تو بڑی شیوا بیانی اور بڑی رطب اللسانی کے ساتھ عوام کے اس جوش عقیدت، اس رکوع و سجود، اس تقبیل و استلام اور اس دعا و استرحام کی تفصیلات خود اپنے اخبارات میں چھاپیں اور خلق کو ڈاکٹر اقبال کے الفاظ میں یہ بشارت سنائی کہ
''ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی''
اور اس نمی کو فراہم کرنے کا سارا کریڈٹ یہ حضرات بلاشرکت غیرے خود ہی سمیٹ لینے کے لیے بے قرار نظر آتے تھے، لیکن اب معلوم نہیں کیا حادثہ پیش آیا ہے کہ اپنی فراہم کردہ نمی کی اپجائی ہوئی فصل کو کاٹنے اور سمیٹنے کے لیے ان حضرات کے اندر وہ پہلا سا جوش و خروش نظر نہیں آ رہا ہے، بلکہ یہ اس کی ساری ذمہ داری غریب عوام پر ڈال رہے ہیں، حالاں کہ اب یہی موقع آگے بڑھ کر حوصلہ کے ساتھ کام کرنے اور کھتے بھرنے کا تھا۔
ہر زمین ہر چیز کی کاشت کے لیے موزوں نہیں ہوا کرتی۔ ایک زمانہ تک تو ہمارے یہ احباب اس زمین میں توحید کی کاشت کے لیے جدوجہد کرتے رہے، لیکن تجربہ نے ان کو بتایا کہ اس سنبل کی کاشت کے لیے یہ زمین شور ہے، البتہ غلاف کعبہ کی برکت سے ان دوستوں پر اس زمین کی نئی صلاحیتوں کا انکشاف ہوا ہے۔ اب دیکھیے شرک و بدعت کی فصل اگانے اور بڑھانے میں ان کا رول کیا رہتا ہے۔ اس میدان کے دوسرے حریفوں کا ریکارڈ توڑتے ہیں یا اس میں بھی پھسڈی ثابت ہو کر 'خَسِرَ الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃَ' کے مصداق ٹھہرتے ہیں۔
حکومت کو اسلامی بنانے سے پہلے معاشرے کو اسلامی بنانا ضروری ہے 
سوال: آپ نے ایک مرتبہ لکھا تھا کہ ''حکومت اسلامی کا قیام ایک آزاد اسلامی معاشرہ کی ذمہ داری ہے''۔ اس نظریہ کا ماخذ کیا ہے، کتاب و سنت میں اس کی اصل کیا ہے اور فقہ کی تقسیم احکام میں یہ چیز کس طرح چسپاں ہوتی ہے؟
جواب: حکومت اسلامی ہو یا غیر اسلامی، بہرحال وہ ایک بالغ معاشرہ ہی سے وجود میں آتی ہے۔ معاشرہ ہی ترقی کرتے کرتے جب اپنی آزادی اور استقلال کے مرحلہ میں داخل ہوتا ہے تو حکومت کو جنم دیتا ہے جو ٹھیک ٹھیک اس کے مزاج کے مطابق ہوتی ہے۔ اگر معاشرہ کی اٹھان جاہلی اور غیراسلامی نظریات پر ہوئی ہوتی ہے تو اس کے بطن سے غیر اسلامی طرز کی حکومت جنم لیتی ہے اور اگر معاشرہ کی اٹھان اسلامی طریقہ پر ہوئی ہوتی ہے تو اس سے ایک اسلامی حکومت وجود پذیر ہوتی ہے۔
قرآن و حدیث کے مطالعہ سے یہ حقیقت واضح ہے کہ اسلام میں احکام و قوانین کے نزول کی ترتیب و تدریج بالکل معاشرہ کے تدریجی ارتقا کے قدم بہ قدم ہے۔ معاشرہ جس رفتار سے بچپن، مراہقہ اور بلوغ کے ادوار میں داخل ہوا، اسی مناسبت سے ہر دور کے تقاضوں کے مطابق احکام و قوانین اترے۔ یہاں تک کہ ایک حکیم سے یہ حقیقت بھی مخفی نہیں ہو سکتی کہ پہلے دور کے احکام میں جو تقاضے دوسرے یا آخری دور سے متعلق مضمر تھے، وہ پہلے دور میں واضح نہیں کیے گئے، بلکہ اس وقت واضح کیے گئے جب ان کے اظہار کے لیے مناسب دور آ گیا۔ اس کے لیے توحید اور رسالت پر ایمان کے مقتضیات کے تدریجی انکشاف پر غور کرنے سے میری بات کی تصدیق ہو گی۔اسی بنیاد پر، جس کی طرف اوپر اشارہ کیا گیا، ہمارے فقہا اجرائے حدود اور نفاذ احکام سے متعلق بہت سے معاملات میں دارالاسلام یا بہ الفاظ دیگر ایک آزاد خودمختار معاشرہ کے وجود کی شرط لگاتے ہیں اور دارالکفر میں ان کے اجرا و نفاذ کی اجازت نہیں دیتے۔ان باتوں کا حوالہ دینے سے ہمارا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ اسلامی حکومت کے قیام کے لیے شرط اول اسلامی معاشرہ کی تعمیر ہے۔ اس زمانے میں صحیح لفظوں میں اسلامی معاشرہ کہیں بھی موجود نہیں ہے۔ جن ملکوں میں مسلمان ایک مظلوم و مقہور اقلیت کی حیثیت رکھتے ہیں، ان کا تو مسئلہ ہی خارج ازبحث ہے۔ خالص مسلمان ملکوں کا حال بھی اس زمانہ میں یہ ہے کہ جن اساسات پر اسلامی معاشرہ قائم ہوتا ہے، وہ سب ان میں منہدم اور جاہلیت کے ملبوں کے نیچے دبی ہوئی ہیں۔ ایسے حالات میں جو لوگ اسلامی نظام کے قیام کے خواہاں ہیں، ان کا مقدم فرض یہ ہے کہ وہ اسلام کے اصولوں پر معاشرہ کی تعمیر کی جدوجہد کریں اور اسی تدریج و ترتیب کے ساتھ اس کو آگے بڑھائیں جس تدریج و ترتیب کے ساتھ اس کو قرآن اور پیغمبر نے آگے بڑھایا تھا۔ اس بنیادی کام کے بغیر جو لوگ ''انقلاب قیادت'' اور ''حکومت الٰہیہ'' کا نعرہ لے کر اٹھ کھڑے ہوئے ہیں، ہم ان کے کام کو اسلامی نقطہ نظر سے نہ صرف بے نتیجہ، بلکہ بعض پہلوؤں سے نہایت مضر خیال کرتے ہیں۔ اس طرح کے لوگ یا تو درخت لگائے بغیر پھل کھانا چاہتے ہیں یا اندرائن اور گلوئے نیم کی بیلوں سے انگور کے خوشے توڑنا چاہتے ہیں۔

 

(مولانا امین احسن اصلاحی)


جواب: اسلام کے احکام و قوانین پر غور کیجیے گا تو معلوم ہو گا کہ وہ بہ اعتبار ادوار تین حصوں میں تقسیم ہیں اور تینوں اپنے مزاج کے لحاظ سے الگ الگ ہیں: ایک حصہ ان احکام و تعلیمات پر مشتمل ہے جو تشکیل معاشرہ اسلامی سے متعلق ہیں۔ دوسرا حصہ عبوری دور کے احکام پر مشتمل ہے (یہی وہ حصہ ہے جس میں بعد میں حالات کی تبدیلی سے نسخ واقع ہوا)۔ تیسرا حصہ ان احکام پر مشتمل ہے جو براہ راست اسلامی حکومت سے متعلق ہیں۔ دور اول کے احکام کا مزاج قدرتی طور پر غیر سیاسی ہے۔ عبوری دور کے احکام میں آگے اور پیچھے کے دونوں دوروں کے تقاضے ملے جلے ہیں۔ تیسرے دور کے احکام اس اعتبار سے تمام تر سیاسی نوعیت کے ہیں کہ صرف ایک حکومت ہی ان کی حامل ہو سکتی ہے اور اسی کے ہاتھوں ان کے تقاضے پورے ہو سکتے ہیں۔
اسلام کے یہ احکام چونکہ اسی ترتیب کے ساتھ نازل ہوئے، اس وجہ سے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صدر اول کے مسلمانوں کو کوئی گھپلا پیش نہیں آیا۔ احکام ٹھیک اپنی فطری ترتیب کے مطابق نازل ہوئے اور اسی ترتیب کے مطابق ان کی تبلیغ و اشاعت یا تنفیذ عمل میں آئی۔ اب اس زمانہ کے لوگوں کو یہ گھپلا پیش آ رہا ہے کہ پورا دین نازل شدہ ان کے سامنے موجود ہے اور اس کے مختلف النوع احکام کے درمیان ایسے فاصل خطوط نہیں ہیں جن کی مدد سے ایک عام آدمی ان کے درمیان امتیاز کر سکے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ غیرحکیم داعیوں نے یا تو معاشرے کے حالات کا لحاظ کیے بغیر محض اپنے پروگرام کو حاوی اور ہمہ گیر دکھانے کے شوق میں پورے دین کی دعوت کا نعرہ بلند کر دیا یا ابتدائی مراحل کو چھوڑ کر محض سیاسی قسمت آزمائی کے خبط میں آخری مرحلہ میں داخل ہو گئے۔ یہ صورت حال نہ صرف غیر حکیمانہ ہے، بلکہ بعض حالات میں نہایت خطرناک بھی ہے۔ جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے ، وہاں تو ممکن ہے کہ اس بے تدبیری کا ضرر صرف اسی حد تک محدود رہے کہ اس قسم کی تمام مساعی بالکل عبث اور بے نتیجہ ہو کر رہ جائیں، لیکن جہاں مسلمان خطرات میں گھری ہوئی ایک مظلوم اقلیت کی حیثیت رکھتے ہیں، وہاں تو یہ غلط طرزعمل نہ صرف اسلام کے خلاف ذہنوں میں (مسلموں اور غیر مسلموں، دونوں کے) شدید قسم کی الجھنیں پیدا کر دے گا، بلکہ اندیشہ اس بات کا بھی ہے کہ اس کا ردعمل ایسی صورت میں ظاہر ہو کہ وہاں اسلام اور مسلمانوں کو شدید قسم کا نقصان پہنچ جائے۔ سوچیے کہ اگر غیر مسلموں کے کسی ملک میں کچھ مسلمان اسلام کے داعی بن کر جائیں اور اپنی دعوت کا آغاز وہ اس نکتہ سے کریں کہ ہم یہاں اسلام کی حکومت قائم کرنے یا انقلاب قیادت کے لیے آئے ہیں، تو اس کا نتیجہ کیا ہو گا؟ اس میں تو شبہ نہیں کہ یہ کہنا حوصلہ کا کام ہے، لیکن کیا ساتھ ہی یہ ایک حماقت کی بات نہیں ہے؟ دنیا کے بے شمار ملکوں میں مسلمانوں نے اسلام کی دعوت دی جن میں سے بہتوں میں اسلام کی حکومتیں بھی بعد میں قائم ہو گئیں، لیکن بتائیے کہ کس جگہ انھوں نے حکومت الٰہیہ کی دعوت یا انقلاب قیادت کے نعرہ سے اپنے کام کا آغاز کیا؟ ان داعیوں کے متعلق اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ ان کی دعوت ادھوری تھی یا ان کو پورے دین کا شعور نہیں تھا تو میں ایسے شخص کو اسلامی نظام کے شعور سے بالکل محروم خیال کرتا ہوں۔یہ نہ خیال فرمائیے کہ جس وقت ایک داعی ایک غیر اسلامی معاشرہ میں ایمان و اسلام کی بنیادی اور تعمیری دعوت شروع کرتا ہے تو وہ دین کے دوسرے اجتماعی و سیاسی مطالبات کو نظرانداز کرتا ہے یا اپنے آپ کو وہ ان کا مخاطب یا مکلف نہیں سمجھتا یا وہ ان کے نفاذ کے لیے حالات پیدا کرنے کی جدوجہد نہیں کرتا۔ وہ اپنے اسی تعمیری اور تمہیدی کام کے ساتھ یہ سارے کام کر رہا ہوتا ہے، لیکن وہ جانتا ہے کہ میں دین کے ان مطالبات کا مخاطب و مکلف اپنی انفرادی حیثیت میں یا اس حالت میں نہیں ہوں، جبکہ میں اپنے گردو پیش صرف کچھ منتشر افراد رکھتا ہوں، بلکہ صرف اسی صورت میں ہوں جب اس دعوت سے ایک ایسا منظم اور بااختیار معاشرہ وجود میں آ جائے جو ان مطالبات کے اجرا و تنفیذ کے لیے مؤثر اقدام کر سکے۔ اس سے پہلے کی ساری جدوجہد اس کے اسی آخری منصوبہ کی تمہید ہوتی ہے، لیکن وہ جانتا ہے کہ اس آخری سرحد تک پہنچنا خدا کے فضل و رحمت پر منحصر ہے۔ اس وجہ سے وہ دین کے جس مرحلہ کا کام کر رہا ہوتا ہے، اسی کے لیے پکارتا ہے اور چونکہ ہر مرحلہ کی دعوت اپنے اندر دلوں اور روحوں کے لیے ایک فطری اپیل رکھتی ہے، اس وجہ سے اگر وہ اخلاص و استقلال کے ساتھ اپنے کام میں لگا رہتا ہے تو اللہ تعالیٰ اگر چاہتا ہے تو اس کی جدوجہد کو آخری منزل تک بھی پہنچاتا ہے۔ اگر اس سے پہلے ہی اس کا خاتمہ ہو جاتا ہے تو اس کی موت ایک مجاہد فی سبیل اللہ کی موت ہوتی ہے۔ اسلامی نقطہ نظر سے وہ ایک کامیاب آدمی ہوتا ہے، اس کو ناکام نہیں قرار دیا جا سکتا۔اور اگر وہ اپنی بے تدبیری سے یا محض سیاسی اقتدار کے حصول کے شوق میں وہ بوجھ اپنے سر پر اٹھانے یا اپنے گرد و پیش کے پراگندہ افراد کے سروں پر لادنے کی کوشش کرے جو بوجھ ایک منظم اور بااختیار اسلامی معاشرہ ہی کے اٹھانے کا ہے تو اس کا نتیجہ اس کے سوا کچھ بھی نہیں نکل سکتا کہ خود اس کی کمر بھی ٹوٹ کر رہ جائے اور دوسروں کی بھی، نیز سارے ماحول میں اسلام کی دعوت ایک خبط و جنون کا نعرہ یا ایک مذاق سمجھی جانے لگے۔
معاف کیجیے گا! آپ حضرات اگر ایک بات ٹھیک کہتے ہیں تو اس کے ساتھ اسی سانس میں دوسری بات بالکل غلط بھی کہتے ہیں۔ یہ بات تو ٹھیک ہے کہ اسلام صرف مسجد کا دین نہیں ہے، بلکہ حکومت کا بھی دین ہے، لیکن یہ بات بالکل غلط ہے کہ اسلام کی دعوت ہر معاشرہ اور ہر ماحول میں حکومت الٰہیہ یا انقلاب قیادت کی دعوت سے شروع ہوتی ہے۔ یہ بڑی ہی شدید غلط فہمی، بلکہ شدید قسم کی جہالت ہے جس کی جس قدر جلدی اصلاح ہو جائے اچھا ہے۔ اسی غلط نظریہ کا نتیجہ ہے کہ آج اقامت دین کے علم برداروں کا واحد نصب العین صرف حکومتی اقتدار رہ گیا ہے۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ اقتدار ہمارے حوالہ کرو، ہم چشم زدن میں خلافت راشدہ قائم کیے دیتے ہیں۔ اب یہ بات ان کی سمجھ میں کسی طرح نہیں آتی کہ اسلامی حکومت مطالبہ کرنے کی چیز نہیں ہے، بلکہ یہ ایک قدرتی نتیجہ ہے ایک صحیح قسم کے اسلامی معاشرہ کے صحت مندانہ بلوغ کا۔ اس میں شبہ نہیں کہ یہ راستہ بڑے صبر و ریاض کا ہے، لیکن اس کو کیا کیجیے کہ راستہ ہے یہی۔ اس کے لیے جو لوگ انتخابات کے راستہ پر اعتقاد رکھتے ہیں، مجھے ان کی سادہ لوحی پر تعجب ہوتا ہے۔بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام نے ہمیں حکومت بھی نہ دی تو پھر کیا دیا۔ اس جذبہ کے تحت وہ اسلام کی بات ہی حکومتی اقتدار سے شروع کرتے ہیں۔ میں اس بات کو ایک بالکل جذباتی چیز سمجھتا ہوں۔ اسلام نے حکومت کی نہیں، بلکہ ہدایت اور نجات کی ذمہ داری لی ہے، ہاں اگر صحیح اسلامی معاشرہ وجود میں آ جائے تو اس کے اوپر وہ احکام آپ سے آپ فرض ہو جاتے ہیں جو حکومت سے متعلق ہیں اور اس وقت یہ بات بالکل صحیح ہو گی کہ آپ اس کو اس کی ذمہ داریاں بتائیں۔ ننھے بچوں کے سامنے جوانی کی ذمہ داریوں پر تقریر کرنا ایک بالکل بے ہنگام بات ہے۔

 

(مولانا امین احسن اصلاحی)


جواب:علامہ عنایت اللہ خان مشرقی رحمۃ اللہ علیہ ہماری قوم کے اندر ایک منفرد سیرت و کردار کے لیڈر تھے۔ اگرچہ ہمیں کبھی ان کے نظریات سے پورا پورا اتفاق نہ ہو سکا، لیکن اس امر میں ہمیں کبھی شک نہیں ہوا کہ اپنی قوم کی سربلندی کے لیے ان کے دل کے اندر بڑا غیرمعمولی جوش و جذبہ تھا۔ وہ اسلام اور غلبہ کو لازم و ملزوم سمجھتے تھے، اس وجہ سے اس دور میں مسلمانوں کی بے بسی پر ان کا دل بہت کڑھتا تھا۔ انھوں نے اس حیرت انگیز تضاد سے بڑا گہرا تاثر لیا کہ مسلمان قومیں اسلام کی مدعی ہیں، لیکن دنیا میں ذلیل و خوار ہیں اور مغربی قومیں اسلام کی منکر ہیں، لیکن نہ صرف مشرق کی غیرمسلم قوموں پر، بلکہ خود مسلمانوں پر بھی حاوی اور غالب ہیں۔ جب انھوں نے اس صورت حال کا تجزیہ کرنے کی کوشش کی تو ان کی نظر اس بات کی طرف گئی کہ ہم مسلمان صرف اسلام کی چند روایات کے پرستار بن کر رہ گئے ہیں اور اسلام کا اصلی کردار دنیا کی غالب قوموں نے اپنا رکھا ہے۔ ان غالب قوموں کے کردار میں سب سے زیادہ ابھری ہوئی چیز جو ان کو نظر آئی،
 وہ ان کا عسکری جوش و جذبہ اور ان کی فوجی تنظیم تھی۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد یورپ اور ایشیا کے متعدد ملکوں میں عسکری تحریکیں بڑے زور و شور سے اٹھیں اور ستم رسیدہ ممالک کے حساس لوگوں کو ان تحریکوں نے اپیل کیا۔ علامہ مشرقی مرحوم بھی ایک نہایت حوصلہ مند انسان تھے۔ انھوں نے بھی وقت کے حالات سے بڑا گہرا اثر لیا اور اپنی قوم کے اندر عسکری تنظیم کا صور اس زور سے پھونکا کہ فی الواقع ان کی تحریک نے پورے ملک میں ایک ہلچل پیدا کر دی ان کی تحریروں اور تقریروں میں ایک خاص قسم کا زور تھا جو عسکری جوش و جذبہ رکھنے والے بوڑھوں اور جوانوں پر جادو کا اثر کرتا تھا۔ انھوں نے اپنی تحریروں اور تقریروں سے علما کے سوا ہر طبقہ کو متاثر کیا۔ ان میں عسکری تنظیم کی حیرت انگیز قابلیت تھی۔ چنانچہ انھوں نے عملاً خاک ساروں کا ایک لشکر تیار کر دیا۔ اس حقیقت کا کوئی مشکل ہی سے انکار کر سکے گا کہ ان کے ماننے والے ان کے فدائی تھے اور وہ اطاعت مطلق کی حد تک ان کی اطاعت کرتے تھے۔ اسلام کو ایک پرقوت سیاسی نظام کی حیثیت سے پیش کرنے میں بھی ان کا ایک خاص مقام ہے وہ تمام سیاسی اصطلاحیں جو آج بہت سے لوگ اسلام کا سابقہ و لاحقہ بنائے ہوئے ہیں، انھی کی اولیات میں سے ہیں! ہمیں، جیسا کہ ہم عرض کر چکے ہیں، علامہ مرحوم کے نظریات نے کبھی اپیل نہیں کیا، لیکن ہم نے ان کو ہمیشہ اپنی دھن کا پکا سمجھا۔ وہ ریاضی میں اتنی اونچی ڈگری رکھتے تھے کہ اپنے ملک میں بھی اور اپنے ملک سے باہر بھی اس کی بڑی قیمت وصول کر سکتے تھے، لیکن انھوں نے ساری زندگی ایک دوسرے ہی عشق میں گزار دی۔ کونسلوں اور اسمبلیوں کی ممبری اور وزارت و صدارت کے چکر میں بھی وہ کبھی نہیں پھنسے، حالاں کہ اس میدان میں اترتے تو ان کے لیے بڑے امکانات تھے۔ ان باتوں سے اندازہ ہو تا ہے کہ انھوں نے اپنی قوم کی سربلندی کے لیے جس چیز کو اپنا نصب العین قرار دے لیا تھا، اس سے انھیں کوئی چیز منحرف نہیں کر سکی۔ اپنی تحریک میں وہ کامیاب ہوئے یا نہیں، لیکن اپنی تحریک کے ساتھ وفاداری میں وہ سو فی صد کامیاب رہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی لغزشوں کو معاف فرمائے اور ان کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے۔
٭٭٭

 

(مولانا امین احسن اصلاحی)