دینی مدارس کے قائدین

مصنف : ڈاکٹر طفیل ہاشمی

سلسلہ : نقطہِ نظر

شمارہ : فروری 2021

دینی مدارس کے قائدین کی خدمت میں
ارباب مدارس اپنے طلبہ کو کوئی پیشہ کیوں نہیں سیکھنے دیتے؟ 
مدارس کے طلبہ کو اس امر کا احساس ہو چلا ہے کہ فراغت کے بعد ان پر آنے والی یکبارگی ذمہ داریاں پوری کرنے کے لیے ان کے پاس ضروری علم، تجربہ اور مہارت نہیں ہے ۔جس کام کے لیے انہوں نے سال ہا سال لگائے ہیں اگر اس میں ان کی اچھی استعداد ہے تو وہ کہیں مدرس ہو سکتے ہیں ورنہ کسی مسجد کے امام وغیرہ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہر سال فارغ ہونے والے فضلاء کے لیے ملک بھر میں مدرسین اور ائمہ کی کتنی اسامیاں پیدا ہوتی ہیں جبکہ مدارس کے اساتذہ اور ائمہ مساجد کے ریٹائرڈ ہونے کی بھی کوئی روایت نہیں ہے
دینی مدارس کی اسٹیبلشمنٹ اپنے داخلی گروہی اور فرقی اختلافات کے باوجود چند نکات پر متفق ہے۔جس طرح ملکی اسٹیبلشمنٹ کے مختلف طبقات اس کوشش میں رہتے ہیں کہ عوام میں ایسے لوگ پیدا نہ ہوں جو ان کی عظمت کو چیلنج کر سکیں، ان کے اختیارات میں سے حصہ مانگیں، ان کے اقتدار میں شریک ہوں یا ان کی زمینوں، جائدادوں اور اثاثہ جات کا حساب مانگیں، اسی طرح مدارس کی اسٹیبلشمنٹ نے بھی ایک مستقل لائحہ عمل تیار کر رکھا ہے۔
۱۔اس نظام کے تقدس کو اس حد تک باور کروایا جائے کہ کسی کو اس کے تعلیمی، تربیتی، مالی اور انتظامی امور پر سوال اٹھانے کا حوصلہ نہ ہو۔ہر مکتبہ فکر کے اپنے اپنے اسلاف وارثان نبوت سمجھے جاتے ہیں اور ان سے اعراض یا انحراف مسلکی ارتداد کے زمرے میں آتا ہے۔
۲۔مسلکی اختلافات کو کبھی ختم نہ ہونے دیا جائے کیونکہ یہی عصبیت کا ضامن ہے اور اپنے اپنے مسلک سے تعاون کا ذریعہ ہے
۳۔طلبہ میں اساتذہ سے عقیدت کو عقیدے کے درجے تک مستحکم کیا جائے تاکہ کسی طالب علم کو کسی استاذ کی کسی ناشائستہ حرکت پر انکار یا اعتراض کی جرأت نہ ہو۔ 
۴۔طلبہ کی عزت نفس کو گاہے گاہے کچلتے رہنے کا اہتمام کیا جائے۔
۵۔خود 24/7ادارے کے مادی وسائل بڑھانے اور سماجی رتبہ بلند کرنے میں مصروف رہا جائے لیکن طلبہ میں توکل و تقویٰ کی ایسی مثالیں عام کی جائیں جن کے زیر اثر ہٹی کٹی جوان نسل اپنے آپ کو بدنی اور ذہنی طور پر اپاہج سمجھنے لگ جائے۔
۶۔طلبہ کی طرف سے حصول معاش کی کسی بھی خواہش /کوشش کو دنیاداری، دین سے انحراف اور دیگر قابل نفرت سلوگن کے ذریعے حوصلہ شکنی کی جائے تاکہ تمام فضلاء ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنے ادارے سے وابستہ رہیں اور اس کی معاشی اور سماجی ترقی کا ذریعہ بنیں۔
اگرہم نسلِ نو کی ترقی، تربیت اور نشوونما میں مخلص ہوں اور انہیں قائدانہ کردار ادا کرنے کے لیے تیار کرنا چاہتے ہوں تو کیا یہ مشکل ہے کہ ہر دینی ادارہ اپنے ہاں کم از کم ایک دو ایسی ورکشاپ ہی بنا لے جو فضلاء کو بعد از فراغ حصول معاش کی راہ دکھا سکیں۔بڑے مدارس خوش حال گھرانوں کے طلبہ کو بڑے پیمانے پر صنعت و تجارت اور سیاست و قیادت کے لئے تیار کر سکتے ہیں۔
 ٭٭٭
طفیل ہاشمی صاحب کی پوسٹ پر ایک خاتون کا تبصرہ
ام عبیدا للہ
آپ نے اتنی سچی بات کی ہے جتنی کہ کی جا سکتی ہے۔بڑے مدارس کا حال آپ نے بتایا۔بنات کے مدارس کا بھی یہی حال ہے بلکہ خواتین جو عصری تعلیم سے قطعی بے بہرہ ہیں لیکن دینی تعلیم لیکر تقویٰ کے پہاڑ پر چڑھ بیٹھتی ہیں۔جہاں سے سب کم تر اور بونے نظر آتے ہیں، اور خدائی فوجدار کا عہدہ اپنے آپ لے لیتی ہیں۔دوسروں کی ہر ہر بات پر اعتراض، ہر ہر عمل قابل نفرین، اٹھنے بیٹھنے پر اعتراض، لباس پر اعتراض یہاں تک کہ لڑکیوں کو شیروانی کالر /بین گلا پہننے پر اعتراض کہ مردوں کی مشابہت ہے جبکہ یہ گلا گردن تک کو اچھی طرح ڈھانپ دیتا ہے اور با وقار لگتا ہے۔
کھانے کے معاملات میں زبردستی کہ ایک تھال میں کھایا جائے اگرچہ آپ کو فطری نفاست کی وجہ سے الٹی آجائے۔ہنسنے پر اعتراض، خوش ہونے پر گھوری۔کیا کیا بتاوں کہ لیڈی فرعون تعینات ہیں مدارس میں پھر انکا اپنا اخلاق، اللہ کی پناہ،بدتمیزی کی حدود کو چھوتا ہوا تحقیر آمیز رویہ۔اللہ کی پناہ۔میں نے بڑی مشکل سے چھ سال پورے کیے اور جان چھڑائی ان عورتوں سے۔اب کوئی میری باتوں پر فتوے لگائے تو بے شک لگائے۔