دوسروں کی باتوں میں آنے کا انجام

مصنف : شہنیلہ بیلگم والا

سلسلہ : سماجیات

شمارہ : فروری 2021

یہ تحریر مجھے واٹس ایپ پہ انگریزی میں ملی ہے۔مجھے علم نہیں کہ کس کی تحریر ہے۔میں اس کا اردو ترجمہ کر رہی ہوں۔خاتون لکھتی ہیں؛ میں یہ تحریر صرف اس لیے لکھ رہی ہوں تاکہ کوئی میرے جیسی صورت حال سے گزر رہا ہے تو اسے کوئی رہنمائی مل سکے۔
میری عمر چھتیس سال ہے۔میری لو میرج ہوئی تھی۔ہم کلاس فیلوز تھے اور ایک دوسرے کو چھ سال سے جانتے تھے۔ہم بہترین دوست تھے۔دورانِ تعلیم ہی ہم نے فیصلہ کرلیا تھا کہ میرے شوہر کے معاشی طور پر سیٹ ہونے کے بعد گھر والوں کی رضامندی سے ہم شادی کرلیں گے۔ میرے شوہر کی جاب کے بعد ہمارے گھر والے ملے اور ہماری شادی ہوگئی۔اللہ نے ہمیں ایک بیٹے سے نوازا۔ مجھے کالج کے زمانے سے ہی اندازہ تھا کہ میرے شوہر مزاج کے تیز ہیں۔انہیں غصہ جلدی آتا ہے۔لیکن ساتھ رہنے پر اندازہ ہوا کہ جب بھی انہیں غصہ آتا ہے ہمارا ہمیشہ جھگڑا ہوتا ہے۔مجھے ہمیشہ یہ محسوس ہوتا تھا کہ وہ مجھے کنٹرول کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب بھی جھگڑا زیادہ ہوتا میں اپنے بچے کو لے کر میکے چلی جاتی۔میرے میکے والے مجھے سہارا دیتے، تسلیاں دیتے کہ اس نے تمہیں کیا لاوارث سمجھ رکھا ہے۔میری بہنیں فون پہ میرے شوہر کو بے نقط سناتیں بہرحال صلح صفائی ہوجاتی اور میں گھر آ جاتی . لیکن یہ بات ہم دونوں جانتے تھے کہ ہم دونوں ایک دوسرے سے پیار کرتے ہیں اور میں اپنے شوہر کو کبھی بھی نہیں چھوڑنا چاہتی۔لیکن ہر جھگڑے کے دوران انہیں یہ ضرور کہتی کہ اگر مجھے چھوڑنا ہے تو چھوڑ دیں۔مجھے علم ہے کہ یہ سب میں صرف اپنی انا کو بلند رکھنے کے لیے کہتی تھی۔ایک بار ہمارا جھگڑا اتنا بڑھا کہ انہوں نے پہلی بار مجھ پہ ہاتھ اٹھایا اور گھر سے باہر نکال دیا۔ میں سیدھا اپنے میکے گئی۔میرے گھر والے مجھے لے کر سیدھا پولیس اسٹیشن گئے۔ میرے شوہر گرفتارہوگئے۔سسرال والوں نے مجھے کیس واپس لینے کے لیے کہا۔ میرے شوہر نے مجھ سے معافی مانگی اور کہا کہ آئندہ یہ سب نہیں ہوگا،میں نے کیس واپس لے لیا اور واپس اپنے گھر چلی گئی۔
تین ماہ بعد ہمارا پھر سے جھگڑا ہوا اور میں ہمیشہ کی طرح بچہ اٹھا کر اپنے میکے چلی آئی۔ دو دن بعد مجھے خبر ملی کہ میرے شوہر ہسپتال میں ہیں۔میرے گھر والوں نے مشورہ دیا کہ مجھے انہیں دیکھنے جانے کی کوئی ضرورت نہیں بلکہ میری بہنوں کا کہنا تھا کہ یہ سب ڈرامہ ہے تمہیں جذباتی بلیک میل کرنے کے لیے۔وہ ایک ہفتہ ہسپتال میں رہے۔ نہ میں ملنے گئی اور نہ ہی فون کال کی۔کچھ دنوں بعد مجھے طلاق کا سمن ملا۔مجھے طلاق نہیں چاہیے تھی۔مجھے اپنے شوہر سے محبت تھی۔میں اپنا گھر خراب نہیں کرنا چاہتی تھی لیکن میری انا آڑے آ رہی تھی۔مجھے لگا کہ طلاق کا منع کر کے میں نیچی ہوجاؤں گی۔ میں نے انہیں کال کی کہ جب چاہیں طلاق لے لیں۔میں بھی اس جہنم میں نہیں رہنا چاہتی۔کورٹ میں ہمارا کیس آسانی سے نمٹ گیا۔میرے شوہر نے میری ساری ڈیمانڈز، بچے کی کسٹدی اور خرچہ دینا قبول کرلیا۔ان کا کہنا تھا کہ وہ میری سب باتیں ماننے کے لیے تیار ہیں انہیں صرف طلاق چاہیے۔اس طرح جولائی دو ہزار نو میں میری طلاق ہوگئی۔میرے شوہر نے کچھ عرصے بعد دوسری شادی کرلی۔ان کے بچے بھی ہوگئے لیکن میرے بچے سے ملنے اکثر آتے ہیں۔اس کی ہر ضرورت کا خیال رکھتے ہیں۔بچے کا خرچہ مجھے پابندی سے ملتا ہے بلکہ میرا گزارا بھی انہی پیسوں سے ہوتا ہے۔میں اپنے بچے کے ساتھ میکے میں رہتی ہوں۔میرے تمام بہن بھائی اپنی اپنی زندگی میں خوش ہیں۔میری وہ بہنیں جو خود فون کر کے میرے شوہر کو باتیں سنایا کرتی تھیں وہ اب مجھے موردِ الزام ٹھراتی ہیں۔ مجھے اب احساس ہوتا ہے کہ میں اپنی شادی بچا سکتی تھی اگر میں نے ہر بات میں دوسروں کو عمل دخل نہ کرنے دیا ہوتا۔کبھی کبھی ہمارے خیرخواہ ہی ہمیں ڈبودیتے ہیں میں ابھی بھی یہ نہیں کہہ رہی کہ میرے شوہر یا میری غلطی نہیں تھی لیکن ہمارے جھگڑے اتنے بڑے نہیں تھے جن کی وجہ سے طلاق لی جاتی۔ تمام زوجین سے میری درخواست ہے کہ جہاں تک ہوسکے اپنے معاملے خود نمٹائیں۔کوئی اور آپ سے بڑھ کر آپ کا خیر خواہ نہیں ہو سکتا۔