غزلیں

مصنف : پیر نصیر الدین نصیر

سلسلہ : شاعری

شمارہ : جنوری 2021

ان کے اندازِ کرم، ان پہ وہ آنا دل کا
ہائے وہ وقت، وہ باتیں، وہ زمانا دل کا
نہ سنا اس نے توجہ سے فسانا دل کا
زندگی گزری، مگر درد نہ جانا دل کا
کچھ نئی بات نہیں ،حسن پہ آنا دل کا
مشغلہ ہے یہ نہایت ہی پرانا دل کا
وہ محبت کی شروعات، وہ بے تحاشا خوشی
دیکھ کر ان کو وہ پھولے نہ سمانا دل کا
دل لگی، دل کی لگی بن کے مٹا دیتی ہے
روگ دشمن کو بھی یارب! نہ لگانا دل کا
ایک تو میرے مقدر کو بگاڑا اس نے
اور پھر اس پہ غضب ہنس کے بنانا دل کا
میرے پہلو میں نہیں، آپ کی مٹھی میں نہیں
بے ٹھکانے ہے بہت دن سے،ٹھکانا دل کا
وہ بھی اپنے نہ ہوئے، دل بھی گیا ہاتھوں سے
 ایسے آنے سے تو بہتر تھا نہ آنا دل کا 
خوب ہیں آپ بہت خوب، مگر یاد رہے
زیب دیتا نہیں ایسوں کو ستانا دل کا
بے جھجک آ کے ملو، ہنس کے ملاؤ آنکھیں
آؤ ہم تم کو سکھاتے ہیں ملانا دل کا
نقش بر آب نہیں، وہم نہیں، خواب نہیں
آپ کیوں کھیل سمجھتے ہیں مٹانا دل کا
حسرتیں خاک ہوئیں، مٹ گئے ارماں سارے
لٹ گیا کوچہ جاناں میں خزانا دل کا
لے چلا ہے مرے پہلو سے بصدِ شوق کوئی
اب تو ممکن ہی نہیں لوٹ کے آنا دل کا
ان کی محفل میں نصیرؔ اُن کے تبسم کی قسم
دیکھتے رہ گئے ہم ہاتھ سے جانا دل کا
بیر نصیر الدین نصیر
٭٭٭
تجھ پہ مری نظر پڑے
(گر بہ تو افتدم نظر، چہرہ بہ چہرہ، رو بہ رو)
تجھ پہ مری نظر پڑے، چہرہ بہ چہرہ، رو بہ رو
میں ترا غم بیاں کروں، نکتہ بہ نکتہ، مو بہ مو
میں تری دید کے لئے مثلِ صبا رواں دواں
خانہ بہ خانہ، در بہ در، کوچہ بہ کوچہ، کو بہ کو
ہجر میں تیرے خونِ دل آنکھ سے ہے مری رواں
دجلہ بہ دجلہ، یم بہ یم، چشمہ بہ چشمہ، جو بہ جو
یہ تری تنگیء دہن، یہ خطِ روئے عنبریں
غنچہ بہ غنچہ، گل بہ گل، لالہ بہ لالہ، بو بہ بو
ابرو و چشم و خال نے صید کیا ہے مرغِ دل
طبع بہ طبع، دل بہ دل، مہر بہ مہر، خو بہ خو
تیرے ہی لطفِ خاص نے کر دئے جان و دل بہم
رشتہ بہ رشتہ، نخ بہ نخ، تار بہ تار، پو بہ پو
قلب میں طاہرہ کے اب کچھ بھی نہیں ترے سوا
صفحہ بہ صفحہ، لا بہ لا، پردہ بہ پردہ، تو بہ تو
قرۃ العین طاہرہ
ترجمہ: تابش دہلوی
٭٭٭
وہ ساحلوں پہ گانے والے کیا ہوئے 
وہ کشتیاں چلانے والے کیا ہوئے 
وہ صبح آتے آتے رہ گئی کہاں؟
جو قافلے تھے آنے والے کیا ہوئے 
میں ان کی راہ دیکھتا ہوں رات بھر 
وہ روشنی دکھانے والے کیا ہوئے 
یہ کون لوگ ہیں مرے ادھر ادھر 
وہ دوستی نبھانے والے کیا ہوئے 
وہ دل میں کھبنے والی آنکھیں کیا ہوئیں 
وہ ہونٹ مسکرانے والے کیا ہوئے 
عمارتیں تو جل کے راکھ ہو گئیں 
عمارتیں بنانے والے کیا ہوئے 
اکیلے گھر سے پوچھتی ہے بے کسی 
ترا دِیا جلانے والے کیا ہوئے 
یہ آپ ہم تو بوجھ ہیں زمین کا 
زمیں کا بوجھ اٹھانے والے کیا ہوئے
ناصر کاظمی
٭٭٭
کچھ تجھ کو خبر ہے ہم کیا کیا اے شورشِ دوراں بھول گئے 
وہ زلفِ پریشاں بھول گئے، وہ دیدہ گریاں بھول گئے 
اے شوقِ نظارہ کیا کہئے، نظروں میں کوئی صورت ہی نہیں 
اے ذوقِ تصور کیا کیجیے، ہم صورتِ جاناں بھول گئے 
اب گل سے نظر ملتی ہی نہیں، اب دل کی کلی کھلتی ہی نہیں 
اے فصلِ بہاراں رخصت ہو، ہم لطفِ بہاراں بھول گئے 
سب کا تو مداوا کر ڈالا، اپنا ہی مداوا کر نہ سکے 
سب کے تو گریباں سی ڈالے، اپنا ہی گریباں بھول گئے 
یہ اپنی وفا کا عالم ہے اب ان کی جفا کو کیا کہیئے 
اک نشترِ زہر آگیں رکھ کر نزدیکِ رگِ جاں بھول گئے
اسرار الحق مجاز
٭٭٭
میں کہ راہوں میں تنہا ہوں اب تک کھڑی صرف تیرے لیے صرف تیرے لیے
آج تک میں زمانے سے لڑتی رہی صرف تیرے لیے صرف تیرے لیے 
میری تصویر کے، میری تحریر کے، سب حسیں زاویے اک ترے واسطے
پیار کی تتلیاں، شاعری کی گھڑی صرف تیرے لیے صرف تیرے لیے
میرا دشت خموشی یہ باتوں کا بن، میری مسکان اور میرا رنگ سخن
نقرئی قہقہے، آنسووں کی جھڑی صرف تیرے لیے صرف تیرے لیے
دل کی بستی تری، شہر الفت ترا، وصل وادی تری، ہجرصحرا ترا
برق سانسیں مری، جاں کی یخ بستگی صرف تیرے لیے صرف تیرے لیے
میرے گجرے،انگوٹھی وہ پائل کی چھن ساڑھی،آنچل، قبا، پیرھن کی پھبن
سرو قامت مرا، میری سب دلکشی صرف تیرے لیے صرف تیرے لیے
میری پلکوں کی جھالر، یہ گیسو گھنے،میرے عارض و لب اور ابرو تنے
میرا ڈمپل،مری سرمگیں انکھڑی صرف تیرے لیے صرف تیرے لیے
میرے علمی مباحث،تفکر کی خْو،میرے سرکش رویے،تفاخر کی بْو
گاہ فرزانہ پن، گاہ دیوانگی صرف تیرے لیے صرف تیرے لیے
میرے جزبوں کی حدؑت حسیں ولولے،میرے میسج وہ خط، فیس بْک مشغلے
میرے دن کی ریاضت، دعائے شبی صرف تیرے لیے صرف تیرے لیے
حوصلے،آس کی شال سر پہ کیے اور محبت، عقیدت،وفا کے دیے 
آندھیوں میں جلائے ہوں کب سے کھڑی صرف تیرے لیے صرف تیرے لیے
لمحہ لمحہ مقید تری سوچ میں،لحظہ لحظہ میں قیدی تری چاہ میں
کیا حسیں یہ مجھے لگ گئی ہتھکڑی صرف تیرے لیے صرف تیرے لیے۔
شمیم ظفر رانا
٭٭٭
کرنا ہے گر مجھے شکار لا کوئی جال مختلف
شاطِر ہے تو اگر تو اب چل کوئی چال مختلف
تیرے یہ سارے شعبدے میرے لیے نہیں نئے
کر کے دکھا کبھی مجھے کوئی کمال مختلف
لگتے ہیں یہ جو کامیاب ہیں جیسے آب پر حَباب
پیشِ نگہ انہیں نہ رکھ ڈھونڈ مثال مختلف
جن کو مِلیں بلندیاں دیکھیں اُنہوں نے پستیاں
ہوتی ہے ہر دفعہ مگر وجہِ زوال مختلف
میری بہار اور خزاں میرے لہو میں ہے نہاں
مریخ و ارض سے مرے ہیں ماہ و سال مختلف
تو نے کہی سُنی سُنائی مجھ سے سُنی سُنائی سُن
چاہے اگر نئے جواب پوچھ سوال مختلف
ایسی چلی دمِ سحر شام تلک کیا نہال
بادِ صبا سے تھی بہت موجِ خیال مختلف
باصر سلطان کاظمی
٭٭٭

پیر نصیرالدین نصیر ،قرۃ العین طاہرہ ،ناصر کاظمی ، اسرارالحق مجاز