اردگان کے دیس میں

مصنف : ڈاکٹر محمد خالد عاربی

سلسلہ : سفرنامہ

شمارہ : نومبر 2018

سفر نامہ قسط۔ہفتم
اردگان کے دیس میں
ڈاکٹر خالد عاربی

                                                                                              

قومِ ثمود: 
وین کے ذریعے ہم اپنے ہوٹل کی طرف آرہے تھے،توکپاڈوشیا کا لینڈ سکیپ ایک بار پھرمیرے سامنے تھا۔حیران کن چیز چٹانوں کے اندر بنے مکانات تھے ، جس سے مجھے قومَ ثمود یاد آ گئی،جن کا ذکر قرآن مجید میں جا بجا ملتا ہے۔یہ قوم پہاڑوں میں کھود کھود کر مکانات اور محلات بنایا کرتی تھی ۔یہ سیدنا صالح علیہ السلام کی قوم تھی۔ان سے قبل قومِ عاد بھی اسی فن کی ماہر قوم تھی۔قوم عاد سیدنا ھود علیہ السلام کی قوم تھی۔اگر چہ ان اقوام معذوبہ کا علاقہ تو یہ نہیں تھا جہاں میں اس وقت تھا، بلکہ سعودی عرب میں مدائن صالح کے علاقہ میں ان قوموں کے شہروں کے آثار پائے جاتے ہیں لیکن اُن پہاڑوں کے اندر بنے محلات بھی کم و بیش اسی قسم کے کھنڈرات ہیں ، جو میں یہاں کپاڈوشیا میں دیکھ رہا تھا۔اس طرح کے مقامات، سیرو تفریح کے مقامات سمجھے جاتے ہیں لیکن اصلاً یہ مقامات عبرت ہیں،کہ انسان یہ سوچے کہ کیسے کیسے لوگ تھے اس جہاں میں زور آور،قد آور اوراتنے صاحبان فن،وہ نہ رہے توہم کس باغ کی مولی ہیں۔
قیصری ایئرپورٹ کی طرف:
سن ۶۴۷ء میں جب سیدناامیر معاویہؓ شام کے گورنر تھے تو ،یہاں اس علاقے میں بازنطینی حکمران تھے۔مسلمانوں اور بازنطینیوں کے درمیان یہاں ایک جھڑپ ہوئی تھی جس میں کپاڈوشیا کے کچھ علاقے مسلمانوں نے فتح بھی کیے تھے۔کیسری شہر کو’ ’قیصریہ‘‘ کانام مسلمانوں نے دیا تھا۔ کچھ عرصہ بعد،مسلمان یہاں سے واپس چلے گئے تھے اور علاقہ پھر بازنطینی ایمپائر کا حصہ بن گیا۔بعد میں سلاجقہ روم نے اسے فتح کرکے اپنی سلطنت میں شامل کیا۔آج ہمیں اسی شہر کے ایئر پورٹ جانا تھا۔ کپا ڈوکا سے ہم نے قیصری ائیرپورٹ جاکر، وہاں سے استنبول کے لیے فلائٹ لینی تھی ۔
جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے کہ کپاڈوکا ایک پورے علاقے یا ایک صوبے کا نام ہے ۔ یہ کوئی مخصوص شہر نہیں ہے ۔یہ علاقہ اپنی خصوصی جغرافیائی ہےئت کی وجہ سے مشہور ہے ۔ اس کے زمینی منظر کا کچھ مشاہدہ تو ہم نے گرم ہوائی غبارے کی سواری کے دوران کیا تھا اور کچھ کا قیصری ائیر پورٹ جاتے ہوئے ایک گھنٹے کی کار سواری کے دوران کیا ۔ ہو ائی غبارے کی سواری کے بعد ہو ٹل واپس آئے ۔یہ ہوٹل بھی ہمیں تو ایک غار ہی میں بنا دکھائی دیتا تھا ہم چونکہ رات کو آئے تھے اور اب دن نکل آیا تھا تو دن کی روشنی میں ہم نے پہلی بار اس ہوٹل کو اورشہر کو دیکھا ۔یہ ایک چھوٹی سی بستی تھی مگر جدید شہری سہولتوں سے آراستہ تھی۔یہ بستی اپنی مخصوص جغرافیائی ہیت، جس کا تذکرہ اُوپر گزر چکا ہے ، کے باعث بہت زیادہ سیاحوں کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔اس کا نام گوریمی ہے۔یہ ایک پہاڑی لینڈ اسکیپ تھی اور جدھر بھی نظر اٹھتی تھی سر بفلک پہاڑ اورمخروطی چٹانیں نظر آتی تھیں جس طرح کہ ہمارے ہاں اینٹوں کے بھٹوں کی چمنیاں سر اٹھائے کھڑی ہو تی ہیں ۔ ان چٹانوں میں سے اکثر کارنگ مٹیالا بلکہ سیاہی مائل تھا ان میں سے کچھ بھوری تھیں اور کچھ سرخ رنگ کی بھی تھیں ۔ ان چٹانوں کے اندر کھڑکیاں ، دروازے اور روشن دان تھے ۔ سب سے عجیب بات تو یہ تھی کہ بعض چٹانوں کے اندر چھ انچ مربع کے سوراخ تھے جیسے پرندوں نے اپنے لیے گھر بنائے ہوں۔وہی کبوتر ہاؤسزز،جن کا تذکرہ میں کر چکا ہوں ۔ ناشتہ اسی ہوٹل میں تھا۔ ناشتے کے بعد ہم قیصری ائیر پورٹ کی طرف روانہ ہو ئے ۔ائیر پورٹ تک ایک گھنٹے کا سفر تھا،یہ سارا علاقہ کپا ڈوشیا کہلاتا ہے۔راستے میں کافی سحر انگیز اور دلکش مناظر دیکھنے کو ملے۔ میں مبہوت بنا قدرتی حسن میں کھویا تھا۔یہ علاقہ کوہ قاف کا دیس معلوم ہو رہا تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے پریاں اپنا دیس خالی کر گئی ہوں۔ زمین میں سبزہ اُگا ہوا تھا، البتہ یہ عجیب بات تھی یہ سب چٹانیں یا چمنیاں سبزے کے بغیر تھیں البتہ ان کے درمیان خوبصورت درخت منظر کو گل رنگ کر رہے تھے ۔ سورج خوب چمک رہا تھا ،خوب گرمی تھی مگر گاڑی کا اے سی خوب کام کر رہا تھا۔کپا ڈوکا کے یہ مناظر آدھے گھنٹے تک تو ہمارے ساتھ رہے اس کے بعد میدانی علاقہ آگیا اور کھیت و کھلیان نظر پڑتے تھے۔دور دورسے سرسبز پہاڑ بھی ہمارے منظر میں تھے۔ اسی سفر کے دوران میں شمسی توانائی سے بجلی پیدا کرنے والا ایک بڑا پروجیکٹ بھی نظرآیا۔ اب ہماری کار قیصری شہر کی حدود میں داخل ہو چکی تھی 
یہ شہر بھی، ہماری توقع کے برعکس بہت زیادہ بڑا شہر تھا۔یہاں ہر طرف جدید صنعتی اداروں کی بھر مار تھی۔ پہلی باریہاں ہمیں ایک جھیل کی شکل میں، پانی کا بڑا ذخیرہ بھی نظر آیا ۔ اس شہر میں بھی ترکی کے دیگر شہروں کی طرح بکثرت کثیرمنزلہ عمارتیں دیکھنے کو مل رہی تھیں۔صاف ستھری سڑکیں تھیں ، چمکتی دیواروں پر مشتمل عمارتیں تھیں ہم شہر میں داخل تو ہو گئے تھے مگر ائیر پورٹ شہر سے دو تین کلو میڑ ہٹ کر ایک بائی پاس پر واقع تھا لہٰذا ہم ایک چوک سے شہر سے ہٹ گئے اور ایئرپورٹ والی سڑک پر ہو لیے اورایئرپورٹ پہنچ گئے۔
یہ ائیر پورٹ چھوٹا سا قصباتی ایئر پورٹ تھا مگر تمام تر جدید سفری سہولتوں سے مزین تھا۔ ہم گاڑی سے اُترے اور لاؤنج میں آئے ،بورڈنگ کارڈ لیا،جہاز کے اڑنے کا وقت ہو گیا تھا اس لیے ہم لوگ سیدھے جہاز کی طرف چل پڑے ۔یہ ایک لوکل فلائٹ تھی جہازقدرے چھوٹا تھا ۔ سواریاں تقریباً مقامی نظر آرہی تھیں۔ہم اپنی اپنی مفوضہ سیٹوں پر براجمان ہو گئے اور جلد ہی جہاز نے وقت پر اڑان بھری ۔جہاز کے اندر میری نشست کے قرب میں جو صاحب تشریف فرما تھے اُن سے تھوڑی بہت گفتگو ہو ئی تاہم اُن کی انگریزی ہماری انگریزی کی طرح قدرے کمزور تھی سو کوئی زیادہ تفصیلی گفتگو نہیں ہو سکی اگرچہ ہم دونوں مشتاق تھے کہ مزید گفتگو ہوتی۔بس ہلکا پھلکا سا باہمی تعارف ہی ہوا۔ انھوں نے اپنا جو نام بتایا اُس سے ہم نے’’ قصی‘‘ سمجھا کیونکہ جس طرح ہم اردو لہجہ میں انگریزی بولتے ہیں اسی طرح وہ بھی ترکی لہجہ میں انگریزی بول رہا تھا۔ظاہر ہے نام تو تھا بھی ترکی،اس لیے ایک دو بار پوچھنے پر بھی جو مجھے سمجھ آیا وہ قصی تھا۔اس پر ہم نے اُن پر اپنی علمیت کا رعب جھاڑا اور انھیں بتایاکہ آپ کا نام ہمارے پیارے آقا سیدی محمد ﷺ کے چھٹے دادا قصی بن کلاب کے نام پررکھا گیا ہے جس پر وہ صاحب بہت خوش ہو ئے اور میں بھی خوش گوار حیرت میں بیٹھا سوچ رہا تھا کہ ترک لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کے آبا کرام کے ناموں پر بھی اپنے بچوں کے نام رکھے ہیں جب کہ ہمارے ہاں اس کا رواج نہیں ہے۔واللہ اعلم
قصی ایک تعلیم یافتہ نوجوان اور پیشہ کے اعتبار سے مکینیکل انجینئر تھے۔اُ ن کو تعلیم یافتہ جان کر،میں نے ایک سوال پوچھا کہ آپ کے ملک میں ،اذان پر پابندی کب ختم ہوئی۔اُس نے فوراً جواب دیا کہ ۱۹۵۰ ء میں جب یہاں جناب عدنان مندریس کی حکومت تھی ،انھوں نے یہ پابندی ختم کی تھی۔بہر حال اس مختصر گفتگو کے بعد،چند لمحے ہوائی جہاز کے روشندان سے سرزمین ترکی کامشاہدہ کیااور پھر سوچوں کارخ قسطنطنیہ شہراوراس کی فتح کی طرف مڑ گیا اور حقیقت یہ ہے کہ تاریخِ اسلامی کا یہ ایک اہم ترین شہر ہے اوراس کی فتح ایک اہم واقعہ ہے۔ 
قسطنطنیہ 
بہت پرانے زمانے کی بات ہے،سیدنا عیسیٰ علیہ السلام سے بھی چھ صدیاں قبل کا قصہ ہے کہ یونانیوں کا ایک خانہ بدوش قبیلہ اپنے سردار کی قیادت میں،اپنے لیے بہترین رہائش کی تلاش کے لیے،یونان سے نکل کھڑا ہوا۔اُن کے پیغمبر نے کہا تھا کہ اندھوں کی سرزمین کے بالمقابل تمھارا شہر آبا د ہوگا۔اب وہ سوچ میں پڑ گئے کہ ایسا کونسا شہر ہو جہاں سب اندھے رہتے ہوں۔وہ لوگ اسی تلاش میں تھے کہ چلتے چلتے باسفورس کے ساحل پر پہنچے۔یہاں کے لینڈ سکیپ کو دیکھ کر وہ سحر زدہ رہ گئے۔باسفورس کا حسین و جمیل کنارہ،ایک طرف کوخلیج گولڈن ہارن کی سنہری لہریں اور تیسری طرف بحیرہ مرمرہ کا شفاف نیلا پانی،چھوٹے چھوٹے پہاڑقدرتی حسن کا شاہکار،دلفریب مناظر کا علاقہ خوبصورت ، سر سبز و شاداب وادیاں۔ ایک انسان اس سے زیادہ حسین سرزمین کا تصور ہی نہیں کرسکتا۔ 
اُن کی نظر جب باسفورس کے دوسرے کنارے پر پڑی اور وہاں آبادی کے آثار دیکھے تو وہ چلا اُٹھے کہ’’ وہ کون عقل کے اندھے ہیں جو یہ دلکش اور سحر انگیزسرزمین چھوڑ کر اُس پار جا بسے ہیں۔‘‘ فوراً ہی اُن لوگوں کا ذہن متوجہ ہوا کہ ہو نہ ہو یہی وہ گلرنگ سرزمین ہے جس کا اشارہ ہمارے پیغمبر نے کیا تھا اور پھر اپنے سردار کے حکم پر وہاں انھوں نے اپنے خیمے گاڑ لئے جہاں آجکل وہ محل ایستادہ ہے جسے اہل استنبول’’ توپ کپی محل‘‘ کہتے ہیں۔ان لوگوں نے اس شہر کا نام اپنے سردار کے نام پر ’’ بائی زینتم ‘‘ رکھا۔اور یہی آج کا استنبول بنا۔ اس کا قدرتی حسن لوگوں کے لئے کشش کا باعث تھا اس لئے آہستہ آہستہ اس کی آباد ی بڑھتی گئی اوریہ ایک شہر بن گیا۔پھر اس پرحملے بھی ہوتے رہے۔یہ بنتا بگڑتا رہا ۔ اس کے نام بھی تبدیل ہوتے رہے۔کئی بادشاہوں کے ادوار آئے۔کئی تہذیبوں نے یہاں ڈیرے جمائے اور عروج پایا اور کئی دوسری تہذیبوں نے یہاں زوال دیکھے۔وقت گزرتا رہا،حتیٰ کہ ہم شہنشاہ کانسٹیٹائن(۳۳۷ء۔۳۰۶ء) کے دور میں آجاتے ہیں جب اس شہر کا نام قسطنطنیہ (عربی تلفظ)رکھا جاتاہے اوریہ شہر عیسائیت کا ہیڈ کوارٹر بن جاتا ہے۔اس شہنشاہ نے اس شہر کو بہت ترقی دی۔اُس نے یہاں کئی محلات، بازار،اسٹیڈیم اور صنعتی ادارے بنائے۔اس نے شہرکے گرد کئی کئی گز اونچی دیواریں کھڑی کر دی تا کہ یہ شہر آئے دِن دشمنوں کے حملوں سے مامون و محفوظ رہے۔ہر طرح سے اس کو ایک مضبوط قلعہ بنا دیا گیا۔ 
قسطنطنیہ۳۳۰ سے۳۹۵ تک رومی سلطنت کا دارالخلافہ رہا ۔۳۹۵ سے ۱۴۵۳ تک بازنطینی سلطنت کا دارالخلافہ رہا۔سلطان محمد فاتح نے۱۴۵۳ء میں قسطنطنیہ فتح کیا۔ سلطان محمدفاتح نے اس شہر کو سلطنت عثمانیہ کا پایہ تخت بنایا ۔اس طرح یہ شہرتین مختلف ادوار میں،تین مختلف تہذیبوں کا پایہ تخت رہا جو اپنے اپنے وقت کی سپر پاورز تھیں،یعنی رومن ایمپائر،بازنطینی ایمپائر اورعثمانی مسلم ایمپائر۔ جب۱۹۲۳ء میں ترک جمہوریہ کا قیام عمل میں آیا،تو اس شہر کا نام مستقلاً استنبول رکھ دیا گیا لیکن دارالحکومت انقرہ منتقل کر دیا گیا۔
استنبول میں
قیصری ایئر پورٹ سے یہ لوکل فلائیٹ اپنے وقت پر استنبول پہنچ گئی اور نہایت آرام سے جہاز لینڈ کر گیا۔ہم لوگ باہر آئے اپنا سامان حاصل کیا اور ایئر پورٹ سے باہر نکل آئے۔سیاحتی کمپنی کا نمائندہ ،وین لیے ہمارا منتظر تھا۔اس کے ہمراہ ہم استنبول کی سڑکوں پر رواں دواں ہوگئے۔جمہوریہ ترکی کا دارالحکومت تو انقرہ ہے لیکن سب سے مشہور اورآبادی کے اعتبار سے سب سے بڑا شہر استنبول ہے اور سڑکوں پر چلتے ہوئے یہ نظر بھی آرہا تھا کہ جس طرح عمارت پرعمارت چڑھی ہے اور جس طرح بھاری ٹریفک گزر رہی ہے اور جس طرح سر بفلک عمارتیں کھڑی ہیں،تو شہر پر آبادی کا دباؤواضح نظر آرہا تھا۔لوگوں کے ہجوم کے اعتبار سے یہ ہمارا لاہور ہی تھا لیکن ٹریفک کے بہاؤ میں جو روانی تھی وہ قابل داد تھی اور اتنی کثیر آبادی کے باوجود صفائی ستھرائی میں یقیناً لاہوراس سے کہیں پیچھے تھا۔ 
آج میں طیب اردگان کے آبائی شہر میں تھا۔جمہوریہ ترکی کے موجودہ صدر کا شہر،جناب صدر اسی شہر میں پیدا ہوئے اسی میں پلے بڑھے اور یہیں سے اپنی سیاست شروع کی۔جناب طیب اردگان صاحب سے میراتعارف ۲۲سال پہلے کا ہے جب وہ اسی شہرکے منتخب مئیرتھے۔اس زمانے میں انھوں نے ایک دلربا نعرہ لگایا تھا، ’’انسان کی بھلائی ، صفائی اور ستھرائی ‘‘ اس نعرہ کا پس منظر یہ تھا کہ ان کے میئر بننے سے پہلے،یہ شہر اُس طرح کچرے اور گندگی کے ڈھیر میں لت پت تھا جس طرح آجکل ہمارا پیارا شہرکراچی ’’کچرانچی ‘‘ بنا ہواہے۔یہ نعرہ اور شہر کی صفائی ستھرائی کی روداد ۲۲ سال پہلے اپنے ہاں کے اخبارات میں پڑھی تھی اور آج اس صفائی اور نظافت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔کہیں کچرا نہیں،کوئی تنکا نہیں،سگریٹ کے ٹوٹے نہیں،شاپر بیگس،کوڑا کرکٹ اور انسانی اور حیوانی فضلہ،گھروں کا گندسڑکوں پر،اور دکانوں اور گوداموں کا فضول مواد شاہراہوں میں،مجھے تلاش کے باوجود نظر نہیں آرہا تھا۔یہ سب کیسے ہوا؟یہ صرف ایک بندے کا کارنامہ ہے ،جس کا نام طیب اردگان ہے ۔اس معجزے کی تفصیلات کے لیے کوئی واقف راز ملے تو عقدہ کھلے،لیکن اس کا موقع ملناشاید،ہمارے اس مخصوص و محدود دورے میں ممکن نہ ہو،البتہ یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ قیادت اگر دیانت دار ،مخلص اور محنتی ہو تو معجزے رونما ہو جایا کرتے ہیں۔ 
طیب اردگان،اسی شہر میں ۱۹۵۴ ء میں،نسبتاًایک غریب گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد ٹرکش کوسٹ گارڈ میں ملازم تھے۔ ان کا بچپن عسرت وتنگدستی میں گزرا۔وہ بچپن میں،استنبول کی گلیوں میں لیمن جوس اور گلی محلوں میں بکثرت کھایا جانے والا تلوں والا بندcimit کی پھیری لگاتے رہے۔دینی مدرسے، امام حاطب سکول میں تعلیم پائی۔یہ وہ ادارے ہیں جو ترکی میں پروفیشنل امام تیار کرتے ہیں ۔ بعد میں انھوں نے اکنامکس میں مرمرہ یونیورسٹی سے گریجوایشن بھی کی۔زمانہ طالب علمی میں اسٹوڈنٹ سیاست میں سرگرم رہے۔ وہاں ان کا تعلق ،کیمونسٹوں کے خلاف ،اسلام پسندوں کے ساتھ تھا۔تعلیم کے بعداسلامی ملی سلامت پارٹی میں شامل ہوگئے،اس کے نوجوانوں کے شعبہ کے انچارج بنائے گئے اور وہ مجاہد کبیر جناب نجم الدین اربکان ؒ کے قریبی ساتھی شمار ہونے لگے۔ان کے ساتھ رفاہ پارٹی میں رہے اور اس کے پلیٹ فارم سے ، ۱۹۹۴ء میں استنبول کے میئر منتخب ہوئے ۔ اس منصب پر رہ کر انھوں نے دنیا بھر سے،بلدیاتی امور میں مہارت اور شہر کی تعمیرو ترقی کے فن سے آشنائی میں اپنا لوہا منوایا۔ لیکن آپ کی اسلام پسندی ،ترکی کی سیکولراسٹیبلشمنٹ کو ایک آنکھ نہ بھائی۔ اُن کی دِن بدن عوامی مقبولیت سے فوجی جنتا خائف ہوگئی اور ان کی میئرشپ پر پابندی لگا دی۔صرف اسی پر بس نہیں کیا ،بلکہ رفاہ پارٹی پر پابندی لگا دی گئی ۔ جناب طیب اردگان اورنجم الدین اربکان سمیت کئی لوگوں کو سیاست سے ہی نااہل قرار دے دیا۔ایک اسلامی نظم پڑھنے پر ان کو جیل کی ہوا بھی کھانا پڑی۔قید کی سزا بھگتنے کے بعد ،طیب اردگان نے ایک نئی سیاسی پارٹی کی بنیاد رکھی جس کا نام انصاف اور ترقی پارٹی رکھا گیا۔اس میں سارے اسلام پسند اور دائیں بازو کے سیاستدان اور پارلیمنٹیر ین شامل ہوگئے۔
ترکی میں ۲۰۰۲ء میں ہونے والے انتخابات میں اس نئی قائم ہونے والی پارٹی نے عظیم الشان کارکردگی دکھلائی اور پرانے منجھے ہوئے سیاستدانوں کو شکست دے کر،پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت حاصل کر لی۔یہ کامیابی جناب طیب اردگان کی ولولہ انگیز قیادت کے نتیجے میں حاصل ہوئی لیکن خود اُ ن پر ابھی تک نااہلی کی تلوار لٹک رہی تھی اس لئے عارضی طور پر ان کے قریبی ساتھی عبد اللہ گل وزیر اعظم بنے۔نئی منتخب اسمبلی نے پہلا کام ہی یہی کیاکہ اپنے قائد کی جبری اور ناانصافی اور ظلم پر مبنی نااہلی کی سزا کو کالعدم کرنے کے لیے قانون سازی کی اور یوں طیب اردگان کے اسمبلی میں آنے کی راہ ہموار ہوگئی۔وہ دِن اور آج کا دِن وہ ترک جمہوریہ کے مقتدر اعلیٰ ہیں اور ان کی قیادت میں ترکی حقیقی معنوں میں دِن دگنی اورات چگنی ترقی کر رہا ہے۔ا س ترقی کا آنکھوں دیکھا مشاہدہ ہم گزشتہ کئی روزسے کر رہے تھے اور ہم سب دوستوں کی رائے تھی کہ یورپ تو یورپ،ہم تو ترکی سے بھی پچاس سال پیچھے ہیں۔ترکی کی معیشت نے پچھلی دہائی میں جس طرح جمپ لیا ہے وہ ایک مثال ہے۔
ہم استنبول کی سڑکوں پر رواں تھے۔اس شہر کی بے پناہ ٹریفٖک کی ہموار روانگی کو جس طرح جناب طیب اردگان نے اپنی بہترین پالیسیوں سے یقینی بنا یا تھا آج ہم کھلی آنکھوں سے مشاہدہ کر رہے تھے۔کہا جاتا ہے کہ میئرشپ کے دوران ،استنبول شہر کے تین بڑے مسئلوں ، صاف پانی کی نایابی، کچرا اور گندگی اور بے ہنگم ٹریفک، کو جس طرح انھوں نے حل کیا وہ ایک تاریخی کارنامہ ہے اور اسی کارنامے کے باعث اگلے انتخابات میں عوام نے اُن کی پارٹی کو پورے ملک میں جتوایا اور پھر صرف یہی نہیں بلکہ جناب اردگان دنیا بھر کے مظلوم مسلمانوں کی تواناآواز اور ان کے لیے ایک طاقت ور سہارا بن کر اُبھرے ہیں اور روز بروز وہ امت مسلمہ کے دلوں کی دھڑکن بنتے جا رہے ہیں۔
کم و بیش پندرہ سال ہو رہے ہیں جناب اردگان کو اقتدار کی باگ ڈور سنبھالے، ترکی ایسے سیکولر ملک میں ان کا بر سر اقتدار آنا اور پھر اپنی مقبولیت کو مسلسل برقرار رکھنا ان کی حکمت و دانائی کی اعلیٰ مثال ہے۔ایک طرف ترکی کا سیکولر دستور ہے اوربزعم خود اس دستور کی محافظ سیکولر فوج ہے اور دوسری طرف اردگان اور ساتھیوں کی اسلام سے وابستگی اورمضبوط عقیدہ ہے،لیکن جس شاندار طریقے سے وہ ان دونوں کے تقاضے کو پورا کرتے ہوئے حکومت کر رہے ہیں ،یہ انھی کا خاصا ہے۔ انھوں نے سیکولر دستور کو چھیڑے اور اسلامی اقدار سے اپنی وابستگی کو چھوڑے بغیر،ترکی کو جس طرح معاشی طور پر اپنے قدموں پر کھڑا کر دیا ہے،وہ ایک انتہائی قابل تعریف کارنامہ ہے۔اگرچہ وہ اسلامی انقلاب ،جس کا خواب وطن عزیز میں دیکھتے دیکھتے،اب ہماری تیسری نسل بوڑھی ہو چلی ہے،ابھی ترکی میں نہیں آیا ، لیکن جو اسلامی فلاحی مملکت کا ماڈل ترکی نے پیش کیا ہے وہ بھی کسی انقلاب سے کم نہیں ہے۔
استنبول
’’یہ سامنے ہے، فائیوسٹار ہوٹل’’ elite world istanbul‘‘جواگلے دو دِن ہمارا مسکن ہوگا۔‘‘ہم لوگ وین سے اُتر کر،کچھ میٹر پیدل چل کر ہوٹل کی لابی میں آگئے اور اپنا نام پتہ اندراج کرانے کے بعد،چابی کارڈ لے کر اپنے اپنے کمروں کی طرف سدھارے۔ 
ہمارے کو آرڈینیٹر برادر ناصر صاحب کہنے لگے آج کاہمارا ڈنر ،استنبول میں، پاکستانی ریسٹورنٹ میں اپنے وطن کے کھانوں کا ہوگا،اُن کی یہ بات سن کرقیصری ایئرپورٹ سے ہی ،اپنے تو،منہ میں پانی بھرنا شروع ہوگیا تھا۔اور اب وہ وقت آیاہی چاہتا تھا۔
ہوٹل پہنچ کر،پہلے تو اللہ کریم کے حضور حاضری دی،پھر چونکہ انٹر نیٹ کی سہولت ہوٹل میں ہی میسر آتی تھی،لہٰذا وٹس ایپ پر رابطے، ہوٹل میں آکر ہی ہوتے تھے۔ پاکستان میں موجود گھر والوں اور دوست احباب کوسرزمین استنبول سے سلام پیش کیا اور پھر مقررہ وقت پر ،ڈنر کے لیے ہوٹل سے نکل آیا۔استنبول میں جس ہوٹل میں ہمارا قیام تھا،اس سے پیدل دوری پر ہی و ہ ریستوران تھا، جہاں ہم نے پاکستانی کھانوں سے لطف اندوز ہونا تھا۔یہ ’’تاقسم ‘‘کا علاقہ تھا جو سیاحوں کے قیام و طعام کا مرکزشمار ہوتاہے۔ہم سب دوست پیدل ہی روانہ ہوگئے ۔ بازاروں میں خاصی رونق تھی۔صاف ستھرا ماحول تھا ۔ انطالیہ کی نسبت یہاں گہماگہمی زیادہ تھی۔موسم بھی عمدہ تھا۔ہم چلتے چلتے مطلوبہ ہوٹل میں پہنچ گئے۔ریستوران میں خاصا رش تھا۔ چھوٹا سا ہوٹل تھا۔اندربیٹھے ہوئے لوگ اجنبی لیکن’’ آشنا چہرے‘‘ تھے۔’’اجنبی اور آشنا چہرے‘‘ یہ تضاد بیانی نہیں بلکہ حقیقت ہے۔ بھلا کیسے؟اندر جو لوگ کھانا کھا رہے تھے،وہ اپنے چہرے مہرے اور لباس کی تراش خراش سے وطن عزیز کے باسی معلوم ہو رہے تھے لیکن ظاہر ہے ہمارے واقف بھی نہیں تھے۔اندر جگہ نہ پاکر، باہر روڈ پرجو کرسیاں بچھی تھیں، ہم اُن پرہی براجمان ہو گئے۔
کھانا کھاکر،سوچا کہ واک کرتے ہیں ڈاکٹر غلام مصطفی چیمہ صاحب میرے ہمراہ تھے۔ایک طرف کو منہ کر کے ہم چل پڑے۔ موسم اچھا تھا،کھلی فضا تھی ٹریفک نہ ہونے کے برابر تھی جس کے باعث آلودگی سے پاک ماحول تھا۔ خصوصاًشوراور دھواں ایسی آلودگی سے پاک ماحول۔ میرا خیال تھا کہ کوئی مسجد مل جاتی تو ہم نمازعشا پڑھ لیتے،لیکن ہمیں مسجدنظر آئی نہیں اور پوچھا ہم نے کسی سے نہیں اور یوں چلتے چلتے ہم تاقسم اسکوائر پہنچ گئے۔بہت وسیع و عریض چوک تھا۔سات آٹھ سڑکیں یہاں سے مختلف سمتوں کو نکل رہی تھیں۔اس پورے رہائشی یونٹ کو ہی تقسیم اسکوائر ہی کہتے ہیں۔بلکہ یہ ایک بلدیاتی ضلع ہے۔یہ استنبول کا مرکزی علاقہ ہے۔یہ سیاحوں کی جنت ہے۔یہاں بے شمار اعلیٰ درجات کے ہوٹل اور کھانے پینے کے کئی معروف ریسٹورنٹس موجود ہیں جہاں ہر وقت دور و نزدیک سے آنے والے سیاحوں کا رش لگا رہتا ہے۔یہ یورپی حصہ میں واقع ہے۔اس کو جدید استنبول کا قلب کہا جاتا ہے۔ اس علاقے کے مرکز میں یہ بہت بڑا چوک ہے جس میں اس وقت ہم موجود تھے۔یہ چوک ٹریفک سے پاک ہے صرف پیدل لوگ ہی یہاں چل پھر سکتے ہیں۔اس چوک کے ایک طرف کوجدیدترک جمہوریہ کی ایک یادگار تعمیر کی گئی ہے۔یہ یادگار جمہوریت کہلاتی ہے۔یہ یادگار۱۹۲۸ میں تعمیر کی گئی تھی۔آزادی کے ہیروزکے بڑے خوبصورت مجسمے تراشے گئے ہیں۔چاروں طرف کووہ مجسمے منہ کئے کھڑے ہیں۔ان فوجیوں نے قومی پرچم تھام رکھے ہیں۔یہ مجسمے ایک چارمحرابی کمرے میں ایستادہ ہیں اور نہایت دلکش بنیاد پر یہ محرابیں اُٹھائی گئی ہیں اورپھر اس عمارت کے اردگرد ایک چھوٹا سا باغیچہ بنایا گیا ہے۔چوک کے ارد گرد آسمان سے باتیں کرتی عمارتیں ہیں۔ہوٹلز ،پلازے اور شاپنگ مالز ہیں۔شاپنگ کیلئے مشہور استقلال اسٹریٹ بھی یہیں سے شروع ہوتی ہے۔استنبول میٹرو نیٹ ورک کا مرکزی اسٹیشن بھی یہاں ہے۔جتنا کشادہ یہ چوک ہے اور جس طرح شاپنگ کا مرکز ہے،ایک سیاسی ذہن رکھنے کی وجہ سے میرا یہ گمان ہے یہ چوک یقیناً،سیاسی جلسوں،جلوسوں،ریلیوں اور مختلف اجتماعات کی آماجگاہ ضرور بنتا ہوگا۔شاید یہاں دھرنے بھی دیے جاتے ہوں۔ کوئی واقف راز ملے توحقیقت حال کھلے ۔رات کافی ہو چکی تھی ،کچھ دیر چہل قدمی کرنے کے بعد ہم واپس آگئے۔(جاری ہے )

***