دین کا صحیح تصورواضح کرنے کی اہمیت

مصنف : محمد صدیق بخاری

سلسلہ : آواز دوست

شمارہ : جنوری 2021

سوال ،جہاں ایک طرف علم کے حاصل کرنے کا اہم ذریعہ ہے وہیں دوسری طرف سوال کرنے والے کی ذہنی ساخت اور اس کے مبلغ علم کو جانچنے کا بھی اہم ماخذ ہے ۔ برصغیر پاک و ہند میں عوام مذہب سے کیا مراد لیتے ہیں اور اپنی عملی زندگی سے اس کو کس طرح متعلق کرتے ہیں ۔ اس کو جانچنے کا ایک اہم پیمانہ وہ سوالات بھی ہیں جو وقتاًفوقتاًعوام ، علما سے پوچھتے ہیں۔ انہی عوامی سوالات میں سے چند ایک کا انتخاب حاضر خدمت ہے جومختلف ٹی وی چینلز کے دینی پروگراموں، اخبارات اور مختلف دینی ویب سائٹس سے اکٹھا کیا گیا ہے ۔
۱۔دفاتر میں لڑکیاں بھی کام کرتی ہیں یہ بتائیں اگر کسی لڑکی کا بال کسی کرسی پر پڑ ا ہو اور کوئی انجانے میں اس غیر محرم بال پر بیٹھ جائے تو کیا اس بیٹھنے والے کانکاح تو نہیں ٹوٹ جائے گا؟۲۔کیا رات کو ناخن کاٹے جا سکتے ہیں یا جھاڑو دیا جا سکتا ہے ؟۳۔کیا پھونک مار کر چراغ بجھانے یا ٹوٹی کنگھی سے بال بنانے سے رزق کم ہو جاتا ہے؟ ۴۔ کیا بغیر ٹوپی کے یاٹراؤزر پہن کر نماز ہو جائے گی؟۵۔کیا غیر مسلم کے ساتھ کھانا کھایاجا سکتا ہے ؟۶۔خواب میں کالی بلی دیکھے یا کالی بلی راستہ کاٹ جائے تو دین کیا کہتا ہے ؟۷۔جو مسلمان حلوے اور کدو کو نا پسند کرے تو کیا وہ کافر ہو جاتا ہے ؟۸۔کیا اسلام میں قد بڑھانے اور خوبصورت بننے کے لیے کریم لگانا یادعا کرنا جائز ہے؟ ۹۔ کیا مردوں کی چپل پہن کر عورتوں کے لیے گھر کا کام کرنا جائز ہے ؟۱۰۔کیاجائے نماز پر کپڑے استری کرنا جائز ہے ؟۱۱۔لوگ کہتے ہیں کہ ہر صبح فرشتے انسانوں کی دنیا میں آکر یہ دیکھتے ہیں کہ کون سی لڑکی شادی شدہ ہے اور کون سی نہیں اور وہ شادی شدہ لڑکی کو ناک کے لونگ سے پہچانتے ہیں۔ اس بات کی شرعی حیثیت کیا ہے؟۱۲۔منگل کے دن کپڑے کاٹنا اور سفر کرنا کیسا ہے ؟۱۳۔ عورت زیر ناف لوہا لگائے تو کیا اس کا جنازہ بھاری ہو جاتاہے؟۱۴۔ پگڑی کا شملہ آگے لٹکانا چاہیے یا پیچھے؟۱۵۔کیا سید،پٹھان،شیخ،صدیقی،فاروقی برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کے لیے کپڑے یاگوشت کی تجارت کرنا، بال کاٹنا، صفائی جیسے کام کرنا جائز ہے؟۱۶۔کیا سید کا غیر سید سے نکاح جائز ہے؟۱۷۔کیا گھر میں تصویر لٹکانے والا کافر ہو جاتا ہے ؟۱۸۔کیا کھڑے ہو کر پانی پینے یا پیشاب کرنے سے انسان کافر ہو جاتا ہے ؟۱۹۔ عورت بالوں کا جوڑا کر لے اور غیر محرم کی نظر اس جوڑے پر پڑ جائے تو کیا عورت کا نکاح ٹوٹ جاتا ہے ؟۲۰۔ کیا غیر مسلم کے ساتھ ہاتھ ملانے سے انسان ناپاک ہو جاتا ہے ؟۲۱۔کالے بکرے کے علاوہ صدقہ دیا جائے تو کیا جائز ہے ؟۲۲۔ایک مشت سے چھوٹی داڑھی والے کی امامت میں نماز ادا کی جائے تو کیا نماز ہوجاتی ہے نیز امام اگر عمامہ نہ پہنے تو کیا اس کے پیچھے نماز پڑھنا جائر ہے ؟
 بہت سے سوالات میں سے بطور نمونہ یہ صرف چند سوالات ہیں جن سے بخوبی انداز ہ لگایاجا سکتا ہے کہ ہمارے عوام مذہب کو کیا سمجھتے ہیں اور ان کامذہبی علم کس سطح پر کھڑا ہے ۔اس سے یہ اندازہ بھی بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ علمائے کرام نے عوام تک دین کا صحیح تصور پہنچانے کا کیا اہتمام کیا ہے۔
 عوام کا دین بس قصے کہانیوں ، توہمات اور رسوم و رواج پر مشتمل ہے اس کے باوجودمنبر و محراب کے وارث اس لیے خاموش ہیں کہ ان کی دال روٹی چل رہی ہے ۔اگر وہ عوام تک صحیح دین پہنچانے کی سعی کریں تو اس سے ان کی دال روٹی بھی بند ہو سکتی ہے اور لگتی ہے اس میں محنت بھی زیادہ۔
حقیقت یہ ہے کہ دین کا اصل منشا ایک طرف تو انسانوں کو اس دنیا میں زندگی گزارنے کاایسا طریقہ سکھانا ہے جس سے وہ آخرت میں کامیاب ہو سکیں تو دوسری طرف عقائد ، عبادات،معاشیات، اخلاقیات اور معاملات کی روح سے روشناس کروانا ہے تا کہ لوگ پوست پر ہی اکتفانہ کرلیں بلکہ مغز تک پہنچیں۔ لیکن ان سوالات کی نوعیت اس طرح کی ہے جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ عوام کے ذہنوں میں دین، توہمات ، رسم و رواج اور چند مرئی اور حسی چیزوں کاعلاوہ کچھ نہیں۔ اسی المیے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ہمارے ایک دوست نے بتایا کہ وہ پچیس برس سے ایک مسجد میں نمازپڑھا رہے ہیں لیکن آج تک ان سے کسی نے نماز ، روزے ، حج اورزکوۃ کی روح کے بارے میں سوال نہیں پوچھا۔ کسی نے نہیں پوچھا کہ جناب ہمیں حسد ، کینہ ، بغض ، تکبر ، جھوٹ ، غیبت ، غصہ ، لالچ ، حرص ، ہوس تنگ کرتے ہیں ،ان کا دین میں کیا علاج ہے کسی نے نہیں پوچھا کہ اس کی نماز بے جان ہے اس کو جاندار کیسے بناؤں ، کسی نے نہیں پوچھا کہ حج کرنے کے بعد بھی اس کی زندگی نہیں بدلی اب کیا کروں،کسی نے نہیں پوچھا کہ چالیس سال روزے رکھنے کے بعد بھی اس میں تقوی پیدا نہیں ہوا ، اس کا کیا علاج کروں،کسی نے نہیں پوچھا کہ اس نے فلاں کا حق مارا تھا اس کی تلافی کیسے کروں ، کسی نے نہیں پوچھا کہ اس نے جھوٹ بولا تھا اب اس کا مداوا کیسے کروں، کسی نے نہیں پوچھا کہ اس نے ملاوٹ کی تھی اورکم تولا تھا ، اب اس کی معافی کیسے ہوگی ، کسی نے نہیں پوچھا کہ اس نے ہمسایوں یا رشتہ داروں کو تنگ کیا تھا اب اس کا حل کیا ہوگا، وغیرہ۔ اگر پوچھے بھی ہیں تو اسی طرح کے سوالات جو اوپر بیان کئے گئے ہیں۔ایک اور خوفناک امر جو ان سوالات سے مترشح ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ عوام کی ذہن سازی اس طرح کر دی گئی ہے کہ چھوٹی چھوٹی غیر اہم باتوں پہ بھی انہیں کافر ہو جانے اور نکاح کے ٹوٹ جانے کاڈر رہتا ہے ۔ یہ اس شدت پسندی کی تعلیم کا نتیجہ ہے جس کا دین سے دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں۔ 
اس صورت حالات کی موجودگی میں اس بات کا اندازہ کرناکوئی مشکل امر نہیں کہ کرنے کا اصل کام کیا ہے۔ کرنے کا اصل کام عوام الناس تک دین کا صحیح تصور پہنچانا ہے ۔ دین اصل میں کسے کہتے ہیں ، ہر ہر انسان کی زندگی میں دین کی اہمیت او رمقام کیا ہے ۔ دین کب کہاں اور کس طرح کا م آتا ہے اور اس کے صحیح علم کا ماخذ کیا ہے ۔ اس کے لیے ہر ہر سطح پر ایک تحریک برپا کرنے کی ضرورت ہے ۔ اور اول و آخر درجہ یہ ہے کہ اگر آپ کوئی اجتماعی کوشش نہیں کر سکتے یا کسی اجتماعی کوشش میں کوئی حصہ نہیں ڈال سکتے تو کم از کم اپنی ذات اور اپنی فیملی کو تو دین کا صحیح تصور سمجھانے کی سعی کر سکتے ہیں نا،اور یہ کام جتنا جلد ہو جائے اتنا ہی اچھا ہے کیونکہ موت کا کیا معلوم کب آ جائے اورموت کے بعد ان سوالات والا نہیں بلکہ اصل دین کام آئے گا۔