مونٹی سوری طریقہ تعلیم کا تعارف اور افادیت

مصنف : نامعلوم

سلسلہ : تعلیم و تعلم

شمارہ : دسمبر 2004

مونٹی سوری طریقہ تعلیم کیا ہے؟

            مونٹی سوری کیا ہے؟ ڈاکٹر ماریہ مونٹی سوری اٹلی کی تاریخ میں پہلی خاتون ڈاکٹر تھی جس نے ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کرکے نام پیدا کیا۔ اپنی پریکٹس کے دوران معذور بچوں کے علاج معالجہ میں ان کی دلچسپی اس قدر بڑھی کہ چلڈرن سائیکالوجی کی تعلیم و تربیت کی ضرورت کو پورا کرنے سے اپنے کام کا آغازکیا۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے ان بچوں کے لیے خصوصی تدریسی لٹریچر اور دوسری اشیاء ترتیب دیں اور ان کے ذریعے بچوں کو تعلیم دی۔ اس کا یہ حوصلہ افزا نتیجہ برآمد ہوا کہ یہ بچے بہت جلد سیکھنے اور سمجھنے میں نارمل بچوں کا ساتھ دینے لگے۔ دوران تحقیق یہ بات بھی ثابت ہوئی کہ اس مخصوص مگر موثر طریقہ کار کے ذریعہ تعلیم حاصل کرنے والے بچے دوسرے بچوں کے مقابلے میں زیادہ با صلاحیت اور سمجھدار ہوتے ہیں۔ ان کامیابیوں سے متاثر ہو کر ڈاکٹر مونٹی سوری نے وسیع پیمانے پر اپنے کام کو متعارف کروایا اور ۱۹۰۷ء میں San Lorenzo کے علاقے میں اپنا پہلا اور مشہور سکول "Casa Del Bambini"کے نام سے کھولا اور باقاعدہ طور پر اس تربیتی انداز تعلیم کا آغاز کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے اپنی تقاریر اور مختلف کتابوں کے ذریعے عام لوگوں کو بھی اس کی افادیت سے آگاہ کیا۔ چنانچہ ۱۹۵۲ء میں ڈاکٹر مونٹی سوری کی وفات سے قبل مونٹی سوری طریقہ تعلیم کا ۲۲ زبانوں میں ترجمہ کیا جا چکا تھا جس سے اس کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ آج بھی دنیا کے بیشتر ممالک خصوصاً امریکہ، انگلینڈ اور ہالینڈ وغیرہ میں یہ طریقہ کامیابی سے اپنایا جا رہا ہے۔

مونٹی سوری نظام تعلیم کا اصول:

            مونٹی سوری انداز تعلیم میں بچوں کی ذہنی نشوونما کے لیے روایتی اور گھسے پٹے طریقوں کی بجائے فطری مگر سائنٹیفک طریقہ اختیار کیا گیا ہے۔ بچے چونکہ دو یا اڑھائی سال سے لے کر چھ سال تک کی عمر کے دوران خصوصاً حساس ہوتے ہیں اور اپنے ارد گرد کے ماحول سے بہت متاثر ہوتے ہیں اس لیے یہ عرصہ ان کی سوچ اور کردار کی تشکیل میں انتہائی اہم ہوتا ہے۔ بچوں میں قدرتی طور پر اپنے ساتھ پیش آنے والے حالات کو جاننے اور مختلف چیزوں کو سیکھنے کی صلاحیت غیر معمولی ہوتی ہے لہٰذا اسی اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے تمام مونٹی سوری سکول دو تا اڑھائی سال سے لے کر چھ سال تک کی عمر کے بچوں کو ایسی فضا اور ماحول مہیا کرتے ہیں جسے ‘‘بچوں کا گھر’’ کہا جاتا ہے۔ اس کی ہر چیز ان کے لیے مخصوص ہوتی ہے۔ یعنی انھیں گھر جیسا احساس فراہم کیا جاتا ہے اور ہر چیز ان کے لیے ان کے سائز کے مطابق آرام دہ اور دلچسپ بنائی جاتی ہے۔ ان کے ساتھ ایسا رویہ اختیار کیا جاتا ہے جس میں وہ تحفظ اور اپنائیت محسوس کریں اور کسی قسم کے ذہنی دباؤ کا شکار نہ ہوں۔

اس اصول پر کیسے عمل کیا جاتا ہے:

            بچوں کی ذہنی قوتوں کو بیدار کرنے کے لیے انتہائی ضروری ہے کہ انھیں اس بات کا مکمل یقین دلایا جائے کہ ‘‘مونٹی سوری’’ان کا اپنا گھر ہے اور اس کی ہر چیز ان کے دائرہ اختیار میں ہے اور جس کے وہ ذمہ دار ہیں۔ اس بات کو بھی یقینی بنایا جاتا ہے کہ یہاں کی ہر چیز دلچسپ اور پر کشش ہو اور انتہائی نفاست و ترتیب کے ساتھ اپنی اپنی جگہ پر ان کے استعمال کے لیے موجود ہو۔ اس طرح ایک ایسے ماحول کو پیدا کیا جاتا ہے جو بچوں ہی کی وجہ سے قائم ہو اور ہر بچے کو اپنی موجودگی اور ذمہ داری کا احساس ہو۔ اپنے اس گھر میں مختلف بچے اپنی اپنی عمر اور رجحان کے اعتبار سے ایک ہی وقت میں مختلف کام کرتے ہیں۔ بچے یا انفرادی طور پر کام کرنا پسند کرتے ہیں یا اپنے ہم عمروں سے مل کر۔ اس طرح ان کا ایک چھوٹا سا معاشرہ دیکھنے میں آتا ہے جہاں ہر بچہ دوسرے بچے کی آزادی پر اثر انداز ہوئے بغیر کوئی بھی سرگرمی آزادی سے اختیار کر سکتا ہے۔ اس چھوٹے سے معاشرتی ماحول میں بچوں کو نظم و ضبط اور چند آسان اصول و قواعد کے تحت کام کرنے کی تربیت دی جاتی ہے۔ آزادی کی خواہش چونکہ بچوں میں فطری طور پر موجود ہوتی ہے لہٰذا ان کی اس خواہش کا پوری طرح احترام کیا جاتا ہے لیکن صرف ان کاموں میں جو وہ کرنے کے اہل ہیں۔ منفی تفریح اور کھیل کود سے بچوں کی تعمیری صلاحیتیں متاثر ہوتی ہیں اس لیے انھیں اس کی اجازت نہیں دی جاتی۔ بچوں کے کام کرنے کے لیے کوئی مخصوص اوقات متعین نہیں کیے جاتے اور اس بات کا انحصار بچوں پر ہوتا ہے کہ وہ کس کام میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں اور اسے دھرانا یا زیادہ وقت کے لیے کرنا پسند کرتے ہیں۔ اس سے بچوں میں خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے اور ان کی شخصیت میں نکھار آتا ہے اور یہی مونٹی سوری کا بنیادی مقصد ہے۔ اس معیار کو بہتر بنانے کے لیے بچوں کو ان کے گردوپیش کے ماحول اور لوگوں سے رابطے کا انداز سکھایا جاتا ہے تاکہ وہ اپنے مقاصد کو بہتر طور پر حاصل کر سکیں۔

اس تمام پروگرام کا مقصد:

            عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ چھوٹے بچے بہت سے کاموں کو اپنے طور پر کرنا اور چیزوں کو سمجھنا چاہتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں ان میں قدرتی طور پرخود انحصاری کا جذبہ موجود ہوتا ہے۔ لیکن اس کو مزید ابھارنے کے لیے مونٹی سوری میں بہت سی تعمیری سرگرمیاں رکھی گئی ہیں۔ ہر بچے کی انفرادی طور پر کسی کام کے سیکھنے اور پھر اچھے طریقہ سے کرنے کی طرف راہنمائی کی جاتی ہے۔ اس طرح بچے اپنے کام نہ صرف نہایت جوش و خروش سے انجام دیتے ہیں بلکہ اپنی پسند کی نئی نئی چیزیں بھی بناتے ہیں۔ ان کی سہولت کے لیے مونٹی سوری میں بہت سی اشیاء مختلف طریقوں سے ترتیب دی جاتی ہیں۔ بچے ان چیزوں کو استعمال کرنے میں نہ صرف خوشی محسوس کرتے ہیں بلکہ وہ اسے اپنے لیے چیلنج سمجھتے ہیں اور اپنی پوری ذہنی اور جسمانی صلاحیتوں سے اسے کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اساتذہ کا کام بچوں کو کسی مخصوص سرگرمی کی طرف مائل کرنا نہیں ہوتا بلکہ وہ صرف بچوں کی ان کے کام میں مدد کرتے ہیں اور ان کی مشکلات کو حل کرتے ہیں اس طرح سے بچوں میں تخلیقی صلاحیت اور بھی پروان چڑھتی ہے۔

اس تمام عمل کی اہمیت:

            اگر ہم بچوں کی حرکات وسکنات کا بغور مطالعہ کریں اور ان کی سوچ کے انداز کو پرکھیں تو ہم ان کی صلاحیتوں پر حیران ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ جوں جوں ان میں اپنی خود مختاری کا احساس پیدا ہوتا جاتا ہے انھیں اپنی قدر اور اہمیت کا احساس اور بھی زیادہ ہو جاتا ہے اور یہ چیز ان کی نشوونما میں انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ خاص طور پر بچے کو اس بات کا شعور کہ ‘‘میں کئی کام تو خود ہی کر سکتا ہوں۔’’ مونٹی سوری میں بچوں کا تعلیم حاصل کرنا ایک خوشگوار اور فائدہ مند تجربہ ہے۔ زیادہ تر سامان ایسا ہوتا ہے کہ اس کے ساتھ کام کرنے والا بچہ خود بخود یہ سمجھ لیتا ہے کہ وہ صحیح طریقہ اختیار کر رہا ہے یا غلط۔ اپنے کام کو مکمل کرنے کے بعد جو نتیجہ سامنے آتا ہے وہ بچے کو صحیح غلط کی تمیز سکھاتا ہے اور یہ سبق خود اعتمادی کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ خود شناسی کی یہ صفت بچے کی شخصیت کو مضبوط بناتی ہے اور وہ اپنے مسائل کو آئندہ آنے والی زندگی میں بہتر طور پرحل کر سکتا ہے۔ بچوں کو اس بات کا عادی بنایا جاتا ہے کہ وہ ہر کام کو توجہ، مستقل مزاجی اور سلیقے سے کریں تاکہ عملی زندگی میں یہ قیمتی اصول ان کے لیے مددگار ثابت ہوں۔

مونٹی سوری کی سرگرمیاں کس قسم کی ہوتی ہیں

            مونٹی سوری کے مشاغل مختلف اقسام کے ہوتے ہیں اور ان میں یکسانیت نہیں ہوتی۔ آپ ایک ہی وقت میں مونٹی سوری میں مختلف قسموں کی مصروفیات یا سرگرمیاں دیکھ سکتے ہیں۔مثلاً چھوٹے بچے گروپوں کی شکل میں کسی کہانی کو ترتیب دیتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں جب کہ اس دوران دوسرے بچے پودوں کے متعلق معلومات حاصل کرنے میں مصروف ہوں گے۔ یہ سب کچھ بیک وقت کرنا مونٹی سوری کے لیے خاص طور پر تیار کردہ تدریسی اشیاء کے ذریعے ممکن ہوجاتا ہے۔ مثلاً تصویروں کے چارٹ اور مختلف خاکے جن پر بچے غور کرتے ہیں اور پھر انھیں اپنی گفتگو کا موضوع بناتے ہیں۔ اس طرح سے ان کے علم اور ذخیرہ الفاظ میں خاص طور پر اضافہ ہوتا ہے۔ اسی طرح کچھ بچے کتابوں میں مشغول دکھائی دیتے ہیں جبکہ کوئی بچہ اپنے سے بڑے کی بنائی ہوئی تصویر سمجھنااورپھر اس میں تبدیلی کرنا چاہتا ہے۔

            خاص طور پر زیادہ چھوٹے بچے حروفِ تہجی کے استعمال میں خوشی محسوس کرتے ہیں۔ بچوں کی حسیات خصوصاً حواسِ خمسہ کی افزائش کے لیے بھی بہت سی مشقیں رکھی گئی ہیں مثلاً جیومیٹری سے متعلق تصویریں یا سانچے بچے کو اپنے ماحول کے بارے میں مختلف شکلیں بنانے اور انھیں سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔ اسی طرح اعداد و شمار سے متعلق کھیل علم ریاضی کی بنیاد رکھتے ہیں۔ لیکن تمام معلومات بچے کو رٹائی نہیں جاتیں بلکہ بچہ خود انھیں آہستہ آہستہ حاصل کرتا ہے اور اپنی صلاحیتوں میں اضافہ کرتا ہے۔ چند دوسری اشیاء مثلاً رنگوں کی مختلف قسمیں یا ان کے درمیان معمولی سا فرق ان چیزوں کو محسوس کرنے اور انھیں اپنی اپنی ساخت اور رنگ کے اعتبار سے ترتیب دینے سے بچے کی بصارت اور سوچنے کی قوت میں بہت اضافہ ہوتاہے۔ علم جغرافیہ بھی اس ابتدائی مرحلے پر بڑے آسان طریقے سے پڑھایا جاتا ہے۔ مثلاً مختلف ملکوں کے قومی نشان یا جھنڈوں کو صحیح طریقے سے مخصوص نقشے پر رکھنا جو بچوں کی دلچسپی کے لیے بنائے جاتے ہیں۔ عام زندگی سے متعلق امور بھی بچوں کو سکھائے جاتے ہیں۔ مثلاً دروازے کو آہستہ سے بند کرنا، اپنے سامان کو احتیاط سے دوسری میز پر منتقل کرنا وغیرہ۔ یا کوئی چھوٹا بچہ ایک استعمال شدہ برتن دھونا چاہتا ہے تو اس کی راہنمائی کرنا اور اسی طرح کے بہت سے دوسرے کام جن میں سلیقہ اور تہذیب کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔ نسبتاً سمجھ دار بچے اپنی پسند کے مطابق کوئی پیچیدہ سوال حل کرنا چاہیں یا کوئی اور مشکل سرگرمی انجام دینا چاہیں تو انھیں پورے مواقع میسر آتے ہیں۔مونٹی سوری میں بچوں کے درمیان مقابلے کی صورت پیدا نہیں کی جاتی بلکہ ایک دوسرے سے تعاون کی فضا ہموار کی جاتی ہے ۔چونکہ کسی مخصوص کام کے لیے ایک بچہ مقررہ سامان استعمال کرتا ہے اس لیے وہ فارغ ہونے کے بعد ہر چیز کو پہلے والی ترتیب اور سلیقے سے رکھ دیتا ہے تاکہ کسی دوسرے کے لیے مشکل پیدا نہ ہو۔ اسی طرح ایک دوسرے کا احترام اور عزت بھی ملحوظ رکھی جاتی ہے۔

            اس کے ساتھ ساتھ مونٹی سوری کے تدریسی سامان میں یہ خوبی بھی موجود ہے کہ اس میں تخلیقی اعتبار سے بہت لچک موجود ہے۔ یعنی اگرچہ ایک کام کو دیے گئے سامان کی مدد سے آسانی سے شروع کیا جا تا ہے لیکن مرحلہ وار اس میں پہلے سے پیچیدہ مگر دلچسپ صورتیں پیدا ہوتی جاتی ہیں جن کو حل کرنے کے لیے ذہانت درکار ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر ایک سال چار سالہ بچوں کو اگر ایک سے لے کر دس تک کے اعداد کو سمجھنا اور ان کے ہندسوں کی شناخت کرنا سکھایا جاتا ہے تو ایک پانچ سالہ بچہ اس قابل ہوتا ہے کہ وہ ۱۔۱۰ کے اصول کو استعمال کرتے ہوئے ہزاروں اور لاکھوں کے اعداد وشمار کو سمجھ سکے۔ اس طرح خواہ روزمرہ زندگی سے متعلق آداب ہوں، حسیات کی افزائش کے لیے مشقیں ہوں یا زبان، ریاضی، سائنس، جغرافیہ، معلومات عامہ، موسیقی، آرٹ یا دوسرے ثقافتی مضامین کی تعلیم ہو مونٹی سوری کا بنیادی اور اصل مقصد ان تمام علوم اور فنون کو انتہائی ٹھوس اور ایسے نفیس انداز سے سکھانا ہے کہ بچے کی اوائل عمری میں اس کی پرورش مکمل اور بھرپور طریقے سے ہو سکے۔

مونٹی سوری میں اساتذہ کا کردار

            باقی معاملات کی طرح مونٹی سوری میں اساتذہ کا کردار بھی مختلف اور روایت سے ہٹ کر ہوتا ہے۔ ان کو ہم بہتر طور پر مربی یا ڈائریکٹر کہہ سکتے ہیں یعنی ایسے راہنما جو بچوں کی صلاحیتوں اور فطری ذوق کو صحیح سمت دیتے ہیں۔ وہ ہر بچے کو اس کی فطری قابلیت کے مطابق ماحول اور تربیت دیتے ہیں اور اسے اس کی طبیعت کے خلاف کسی علمی کام پر مجبور نہیں کیا جاتا ہے۔ اس لیے ہم ان اساتذہ کو بجا طور پر راہنما کہہ سکتے ہیں۔ یہ راہنما خواہ مرد ہوں یا عورت اس کی بنیادی صفت ‘‘جوہر شناسی’’ ہے یعنی ہر بچے کے ذوق اور مخفی صلاحیت کی پہچان کرنا اور پھر اسے صحیح طریقے سے کسی ذمہ داری کو سونپنا اور طبعی رفتار سے ترقی کی طرف گامزن رہنے دینا ۔ ایک راہنما کا فرض ہے کہ وہ بچے کو ایسا آزمائشی مگر جلا بخش ماحول دے کہ بچہ اپنی قابلیت، محبت اور ذہنی قوت کے بل بوتے پر آگے بڑھنا سیکھے اور اپنے طور پر کچھ تخلیق کر سکے۔ اس لیے یہ اساتذہ بہتر طور پر سمجھتے ہیں کہ انھیں کب مرکزی اور کب عمومی طور پر بچوں کی ان کے کام میں مدد کرنی ہے۔ ہم ان اساتذہ کو بہت مناسب طور پر ایک ایسے موسیقار سے تشبیہ دے سکتے ہیں جو موسیقی کی دھنیں ترتیب دیتا ہے۔ اس کا کام صرف آلات موسیقی کو ایک مخصوص مربوط طریقے سے اور ہر پرزے کو اس کی خصوصیت کے مطابق استعمال کرنا ہے جبکہ یہ آلات کا کام ہے کہ وہ کسی راگ کی مختلف آوازیں نکالتے ہیں۔

مونٹی سوری طریقہ تعلیم کہاں کہاں رائج ہے؟

            مونٹی سوری نظام کم و بیش دنیا کے تمام ممالک میں رائج ہے، ایشیا سے امریکہ اور افریقہ سے یورپ تک جیسے جیسے لوگوں میں اس کی افادیت اور اہمیت کا شعور پیدا ہورہا ہے وہ اپنے بچوں کو اس طرز سے تعلیم دلوانے میں دلچسپی لیتے ہیں۔

(بشکریہ: ماہنامہ نظامت، لاہور)